فرمانبردار بیٹے کی موت سے ماں بھی فوت ہوگئی:
فرمانبردار بیٹے کی موت سے ماں بھی فوت ہوگئی:
ایک بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا بیان ہے کہ ایک سال میں نے بیت اللہ شریف کا حج کیا۔ جب لو ٹنے کا ارادہ کیا تو دیکھا
کہ ایک نوجوان جس کا جسم دبلاپتلا،رنگ زرد ،اونٹ کے قریب کھڑا غم کے سانس لیتے ہو ئے کہہ رہاتھا:” کیا تم میں کوئی ایسا شخص ہے جو میرا پیغام اس بوڑھی عورت تک پہنچادے جس نے ساری زندگی میری تربیت فرمائی، اب وہ مجھے دیکھنے کی مشتاق ہے؟” کیا تم میں سے کوئی شخص میرے احباب کو میرا پیغام پہنچاکر اجرو ثواب لینا چاہتاہے ؟” پھرکہنے لگا: ”میں تمہیں اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم دیتا ہوں، جب تم عافیت کے ساتھ پہنچ جاؤ تو میر ا خط فلاں بُڑھیا کو پہنچا دینا اور اسے میرے متعلق بتاناکہ ہم نے ”عامری ” کو عشق کی آگ میں جلتے ہوئے چھوڑا، وہ اپنا مقصودپاچکا ہے اور اگر وہ تم سے میری حالت کے متعلق پوچھے تو ان سے کہنا: ”اللہ عزَّوَجَلَّ کی قسم! اس نے اللہ عزَّوَجَلَّ سے کیا ہوا عہد نہیں توڑا۔”وہ بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ مجھے اس پر بڑا ترس آیا میں نے اس سے خط لے لیا اور پوچھا:”آپ کو اپنی والدہ کے پاس جانے میں کیارکاوٹ ہے؟” تو اس نے کہا : ”اے میرے محترم! جب تقدیر ساتھ نہ دے تو مخلوق کیا کرے۔میں اس امید پرنکلا تھا کہ لوٹ آؤں گا لیکن یہ نہ جانتا تھا کہ کب لوٹوں گا۔ اگرچہ میں نے اپنے محبوب کو پاکر اپنی اجنبیت میں سرور حاصل کیا لیکن میں آنے والے اس کل کی اُمید باندھے ہوئے ہوں جب ہم پھر ملیں گے جس طر ح جدا ہوئے تھے ۔”
جب اس نے اپنی بات مکمل کر لی توایک زور دار چیخ ماری اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ قافلے والے اس کے ارد گرد جمع ہو گئے پھر کچھ دیر کے بعد اسے ہوش آیاتو کہنے لگا :”ہائے افسوس!جس موت کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے وہ آنے والی ہے، قبر قریب ہے اور دار البقاء کی طرف کو چ کرنے کا وقت آگیا ہے ۔”پھر اس نے دوبارہ ایک زور دار چیخ ماری اور اور اس کی روح خالقِ حقیقی سے جا ملی۔وہ بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس کی تجہیزو تکفین کی اورنمازِ جنازہ پڑھ کردفن کر دیا۔ پھر بصرہ کی جانب رُخ کیا۔ جب ہم شہر کے قریب پہنچے تووہاں کے لوگ دُورسے آنے والوں کے استقبال اور اپنے دوستوں کو سلامتی کی مبارکباد دینے کے لئے نکل آئے۔
سب لوگوں سے پیچھے ایک بڑھیا آرہی تھی جس کی نظرکمزور تھی، اس کا دل ذکر ِالٰہی عَزَّوَجَلَّ میں مشغول تھا ، وہ چلتے ہوئے کانپ رہی تھی اور کہہ رہی تھی: ” کیا اس کے آنے کا وقت نہیں آیا جس کا میں انتظار کررہی ہوں یا قافلے میں کوئی ایسا شخص ہے جو اس کے متعلق بتائے؟”پھر اس نے نِدا دی: ”اے قافلے والو! تم میں کوئی میرے بیٹے کا خط لانے والا ہے جس میں اس کی خیر خبرہو؟”پھر اس نے چند اشعارپڑھے، جن کا مفہوم یہ ہے:
”وطن سے دُور جانے والا ہر شخص آخر واپس آتاہے لیکن میرا بیٹا دور جانے والوں کے ساتھ ابھی تک نہ آیا۔ بہت زیادہ رونے سے میری آنکھیں چلی گئیں اور اس کی جدائی کے غم میں میرے دل کی آگ تیز ہو گئی۔ میں تو اس کی واپسی اور ملاقات کی تمنا کر رہی تھی لیکن لگتا ہے کہ میری اُمید بہت دور ہے۔”
وہ بزرگ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے آگے بڑھ کر کہا: ”اے کمزور اورغمگین بڑھیا! میرے پاس اس نوجوان کا خط ہے، وہ دُوری کا شکوہ کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اس شہر میں اس کے گھر والے ہیں،وہ اپنی والدہ کے دیدار کا بَہُت مشتاق تھا جو اس سے کافی محبت و مودّت رکھتی ہے۔” اس وقت اس بوڑھی خاتون نے ایک چیخ ماری اور کہنے لگی: ” اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم!یہ میرے ہی مسافر بیٹے کی صفت ہے ۔”اس نے مجھ سے خط لیا تاکہ اپنے شکستہ دل کو جوڑے۔ وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ وہ مجھے سے خط لے کر چومنے لگی اور اپنے دل اور آنکھوں پر رکھ کر پوچھا:”اے میرے پردیسی بیٹے کے قاصد! میرے محبوب بیٹے کا کیا ہوا؟” میں نے اسے بتایاکہ” وہ اپنے رب عَزَّوَجَلَّ سے جا ملاہے۔”جب اس نے سنا کہ اس کا بیٹا تنہا راہِ حق کا مسافر ہو گیا ہے توبہت زیادہ روئی پھر اپنا سر آسمان کی طرف اٹھاکرکہنے لگی :
”اے میرے مالک و مولیٰ عَزَّوَجَلَّ ! مجھے دنیا میں زندہ رہنا اس لئے پسند تھا کہ اپنے بیٹے سے ملاقات کی امید تھی لیکن اب مجھے دنیا میں رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔” پھر اس نے ایک زَور دارچیخ ماری اور زمین پر گر گئی اور اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کر دی ۔میں نے اس کی تجہیز و تکفین کا ارادہ کیا تو کوئی کہنے والاجس کی صورت نظرنہ آئی کہہ رہاتھا : ”اے شخص!ٹھہر جا، اس کا معاملہ تیرے ذمہ نہیں۔”