یعنی سفر،مرض یاکسی اورعذرکے بغیر جان بوجھ کرنمازکواس کے وقت سے پہلے یا بعد میں ادا کرنا
اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے :
فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعْدِہِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلٰوۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا ﴿ۙ59﴾اِلَّا مَنۡ تَابَ
ترجمۂ کنز الایمان:توان کے بعد ان کی جگہ وہ ناخلف آئے جنہوں نے نمازيں گنوائيں اور اپنی خواہشوں کے پيچھے ہوئے تو عنقريب وہ دوزخ ميں غی کا جنگل پائيں گے مگر جو تائب ہوئے۔(پ6ا، مريم:59تا60)
حضرت سيدناابن مسعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اس آيت مبارکہ کی تفسير کرتے ہوئے فرماتے ہيں :”نماز ضائع کرنے کا مطلب يہ نہيں کہ وہ انہيں بالکل چھوڑ ديتے تھے بلکہ وہ وقت گزار کر نماز پڑھتے تھے۔”
امام التابعين حضرت سيدنا سعيد بن مسيب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں :” وقت گزار کر نماز پڑھنے کا مطلب يہ ہے کہ کوئی شخص ظہر کی نماز کو اتنا مؤخر کر دے کہ عصر کا وقت شروع ہو جائے اور مغرب کا وقت شروع ہونے سے پہلے عصر کی نماز نہ پڑھے، اسی طرح مغرب کو عشاء تک اور عشاء کو فجر تک اور فجر کو طلوعِ آفتاب تک مؤخر کر دے، لہٰذا جو شخص ايسی حالت پر اصرار کرتے ہوئے مر جائے اور توبہ نہ کرے تو اللہ عزوجل نے اس کے ساتھ غَیّ کا وعدہ فرمايا ہے۔غَیّ جہنم کی ايک ايسی وادی ہے جس کا پيندہ بہت پست اور عذاب بہت سخت ہے۔” (کتاب الکبائر،الکبیرۃ الرابعۃفی ترک الصلوٰۃ،ص۱۹)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُلْہِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَ لَاۤ اَوْلَادُکُمْ عَنۡ ذِکْرِ اللہِ ۚ وَ مَنۡ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْخٰسِرُوۡنَ ﴿9﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اے ايمان والوتمہارے مال نہ تمہاری اولاد کوئی چيز تمہيں اللہ کے ذکر سے غافل نہ کرے اور جو ايسا کرے تو وہی لوگ نقصان ميں ہيں۔(پ28، المنافقون:9)
مفسرين کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی ايک جماعت کا قول ہے :”اس آيت مبارکہ ميں ذِکْرِاللہ سے مراد پانچ نمازيں ہيں، لہٰذا جو اپنے مال مثلاً خريد وفروخت يا پیشے يا اپنی اولاد کی وجہ سے نمازوں کو ان کے اوقات ميں ادا کرنے سے غفلت اختيار کریگا وہ خسارہ پانے والوں ميں سے ہو گا۔”
(کتاب الکبائر،الکبیرۃ الرابعۃفی ترک الصلوٰۃ،ص۲۰)
(1)۔۔۔۔۔۔اسی لئے سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بندے سے قيامت کے دن سب سے پہلے جس عمل کے بارے ميں حساب ليا جائے گا وہ اس کی نماز ہو گی اگر اس کی نماز درست ہوئی تو وہ نجات و فلاح پاجائے گا
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اور اگر اس ميں کمی ہوئی تو وہ شخص رسوا و برباد ہو جائے گا۔”
(جامع الترمذی،ابواب الصلوٰۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ،باب ما جاء ان اوّل ما يحاسب ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث :۴۱۳،ص۱۶۸۳،مختصرًا)
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
فَوَیۡلٌ لِّلْمُصَلِّیۡنَ ۙ﴿4﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ ۙ﴿5﴾
ترجمۂ کنز الایمان:تو ان نمازيوں کی خرابی ہے جو اپنی نمازسے بھولے بيٹھے ہيں۔(پ30، الماعون:5۔4)
حضورنبی کریم، رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس کی تفسیرمیں ارشاد فرما يا :”يہ وہ لوگ ہوں گے جونمازوں کوان کاوقت گزارکرپڑھاکرتے ہوں گے ۔”
(کتاب الکبائر،الکبیرۃ الرابعۃفی ترک الصلوٰۃ،ص۱۹)
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے۔
اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوْقُوۡتًا ﴿103﴾
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ترجمۂ کنز الایمان:بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پ5، النساء:103)
(2)۔۔۔۔۔۔ايک دن مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرمايا کہ ”جو نماز کی پابندی کریگا يہ اس کے لئے نور، برہان يعنی رہنما اور نجات ثابت ہو گی اور جو اس کی پابندی نہيں کریگا اس کے لئے نہ نور ہو گا، نہ برہان اور نہ ہی نجات کا کوئی ذريعہ اور وہ شخص قيامت کے دن قارون، فرعون، ہامان اور اُبی ّ بن خلف کے ساتھ ہو گا۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ،مسند عبداللہ بن عمر بن العا ص ، الحدیث ، ۶۵۸۷، ج۲ ، ص ۵۷۴)
بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے فرمايا ہے :”بے نمازی کا حشر ان لوگوں کے ساتھ اس لئے ہو گا کہ اگر اسے اس کے مال نے نماز سے غافل رکھا تو وہ قارون کے مشابہ ہے لہٰذا اس کے ساتھ اٹھايا جائے گا اور اگر ا س کی حکومت نے اسے غفلت ميں ڈالا تو وہ فرعون کے مشابہ ہے لہٰذا اس کا حشر اس کے ساتھ ہو گا يا اس کی غفلت کا سبب اس کی وزارت ہو گی تو وہ ہامان کے مشابہ ہوا لہٰذا اس کے ساتھ ہو گا يا پھر اس کی تجارت اسے غفلت ميں ڈالے گی لہٰذا وہ مکہ کے کافر اُبی ّ بن خلف کے مشابہ ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ اٹھايا جائے گا۔” (کتاب الکبائر،الکبیرۃ الرابعۃفی ترک الصلوٰۃ،ص۲۱)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(3)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا سعدبن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ ميں نے حضورنبئ کریم ،رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے اللہ عزوجل کے اس فرمان : ”الَّذِیۡنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ ۙ﴿5﴾ ترجمۂ کنز الایمان:جو اپنی نمازسے بھولے بيٹھے ہيں۔”(پ۳۰، الماعون:۵)کے بارے ميں دریافت کیا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”يہ وہ لوگ ہيں جو نماز کو اس کا وقت گزار کر پڑھتے ہيں۔”
(مجمع الزوائد ، کتاب الصلاۃ ،باب فی من یوخر الصلاۃ عن وقتھا ، الحدیث ۱۸۲۳ ،ج ۲ ،ص ۸۰)
(4)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا مصعب بن سعدرضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں :ميں نے اپنے والد بزرگوار سے پوچھا :” آپ کا اللہ عزوجل کے اس فرمانِ عالیشان: الَّذِیۡنَ ہُمْ عَنۡ صَلَاتِہِمْ سَاہُوۡنَ ۙ﴿5﴾ ترجمۂ کنز الایمان:جو اپنی نمازسے بھولے بيٹھے ہيں۔”(پ:۳۰، الماعون:۵)کے بارے ميں کيا خيال ہے ؟ہم ميں سے کون ہے جو نماز ميں نہ بھولتا ہو؟ ہم ميں سے کون ہے جو اپنے آپ سے باتيں نہ کرتا ہو؟” تو آپ نے ارشاد فرمايا :”اس سے مرادیہ نہيں بلکہ اس سے مراد وقت ضائع کر دينا ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( مسند ابی یعلی الموصلی ، مسند سعد بن ابی وقاص ،الحدیث ۷۰۰، ج ۱، ص ۳۰۰)
وَيْل کیاہے؟ ویل سے مراد عذاب کی شدت ہے اور ايک قول يہ بھی ہے کہ يہ جہنم ميں ايک وادی ہے، اگر اس ميں دنيا کے پہاڑ ڈال دئيے جائيں تو اس کی گرمی کی شدت سے پگھل جائيں، يہ ان لوگوں کا ٹھکانا ہو گی جو نماز کو ہلکا جانتے ہيں يا وقت گزار کر پڑھتے ہيں مگریہ کہ وہ اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں توبہ کر ليں اور اپنی کوتاہيوں پر نادم ہوں۔
(5)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس کی ايک نماز فوت ہو گئی اس کے اہل اور مال ميں کمی ہوگئی۔”
( صحیح ابن حبان،کتاب الصلاۃ ،باب الوعیدعلی ترک الصلاۃ،الحدیث ۱۴۶۶ ، ،ج۳ ، ص ۱۴ )
(6)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے کسی عذر کے بغير دو نمازوں کو(ایک وقت میں ) جمع کيا بے شک وہ کبيرہ گناہوں کے دروازے پر آيا۔”
( المستد رک ،کتاب الامامۃ وصلاۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، باب الزجر عن الجمع ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث ۱۰۵۸ ،ج۱ ،ص ۴ ۵۶ )
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(7)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس کی عصر کی نماز فوت ہو گئی گويا اس کے اہل اور مال ميں کمی کر دی گئی۔”
( صحیح البخاری ،کتاب مواقیت الصلاۃ ، باب اثم من فاتتہ العصر ، الحدیث ۵۵۲ ، ص۴۵)
حضرت سیدنا ابن خزيمہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اپنی صحيح ميں يہ اضافہ کيا ہے :” سیدناامام مالک رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمايا کہ ”اس سے مراد وقت کا گزر جانا ہے۔”
(8)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”نمازوں میں سے ایک نماز ایسی بھی ہے کہ جس سے وہ فوت ہو جائے تو گویا اس کے اہل اور مال میں کمی کر دی گئی۔”
( سنن النسائی،کتاب الصلاۃ،باب صلاۃ العصرفی السفر،الحدیث:۴۸۰، ص۲۱۱۸)
(9)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بے شک يہ نماز يعنی عصر تم سے پہلی اُمتوں پر پيش کی گئی تو انھوں نے اسے ضائع کر ديا، لہٰذا آج تم ميں سے جو اس کی حفاظت کریگا اس کے لئے دو اَجر ہيں اور اس نماز کے بعد ستارے ظاہر ہونے تک کوئی نماز نہيں۔”
( صحیح مسلم ،کتاب صلاۃ المسافر ین ، باب الاوقات التی نہی عن الصلاۃ ۔۔۔۔۔۔الخ الحدیث ۱۹۲۷ ، ص ۸۰۷)
(10)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جس نے نمازِ عصر ترک کی تو اس کا عمل برباد ہو گیا۔”
(صحیح البخاری ،کتاب مواقیت الصلاة ، باب من ترک العصر ، الحدیث ۵۵۳ ، ص ۴۵)
(11)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے نمازِ عصر جان بوجھ کر چھوڑی یہاں تک کہ وہ فوت ہو گئی تو اس کا عمل ضائع ہو گیا۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ، حدیث بر یدۃ الاسلمی ، الحدیث۲۳۱۰۷ ، ج ۹ ، ص ۳۱،بتغیرٍقلیلٍ)
(12)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے نمازِ عصر میں بلا عذر تاخیر کی یہاں تک کہ سورج چھپ گیا تو اس کا عمل برباد ہو گیا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مصنف ابن ابی شیبہ ، کتاب الصلاۃ ، باب فی التفریط فی الصلاۃ ، الحدیث ۸/۲،ج۱، ص۳۷۷)
(13)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم میں سے کسی کے اہل اور مال میں کمی کر دی جائے تو یہ اس کے لئے بہتر ہے کہ اس کی نمازِ عصر فوت ہو جائے۔”
( مجمع الزوائد ،کتاب الصلاۃ ، باب وقت صلاۃ العصر ، الحدیث ۱۷۱۵ ، ج ۲ ، ص ۵۰)
(14)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردْگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس نے جان بوجھ کر نمازِ عصر میں اتنی تاخیر کی یہاں تک کہ سورج غروب ہو گیا تو گویا اس کے اہل اور مال میں کمی کر دی گئی۔”
( المسند للامام احمد بن حنبل ،المسند عبداللہ بن عمر الخ ،الحدیث ۵۴۶۸ ، ج۲ ، ص ۳۶۸ )
(15)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جس کی نماز فوت ہو گئی تو گویا اس کے اہل اور مال میں کمی کر دی گئی۔”
( السنن الکبری للبیہقی،کتاب الصلاة ، باب کراھیۃ تا خیر العصر، الحدیث:۲۰۹۵،ج۱، ص۶۵۳)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(16)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ تعالیٰ عنہ روايت کرتے ہيں کہ سرکار ابد قرار، شافع روز شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اکثر اپنے صحابہ کرام علیہم الرضوان سے فرمايا کرتے :”کيا تم ميں سے کسی نے کوئی خواب ديکھا ہے؟” راوی کہتے ہيں کہ ـــ”جس کو اللہ عزوجل چاہتا وہ اپنا خواب بيان کر ديتا۔” چنانچہ ايک صبح آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :آج رات ميرے پاس دو فرشتے آئے، انہوں نے مجھے اٹھايا اور کہا :”چلیں۔” ميں ان کے ساتھ چل ديا، ہم ايک ایسے شخص کے پاس پہنچے جو ليٹا ہوا تھا جبکہ دوسرا شخص اس کے قريب پتھر لئے کھڑاتھا، وہ اس کے سر پر پتھر مارتا جس سے وہ پھٹ جاتا پھر وہ پتھر لُڑھک کر دور جا گرتا اور وہ شخص پتھر اٹھانے کے لئے چلا جاتا اس کے لوٹنے سے پہلے ہی اس کا سر پہلے کی طرح درست ہو جاتا، پھر وہ واپس آ کر اس کے سر پر اسی طرح پتھر مارتا جس طرح پہلی دفعہ مارا تھا،
ميں نے ان دونوں فرشتوں سے کہا ”سُبْحَانَ اللہ !يہ کون ہيں؟” تو انہوں نے کہا :” آگے چلیں۔” لہٰذا ہم چل دئيے، پھر ہم ايک ايسے شخص کے پاس پہنچے جو چت ليٹا ہوا تھا اور دوسرا شخص اس کے پاس کھڑا تھا اور آنکس (یعنی لوہے کا ايسا راڈ جس کا ایک سرا قدرے مڑا ہوتا ہے ) کے ذريعے اس کے جبڑے، نتھنے اور آنکھ کو گدی تک چير ديتا تھا۔”ابو عوف کہتے ہيں کہ کبھی ابو رجاء يوں بيان کرتے :”وہ چير کر دوسری جانب چلا جاتا اور وہاں بھی ايسا ہی کرتا جيسا پہلی طرف کيا تھا جب وہ ايک جانب چير کر فارغ ہوتا تو دوسری جانب پہلے کی طرح درست ہو چکی ہوتی، پھر وہ دوبارہ ويسے ہی کرتا جيسے پہلی مرتبہ کيا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ميں نے پھر کہا:”سُبْحَانَ اللہ !يہ کون ہيں؟” تو انہوں نے کہا :”اور آگے چلیں۔” لہٰذا ہم چل دیئے يہاں تک کہ تنور جيسی ايک چيز کے پاس پہنچے۔” راوی کہتے ہيں، ميرا خيال ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے يہ بھی فرمايا :”اس ميں سے شور و غل کی آوازيں آرہی تھيں، میں نے اس ميں جھانک کر ديکھا تو اس ميں ننگے مرد اور عورتيں نظر آئيں جب انہيں نيچے سے آگ کی لپٹ پہنچتی تو چيخنے چلانے لگتے۔
ميں نے پوچھا :”يہ کون ہيں؟” تو انہوں نے کہا :”مزید آگے چلیں۔” لہٰذا ہم چل دئيے يہاں تک کہ ہم ايک نہر پر پہنچے۔” راوی کہتے ہيں، ميرا خيال ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نےيہ بھی فرمایاتھا :”وہ نہر خون کی طرح سرخ تھی، نہر کے اندر ايک شخص تير رہا تھا جبکہ دوسرا شخص نہر کے کنارے کھڑا تھا اور اس کے پاس بہت سے پتھر جمع تھے، جب وہ اندر والا تيرتا ہوا اس شخص کے قريب آتا جس کے پاس بہت سے پتھر جمع تھے تو آ کر اپنا منہ کھول ديتا اور يہ اس کے منہ ميں پتھر ڈال ديتا اور وہ تيرتا ہوا واپس چلا جاتا اور جب واپس لوٹ کر آتا تو اسی طرح يہ اس کے منہ ميں پتھر ڈال ديتا۔”
ميں نے ان دونوں سے پوچھا :”يہ کون ہيں؟” تو انہوں نے مجھ سے کہا :”مزید آگے چلیں۔” تو ہم چل دئيے يہاں تک کہايک نہايت ہی بدصورت آدمی کے پاس پہنچے اتنا بدصورت کہ تم نے کبھی ديکھا نہ ہو، اس کے پاس آگ تھی جسے وہ بھڑکا رہاتھااور اس کے گرد دوڑ رہا تھا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ميں نے پوچھا :”يہ کون ہے؟” تو انہوں نے کہا :”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم آگے چلیں۔” ہم چل دئيے يہاں تک کہايک باغ ميں پہنچے اس ميں موسمِ بہار کے پھول کھلے ہوئے تھے، باغ کے درميان ايک دراز قد شخص کھڑا تھا، آسمان سے باتيں کرتی ہوئی اس کی بلندی کے باعث ميں اس کا سر نہ ديکھ سکا، اس شخص کے گرد اتنے بچے تھے جتنے ميں نے کسی کے نہيں ديکھے۔
ميں نے پوچھا :”يہ شخص کون ہے اور یہ بچے کون ہيں؟” تو انہوں نے کہا :”آگے چلیں۔” لہذا ہم چل دئيے پھر ہم ايک اتنے بڑے باغ ميں پہنچے جتنا بڑا اور خوبصورت کوئی باغ ميں نے نہيں ديکھا، انہوں نے مجھ سے کہا :”اس پر چڑھيں۔” چنانچہ ہم اس پر چڑھ گئے تو ہميں ايک شہر نظر آيا جس کی ايک اينٹ سونے کی اور ايک چاندی کی تھی، جب ہم شہر کے دروازے پر پہنچے اور اسے کھولنے کے لئے کہا تو وہ ہمارے لئے کھول ديا گيا، ہم اس کے اندر داخل ہوئے تو اس ميں ايسے لوگوں سے ملے جن کا نصف بدن تو اتنا خوبصورت تھاجتنا تم نے نہ ديکھا ہو اور نصف اتنا بدصورت کہ جتنا تم نے نہ ديکھا ہو، ان فرشتوں نے ان لوگوں سے کہا :”جاؤ اوراس نہر ميں کُود پڑو۔” وہ نہر چوڑائی ميں بہہ رہی تھی اور اس کا پانی بالکل سفيد تھا وہ لوگ جا کر اس نہر ميں کود پڑے، پھر جب وہ لوٹ کر ہمارے پاس آئے تو ان کی بدصورتی دور ہو چکی تھی اوروہ خوبصورت ہو گئے تھے۔
ان فرشتوں نے مجھ سے کہا :”يہ باغِ عدن ہے اور يہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا مکان ہے۔” ميں نے نگاہ اٹھا کر ديکھا تو وہ سفيد ابريعنی بادل کی طرح تھا، ميں نے ان سے کہا :”اللہ عزوجل تمہيں برکت دے مجھے اس کے اندر جانے دو۔” انہوں نے جواب دیا :”ابھی نہيں، ليکن آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس ميں ضرور داخل ہو ں گے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
پھر ميں نے ان سے کہا :”رات بھر ميں نے جو عجيب چيزيں ديکھيں وہ کيا ہيں؟” تو انہوں نے کہا :”ہم ابھی عرض کئے ديتے ہيں، جس پہلے شخص کے پاس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پہنچے تھے اور جس کا سر پتھر سے کچلا جا رہا تھا وہ قرآن پڑھ کر بھلانے والا اور نماز کے وقت سو جانے والا تھا، وہ شخص جس کے پاس آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پہنچے تو اس کے جبڑے، نتھنے اور آنکھ کو گدی تک چيرا جا رہا تھا يہ وہ شخص تھا جو صبح گھر سے نکلتا تو جھوٹی باتيں گھڑتا اور انہيں دنيا بھر ميں پھیلا ديتا، وہ ننگے مرد اور عورتيں جو تنور سے مشابہ جگہ ميں تھے وہ زانی مرد اورزانی عورتيں تھيں، وہ شخص کہ جب آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کے پاس پہنچے تو وہ نہر ميں تير رہا تھا اور اس کے منہ ميں پتھر ڈالے جا رہے تھے وہ سود خور تھا،اور وہ ہیبت ناک صورت والاشخص جو آگ کے قريب تھا اور اسے بھڑکا کر اس کے اردگرد دوڑ رہا تھا وہ داروغۂ جہنم (یعنی جہنم پرمقررفرشتے)حضرت مالک علیہ السلام تھے اوربلندقامت آدمی جو باغ ميں تھے وہ حضرت سیدنا ابراہيم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام تھے اور ان کے گرد جو بچے تھے وہ فطرتِ اسلاميہ پر فوت ہونے والے تھے۔”
راوی کا بيان ہے کہ بعض صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی :”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! اور مشرکين کے بچے ؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”مشرکين کے بچے بھی۔” اور وہ لوگ جن کا نصف بدن خوبصورت اور نصف بدصورت تھا يہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ملے جلے عمل کئے يعنی اچھے عمل بھی کئے اور برے بھی تو اللہ عزوجل نے ان سے درگزر فرمايا۔”
(صحیح البخاری ،کتاب التعبیر، باب تعبیر الرؤیابعد صلاۃ الصبح، الحدیث ۷۰۴۷، ص ۵۸۸)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(17)۔۔۔۔۔۔ايک اورروايت ميں ہے :پھر شاہ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ايک ايسی قوم کے پاس پہنچے جن کے سروں کو پتھروں سے کچلا جا رہا تھا جب بھی انہيں کچلا جاتا وہ پہلے کی طرح درست ہو جاتے اور اس معاملے ميں کوئی سستی نہ برتی جاتی تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے استفسار فرمایا:” اے جبرائيل! يہ کون ہيں ؟”عرض کی :”يہ وہ لوگ ہيں جن کے سر نماز سے بوجھل ہو جاتے ہيں۔”
( مجمع الزوائد ،کتاب الایمان ،باب منہ فی الاسر ی ، الحدیث ۲۳۵ ، ج ۱،ص ۲۳۶)
(18)۔۔۔۔۔۔رسول انور، صاحب کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”اسلام نے نماز کی تعليم دی تو جس کا دل نماز کے لئے فارغ ہوا اور اس نے اس کے حقوق، وقت اور سنتوں کی رعايت کے ساتھ پابندی کی تو وہی(کامل) مؤمن ہے۔”
( کنز العمال ،کتاب الصلاۃ ، الفصل الاول ، الحدیث ۱۸۸۶۶، ج۷ ، ص ۱۱۳ )
(19)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے ”ميں نے تمہاری اُمت پر پانچ نمازيں فرض کیں اور خود سے عہد کيا کہ جس نے انہیں ان کے اوقات ميں اد اکيا ميں اسے جنت ميں داخل کروں گا اور جس نے ان کی حفاظت نہ کی اس کاميرے پاس کوئی عہد نہيں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( سنن ابن ماجہ ،ابو اب اقامۃ الصلوات ، باب ماجاء فی فر ض الصلوات الخمس۔۔۔۔۔۔الخ الحدیث:۱۴۰۳،ص۲۵۶۱)
(20)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ مُعظَّم ہے :”جس نے جان ليا کہ نماز لازمی حق ہے اور پھر اسے ادا بھی کيا تو وہ جنت ميں داخل ہو گا۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل،مسند عثمان بن عفان،الحدیث ۴۲۳،ج۱، ص۱۳۲ )
(21)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قيامت کے دن بندے سے سب سے پہلے اس کی نماز کے بارے ميں حساب ليا جائے گا اگروہ صحيح ہوئی تو وہ کامياب ہو گيا اور نجات پاگيااور اگروہ صحيح نہ ہوئی تو وہ خائب و خاسر ہو گيا اگر اس کے فرائض ميں کمی ہوئی تورب عزوجل ملائکہ سے ارشاد فرمائے گا :” ديکھو کيا ميرے بندے کے پاس کوئی نفل پاتے ہو جس کے ذريعے تم اس کے فرض کی کمی کو پورا کر سکو۔” پھر تمام اعمال کا اسی طرح حساب ہو گا۔”
( جامع الترمذی ، ابواب الصلاۃ ۔۔۔۔۔۔الخ،باب ماجاء ان اول مایحاسب ،۔۔۔۔۔۔الخ الحدیث:۴۱۳،ص۱۶۸۳)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(22)۔۔۔۔۔۔اللہ کے محبوب ،دانائے غیوب ،منزہ عن العیوب عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قیامت کے دن سب سے پہلے بندے سے جس کاحساب ہو گا وہ نماز ہے اور سب سے پہلے لوگوں کے درمیان جس کا فیصلہ ہو گا وہ خون یعنی قتل)ہے۔”
( سنن النسائی ،کتاب المحاربۃ ، باب تعظیم الدم ، الحدیث۳۹۹۶ ، ص ۲۳۴۹ )