حاجیوں کے فضائل اوراُن پرانعام کا بیان
حاجیوں کے فضائل اوراُن پرانعام کا بیان
اللہ عزَّوَجَلَّ ہم سب کوان لوگوں میں شامل فرما دے جو حجِ بیتُ اللہ اور زیارتِ
روضۂ اقدَس علٰی صاحبہا الصلوۃ والسلام کی سعادت سے بہرہ مند ہوئے۔ (آمین)
حمد ِ باری تعالیٰ:
سب خوبیاں اللہ عزَّوَجَلَّ کے لئے ہیں جس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ خود زندہ اور دوسروں کا قائم رکھنے والا ہے ،وہ پاک اوربلند ہے، اُسے نہ اُونگھ آتی ہے، نہ نیند، اُسے فنا نہیں، آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اسی کا ہے ، زمین وآسماں کی ہر چیز اس کی عظمت پر گواہ ہے ،عقل اس کی مثل یاشبیہ نہیں پا سکتی،کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے یہاں سفارش کرے، اس کی بارگاہ میں کسی کو سوال و جواب کرنے کی جرأ ت نہیں، مخلوق کے آگے پیچھے، دائیں بائیں، اوپر نیچے ہر چیز کا اس کو علم ہے، اوراس کے علم میں سے اتنا ہی پا سکتے ہیں جتنا وہ چاہے ، کوئی اس کے علم میں سے اس کی حقیقت کی تمثیل بھی نہیں پا سکتا، زمین وآسماں اس کی کرسی میں سمائے ہوئے ہیں، اس کی ہیبت سے ہر چیز کاخوف ظاہر ہے، اوران کی نگہبانی اُسے بھاری نہیں، اور وہ ان کی حفاظت سے نہیں تھکتا، وہی ہے بلند بڑائی والا جو بلند وبرتر عظمت والا ہے ۔
پا ک ہے وہ ذا ت جس نے اپنے بند و ں پر حجِ بیتُ اللہ فرض فرمایا تو انہو ں نے اپنی سو ا ر یو ں کو تیا ر کر لیا۔ان کو اپنے قرب میں بلا یا تو انہوں نے اس کی محبت میں دُو ر ی کو دُور نہ سمجھا اور نہ ہی مصا ئب کی پر وا ہ کی، ان کے چہرے رات کی تاریکی میں چمکتے ہیں۔ پاک ہے وہ ذات جس نے خانۂ کعبہ کو رُکنِ اسلام(یعنی حج) سے مشرَّ ف فرمایا تو جس نے اس رکن کو ادا کیا وہ غم اور تنگی سے نجات پا گیا۔ جو اس کے دروا زے سے دا خل ہوا وہ اما ن پاگیا،بھلا ئی کر نے اور سید ھے راستے پر چلنے وا لو ں پر اس کے میزا ب سے رحمت کا نزو ل ہو تا ہے اور حجرِ اسود اُس شخص کی گواہی دے گا جو اسے صد ق ووفا کے ساتھ بوسہ دے۔ اللہ عزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: وَلِلہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیۡتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیۡہِ سَبِیۡلًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ فَاِنَّ اللہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیۡنَ ﴿۹۷﴾ ترجمۂ کنزالایمان :اوراللہ کے لیے لو گو ں پر اس گھر کا حج کر نا ہے جو اس تک چل سکے اور جو منکر ہو تو اللہ سا ر ے جہا ن سے بے پر وا ہ ہے۔(۱) (پ۴،اٰل عمرا ن:۹۷ )
حضرتِ سیِّدُناعبداللہ بن عبا س رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فر ما تے ہیں:” سبیل ” کا معنی یہ ہے کہ بد ن تندرست ہو،زا دِ را ہ موجو د ہو اور ایسی سو ا ر ی پر ہو جو اس کو ہلاک نہ کر ے۔” اور”وَمَنْ کَفَرَ ” کا مطلب یہ ہے کہ جو حج کرنے کو نیکی نہ سمجھے اور نہ کرنے کو گناہ نہ جانے۔
1۔۔۔۔۔۔مفسِّر شہیر، خلیفۂ اعلیٰ حضرت، صدرالافاضل، سیِّد محمد نعیم الدین مراد آبادی علیہ رحمۃ اللہ الہادی تفسیر خزائن العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: ”مسئلہ : اس آیت میں حج کی فرضیت کا بیان ہے اور اس کا کہ استطاعت شرط ہے ۔حدیث شریف میں سیِّد عالم صلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم نے اس کی تفسیر زادو راحلہ سے فرمائی۔ زاد یعنی توشہ، کھانے پینے کا انتظام اس قدر ہونا چاہے کہ جا کر واپس آنے تک اس کے لئے کافی ہو اور یہ واپسی کے وقت تک اہل و عیال کے نفقہ کے علاوہ ہونا چاہے۔ راہ کا امن بھی ضروری ہے کیونکہ بغیر اس کے استطاعت ثابت نہیں ہوتی۔ اس(ومن کفر) سے اللہ تعالیٰ کی ناراضی ظاہر ہوتی ہے اور یہ مسئلہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ فرضِ قطعی کا منکر کافر ہے۔”