فکر ِ مدینہ کرنے والا خوش نصیب:
فکر ِ مدینہ کرنے والا خوش نصیب:
حضرتِ سیِّدُنا ابوبکر کَتَّانِی قُدِّسَ سِرُّہ، الرَّبَّانِی فرماتے ہیں: ”ایک شخص برائیوں اور خطاؤں پر اپنے نفس کا محاسبہ کیاکرتا تھا۔ ایک دن اس نے اپنی زندگی کے سالوں کا حسا ب لگا یا تو سا ٹھ سال بنے پھر دنوں کا حسا ب کیا تو اکیس ہزار پانچ سو دن (21,500) بنے تو اس نے ایک زوردار چیخ ماری اوربے ہو ش ہو کر گر پڑا۔ جب ہوش میں آیا تو کہنے لگا: ”ہائے افسوس! اگر روزانہ ایک گناہ بھی کیا ہو تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کے حضور اکیس ہزار پانچ سوگناہ لے کر حا ضر ہوں گا تو ان گناہو ں کا کیا حال ہوگا جن کا شمار ہی نہیں؟ ہائے افسوس! میں نے اپنی دنیاآباد کی اور آخرت برباد کی اور اپنے پروردگارعَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتا رہا، میں دنیا میں تو آبادی سے بربادی کی طرف منتقل ہونا پسند نہیں کرتا تو بروزِقیامت بغیر ثواب وعمل کے حساب وکتاب کیسے دوں گا؟ اور عذاب کا سامنا کیسے کروں گا؟ پھر اس نے ایک زوردار چیخ ماری اورزمین پرگر گیا، جب حرکت دی گئی تو اس کی جان جانِ آفریں کے سپرد ہو چکی تھی۔”
مَنَازِلُ دُنْیَایَ عَمَّرْتُہَا وَخَرَبْتُ دَارِیْ فِی الْآخِرَۃِ
اَصْبَحْتُ اَنْکَرُ دَارِی الْخَرَابَ وَاَرْغَبْتُ فِیْ دَارِی الْعَامِرَۃِ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔میں نے اپنی دنیا کے گھروں کو آباد کیااور آخرت کے گھر کو ویران کر دیا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اب میں اپنے ویران گھر کو ناپسند کرنے لگا ہوں اور اپنے آباد گھر میں رغبت رکھتا ہوں۔