islam
زکوۃ کے اہم مسائل و فضائل
زکوٰۃ2ہجری میں روزوں سے قبل فرض ہوئی ۔
(الدرالمختار،کتاب الزکوٰۃ،ج۳،ص۲۰۲)
زکوٰۃ کی فرضیت کا انکارکرنا کیسا؟
زکوٰۃ کا فرض ہونا قرآن سے ثابت ہے ،اس کا اِنکار کرنے والا کافر ہے ۔
(ماخوذ ازالفتاویٰ الھندیۃ،کتاب الزکوٰۃ ،الباب الاول،ج۱،ص۷۰ ۱)
زکوٰۃ ادا کرنے کے16 فضائل وفوائد
(1)تکمیل ایمان کا ذریعہ
زکوٰۃ دینا تکمیل ِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔”
(الترغیب والترھیب ،کتاب الصدقات ،باب الترغیب فی اداءِ الزکوٰۃ،الحدیث۱۲، ج۱، ص۳۰۱ )
ایک مقام پر ارشاد فرمایا:”جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھتا ہو اسے لازم ہے کہ اپنے مال کی زکوۃ ادا کرے ۔”(المعجم الکبیر ،الحدیث ۱۳۵۶۱،ج۱۲،ص۳۲۴)
(2)رحمتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی برسات
زکوۃ دینے والے پر رحمتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کی چھماچھم برسات ہوتی ہے۔ سورۃُ الاعراف میں ہے :
وَ رَحْمَتِیۡ وَسِعَتْ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکْتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤْتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ
ترجمہ کنزالایمان: اور میری رحمت ہر چیز کو گھیرے ہے تو عنقریب میں نعمتوں کو ان کے لئے لکھ دوں گا جو ڈرتے اور زکوٰۃ دیتے ہیں ۔(پ۹،الاعراف۱۵۶)
(3)تقویٰ وپرہیزگاری کا حصول
زکوٰۃ دینے سے تقویٰ حاصل ہوتا ہے ۔قرآنِ پاک میں مُتَّقِیْن کی علامات میں سے ایک علامت یہ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
وَمِمَّا رَزَقْنٰہُمۡ یُنۡفِقُوۡنَ ۙ﴿۳﴾
ترجمہ کنزالایمان:اورہماری دی ہوئی روزی ميں سے ہماری راہ ميں اٹھائيں.(پ۱،البقرۃ:۳)
(4)کامیابی کا راستہ
زکوٰۃ دینے والا کامیاب لوگوں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں فلاح کو پہنچنے والوں کا ایک کام زکوٰۃ بھی گنوایا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوۡنَ ۙ﴿۱﴾الَّذِیۡنَ ہُمْ فِیۡ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُوۡنَ ۙ﴿۲﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوۡنَ ﴿ۙ۳﴾وَالَّذِیۡنَ ہُمْ لِلزَّکٰوۃِ فٰعِلُوۡنَ ۙ﴿۴﴾
ترجمہ کنزالایمان :بیشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں اور وہ جو کسی بیہودہ بات کی طرف التفات نہیں کرتے اور وہ کہ زکوٰۃ دینے کا کام کرتے ہیں۔(پ ۱۸،المؤمنون ۱تا۴)
(5)نصرتِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ کا مستحق
اللہ تعالیٰ زکوۃادا کرنے والے کی مدد فرماتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
وَ لَیَنۡصُرَنَّ اللہُ مَنۡ یَّنۡصُرُہٗ ؕ اِنَّ اللہَ لَقَوِیٌّ عَزِیۡزٌ ﴿۴۰﴾اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالْمَعْرُوۡفِ وَ نَہَوْا عَنِ الْمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾
ترجمہ کنزالایمان :اور بیشک اللہ ضرور مدد فرمائے گا اس کی جو اس کے دین کی مدد کریگا بیشک ضرور اللہ قدرت والا غالب ہے،وہ لوگ کہ اگر ہم انہیں زمین میں قابو دیں تو نماز برپا رکھیں اور زکوٰۃ دیں اور بھلائی کا حکم کریں اور برائی سے روکیں اور اللہ ہی کے لئے سب کاموں کا انجام۔(پ ۱۷،الحج:۴۰،۴۱)
(6)اچھے لوگوں میں شمارہونے والا
زکوۃادا کرنا اللہ کے گھروں یعنی مساجد کو آباد کرنے والوں کی صفات میں سے ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :
اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللہِ مَنْ اٰمَنَ بِاللہِ وَالْیَوْمِ الۡاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَاٰتَی الزَّکٰوۃَ وَلَمْ یَخْشَ اِلَّا اللہَ ۟ فَعَسٰۤی اُولٰٓئِکَ اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا مِنَ الْمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۸﴾
ترجمہ کنزالایمان :اللہ کی مسجدیں وہی آباد کرتے ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان لاتے اور نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے توقریب ہے کہ یہ لوگ ہدایت والوں میں ہوں ۔(پ۱۰،التوبۃ: ۱۸)
(7)اسلامی بھائیوں کے دل میں خوشی داخل کرنے کا ثواب
زکوٰۃ کی ادائیگی سے غریب اسلامی بھائیوں کی ضرورت پوری ہوجاتی ہے اور ان کے دل میں خوشی داخل ہوتی ہے ۔
(8) اسلامی بھائی چارے کا بہترین اظہار
زکوٰۃ دینے کا عمل اخوتِ اسلامی کی بہترین تعبیر ہے کہ ایک غنی مسلمان اپنے غریب اسلامی بھائی کو زکوۃ دے کر معاشرے میں سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ مہیا کرتاہے ۔ نیز غریب اسلامی بھائی کا دل کینہ وحسد کی شکارگاہ بننے سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کے غنی اسلامی بھائی کے مال میں اس کا بھی حق ہے چنانچہ وہ اپنے بھائی کے جان ،مال اور اولاد میں برکت کے لئے دعاگو رہتا ہے ،نبی پاک ،صاحبِ لولاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:”بیشک مؤمن کیلئے مؤمن مثل عمارت کے ہے،بعض بعض کو تقویت پہنچاتا ہے۔”
(صَحِیْحُ الْبُخَارِیْ،کتاب الصلوۃ،باب تشبیک الاصابع…الخ،الحدیث۴۸۱،ج۱،ص۱۸۱)
(9)فرمان ِ مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کا مصداق
زکوٰۃمسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ مضبوط بنانے میں بہت اہم کردار ادا کرتی ہے جس سے اسلامی معاشرے میں اجتماعیت کو فروغ ملتا ہے اور امدادِباہمی کی بنیاد پر مسلمان اپنے پیارے آقا مدینے والے مصطفی صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلّم کے اس فرمانِ عظیم کا مصداق بن جاتے ہیں :مسلمانوں کی آپس میں دوستی اوررحمت اور شفقت کی مثال جسم کی طرح ہے ،جب جسم کا کوئی عضو بیمار ہو تا ہے تو بخار اور بے خوابی میں سارا جسم اس کا شریک ہو تا ہے ۔
(صحیح مسلم ،کتاب البر والصلۃوالآداب،باب تراحم المؤمنین ..الخ،الحدیث۲۵۸۶،ص۱۳۹۶)
(10)مال پاک ہوجاتا ہے
زکوٰۃ دینے سے مال پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلّم نے فرمایا:”اپنے مال کی زکوٰۃ نکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے ،تجھے پاک کردے گی ۔” (المسندللامام احمد بن حنبل،مسند انس بن مالک ،الحدیث ۱۲۳۹۷،ج۴،ص۲۷۴)
(۱۱)بُری صفات سے چھٹکارا
زکوٰۃ دینے سے لالچ وبخل جیسی بُری صفات سے (اگر دل میں ہوں تو)چھٹکارا پانے میں مدد ملتی ہے اور سخاوت وبخشش کا محبوب وصف مل جاتا ہے ۔
(12)مال میں برکت
زکوٰۃ دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ مَاۤ اَنۡفَقْتُمۡ مِّنۡ شَیۡءٍ فَہُوَ یُخْلِفُہٗ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ ﴿۳۹﴾
ترجمہ کنزالایمان:اور جو چیز تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے والا۔”(پ۲۲،سبا:۳۹ )
ایک مقام پر ارشادہوتا ہے :
مَثَلُ الَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنۡۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیۡ کُلِّ سُنۡۢبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ ؕ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ ﴿۲۶۱﴾اَلَّذِیۡنَ یُنۡفِقُوۡنَ اَمْوَالَہُمْ فِیۡ سَبِیۡلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوۡنَ مَاۤ اَنۡفَقُوۡا مَنًّا وَّلَاۤ اَذًی ۙ لَّہُمْ اَجْرُہُمْ عِنۡدَ رَبِّہِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَیۡہِمْ وَلَا ہُمْ یَحْزَنُوۡنَ ﴿۲۶۲﴾
ترجمہ کنزالایمان:ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں،ہربال میں سودانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے ، وہ جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ،پھر دیئے پیچھے نہ احسان رکھیں نہ تکلیف دیں ان کا نیگ (انعام)ان کے رب کے پاس ہے اور انہیں نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم۔(پ۳،البقرۃ:۲۶۱،۲۶۲)
پس زکوٰۃ دینے والے کو یہ یقین رکھتے ہوئے خوش دلی سے زکوٰۃ دینی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو بہتر بدلہ عطا فرمائے گا ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:”صدقہ سے مال کم نہیں ہوتا ۔”(المعجم الاوسط ،الحدیث ۲۲۷۰،ج۱،ص۶۱۹)
اگرچہ ظاہری طور پر مال کم ہوتا لیکن حقیقت میں بڑھ رہا ہوتا ہے جیسے درخت سے خراب ہونے والی شاخوں کو اُتارنے میں بظاہر درخت میں کمی نظر آرہی ہے لیکن یہ اُتارنا اس کی نشوونما کا سبب ہے ۔ مُفسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان علیہ رحمۃ الحنّان فرماتے ہیں ،زکوٰۃ دینے والے کی زکوٰۃ ہر سال بڑھتی ہی رَہتی ہے۔ یہ تجرِبہ ہے۔ جو کسان کھیت میں بیج پھینک آتا ہے وہ بظاہِر بوریاں خالی کر لیتا ہے لیکن حقیقت میں مع اضافہ کے بھر لیتا ہے۔ گھر کی بوریاں چوہے، سُرسُری وغیرہ کی آفات سے ہلاک ہو جاتی ہیں یا یہ مطلب ہے کہ جس مال میں سے صَدَقہ نکلتا رہے اُس میں سے خرچ کرتے رہو ، اِن شاءَ اللہ عَزَّوَجَلَّ بڑھتا ہی رہے گا،کُنویں کا پانی بھرے جاؤ ، تو بڑھے ہی جائے گا۔( مرأۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج ۳ ص ۹۳)
(13) شر سے حفاظت
زکوٰۃ دینے والا شر سے محفوظ ہوجاتا ہے جیسا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے: ”جس نے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کردی بے شک اللہ تعالیٰ نے اس سے شر کو دور کردیا ۔”
(المعجم الاوسط،باب الالف من اسمہ احمد،الحدیث،۱۵۷۹،ج۱،ص۴۳۱)
(14)حفاظتِ مال کا سبب
زکوٰۃ دینا حفاظتِ مال کا سبب ہے جیسا کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے فرمایا:”اپنے مالوں کو زکوۃ دے کر مضبوط قلعوں میں کر لو اور اپنے بیماروں کا علاج خیرات سے کرو۔” (مراسیل ابی داؤد مع سن ابی داؤد ،باب فی الصائم یصیب اھلہ،ص۸ )
(15)حاجت روائی
اللہ تعالیٰ زکوٰۃ دینے والوں کی حاجت روائی فرمائے گا جیسا کہ نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلم نے فرمایا :”جو کسی بندے کی حاجت روائی کرے اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں اس کی حاجت روائی کریگا۔”
(صحیح مسلم ،کتاب الذکر والدعائ،باب فضل الاجتماع….الخ، الحدیث۲۶۹۹، ص۱۴۴۷)
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:”جو کسی مسلمان کودنیاوی تکلیف سے رہائی دے تو اللہ تعالیٰ اس سے قیامت کے دن کی مصیبت دور فرمائے گا ۔”
(جامع الترمذی ،کتاب الحدود،باب ماجاء فی السترعلی المسلم،الحدیث، ج۳، ص۱۱۵)
(16)دُعائیں ملتی ہیں
غریبوں کی دعائیں ملتی ہیں جس سے رحمتِ خداوندی اور مدد الہٰی عَزَّوَجَلَّ حاصل ہوتی ہے جیسا کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”تم کو اللہ تعالیٰ کی مدد اور رزق ضعیفوں کی برکت اور ان کی دعاؤں کے سبب پہنچتا ہے ۔”
(صحیح البخاری،کتاب الجہاد،باب عن استعان بالضعفاء،…الخ، الحدیث،۲۸۹۶، ج۲،ص۲۸۰)