islam
لب و لہجہ کے شاعر عارف باللہ شیخ الاسلام سید اختر کچھوچھوی
ڈاکٹر رضوان انصاری
سیتامڑھی،بہار
لب و لہجہ کے شاعر
عارف باللہ شیخ الاسلام سید اختر کچھوچھوی
شعراء کے بارے میں اہل عرب کا بہت مشہور مقولہ ہے کہ الشعراء تلامیذالرحمن۔ جب کہ اہل ایران کا خیال ہے کہ ؎
’’شاعری جزو یست از پیغمبر‘‘
متذکرہ دونوں مقولوں سے قطعِ نظر اگر کسی بھی زبان کی قدیم و جدید شاعری یا کلام پر تنقیدی نظر ڈالی جائے تو دو پہلو اکثر شعراء کے کلام میں نظر آئیں گے۔ تعمیری یا تخریبی۔ اس زمرہ سے نعت، منقبت وغیرہ مثتثنیٰ ہیں۔
اسلام نے تعمیری فکر رکھنے والے شعراء کو خوش آمدید اور مرحبا کہا ہے البتہ تخیل کی پرواز میں سیر کرنیوالے تخریب یاشراب مجازی جنگل، بیابانوں میں سیر کرانے والے شعراء کو جہنم کا ایندھن بتایا ہے۔
چنانچہ رسول دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقعہ پر عرب کے مشہور شاعر امراء القیس جس نے اعلانِ نبوت سے چالیس سال پیشتر کا زمانہ پایا ہے۔ کے بارے میں ارشاد فرمایا کہ:
اشعر الشعراء و قائدھم الی النار۔ یعنی وہ شاعروں کا سرتاج ہے مگر جہنم میں ان سب کا سپرسپہ سالار بھی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کون سی خاص بات ایسی ہے جس کی وجہ سے امراء القیس کی شاعری کے بارے میں سرور دو جہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اس طرح ارشاد فرمایا۔ دراصل اس کا تمام کلام حسن و عشق سے بھرا ہوا ہے۔ شراب ارغوانی کی اہمیت، جاں گداز جذبوں، آندھیوں سے اڑی ہوئی پرانی بستیوں کے کھنڈروں کے مرثیوں، سنسان ریتیلے ویرانوں کے دل ہلادینے والے مناظر وغیرہ کی تصویریں ملتی ہیں۔ یہی عرب کے دور جاہلیت کی کل تخئیلی کائنات تھی۔ امراء القیس کی شاعری پر علامہ اقبال کی رائے ملاحظہ ہو:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حکیمانہ تنقید میں فنون لطیفہ کے اس اہم اصول کی توضیح فرمائی ہے کہ صنائع و بدائع کے محاسن اور انسانی زندگی کے محاسن یہ کچھ ضروری نہیں کہ یہ دونوں ایک ہی ہوں۔ یہ ممکن ہے کہ شاعر بہت اچھا شعر کہے لیکن وہی شعر پڑھنے والے کو اعلیٰ علیین کی سیر کرانے کے بجائے اسفل السافلین کا تماشا دکھاوے۔ شاعری دراصل ساحری ہے۔ اور اس شاعر پر حیف ہے جو قومی زندگی کے مشکلات و امتحانات میں دلفریبی کی شان پیدا کرنے کے بجائے وہ فرسودگی و انحطاط کو صحت اور قوت کی تصویر بناکر دکھا دے اور اس طور پر اپنی قوم کو ہلاکت کی طرف لے جائے۔ اس کا تو فرض ہے کہ قدرت کی لازوال دوتوں میں سے زندگی اور قوت کا جو حصہ اسے دکھایا گیا ہے اس میں اوروں کو بھی شریک کرے۔‘‘(مضامین اقبال، ص:76، مرتبہ تصدیق حسین تاج)
برخلاف امراء القیس کے سرزمین عرب کے ہی ایک دوسرے قبیلۂ بنوعیس کے نامور شار عنترہ کا یہ شعر حضور سرورِ کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جب سنا کہ:
و لقد ابیت علی الطویٰ و اظلہ
حتیٰ انال بہ کریم المالک
ترجمہ : (میں نے بہت سی راتیں محنت و مشقت میں بسر کی ہیں تاکہ میں اکلِ حلال کے قابل ہوسکوں) تو اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے خاطب ہوکر فرمایا کہ اِس شاعر کے دیکھنے کو میرا دل بے اختیار چاہتا ہے۔ سرورِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عنترہ کو جو عزت عطا فرمائی اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ عنترہ کا کلام زندگی دہندہ ہے۔ بولتی چالتی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ اس کا شعر برائے زندگی ہے۔ شاعری یا ادب کا مقصد بھی برائے زندگی ہونا چاہئے۔ وہی ادب زندہ رہا ہے اور مستقبل میں بھی زندہ رہے گا جس میں زندگی اور اس کی توانائی رہے گی۔
حضور سرور عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے شاعری سے اور شاعری سے متعلق جو ابدی پیغام دیا ہے وہ ہر زبان و ادب کے لئے دستور العمل ہے۔ چنانچہ حضرت حسان بن ثابت سے لے کر حضرت شیخ اسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی کچھوچھوی دامت برکاتہم العالیہ تک ثنا خوان رحمۃ للعالمین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ایک مقدس قافلہ ملتا ہے۔ جن میں حضرت حسان رضی اللہ تعالیٰ عنہ عربی زبان کے قادرالکلام شاعر ہیں تو حضرت جامیؔ، رومیؔ، سعدیؔ، عطارؔ، سنائیؔ اور خانقانیؔ وغیرہ شعراء نے فارسی زبان و ادب میں نعت نبی میں اپنی غلامی کا حق ادا کیا ہے۔ جب کہ اس میدان میں اردو زبان و ادب کے سرخیل سیدنا امام احمد رضاؔ خاں فاضل بریلوی ہیں جن کی نعتیہ شاعری پر مبنی کتاب ’’حدائق بخشش‘‘ ہے۔ قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ اعلیٰ حضرت نے اپنی کتاب کا نام بخشش کا ذریعہ نہیں قرار دیا۔
زیر نظر مقالہ جس ذات مجمع الصفات پر راقم الحروف خامہ فرسائی کی جرأت کررہا ہے۔ وہ دراصل سورج کو چراغ دکھانے کے مصداق ہے۔ بلکہ چراغ کے مثل قرار دینا بھی سراسر ناانصافی ہے۔
وہ شیخ الاسلام جن کا سلسلہ نسب سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم براہ راست ہے۔ جن کے علم و فضل اور ولایت کے مصدر حضرت سیدنا باب العلم ہوں۔ جو خطابت اور طریقت میں سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کا حقیقی جانشین اور وارث ہوں۔ جن کی سیادت، قیادت، طریقت، نجابت، ولایت، نورانیت، خطابت اور شرافت وغیرہ آپ اپنی نظیر ہوں۔ وہی تو حضور شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی دام ظلکم علینا والملتِ اسلامیہ ہیں۔
حضرت سیدنا شیخ الاسلام سید محمد مدنی اشرفی جیلانی جس طرح بے مثل و بے عدیل خطیب ہیں اسی طرح لاثانی مداح خیرالانام بھی ہیں۔ ان کو نعت گوئی اپنے والد حضور سید محدثِ اعظم ہند کچھوچھوی قدس سرہٗ سے ورثہ میں ملی۔ جو سیدؔ تخلق فرماتے تھے۔ آپ کا وصال 15رجب المرجب 1381ھ مطابق 25دسمبر 1941ء بروز دوشنبہ وقت 12:30 بجے دن ہوا۔ جن کا صرف ایک شعر نذر قارئین ہے کہ:
مدینے کا کچھ کام کرنا ہے سیدؔ
مدینے سے بس اس لئے جارہا ہوں
نعت گوئی کے لئے جن شعری محاسن کی ضرورت ہے۔ وہ تمام وکمال حضرت سیخ الاسلام کی ذات میں موجود ہیں۔ آپ میں سرورِ دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے عشق کا جذبۂ حقیقی ابدی اور ازلی ہے۔ ان میں بیک وقت مفتی، مقرر، صوفی، مفکر، متقی، زاہد، عابد شب زندہ دار، عالم باعمل، فاضل علوم مشرقیہ، ولی باکرامت اور عاشق رسول کے اوصاف جلوہ گر ہیں۔ آپ کی ولادت اور بچپن کی مصروفیت پر روشنی ڈالتے ہوئے ڈاکٹر سید طارق سعید صدر شعبہ اردو ساکیت پی۔ جی۔ کالج فیض آباد رقمطراز ہیں:
’اسی سرزمین سے سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی کی شخصیت کا آفتاب طلوع ہوتا ہے۔ تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ لیکن اصل تاریخ پیدائش 28؍اگست 1938ء ہے۔ والد محترم سید محمد محدث کچھوچھوی علیہ الرحمہ اور والدۂ ماجدہ سیدہ فاطمہ علیہ الرحمہ عنہا کی آغوش میں تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ ظاہر ہے لڑکپن کو کھیل، نام بھی نصیب نہ ہوا۔ اور شرارت ترس کر رہ گئی۔ اس بیچ مطالعہ نے اگر فرصت دی تو ذرا مشق سخن کرلیا اور جانا کہ شرارت ہوگئی۔ اس طرح 11-12سال کی عمر میں بوقتِ فراغت لفظوں کی بے تربیتی سے ایک خاص نوع کے آہنگ کی تخلیق بچپن کا سب سے عمدہ مشغلہ طے پایا اور یوں مولانا سید محمد مدنی اشرفی الجیلانی، اخترؔ کی بازیافت کرنے میں کامیاب رہے۔‘‘ (گلدستہ، صفحہ:13)
شیخ الاسلام حضرت سید محمد مدنی اشریف الجیلانی المتخلص اخترؔ کچھوچھوی جس طرح خطابت میں قرآن و احادیث کے اسرار و رموز نہایت برجستہ اور رواں اسلوب میں پیش کرکے ایمان و ایقان کی دائمی خوشبو سے عوام و خواص کے قلوب کو معطر فرماتے ہیں۔ اِسی طرح اپنے کلام سے اہل علم کو محو حیرت فرمادیا کہ ایسا فصیح و بلیغ کلام عصر حاضر میں منفرد اوصاف و کمالات کے حاصل عارف باللہ اور رسول کے ماسوا دوسرے کا قطعی نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کسی شاعر کے روبرو زانوئے ادب تہہ نہیں فرمایا بلکہ آپ حقیقی معنیٰ میں تلامیذالرحمن ہیں۔ اس لئے آپ کا تمام کلام روحانیت کا علمبردار بھی ہے اور بھینی بھینی خوشبو کا عظیم گلدستہ بھی۔
علامہ سید اخترؔ کچھوچھوی کو زبان و بیان پر مکمل قدرت حاصل ہے۔ وہ زندگی کی حقیقت سے پردہ کشائی میں قرآن و حدیث کو پیشِ نظر رکھتے ہیں۔ آپ نے بہت محتاط رہ کر شاعری کی ہے۔ ان کا کلام خالص اسلامی بلکہ قرآنی فکر و نظر کا ترجمان ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی تمام تر شاعری میں ایک ہی روح کارفرما نظر آتی ہے۔ چنانچہ اس حقیقت پر ان کے مندرجہ ذیل اشعار شاہد ہیں۔ ملاحظہ ہوں:
زندگی ہے بے نیاز زندگی ہونے کا نام
موت کہتے ہیں جسے وہ زندگی کا ہوش ہے
چھوڑ دوں گا میں آستانے کو سن تو لیجئے مرے فسانے کو
عشق کی اصطلاح میں ہمدم موت کہتے ہیں مسکرانے کو
اس روئے والضحیٰ کی صفا کچھ نہ پوچھئے
آئینۂ جمالِ خدا کچھ نہ پوچھئے
عرش کے تارے، فرش کے ذرے آمد سرور پہ کہہ اٹھے
جاء الحق و ذہق الباطل وان الباطل کان زہوقا
حضرت مولانا اخترؔ کچھوچھوی کے کلیات گلدستہ مرتبہ ڈاکٹر سید طارق سعید میں جابجا تلمیحات قرآنی نظر آتے ہیں۔ ایسا کیوں نہ ہو۔ کیونکہ آپ کا مطالعۂ قرآن پاک بڑا وسیع اور عمیق ہے۔ وہ غزل بھی کہتے ہیں تو نعت کے پیریہ میں ہی ہوتا ہے۔ عشقِ رسول کا جذبہ ہر شعر میں جلوہ گر نظر آتا ہے۔ ان کے کلام پر علامہ اقبال کا اثر ملتا ہے۔ آپ کی شاعری پر پروفیسر سید عبدالمجید بیدار کا خیال قابلِ توجہ ہے۔ ملاحظہ فرمائیے:
’’شاعر نے غزلیہ اور نظمیہ انداز کو روا رکھنے کے ساتھ ساتھ حمد ونعت و منقبت کے علاوہ غزل کے لب و لہجہ کا سہارا بھی لیا ہے۔ لیکن آپ کی شاعری کی یہ خوبی ہے کہ کہیں بھی سطحی و عامیانہ خیالات کی پیشکش اور رنگینی ورعنائی کی نمائندگی کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ غزل کی شاعری میں بھی حکیمانہ بصیرت کو شامل کرکے یہ ثابت کیا گیا ہے کہ بندۂ مومن کا دل جب خدا سے لو لگالیتا ہے تو پھر ہر موجود میں اسے جلوۂ خداوندی محسوس ہوتی ہے۔‘‘(حضرت شیخ الاسلام حیات و خدمات، صفحہ:151)
پروفیسر موصوف آگے چل کر تحریر فرماتے ہیں کہ
’’جس میں شاعر محترم نے علامہ اقبال کے رنگ سے بھی استفادہ کرکے فکر کی بالیدگی کا ایسا سامان فراہم کیا ہے کہ جس کے توسط سے شاعر کی الہامی فکر کی نشاندہی ہوتی ہے۔‘‘ (شیخ اسلام حیات و خدمات، صفحہ:152)
تلمیحات پر مبنی چند اشعار ’’گلدستہ‘‘ سے ملاحظہ ہوں:
نہ حسن ماہ نہ خورشید کے جمال میں ہے
جو بات میرے نبی آپ کے بلال میں ہے
جواب شل میں طلب کی رفاقتِ جنت
کمال ہوش ربیعہ ترے سوال میں ہے
مجھ سے مت پوچھ معراج کا واقعۂ ہے مشیت کے رازوں کا اک سلسلہ
دل کو ان کی رسائی پہ ایمان بھی عقل ایسی رسائی پہ حیران بھی
نفسی نفسی کے سوا جب نہ سجھائی دے گا
رب ہبلی کی صدا کوئی لگاتا ہوگا
کوئی بلال سے پوجھے، خبیب سے سمجھے
سزائے الفتِ سرکار کا مزا کیا ہے
حضرت شیخ الاسلام کی زندگی پیدائش سے تاہنوز قال اللہ و قال الرسول کی نورانی اور معطر فضائوں میں گزری ہے اور ان شاء اللہ مستقبل کے ایام بھی گزریں گے۔ آپ کی زندگی کا ہر لمحہ اسی فکر و خیال میں بسر ہوتا ہے۔ آپ کی زبان اور قلب روز و شب صرف اور صرف اللہ اور رسول کے ذکر سے ہی بے خود رہتے ہیں اس لئے جب نثر میں بیان فرماتے ہیں تو قرآن و احادیث مبارکہ کے اسرار و رموز سے عوام کے قلوب کو روشن و حیات سرمدی عطا فرماتے ہیں اور جب شعر و نغمہ کی دنیا میں سیر فرمانا شروع فرماتے ہیں تو دریا نہیں بلکہ سمندر کو معمولی سے کوزہ میں بند فرماکر دانشورانِ ادب کو سردھننے کے لئے مجبور فرمادیتے ہیں۔ بعض بعض اشعار کی فکر اتنا اعلیٰ و ارفع ہے کہ ان کی تشریح خود شیخ الاسلام حضرت اخترؔ صاحب مدظلہ کے سوا دوسرا کر ہی نہیں سکتا۔ الفاظ کا استعمال اس قدر ہنرمندی سے ہوا جیسے انگشتری میں خوبصورت نگینہ۔ چند اشعار نذر ہیں:
اختر نہیں ہے وقتِ جنوں ہوش کو سنبھال
سوء ادب ہے بولنا بزم خیال میں
نقاب ان کے روئے منور سے سرکا
زمانے نے سمجھا طلوع سحر ہے
سوا ان کے اٹھا پائے نہ کوئی
کمال ناتوانی چاہتا ہوں
اگر کل جان جاتی ہے تو یارب آج ہی جائے
سنا ہے قبر میں بے پردہ وہ تشریف لائیں گے
سمجھ لو عہد رسالت کے جاں نثاروں سے
یہ صدق کیا ہے صفا کیا ہے اور وفا کیا ہے
حضرت مولانا اخترؔ کچھوچھوی کے کلام میں صنائع و بدائع کے ساتھ ساتھ محاوروں کا برمحل استعمال ملتا ہے۔ ان سے کلام میں معنوی حسن میں اضافہ ہوا ہے اور قادرالکلام کا بھی پتہ چلتا ہے۔ زبان و بیان میں روانی قابل ستائش ہے۔ چند اشعار نذر ہیں۔
ہاتھ پر ہاتھ دھرے شکوۂ قسمت تک
کیا تجھے خوبیٔ تدبیر سے ڈر لگتا ہے
راس آئی نہ انہیں بندگیٔ ہوش و خرد
تیرے دیوانے بھی ہشیار نظر آتے ہیں
عقل ٖبھی انگشت دانتوں میں پکڑ کر رہ گئی
اس جنوٖبی میں خدا شاہد بلا کا ہوش ہے
وہ مسلم مارتا تھا ٹھوکریں جو تخت شاہی پر
وہ مارا مارا پھرتا ہے مثالِ بے نوا، سن لے
حضرت علامہ اخترؔ کچھوچھوی کے مجموعے کلام المعروف گلدستہ میں شہیدانِ کربلا کا ذکر بڑے والہانہ انداز میں ملتا ہے۔ ایسا ہونا ابرلازم بھی ہے۔ کیونکہ اُن سے آپ کا موروثی اور خاندانی تعلق ہے۔ حضرت علامہ موصوف نے جس فکری اسلوب میں اسلام کے ان جانثاروں کی شان میں گلہائے عقیدت پیش فرمائی ہے یقینا آپ کا ہی حصہ ہے۔ شعر ملاحظہ ہوں:
اے حسین ابن علی تری شہادت کو سلام
دینِ حق اب نہ کسی دور میں تنہا ہوکا
بجھائی تشنگی کربل کی اپنے خوں کے دھاروں سے
سخی کتنا حسینِ لیث اسد اللہ کا دل ہے
اللہ اللہ رے منظر کربلا
دیکھ کر آسماں تھر تھرانے لگا
حضرت شیخ الاسلام اختر کچھوچھوی کا شہیدانِ کربلا پر ایک قطعہ اور 25 اشعار پر مشتمل ایک نظم بھی ہے۔ پہلے قطعہ ملاحظہ فرمائیے اس کے بعد نظم سے چند شعر دیکھئے اور زبان و بیان کے ساتھ طرز اظہار کی داد دیجئے:
کاروانِ غم کی خونیں داستانوں کی قسم
کربلا کے بھوکے پیاسے میہمانوں کی قسم
ہے نہاں قتل حسینی میں حیاتِ جاوداں
بر لبِ جوئے رواں پیاسی زبانوں کی قسم
الفت کسے کہتے ہیں شبیر سے جا پوچھو
محبوب خدا کی اس تصویر سے جا پوچھو
ان کے علاوہ حضرت علامہ اختر کچھوجھوی کی ایک نظم ’’امتحانِ وفا‘‘ کے عنوان سے بھی ہے جس میں کل 4بند ہیں۔ ہر بند میں حضرت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شجاعت اور اوصاف جمیلہ کا ذکر ملتا ہے۔ نظم سے 3بند ملاحظہ ہوں:
سید عالم کا تھا محبوب و پیارا وہ حسین
حیدر کرار کا جو تھا دلارا وہ حسین
فاطمہ زہرا کا تھا جو ماہ پارا وہ حسین
اور حسن کے آسمان دل کا تارا وہ حسین
جارہا ہے سر کٹانے آج امت کے لئے
نرغۂ ظلم و ستم میں اس کی راحت کے لئے
گلشنِ اسلام کو جس نے نکھارا وہ حسین
آسمان صدق کا جو تھا منارا وہ حسین
کردیا باطل کو جس نے پارا پارا وہ حسین
گیسوئے ایمان کو جس نے سنوارا وہ حسین
جس نے خوں آشام تلواروں کو کچھ سمجھا نہیں
کہہ دیا کہ موت سے شیر خدا ڈرتا نہیں
بن گیا جو سطوتِ حیدر کا مظہر وہ حسین
نغمۂ حق جس نے گایا زیر خنجر وہ حسین
معرکوں میں مسکراتا تھا جو یکسر وہ حسین
تھا جو لخت خاطر محبوب داور وہ حسین
ختم کرنے جارہا ہے دین کی پژمردگی
گلشنِ اسلام کو بخشے گا تازہ زندگی
حضرت شیخ الاسلام نے بحر طویل اور سہل ممتنع دونوں میں شعر کہا ہے۔ بحر طویل میں اپنی بات کہنا یعنی مافی ضمیر کے اظہار کے لئے زیادہ آسان ہے۔ بہ نسبت سہل ممتنع کے۔ نعت گو کے لئے چھوٹی بحر میں شعر کہنا بڑا دشوار ہے۔
میرؔ تقی میرؔ (1810-1722) جو اقلیم سخن اور خدائے سخن کہا گیا ہے اس نے چھوٹی بحروں میں متعدد کامیاب غزلیں کہی ہیں۔ اس کے علاوہ دوسرے شعراء نے بہت کم ہی بحر سہل ممتنع میں غزلیں کہی ہیں۔ البتہ حضرت علامہ اختر صاحب مدظلہٗ نے دونوں بحروں میں بکثرت نعتیہ کلام نظم فرمایا ہے۔ دراصل ان کے پاس وافر مقدار میں الفاظ ہیں اور یہ الفاظ ہر وقت آپ کے روبرو دست بستہ کھڑے رہتے ہیں۔ جن کو آپ جب چاہتے ہیں استعمال فرماتے چلے جاتے ہیں۔ چند اشعار ملاحظہ ہوں:
عشقِ نبی پہ عصر کو قربان کردیا
کیسے کہوں نماز تمہاری قضا کئی
کوئے طیبہ کی یاد جب آئے
کیوں نہ پہلو میں دل تڑپ جائے
بول اٹھیں ان کی رحمتیں اختر
ہر مصیبت زدہ ادھر آئے
جو تم کو دیکھے خدا کو دیکھے
جو تم کو سمجھے خدا کو سمجھے
جو تم کو چاہے خدا کو چاہے
کہ مرأۃ حسن یار ہو تم
یہ مانا کوئی خلیل نکلا
کوئی کلیم جلیل نکلا
کوئی مسیح جمیل نکلا
حبیب پروردگار ہو تم
تخت شاہی نہ سیم و گہر چاہئے
یا نبی آپ کا سنگِ در چاہئے
کیا کروں گا میں رضواں تری خلد کو
آمنہ کے دلارے کا گھر چاہئے
اپنا دل عشقِ احمد سے معمور کر
رحمتِ کبریا تجھ کو گر چاہئے
وہ مری جان بھی، جان کی جان بھی میرا ایمان بھی روح ایمان بھی
مہبطِ وحی قرآن بھی اور قرآن بھی روحِ قرآن بھی
دوستو! وہ بھی مرنا ہے مرنا کوئی رشک کرتی ہو جس موت پر زندگی
خاک طیبہ میں میرے عناصر ملے عرش پر میری قسمت کا تارا گیا
ان کے کوچے میں مرکر یہ ظاہر ہوا کچھ نہیں فرش سے عرش کا فاصلہ
گود میں لے لیا رفعتِ عرش نے قبر میں جس گھڑی میں اتارا گیا
اسی نعت کا ایک شعر مزید ملاحظہ فرمائیے اور غور کرکے فیصلہ کیجئے کہ کس قدر فکر انگیز شعر ہے۔ نیز یہ کہ عنترہ کے شعر پر جو تنقید حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہے کیا اس کے عین مصداق یہ شعر ہے کہ نہیں:
جس میں پاسِ شریعت نہ خوفِ خدا وہ رہا کیا رہا وہ گیا کیا گیا
ایک تصویر تھی جو مٹادی گئی یہ غلط ہے مسلمان مارا گیا
حضرت شیخ الاسلام سیداختر صاحب مدظلہٗ کے مجموعہ کلام ’’گلدستہ‘‘ میں نعت، سلام اور منقبت کے علاوہ مختلف عناوین پر بھی نظمیں ملتی ہیں۔ جن پر ان شاء اللہ العزیز بعد میں الگ سے اظہار خیال کروں گا۔
حیرت ہوتی ہے کہ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے نعت گوئی کے ساتھ ساتھ درجنوں دیگر عنوانوں پر کیسے کیسے گل بوٹے کھلائے ہیں اور وہ کہاں سے اس طرح شعر کہنے کے لئے وقت نکال لیتے ہیں۔ جس کے لئے بہت سکون و اطمینان درکار ہیں۔ کونکہ آپ کی زندگی کا ہر ہر لمحہ بڑا قیمتی ہے۔ کیونکہ آپ کی راتیں تو افریقہ، لندن اور امریکہ کے بعد ہندوستان کے مختلف صوبہ جات کے شہروں میں عوام کی اصلاح اور قلوب کو روشن و منور کرنے میں گزرتی ہیں۔ اور دن سفر میں رہنا پڑتا ہے۔ اس جگہ پس یہی کہہ کر خاموش رہنا پڑتا ہے کہ:
ایں سعادت بزور بازو نیست
تا نہ بخشد خدائے بخشندہ
حاصل مطالعہ یہ ہے کہ حضرت علامہ شیخ الاسلام پر جب مقالہ لکھنے کے لئے قلم اٹھایا تو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ آخر کیا اور کیسے لکھوں؟ مگر یہ ان کا ہی فیض ہے کہ اب لکھنے سے قلم رکتا ہی نہیں ہے۔ اور دل کہتا ہے کہ لکھتے ہی چلا جائوں لکھتے ہی چلا جائوں۔ مگر مقالہ کی طوالت دامن گیر ہے۔ اس لئے اختصار سے کام لیا گیا ہے۔
حضرت علامہ سیداخترؔ صاحب کچھوچھوی کی نعت ہو یا منقبت یا بیانیہ شاعری ہوم سارا کلام آمد پر مبنی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو سچ ہوگا کہ الہامی شاعری ہے۔ ان کا کلام دیکھنے کے بعد بلاشبہ یہ کہنا پڑتا ہے کہ آپ ’’یقینا الشعراء تلامیذالرحمن‘‘ اور ’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘ کہے جانے کے حقیقی مصداق ہیں۔ آپ اسلامیات قرآن و احادیث کے زبردست عالم ربانی ہیں۔ اس لئے شیخ الاسلام کہنا ہی بجا ہے اور نعت گوئی میں یقینی طور پر حسان الہند کے حقیقی مستحق ہیں۔ میں اپنی بات حضور شیخ الاسلام کے ہی شعر پر ختم کرتا ہوں کہ:
لکھ رہا ہوں میں ثنائے شہ بطحا اخترؔ
لبِ جبریل نہ کیوں نوکِ قلم تک پہنچے