فیضانِ رمضان
فیضانِ رمضان
حمد ِ باری تعالیٰ:
تمام تعریفیں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جو اپنے عظیم الشا ن ہو نے، اور ہمیشہ رہنے میں یکتا ہے، زوال وفنا سے پاک ہے، ماں باپ اور اولاد سے مُنزَّہ ہے۔ عظمت وکبریائی کی چادر والا ہے، تمام اشیاء کو جا ننے والاہے، ابتدا ء وانتہاء سے پاک ہے، وہ ایسا سننے والا ہے کہ دعائیں کرنے والوں کی مختلف آوا زیں اس پر مشتبہ نہیں ہوتیں، وہ ایسا دیکھنے والا ہے کہ رات کی تاریکی میں ریت پر رینگتی چیونٹی کو بھی دیکھ لیتا ہے، ایسا علیم ہے کہ زمین وآسمان میں کوئی ذرہ برابر چیز بھی اس کے علم سے پوشیدہ نہیں اور ایسا حلیم ہے کہ اپنے نافرما ن کی بہترین پردہ پوشی فرماتا ہے، وہ اپنا خوف رکھنے والوں کو بہت زیادہ نعمتیں دینے والا ہے، وہ ایسا حکیم(یعنی حکمت والا) ہے جس نے آسما ن کو بغیر ستون کے فضا میں بلند کیا اور اپنی حکمت سے فرشِ زمیں کو جاری پانی پر بچھایا۔ وہ کسی مدِّمقابل، ضد اور نظیرسے پاک ہے، وہ بیوی ،اولاد اور شریکوں سے پاک ہے۔ وہ ایسا جاننے والا ہے کہ جس سے دلوں کے را ز کسی بھی وقت پوشیدہ نہیں رہتے اور نہ اس پر زمین و آسما ن میں کوئی شئے مخفی ہے۔
پاک ہے وہ جس نے زمانوں کو ایک حساب سے رکھا اور موسموں کو مقرر فرمایا، اس نے اپنی معرفت کے سمندر میں عقلوں اور سوچوں کو مستغرق کیا۔ اس کی حقیقت میں عقلیں حیران ہیں۔ اس کی بلندی کی معرفت تک پہنچنے والا کوئی نہیں۔ اس نے ماہِ رمضا ن کو عفو، مغفرت، بشارت، رضا، سرور اور قبولیت کے ساتھ خاص کیا، اس نے روزے رکھنے والے کو اس کی مراد تک پہنچانے کا وعدہ کیا، اُس کے لئے خوشخبری ہے جس نے اپنے اعضاء کو شک وشبہ سے پاک کیا اور نیک اعمال کے ساتھ ماہِ رمضان کا استقبال کیا۔
اے غا فل انسان!غفلت کی نیند سے بیدا ر ہوجا اورجلدی کر۔ ابھی وقت ہے اس سے پہلے کہ درِرحمت بندہوجائے، پاک ہے وہ جس نے لوگوں کواپنے دین کی خدمت اور اس کی محبت میں مشغول رکھا، اب اس کے سوا ان کی کوئی اور مصروفیت نہیں، وہ شہوات سے بچتے رہے تو ان کے گنا ہوں کو مٹادیا اور ان کو ان کے مقاصد اور اُمیدوں تک پہنچایا۔ ان کی روزے رکھنے پرمدد کی توا نہوں نے روزے رکھے، ان کو تاریکیوں میں کھڑا کیا تو وہ اس کی عبا دت میں لمبی لمبی راتیں قیام کرتے رہے۔ انہوں نے حدیث ِ پاک سنی کہ
”أَنَّ الصَّومَ جُنَّۃٌ یعنی روزہ ڈھا ل ہے۔”
(الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان،کتاب الصوم،باب فضل الصوم، الحدیث۳۴۱۸،ج۵،ص۱۸0)
تو وہ بُرے افعال واقوال سے اپنی جانوں کو بچاتے رہے۔ کتنی بڑی سعادت ہے اس شخص کے لئے جس کے ماہِ
(اخبار مکۃ للفاکھی،ذکر فضل مقبرۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث۲۳۷0،ج۴،ص۵۱)
رمضان میں اعما ل قبول ہوئے اورکتنی بڑی بدبختی ہے اس کے لئے جس نے روزوں میں غفلت وکوتاہی برتی، اس شخص کا صدقۂ فطر قبول نہیں اگرچہ حلال چیزسے دے۔وہ ہمیشہ سیدھی راہ سے ہٹ کر برائیوں میں پڑا رہا تو ایسی خصلتوں والا شخص سن لے کہ اس کی موت قریب ہے اور وہ لہوولعب میں پڑا ہوا ہے۔
اَیَا مَنْ عُمْرُہ، طَالَ اِلٰی کَمْ اَنْتَ بَطَّالُ
جَمِیْعُ الدَّھْرِ نَقَّالُ عَلٰی ظَھْرِکَ اَثْقَالُ
تُبَارِزُ بِالْمَعَاصِیْ وَعَنَّا اَنْتَ قَاصِیْ
وَتَدْعُوَ بِالْخَلَاصِ وَمَا عِنْدَکَ اِقْبَالُ
اِلَی الْغِیْبَۃِ تَرْتَاحُ وَمَا عِنْدَکَ اِصْلَاحُ
وَمَا یَرْضٰیکَ یَا صَاحُ سِوٰی قِیْلَ وَقَالَ
تَمُدُّ الطَّرْفَ فِی الصَّوْمِ وَلَا تَخَشَی مِن اللَّوْمِ
لَیُکْتَبُ مِنْکَ فِی الْیَوْمِ وَفِی اللَّیْلَۃِ اَفْعَالُ
فَتُبْ ذَا الشَّھْرِ کَیْ تَحْظٰی وَکَمِّلْ صَوْمَہ، فَرْضًا
لَعَلَّ اللہَ اَنْ یَرْضِیَ وَیُصْلِحَ مِنْکَ اَحوَالَ
ترجمہ:(۱)۔۔۔۔۔۔اے لمبی عمر والے! تو ُ کب تک بے کار رہے گا ۔تمام زندگی تیزی سے گزر جائے گی مگر تیری پیٹھ پر بوجھ رہ جائے گا۔
(۲)۔۔۔۔۔۔توُ نافرمانیوں کے ذریعے مقابلہ کرتا ہے۔توُ ہم سے دور رہ جائے گااور نجات کے لئے فریادکریگا مگر تیرے پاس کوئی نہیں آئے گا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔ تجھے غیبت سے سکون ملتا ہے اور تو اصلاح نہیں چاہتااوراے محترم! تجھے سوائے قیل وقال کے کوئی چیز خوش نہیں کرتی۔
(۴)۔۔۔۔۔۔توُ روزے میں بھی آنکھوں کو برائی سے نہیں روکتا اور نہ ہی ملامت سے ڈرتا ہے ۔بلاشبہ دن رات تیرے اعمال لکھے جارہے ہیں۔
(۵)۔۔۔۔۔۔پس تو اس مہینے میں اللہ عزَّوَجَلَّ کی بارگاہ میں توبہ کرلے تاکہ تو بلند رتبہ پا لے اور اپنے فرض روزے مکمل کر۔ شاید! اللہ عَزَّوَجَلَّ تجھ سے راضی ہوجائے اور تیرے احوال درست فرمادے۔
پاک ہے وہ جس نے اُمَّتِ مسلمہ پرماہِ رمضان کے روزے فرض فرمائے اور مزید فضل واحسان سے نوازنے کے ساتھ اسی ماہ انہیں جہنم سے آزا دی کاپروانہ بھی عطاکیا۔چنانچہ اللہ عزَّوَجَلَّ کافرما نِ عالیشان ہے:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ
ترجمۂ کنزالایمان :اے ایمان والوتم پرروزے فرض کئے گئے۔(پ2، البقرۃ: 183)(۱)
روزے جسم کی صحت کا سبب اور دل و زبان کو گناہ ومعصیت سے پا ک کرنے کا ذریعہ ہیں اور اس مہینے اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنے پیارے محبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر اس شخص کے لئے روزوں کی رخصت نازل فرمائی جسے کوئی مرض یا تکلیف پہنچی ہو ۔
فَمَنۡ کَانَ مِنۡکُمۡ مَّرِیۡضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ ترجمۂ کنزالایمان :توتم میں جوکوئی بیمار یا سفر میں ہوتواتنے روزے اوردنوں میں۔(پ۲،البقرہ:۱۸۴)(۱)
پا ک ہے وہ جس نے اس امت پر احسان فرمایا اور اس کو بہت زیا دہ فضلیت عطا فرمائی اورماہِ رمضان کو اس کی مغفرت کے سا تھ خاص کر دیا:
”شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ ترجمۂ کنزالایمان:رمضان کامہینہ جس میں قرآن اترالوگوں کے لیے ہدایت اورراہنمائی اورفیصلہ کی روشن باتیں۔(پ۲،البقرہ:۱۸۵)(۲)
قَدْ جَاءَ شَھْرُ الصَّوْمِ فِیْہِ الْاَمَان وَالْعِتْقُ وَالْفَوْزُ بِسُکْنَی الْجِنَان
شَھْرٌ شَرِیْفٌ فِیْہِ نَیْلُ الْمُنَی وَھُوَ طِرَازٌ فَوْقَ کَمِ الزَّمَان
طُوْبٰی لِمَنْ صَامَہ، وَاَتْقَی مَوْلَاہ، فِی الْفِعْلِ وَنُطْقِ اللِّسَان
وَیَا ھُنَا مَنْ قَامَ فِیْ لَیْلِہٖ وَدَمْعُہ، فِی الْخَدِّ یَحْکِیْ الْجُمَان
ذَاکَ الَّذِیْ قَدْ خَصَّہ، رَبُّہ، بِجَنَّۃِ الْخُلْدِ وَحُوْرِ الْحُسَّان
ترجمہ:(2)۔۔۔۔۔۔بے شک رمضان کا مہینہ آگیا، اس میں امن، جہنم سے آزادی اورجنّت میں ٹھہرنے کے ساتھ کامیابی ہے ۔
(۲)۔۔۔۔۔۔اس ماہِ مبارک میں بندہ اپنی آرزوئیں پوری کرتا ہے اور یہ کتنے ہی زمانوں سے بہتر نمونہ ہے ۔
(۳)۔۔۔۔۔۔اس کے لئے خوشخبری ہے جس نے ماہِ رمضان کے روزے رکھے اوراللہ عزَّوَجَلَّ نے اُسے برے کاموں اور زبان کی لغزش سے محفوظ فرمایا۔
(۴)۔۔۔۔۔۔اے وہ شخص جس نے اس کی راتوں میں قیام کیا اورجس کے رخساروں پر آنسو موتیوں کی مانند ہیں۔
(۵)۔۔۔۔۔۔یہ وہ شخص ہے جسے رب عزوجل جنتِ خُلد اورانتہائی حسین وجمیل حُوریں عطا فرمائے گا۔
ہر قسم کے انعامات واحسا نات پرمیں اپنے ربِّ کریم عَزَّوَجَلَّ کی حمد کرتاہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ ”اللہ عزَّوَجَلَّ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ یکتا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، ایسی گواہی جو زبا ن پر تو ہلکی ہے لیکن میزانِ میں بھا ری بہت بھاری ہے۔ اور میں گواہی دیتا ہو ں کہ حضرت سیِّدُنا محمد ِمصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں۔ اللہ عزَّوَجَلَّ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی آل، صحابۂ کرام، تمام ازواجِ مطہرات ر ضوا ن اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین پر، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی اولاد اور بھلائی کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والوں پر درود بھیجے۔
اللہ عزَّوَجَلَّ ارشادفرماتا ہےـ: ”شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الْقُرْاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْہُدٰی وَالْفُرْقَانِ ۚ تر جمۂ کنزالایمان: رمضان کامہینہ جس میں قرآن اترالوگوں کے لیے ہدایت اورراہنمائی اورفیصلہ کی روشن باتیں۔(پ۲،البقرہ:۱۸۵)
(حضرتِ سیدنا شعیب حریفیش رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں کہ) مہینے کو مشہور ہونے کی وجہ سے شھر کہا جاتا ہے اورماہِ رمضان کو رمضان اس لئے کہتے ہیں کہ یہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ اللہ عزَّوَجَلَّ کے فرمانِ عالیشان ”اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ” سے مراد یہ ہے کہ اس کے فرض روزوں میں قرآنِ کریم اُتارا گیا۔
حضرتِ سیِّدُنا ابن عبا س وا بن شہاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم فرماتے ہیں: ”مکمل قرآنِ حکیم لوحِ محفوظ سے آسمانِ دنیا پر ایک ہی دفعہ ماہِ رمضان، شب ِ قدرمیں نازل کیا گیا۔ پھرحضرتِ سیِّدُنا جبرائیلِ امین علیہ السلاموقتًا فوقتًا واقعات وحوادثات کے مطابق اسے حضور نبئ پاک، صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس لاتے رہے۔”
1۔۔۔۔۔۔مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰحضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” اس آیت میں روزوں کی فرضیت کا بیان ہے ۔روزہ شرع میں اِس کا نام ہے کہ مسلمان خواہ مرد ہو یا حیض یا نفاس سے خالی عورت، صبحِ صادِق سے غروبِ آفتاب تک بہ نیتِ عبادت خوردو نوش و مجامعت ترک کرے۔ (عالمگیری وغیرہ) رمضان کے روزے۱0 شعبان ۲ھ کو فرض کئے گئے۔(درمختار وخازن)اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے عبادتِ قدیمہ ہیں، زمانۂ آدم علیہ السلام سے تمام شریعتوں میں فرض ہوتے چلے آئے۔ اگرچہ ایام و احکام مختلف تھے مگر اصل روزے سب امتوں پر لازم رہے۔”
2۔2۔۔۔۔۔مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰحضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ” سفر سے وہ مراد ہے جس کی مسافت تین دن سے کم نہ ہو۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مریض و مسافر کو رُخصت دی کہ اگر اس کو رمضان مبارک میں روزہ رکھنے سے مرض کی زیادتی یا ہلاک کا اندیشہ ہو یا سفر میں شدت و تکلیف کا تو وہ مرض و سفر کے ایَّام میں افطار کرے اور بجائے اس کے(یعنی اس کی جگہ) ایام منہیَّہ (یعنی ممنوع دنوں) کے سوا اور دِنوں میں اس کی قضا کرے۔ایام منہیّہ پانچ دن ہیں جن میں روزہ رکھنا جائز نہیں۔ دونوں عیدین اور ذی الحجہ کی گیارہویں، بارہویں، تیرہویں تاریخیں۔ مسئلہ : مریض کو محض وہم پر روزے کا افطار جائز نہیں جب تک دلیل یا تجربہ یا غیر ظاہرُا لفسق طبیب (یعنی جو ظاہری طور پر فاسق نہ ہو)کی خبر سے اس کا غلبۂ ظن حاصل نہ ہو کہ روزہ مرض کے طول یا زیادتی کا سبب ہوگا۔ مسئلہ : جو بالفعل بیمار نہ ہو لیکن مسلمان طبیب یہ کہے کہ وہ روزے رکھنے سے بیمار ہوجائے گا وہ بھی مریض کے حکم میں ہے۔ مسئلہ : حاملہ یا دودھ پلانے والی عورت کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی یا بچے کی جان کا یا اس کے بیمار ہوجانے کا اندیشہ ہو تو اس کوبھی افطار(یعنی چھوڑ دینا) جائز ہے۔ مسئلہ:جس مسافر نے طلوعِ فجر سے قبل سفر شروع کیا اس کو تو روزے کا افطار جائز ہے لیکن جس نے بعد ِ طلوع سفر کیا اس کو اس دن کا افطار جائز نہیں۔”
2۔۔۔۔۔۔مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰحضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں:” اس کے معنی میں مفسِّرین کے چند اقوال ہیں۔یہ کہ رمضان وہ ہے جس کی شان و شرافت میں قرآن پاک نازل ہوا۔یہ کہ قرآنِ کریم میں نزول کی ابتداء رمضان میں ہوئی۔ یہ کہ قرآن کریم بتمامہ(یعنی مکمل) رمضان المبارک کی شب ِ قدر میں لوحِ محفوظ سے آسمانِ دُنیا کی طرف اُتارا گیا اور بیتُ العزَّت میں رہا یہ اسی آسمان پر ایک مقام ہے یہاں سے وقتاً فوقتاً حسب ِ اقتضائے حکمت جتنا جتنا منظورِ الٰہی ہوا جبریل امین لاتے رہے۔ یہ نزول تیئس سال کے عرصہ میں پورا ہوا۔”