ذَوقِ نَعت ۱۳۲۶ھ برادرِ اعلیٰ حضرت شہنشاہِ سخن مولانا حسن رضا خانشاعری
جاتے ہیں سوئے مَدینہ گھر سے ہم
جاتے ہیں سوئے مَدینہ گھر سے ہم
باز آئے ہند بد اَختر سے ہم
مار ڈالے بے قراری شوق کی
خوش تو جب ہوں اس دلِ مُضطَر سے ہم
بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ ہے یہی
اب کہاں جائیں تمہارے دَر سے ہم
تشنگیٔ حشر سے کچھ غم نہیں
ہیں غلامانِ شہ کوثر سے ہم
اپنے ہاتھوں میں ہے دامانِ شفیع
ڈَر چکے بس فتنۂ محشر سے ہم
نقش پا سے جو ہوا ہے سرفراز
دِل بدل ڈالیں گے اُس پتھر سے ہم
گردنِ تسلیم خم کرنے کے ساتھ
پھینکتے ہیں بارِ عصیاں سر سے ہم
گور کی شب تار ہے پر خوف کیا
لو لگائے ہیں رُخِ اَنور سے ہم
دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں
جب لپٹ کر روئے اُن کے در سے ہم
کیا بندھا ہم کو خدا جانے خیال
آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم
جانے والے چل دئیے کب کے حسنؔ
پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم
برص کا مرض
سیر ہونے کی حالت میں (یعنی جب پیٹ بھرا ہوا ہو)کھانا برص پیدا کرتا ہے ۔ (قوت القلوب، ۲ / ۵۸۹)