قیامِ حق کے لئے کوششیں:
قیامِ حق کے لئے کوششیں:
جب حضرت سیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کوئی برائی دیکھتے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نرمی سختی میں بدل جاتی، آنکھیں سُرخ ہو کر چڑھ جاتیں، رَگیں پُھول جاتیں اورجب بھی کوئی خلافِ شرع کام دیکھتے تو اس کا قلع قمع کر دیتے۔ ایک دن ایک شخص کے پاس کچھ آلاتِ لہو ولعب دیکھے تو اس سے لے لئے۔ اس نے اَنْجانے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو زور دار ضرب لگائی،اس کے باوجود آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان آلات کو توڑ دیااور گھر لوٹ آئے۔ اور اس شدَّتِ ضرب کی وجہ سے دو ماہ تک گھر میں تنہا رہے۔
حضرت سیِّدُنا خطیب بغدادی علیہ رحمۃاللہ الہادی ارشاد فرماتے ہیں: ”ایک مرتبہ حضرت سیِّدُناسفیان ثوری رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی بارگاہ میں عرض کی گئی کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ غیبت سے اتنے دُور رہتے ہیں کہ میں نے کبھی ان کو دشمن کی غیبت کرتے ہوئے بھی نہیں سنا۔تو آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! آپ اس معاملے میں بہت سمجھ دار ہیں کہ کسی ایسی چیز کو اپنی نیکیوں پر مُسلَّط کریں جوانہیں (دوسرے کے نامۂ اعمال میں) منتقل کردے۔” حضرت سیِّدُناعلی بن عاصم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا: ”اگر نصف اہلِ زمین کی عقلوں سے امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عقل کا موازنہ کیا جائے تو بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عقل زیادہ ہو گی۔”
(تاریخ بغداد،الرقم۷۲۹۷،النعمان بن ثابت ابوحنیفۃ التیمی،ماذکر من وفورعقل ابی حنیفۃ وفطنتہ وتلطفہ، ج۱۳، ص۳۶۱)
منقول ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہ حضرت سیِّدُناعلقمہ اور حضرت سیِّدُنا اسوَد رضی اللہ تعالیٰ عنہمامیں سے افضل کون ہے؟تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب میں فرمایا:”اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم !میں اس مقام پر نہیں کہ ان کا موازنہ کروں سوائے اس کے کہ ان کی عزَّت وعظمت کے پیشِ نظر ان کے لئے دُعا و اِسْتِغْفَار کرتا ہوں اور میں نہیں جانتا کہ ان میں افضل کون ہے۔ ”
(ربیع الابرار،باب التفاضل والتفاوت والاختلاف والاشتباہ وما قارب ذلک ووفاہ،ج۱،ص۳۵۳)