Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

تنگدست کوقرض کی ادائیگی میں مہلت دینے کی فضیلت

   قرض خواہ اگر تنگدست کو مہلت دے تو اس کے لئے عرش کے سائے ميں جگہ پانے کے متعلق بہت سی احاديث آئی ہيں، ان ميں سے چند درج ذيل ہيں :۔
(4)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو تنگدست کو مہلت دے يا اس کا قرض معاف کر دے اللہ عزوجل اسے قيامت کے اس دن اپنے عرش کے سائے ميں جگہ عطا فرمائے گا جس دن عرش کے سائے کے سوا کوئی سايہ نہ ہو گا۔”
     (جامع الترمذی ،ابواب البیوع، باب ماجاء فی انظار المعسر،الحدیث: ۱۳۰۶،ص۱۷۸۳)
 (5)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے تنگدست کو مہلت دی يا اس کا قرض معاف کر ديا اللہ عزوجل اسے اپنے عرش کے سائے ميں جگہ عطا فرمائے گا۔”
 (مجمع الزوائد،کتاب البیوع ، باب فیمن فرح عن ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث:۶۶۶۹،ج۴،ص۲۴۱)
 (6)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”قيامت کے دن اللہ عزوجل کے عرش کے سائے ميں جگہ پانے والا سب سے پہلا شخص وہ ہو گا جو تنگدست کو اتنی مہلت دے کہ وہ قرض اُتارنے کے قابل ہو جائے يا اپنا مطلوبہ قرض اس پر صدقہ کرکے کہہ دے :”ميرا تجھ پر جتنا قرض ہے وہ اللہ عزوجل کی رضا کے لئے صدقہ ہے اور قرض کی رسيد پھاڑ ڈالے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

      (المرجع السابق، الحدیث: ۶۶۷۰،ج۴،ص۲۴۱)
 (7)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے کسی مسلمان کی ايک پريشانی دور کی اللہ عزوجل قيامت کے دن اس کے لئے پل صراط پر نور کی ايسی دوشاخيں بنا دے گا جن سے اتنے عالم روشن ہوں گے جنہيں اللہ عزوجل کے سوا کوئی شمار نہيں کر سکتا۔”
       (المعجم الاوسط،الحدیث: ۴۵۰۴،ج۳،ص۲۵۴)
 (8)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص يہ چاہتا ہے کہ اس کی دعا قبول ہو اور پريشانی دور ہو اسے چاہے کہ تنگدست کی پريشانی دور کرے۔”
 (المسندللامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ ابن عمر، الحدیث: ۴۷۴۹،ج۲،ص۲۴۸)
 (9)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے کسی مسلمان کی دنيوی پريشانيوں ميں سے ايک پريشانی دور کی اللہ عزوجل ا س کی قيامت کے دن کی پريشانيوں ميں سے ايک پريشانی دور فرمائے گا اور جو شخص تنگدست کو دنيا ميں سہولت فراہم کریگا اللہ عزوجل اسے دنيا اور آخرت ميں آسانی عطا فرمائے گا، جو کسی مسلمان کی دنیا میں پردہ پوشی کریگا اللہ عزوجل دنیا اور آخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا اور اللہ عزوجل اس وقت تک بندے کی مدد ميں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے۔”
 (صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعا، باب فضل الاجتماع علی ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۶۸۵۳،ص۱۱۴۷)
 (10)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جس نے تنگدست کو مہلت دی اس کے لئے مہلت ختم ہونے تک روزانہ اتنی ہی رقم صدقہ کرنے کا ثواب ہے اور قرض کی وصولی کے دن بھی اگر مزید مہلت دے دی تو اسے روزانہ اتنی ہی رقم دو مرتبہ صدقہ کرنے کا ثواب ہے۔”
 (المستدرک،کتاب البیوع، باب من انظر معسراً۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۲۷۲،ج۲،ص۳۲۷)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (11)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جسے يہ بات پسند ہو کہ اللہ عزوجل اسے قيامت کی پريشانيوں سے نجات عطا فرمائے اسے چاہے کہ تنگدست کی پريشانی دورکرے يااس کے قرض ميں کمی کر دے۔”
   (صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ ، باب فضل انظارالمعسروالتجاوز۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۴۰۰۰،ص۹۵۰)
(12)۔۔۔۔۔۔سرکار ابدِ قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم سے پچھلی قوموں ميں سے ايک شخص کے پاس فرشتہ اس کی روح قبض کرنے آيا تو اس سے کہا :”کيا تم نے کوئی نيک عمل کيا ہے؟” اس نے کہا”ميں نہيں جانتا۔” اس سے کہا گيا :”سوچ لو (شايد ياد آجائے)۔”تو اس نے کہا :”ميں اور تو کچھ نہيں جانتا مگر ميں دنيا ميں لوگوں سے خريد و فروخت کيا کرتا تو خوشحال کو مہلت ديتا اور تنگدست سے چشم پوشی کيا کرتا تھا۔” تو اللہ عزوجل نے اسے جنت ميں داخل فرما ديا۔”
(المسند للاما م احمد بن حنبل،حدیث حذیفہ بن الیمان، الحدیث: ۲۳۴۱۳،ج۹،ص۹۸)
(13)۔۔۔۔۔۔ ایک اور روایت میں ہے :”میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا اور اپنے خدام کو حکم دے رکھا تھا کہ خوشحال افراد کو مہلت دیا کرواور تنگدستوں سے درگزر کیا کرو تو اللہ عزوجل نے بھی اپنے ملائکہ سے ارشاد فرمایا کہ تم بھی اس سے چشم پوشی کرو۔”
(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ ، باب فضل انظارالمعسر۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۳۹۹۳،ص۹۴۹)
(14)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں ايک ايسے بندے کو لايا جائے گا جسے اللہ عزوجل نے مال عطا فرمايا تھا، تو اللہ عزوجل اس سے دریافت فرمائے گا :”تو نے دنيا ميں کيا عمل کئے؟” پھر راوی نے يہ آيت پڑھی:
 وَلَا یَکْتُمُوۡنَ اللہَ حَدِیۡثًا ﴿٪42﴾
ترجمۂ کنز الایمان:اور کوئی بات اللہ سے نہ چھپا سکيں گے۔(پ5، النساء ،42)
    بندہ عرض کرے گا :”يا رب عزوجل! تو نے مجھے مال عطا فرمايا تھا ميں لوگوں سے خريد و فروخت کيا کرتا تھا اوردرگزر کرنا ميری عادت تھی، لہٰذا ميں فراخ دست کو آسانی فراہم کرتا اور تنگدست کو مہلت ديا کرتا تھا۔” تو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا :”ميں تجھ سے زيادہ اپنے بندے سے چشم پوشی کرنے کا حق رکھتا ہوں۔”
(صحیح مسلم، کتاب المساقاۃ ، باب فضل انظارالمعسر۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۹۹۶،ص۹۴۹)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(15)۔۔۔۔۔۔ ایک دوسری روایت میں ہے :”وہ اپنے خادم سے کہا کرتا تھا :”جب تیرے پاس کوئی تنگدست آئے تو اس سے چشم پوشی کیا کر شاید اللہ عزوجل ہم سے بھی چشم پوشی فرمائے۔” پھر جب وہ اللہ عزوجل سے ملا تو اللہ عزوجل نے اس سے چشم پوشی فرمائی۔”
  (صحیح البخاری، کتب احادیث الانبیاء،باب حدیث الغار،الحدیث: ۳۴۸۰،ص۲۸۴)
(16)۔۔۔۔۔۔ نسائی شریف کی روایت میں ہے :”جب میں اپنے خادم کو قرض وصول کرنے کے لئے بھیجتا تو اسے کہتا :”جو خوشحال ہو اس سے لے لو اور جو تنگدست ہو اسے چھوڑ دو اور چشم پوشی کرو شاید اللہ عزوجل ہم سے بھی چشم پوشی فرمائے۔” تو اللہ عزوجل اس سے ارشاد فرمائے گا :”میں نے بھی تجھ سے چشم پوشی کی۔”
(سنن النسائی ،کتاب البیوع،باب حسن المعاملۃ والرفق۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۴۶۹۸،ص۲۳۹۱)

تنبیہ:

    ميں نے جو بات ذکر کی کہ قرض خواہ کا اپنے مقروض سے مذکورہ سلوک کرناکبيرہ گناہ ہے تويہ بات بالکل ظاہر ہے اگرچہ علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کی تصريح نہيں کی مگر يہ عمل مسلمان کو ايسی سخت اساء پہنچانے ميں داخل ہے جس کی عموماً وہ طاقت نہيں رکھتا اور پہلی دو حديثوں کے مفہوم یعنی ”جو اپنے تنگدست مقروض کو مہلت نہ دے وہ جہنم کی گرمی سے نہ بچايا جائے گا۔”ميں سخت وعيد ہے اور اس سے اس عمل کو کبيرہ گناہ شمار کرنا مؤکد ہو جاتا ہے۔

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!