آخرت کی پہلی منزل:
آخرت کی پہلی منزل:
حضرتِ سیِّدُنا عثما ن بن عفا ن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں ہے کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قبر پر کھڑے ہو کررو رہے تھے۔ آپ رضی اللہ تعا لیٰ عنہ سے عرض کی گئی: ”جنت ودوزخ کاذکر کرکے تو آپ نہیں روتے مگر قبر کو یاد کرکے روتے ہیں؟” توآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشا د فرمایا: میں نے حضور سیِّدُ الَْمُبَلِّغِیْن، جنابِ رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کویہ فرماتے سناکہ ”قبر آخرت کی منازل میں سے پہلی منزل ہے، اگر کوئی اس سے نجات پاگیا توبعد والا معاملہ اس سے آسان ہو گا اور اگر اس سے نجات نہ ہوئی تو بعد والا معاملہ اس سے بھی زیادہ مشکل ہو گا۔”
(جامع التر مذی،ابواب الز ھد،باب ماجاء فی فظاعۃ القبر وانہ اول منازل الآخرۃ، الحدیث ۲۳0۸ ، ص ۱۸۸۴)
ایک قبرپرچند اشعارلکھے ہوئے تھے ، جن کا مفہوم یہ ہے:
”بوسیدہ اور ٹوٹی پھوٹی قبروں میں رہنے والوں پر سلام ہو، ان کی حالت ایسی ہو چکی ہے گویا وہ دنیاکی مجالس میں کبھی نہیں بیٹھے، کبھی بھی اس کا ٹھنڈا پانی نہیں پیا اور نہ ہی کبھی کچھ مزے دار کھاناکھایاہے، زندگی میں ان کا مد ِمقابل کوئی نہ تھا، طویل
اُمیدیں دنیا میں باندھ رکھی تھیں، لیکن ان امیدوں میں بھی بہت سے تو شیطانی وسوسے تھے، اے انسان! سن لو! میں نہیں جانتا کہ تمہاری قبر کہاں ہو گی؟ اوروہ جو بڑے دانا اور عقل مند ہیں ان کی قبر کہاں ہو گی؟ بس اتنا جان لو کہ سب کو مٹی تلے تنہائی ووحشت کے گھر میں بسیرا کرناہے، ہائے! وہ لوگ جو ہمیشہ امید ونااُمیدی کی درمیانی کیفیت سے دوچار رہے، اگر دنیا میں رہ جانے والے مال ومتاع میں بڑھ چڑھ کر ایک دوسرے سے مقابلہ کرنے والے لوگ عقل رکھتے تو (اس فانی دنیامیں) کبھی ایک دوسرے سے مقابلہ نہ کرتے۔”
حضرتِ سیِّدُنا یزید رقاشی علیہ رحمۃاللہ الکافی اپنے آپ سے فرمایا کرتے تھے:”ہلاکت ہو تجھ پر اے یزید! تیرے مرنے کے بعد کون تیری طرف سے نما ز پڑھے گا؟ کون روزے رکھے گا؟کون وضو کریگا؟” پھر فرماتے: ”اے لوگو! تم اپنی بقیہ زندگی میں اپنے آپ پر کیوں نہیں روتے؟ وہ شخص جس سے موت کا وعدہ کیا گیا ہو، جس کا گھر قبرہو، جس کا بچھونا مٹی ہو، اور جس کے ساتھی کیڑے مکوڑے ہوں اور اس کے سا تھ ساتھ وہ بڑی گھبراہٹ کے دن کا بھی انتظا ر کر رہا ہو تو اس کا حا ل کیسا ہو گا؟ اور اس کا انجام کیسا ہو گا؟” پھر آپ رونے لگ جاتے یہا ں تک کہ بے ہوش ہو کر زمین پر تشریف لے آتے۔”
مروی ہے کہ ایک عورت نے اُم المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا سے قساوتِ قلبی (یعنی دل کی سختی)کا ذکر کیا تو آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا نے ارشاد فرمایا: ”موت کو کثرت سے یاد کیا کر تیرا دل نرم ہو جا ئے گا۔” جب ا س عورت نے ایسا کیا تو اس کا دل نرم ہو گیاپس اس نے اُم المؤمنین حضرتِ سیِّدَتُنا عا ئشہ صدیقہ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہا کا شکریہ ادا کیا۔”
حضرتِ سیِّدُناابودرداء ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ بیما ر ہو گئے تو لوگوں نے عرض کی :”کسی چیز کی خواہش ہو توفرمائیے۔” آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”جنت کی۔”تو انہوں نے پھرعرض کی :”کیا ہم آپ کے لئے طبیب لا ئیں ؟”توآپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”طبیب نے ہی تو مجھے مرض لاحق فرمایا ہے۔” آپ ر ضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کسی دوست نے عرض کی: ”اے ابودرداء! کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے ساتھ رات بھر جاگتا رہوں؟” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”تمہیں مرض سے عافیت ہے جبکہ میں مرض میں مبتلاہوں، لہٰذاعافیت تمہیں جاگنے نہیں دے گی اور بَلامجھے سونے نہیں دے گی۔ پھر فرمایا: ”میں اللہ وحدَہٗ لاشریک کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ اہلِ عافیت کو شکر اور اہلِ بَلا کو صبر کی توفیق عطا فرمائے۔”(آمین)
ایک خطبے میں ہے: ”اے لوگو! اُمیدیں لپیٹ دی جائیں گی، عمریں فنا ہو جائیں گی، جسم مِٹی کے نیچے بوسیدہ ہو جا ئیں گے، جبکہ رات اور دن (موت کے )قا صد کی طرح تیزی سے دوڑے چلے جا رہے ہیں۔ ہر دُور کو قر یب کرتے اورنئے کو پرانا کرتے ہیں۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے بندے تو وہ ہيں جوخواہشا ت سے غافل، لذات سے کنارہ کش اور باقی رہنے والے اعمال کی طرف راغب ہوتے ہیں۔”
حدیث ِ پاک میں ہے: ”نیک بندہ جب موت کی سختیوں سے دوچار ہوتا ہے تو اس کے اعضاء ایک دوسرے کو کہتے ہیں: ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ یعنی تم پر سلامتی ہو۔” (تفسیرالقرطبی،سورۂ قۤ،تحت الآیۃ:۱۹، الجزء السابع عشر،ج۹،ص۱۱)
حضرتِ سیِّدُنا حسا ن بن ابی سنا ن علیہ رحمۃالرحمن سے پوچھا گیا: ”اپنے آپ کو کیسامحسوس کرتے ہیں؟” تو آپ نے فرمایا: ”اگر میں جہنم سے نجات پاجاؤں تو خیریت ہے۔”پھرعرض کی گئی: ”آپ کی خواہش کیاہے؟” تو آپ نے ارشاد فرمایا: ”مجھے ایک طویل رات کی خواہش ہے کہ جس میں ساری رات نماز ادا کرتارہوں۔” (حلیۃ الاولیاء،حسان بن ابی سنان،الحدیث۳۴۶۷،ج۳،ص۱۳۹،بتغیرقلیل )
حضرتِ سیِّدُنا عبداللہ بن عتبہ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں: ”میں نے ایک مریض کی عیادت کی۔ جب میں اس کے پاس بیٹھا تو میں نے اس سے پوچھا: ”اپنے آپ کو کیسا محسوس کرتے ہیں؟” تو اس نے جواب میں چند اشعار پڑھے:
خَرَجْتُ مِنَ الدُّنْیَا وَقَامَتْ قِیَامَتِیْ غَدَاۃٌ اَقَلَّ الْحَامِلُوْنَ جَنَازَتِیْ
وَعَجَّلَ اَہْلِیْ حَفْرَ قَبْرِیْ وَصِیْرُوْا خُرُوْجِیْ وَتَعْجِیْلِیْ اِلَیْہِ کَرَامَتِیْ
کَاَنَّہُمُوْ لَمْ یَعْرِفُوْا قَطُّ صُحْبَتِیْ غَدَاۃًاَتَی یَوْمِیْ عَلَیْہِ وَسَاعَتِیْ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔میرے کُوچ کا وقت آگیا اورمیں دنیا سے نکل کھڑ اہوا، کل تھوڑے سے لوگ میرے جنازے کی چارپائی اٹھائے ہوں گے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔میرے گھر والے جلدی جلدی میری قبر کھدوائیں گے پھر میری تعظیم کرتے ہوئے جلدی جلدی مجھے قبر کی طرف لے جائیں گے۔
(۳)۔۔۔۔۔۔جس صبح میری موت کی گھڑی آئی تو ایسا لگاجیسے میری صحبت کووہ کبھی پہچانتے ہی نہ تھے۔
حضرتِ سیِّدُنا مزنی علیہ ر حمۃاللہ الغنی نے حضرتِ سیِّدُنا امام شافعی علیہ رحمۃاللہ الکافی کے مرض الموت میں ان کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی: ”اے ابوعبداللہ! آپ کی حالت کیسی ہے؟” آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”میں دنیا سے کوچ کرنے والا، بھائیوں سے جدا ہونے والا، اپنے برے اعمال کی سزا پانے والا، موت کا پیالہ پینے والا اور رب عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حا ضر ہونے والا ہوں اور میں نہیں جانتا کہ میری روح جنت میں جا ئے گی کہ میں اسے مبارکباد دوں یاجہنم میں جائے گی کہ اس سے تعزیت کروں۔”
(الزھد الکبیر للبیھقی،فصل آخر فی قصر الامل والمبادرۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۵۷۵،ص۲۲۲)
پھر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے کچھ اشعار پڑھے جن کا مفہوم یہ ہے:
”اے میرے اللہ عزَّوَجَلَّ! جب میرادل سخت ہو گیا اور راستے تنگ ہو گئے تو میں نے اپنی اُمید تجھی سے باندھ لی تاکہ تیرے عفووکرم کے صدقے محفوظ رہوں، اے میرے پروردگارعَزَّوَجَلَّ! میرے گناہ مجھ پرسنگین صورت حال اختیار کر گئے تو میں نے ان کو تیرے عفووکرم سے ملا دیا، پس تیرا عفووکرم ان پر اپنی عظمت میں غالب آ گیا۔ اب میں ایسا شخص بن گیا ہوں جس کے
گناہ معاف کر دیئے گئے ہیں اور تو نے محض اپنے فضل وکرم سے معاف فرما دیا، اے کاش ! میں جان سکتاکہ میں جنت میں جاؤں گا کہ مبارک باد وصول کروں یا جہنم میں جاؤں گاکہ شرمسار کیا جاؤں۔”
منقول ہے کہ ایک شخص کسی قبرکے قریب دورکعت نما ز ادا کرنے کے بعد لیٹ گیا۔ خواب میں اس نے صاحب ِ قبر کو یہ کہتے ہوئے سنا: ”اے شخص! تم عمل کر سکتے ہو لیکن علم نہیں رکھتے، ہمارے پاس علم ہے لیکن ہم عمل نہیں کر سکتے، خدا کی قسم! میرے نامۂ اعمال میں نماز کی دورکعتیں مجھے دنیا ومافیہا(یعنی دنیا اور جو کچھ اس میں ہے) سے زیادہ محبوب ہے۔”
منقول ہے کہ” ایک عابد اپنے ایک دوست کی قبرپر آیاجس سے اسے محبت تھی اورچنداشعارپڑھے ،جن کا مفہوم یہ ہے :
”مجھے کیا ہوا کہ جب میں قبروں پر سلام کرتے ہوئے اپنے دوست کی قبر سے گزرتا ہوں تووہ میرے سلام کا جواب نہیں دیتا، اے میرے حبیب!تجھے کیاہواکہ پکارنے والے کاجواب نہیں دیتا؟کیاتومجھ سے جداہونے کے بعددوستوں سے اُکتا گیا؟ اگر وہ جواب دینے کے لئے بول سکتاتو مجھ سے یہی کہتاکہ مِٹی میرے خوبصورت اعضاء اور جوانی کو کھاگئی۔ وہ عابد کہتا ہے کہ قبرسے ایک غیبی آواز آئی، وہ کہہ رہا تھا: حبیب نے کہا: میں کیسے تمہاراجواب دوں؟ حالانکہ میں مِٹی اور ایک طاقتور کے ہاں قید ہوں۔ مِٹی میرے حسین جسم کو کھا گئی پس میں تم کو بھول گیا اور مِٹی نے مجھے اپنے گھر والوں اور دوستوں سے پوشیدہ کر دیا۔ پس تم پر میرا سلام ہو، ہماری اور تمہاری دوستیاں ختم ہوگئیں، میری جِلداور رُخسار گل سڑ گئے، میں نے دُنیا میں کتنی ہی بار اعلیٰ قسم کے لباس زیب ِ تَن کئے، میرے ہاتھ کی اُنگلیاں جدا ہوگئیں جو تحریر کے لئے کتنی ہی خوبصورت تھیں، موتیوں جیسے دانت گرگئے جو جواب دینے کے لئے کتنے ہی اچھے تھے اور میری آنکھیں رخساروں پر بہہ گئیں، میں نے کتنی ہی بار ان سے اپنے دوستوں کا دیدار کیا۔”
حضرتِ سیِّدُنا ثابت بنانی رضی اللہ تعا لیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ” میں قبروں کی زیارت، مردوں سے عبرت حاصل کرنے، دوبارہ جی اُٹھنے کے معاملے میں غوروفکر کرنے اوراپنے نفس کونصیحت کرنے کے لئے ایک قبرستان میں داخل ہوا تاکہ میرا نفس سرکشی اور گناہوں سے رک جائے، میں نے قبر والوں کو اتنا تنہااورخا موش پایا کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں، نہ آپس میں ہم کلام ہوتے ہیں۔ لہٰذا میں ان کی گفتگو سننے سے مایوس ہو گیا اور ان کے احوال دیکھ کر عبرت حاصل کی۔ جب میں نے نکلنے کا ارا دہ کیا تو ایک آواز سنائی دی: ”اے ثابت! قبر والوں کی خا موشی تجھے دھوکے میں نہ ڈا لے، ان میں کتنے ہی ایسے ہیں جن کو ان کی قبروں میں عذاب دیا جا رہا ہے۔”
منقول ہے کہ حضرت سیِّدُنا داؤد طائی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو ایک قبر پر بیٹھی رو رہی تھی اور یہ اشعار پڑھ رہی تھی:
عَدِمْتَ الْحَیَاۃَ فَلَا نِلْتَہَا اِذْ اَنْتَ فِی الْقَبْرِ قَدْ اَوْسَدُوْکَا
وَکَیْفَ اَلُذُّ بِطُعْمِ الْکَرٰی وَہَا اَنْتَ فِی الْقَبْرِ قَدْ اَفْرَدُوْکَا
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔تمہاری زندگی ختم ہوگئی، اب تو اس کو نہ پا سکے گا جبکہ تو قبر میں ہے اور لوگوں نے تجھے یہاں پہنچانے میں جلدی کی۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اور میں کیونکر سکون کی نیند سے لطف اندوز ہو سکتی ہوں، اب جبکہ تو اپنی قبر میں ہے اور لوگوں نے تجھے تنہا چھوڑ دیا۔
اِس کے بعد اُس عورت نے کہا: ”ہائے، میرے باپ! تیرے کس رخسار سے کیڑوں نے ابتداء کی؟” حضرتِ سیِّدُنا داؤد طائی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ یہ سن کر بے ہوش ہو گئے اور زمین پر تشریف لے آئے۔”
پیارے اسلامی بھائیو! سکون کی نیندسے بیدارہوجاؤ اور عاجزی وانکساری کے ساتھ اللہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضر ہوکر پناہ طلب کرو۔ یوں سمجھو کہ تمہیں موت آچکی ہے جس نے اجتماعیت کو ختم کرکے رکھ دیااور محلات اور مکانات کوخالی کردیا اوران لوگوں پر آنسوؤں کے بادلوں نے بارش برسائی اور ان کے گرویدہ لوگوں نے روتی آنکھوں اوردلِ پُر درد سے اُنہیں پکارا۔