islam
حضور شیخ الاسلام اخلاص کا پیکر
حضور شیخ الاسلام اخلاص کا پیکر
مفتی نورمحمد حسنی قادری
پورنپور پیلی بھیت
رب قدیر کاارشاد پاک ہے ’’کنتم خیرامۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر
(ترجمہ) تم بہتر ہوان سب امتیوں میں جو لوگ میں ظاہرہوئیں بھلائی کا حکم دیتے رہواور برائی سے منع کرتے رہو ۔
قرآن میں اللہ نے اپنے نیک صالحین بندوں کو اچھائی عام کرنے اور برائی کو روکنے کا حکم دیا۔مذکورہ آیت مقدسہ کی روشنی میںماہر علوم عقلیہ و نقلیہ ، متکلم و محدث جامع معقولا ت ومنقولات ، ادیب شہیر ،مفسر وفقیہ، ادیب ومحقق بحرِ علوم تحقیق شیخ الاسلام والمسلمین آقائی مولائی سیدی حضور علامہ سیدمحمدمدنی میاں صاحب قبلہ کی وہ مبارک ذات ہے جو مذکورہ آیت کریمہ پر عمل پیرا نظر آتی ہے ۔حضورشیخ الاسلام دورِ طالب علمی سے لے کراب تک خدمت دین متین میں مصروف رہے ہیں ۔آپ کا ذو ق مطالعہ اس قدت ہے اس کا اندازہ ڈاکٹر طارق سعید صاحب کی تحریر سے بخوبی معلوم ہوتاہے زمانہ طالب علمی کاایک واقعہ بیان کرنا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا شفیق جونپوری اردوشعریات میں اپنا ایک اہم مقام رکھتے ہیں ذی علم شخصیت کے مالک تھے ان کے بھائی نےایک عظیم الشان کتب خانہ سجا رکھا تھا ایک نایاب اس ذخیرے کی زینت تھی مولانا فضل امام جو مولانا فضل حق خیرآبادی کے والد بزرگوار تھے۔ علمِ منطق میں طاق تھے ان کی ایک شرط کے ساتھ کہ کتاب کامطالعہ کتب خانے میں کیا جائے مطالعہ کت شوقین مدنی میاں کے لئے یہ شرط خاص اہمیت نہیں رکھتی تھی انہوں نے لائبریری میں دوسے ڈھائی گھنٹہ روزانہ بیٹھنے کافیصلہ کیا۔اور طےکیا کہ کیوں نہ یہ کتاب نقل کر کے ہمیشہ کے لئے اپنے پاس محفوظ کر لی جائے طویل نششتوںکاتین دن تک سلسلہ چلا کہ مستقبل کے لئے اس عالم منطق وفلسفہ کو برادرزادہ شفیق نے کتاب ہی حوالے کردی اور کہاکہ اگر مجھے آپکے اس درجہ اشتیاق کی خبر پہلے ہوتی توآپ کو اتنی زحمت نہ اٹھانی پڑتی۔علم دوست اس پندرہ سالہ طالب علم نے تیسرے دن عربی زبان میں لکھی ادق منطقی کتاب کویہ کہہ کر لوٹا دیاکہ جناب یہ کتاب بطورمخطوطہ میرے پاس محفوظ ہوگئی اس کتاب کی نقل کتب خانہ محدث اعظم میں شایدموجود ہو۔ لیکن اصل نسخہ سیدمحمد مدنی میاں اشرفی جیلانی کے سینے کی امانت ضرور ہے۔(محدث اعظم نمبر جامِ نور)
حضورشیخ الاسلام کی مبارک اورمقدس ذات پاک بچپن سے لے کراب تک مذہب اسلام کے فروغ اور نصرت وحمایت میں صرف ہوئی ۔ حضور شیخ الاسلام اگر چہ کافی ضعیف ہوگئے ہیں مگر اسلام کی ترویج و اشاعت کا جذبہ اب بھی جواں ہے آپ 79 سال کے ہوگئے ضعیف ونقاہت کے بعد بھی تفسیراشرفی قلمبند فرماکر امت مسلمہ کو ایک عظیم تحفہ عنایت فرمایا۔ اللہ حضور شیخ الاسلام کو سلامت رکھے اورآپ کا علمی دنیا میں فیضان جاری وساری رہے۔
حضور شیخ الاسلام کےمحاسن اخلاق
حضور شیخ الاسلام جس طرح علم و تحقیق میں بے مثل و بے مثال ہیں اسی طرح اخلاق اورمہمان نوازی میں آپ کا مقام بہت اعلیٰ ہے کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ اپنے وقت کے شیخ الاسلام ہوتے ہوئے اس قدر عاجزی کہ انا کاشبہ بھی نظر نہیں آتا۔ضعیف و نقاہت کے اس عالم میں بھی عوام و خواص سے خندہ پیشانی کے کرم فرماتے نظر آتے ہیں
راقم نے حضور شیخ الاسلام کوغالباً2002 میں دیکھا ہوگا جب میں اور میرے چھوٹے بھائی مفتی ساجد حسنی صاحب قادری ، مولانا عبدالعظیم عابدقالین آبادی جب حضرت کے گھر گئے تو ماشاء اللہ خندہ پیشانی کے ساتھ دست بوسی کا شرف بخشا۔ میں یہ محسوس کر رہاتھا کہ حضرت اپنی زبان پاک سے اللہ اللہ کی ضرب لگا رہے ہیں میں یہ روحانی منظر دیکھ کر بہت دم بخود رہ گیا ۔جماعت اہل سنت کے عظیم قلمکار جومیرے مخلص دوست اور ساتھی بھی ہیں ابھی حال ہی میں فون پر بات ہوئی توفرمانے لگے کہ حضورمدنی میاں صاحب قبلہ ملاقات کا شرف حاصل ہوا اورایسی ملاقات کہ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اتنے عظیم محقق وفقیہ اورمشہور ومعروف خانقاہ کے سجادہ ہیں صرف مصافحہ ہوجائے یہی کافی ہے مگر جب حضرت سے ملاقات کا شرف حاصل ہواتو میں خلوص کی تمام خصوصیات کو آپ کی ذات پاک میں یکجا پایا۔ دست بوسی کے بعد حضرت نے خلافت واجازت سے نوازا اور خوب دعائیں دیں میں نے عرض کیا حضور کچھ وظائف کی بھی اجازت فرمادیں تو حضور نے فرمایا ’’مولانامیں نے تمہیں اسی میں سب کچھ دے دیا ۔سبحان اللہ‘‘
آپ کی ذات ایک ہمہ گیرشخصیت ہے آپ کے سامنے اصاغر تواصاغر اکابرینِ زمانہ بھی خمیدہ سر نظرآتے ہیں۔
حضورشیخ الاسلام کی علمی وتحقیقی گہرائی وگیرائی
جہاں تک فقیر کامحاسبہ ہے کہ ہر خانقاہ میں اختلاف رہتاہے کوئی نہ کوئی بات تحریر وتقریر اور قول وفعل سے سننے کو ملتی رہتی ہے مگرراقم نے کبھی بھی حضور شیخ الاسلام کی تقریر وتحریر ، گفتگو میں کسی خانقاہ یا کسی شیخ پر طنزکرتے نہ دیکھا نہ سنا اور نہ پڑھا۔ ایک مرتبہ حضور قائدِ ملت حضرت سید محمود اشرف اشرفی جیلانی ، جناب نعیم اشرفی صاحب (پورنپور پیلی بھوت)کے مکان پر تشریف لائے ہوئے تھے حضرت سے ملاقات کے لئے راقم اور برادرِ اصغر مفتی ساجد حسنی قادری حاضرہوئے دست بوسی کا شرف حاصل کیا پھر ناشتہ کے لئے حضرت نے اپنے قریب میں ہی جگہ عنایت فرمائی ،گفتگو کے دوران حضرت فرمانے لگے کہ حالات حاضرہ میں حضورسید محمدمدنی میاں نے فتویٰ ٹی وی پر دینی پروگرام کا دیا آج وہ لوگ بھی عمل کر رہے ہیں جو آپ کی مخالفت میں کپڑے پھاڑ رہے تھے حضرت نے فرمایا مولاناسیدمحمدمدنی میاں نے ٹی وی کو خود جائز قرار نہیں دیا بلکہ اپنی تحقیق و رائے ہندوپاک علماءو مفتیان کرام کے پاس بھیجااکثر حضرات نے اتفاق رائے کی مگر شیخ الاسلام کواس طرح بدنام غیر شرعی، غیر اخلاقی ، غیر انسانی فعل ہے۔