حکایت نمبر5: حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کی پاکدامنی
ایک مرتبہ رحمتِ عالم، نورِ مجسم ،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والد محترم حضرت سیدنا عبداللہ بن عبدالمطلب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہیں سفر پرجارہے تھے کہ راستے میں ایک یہودی عورت ملی جو اپنے مذہب کی کتابوں کو خوب جانتی تھی اور وہ کاہنہ بھی تھی،اس کانام ”فاطمہ بنت مُرّ ”تھا،بہت زیادہ حسین وجمیل اورپارساتھی، لوگ اس سے شادی کی خواہش کرتے تھے ،حسن و خوبصورتی میں اس کابہت چرچا تھا، جب اس کی نظر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر پڑی تو اسے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیشانی میں نورِ نبوت چمکتاہوا نظرآیا،وہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے قریب آکر کہنے لگی:”اے نوجوان! اگرتو مجھ سے ابھی مباشرت کرلے تو میں تجھے سو اونٹ دوں گی۔” یہ سن کر عفت وحیاکے پیکر حضرت سیدنا عبداللہرضی اللہ تعا لیٰ عنہ نے فرمایا:” مجھے حرام کام میں پڑنے سے موت زیادہ عزیز ہے اورحلال کام تیرے پاس نہیں یعنی تو میرے لئے حلال نہیں پھر میں تیری خواہش کیسے پوری کر سکتا ہو ں۔”
پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ واپس گھر تشریف لائے اور حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے صحبت فرمائی۔ چند دنوں کے بعد ایک مرتبہ پھرآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات اس عورت سے ہوئی، اس نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے چہرہ انور پر نورنبوت نہ پا کر پوچھا:”تم نے مجھ سے جدا ہونے کے بعد کیاکیا؟”آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”میں اپنی زوجہ کے پاس گیااور اس سے مباشرت کی۔”یہ سن کر وہ بولی:”خدا عزوجل کی قسم! میں بدکارہ نہیں لیکن میں نے تمہارے چہرے پر نورِنبو ت دیکھا تو میں نے چاہاکہ وہ نور مجھے مل جائے مگر اللہ عزوجل کوکچھ اور ہی منظورتھااس نے جہاں چاہا اس نور کو رکھا۔جب یہ بات لوگوں کو معلوم ہوئی توانہوں نے اس عورت سے پوچھا: ”کیا واقعی عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تجھے قبول نہ کیا ،کیاتونے اسے اپنی طرف دعو ت دی
تھی؟” یہ سن کر اس نے چند اشعار پڑھے ،جن کاترجمہ یہ ہے :
میں نے ایک بجلی دیکھی جس نے سیاہ بادلوں کو بھی جگمگادیا،اس بجلی میں ایسا نور تھاجوسارے ماحول کوچودھویں کے چاند کی طرح روشن کررہاتھا،میں نے چاہاکہ اس نور کوحاصل کرلوں تاکہ اس پر فخرکرتی رہوں مگرہر پتھر کی رگڑ سے آگ پیدانہیں ہوتی مگر اے عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ !وہ زُہری عورت (یعنی حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا)بڑی نصیب والی ہے جس نے تیرے دونوں کپڑے لے لئے وہ کیا جانے کہ اس نے کتنی عظیم چیز حاصل کر لی ہے۔ (یعنی حضرت سیدتنا آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے تم سے و ہ شہزادہ حاصل کر لیاجس کے وجود پردو چادریں ہیں: ایک حکومت کی اور دوسر ی نبوت کی) وہ عورت اکثر یہ اشعار پڑھاکرتی تھی ۔
(اس واقعہ سے رحمتِ عالم ،نورِ مجسَّم شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے والدِمحترم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاک دامنی کابخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ ایک نوجوان کوحسین وجمیل مال دار عورت گناہ کی دعوت دے اورصر ف گناہ کی دعوت ہی نہیں بلکہ سواونٹ بھی ساتھ دے لیکن پھر وہ غیرت مند اور عفت وحیاکاپیکر اپنی عزت کومحفوظ رکھنے کے لئے اس کی طرف بالکل بھی توجہ نہ دے اوراس کی دعوت کو ٹھکرادے،توکیایہ عمل پاکدامنی ،تقوی، پرہیزگاری اور خوفِ خدا عزوجل کی ایک اعلیٰ ترین مثال نہیں ؟یقینا یہ خوف خدا عزوجل کی بہترین مثال ہے ،ایسے مرد مؤمن کی پاکدامنی پرکروڑوں سلام۔
سیدی اعلیٰحضرت، امام اہلسنت،مجدد دین وملت، الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن نے”فتاوی رضویہ شریف” جلد ۳۰صفحہ ۲۷۰ پر حضور نبی ئرحمت،شافعِ امّت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّمکافرمانِ اقدس نقل فرمایا ،چنانچہ حضرت سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماسے مروی ہے، حضور نبئ پاک، صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : ” اللہ عزوجل مجھے ہمیشہ پاک ستھری پشتوں سے پاک رحموں میں منتقل فرماتا رہاصاف ستھرا آراستہ جب دو شاخیں پیدا ہوئیں ،میں ان میں بہتر شاخ میں تھا۔”
(بحوالہ کنز العمال،ج۱۲، ص۱۹۲،الحدیث:۳۵۴۸۴)
سبحان اللہ عزوجل صادق ومصدوق صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کاکلام بالکل بر حق ہے ۔اللہ عزوجل ان مبارک ہستیوں کے صدقے ہمیں بھی شرم وحیاکی عظیم نعمت سے مالامال فرمائے ۔)
(اللہ عزوجل کی اُن پر رحمت ہو..اور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)