islam
اُٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ کہ نورِباری حجاب میں ہے
اُٹھا دو پردہ دِکھا دو چہرہ کہ نُورِ باری حجاب میں ہے
زمانہ تاریک ہورہا ہے کہ مہر کب سے نقاب میں ہے
نہیں وہ میٹھی نگاہ والا خدا کی رحمت ہے جلوہ فرما
غضب سے اُن کے خدا بچائے جلال باری عتاب میں ہے
جلی جلی بُو سے اُس کی پیدا ہے سوزش عشقِ چشم والا
کبابِ آہُو میں بھی نہ پایا مزہ جو دل کے کباب میں ہے
اُنہیں کی بُو مایۂ سمن ہے اُنہیں کا جلوہ چمن چمن ہے
اُنہیں سے گلشن مہک رہے ہیں اُنہیں کی رنگت گلاب میں ہے
تِری جلو میں ہے ماہِ طیبہ ہلال ہر مرگ و زندگی کا!
حیات جاں کار کاب میں ہے ممات اعدا کا ڈاب میں ہے
سیہ لباسانِ دار دنیا و سبز پوشانِ عرش اعلیٰ
ہر اِک ہے ان کے کرم کا پیاسا یہ فیض اُن کی جناب میں ہے
وہ گل ہیں لب ہائے نازک ان کے ہزاروں جھڑتے ہیں پھول جن سے
گلاب گلشن میں دیکھے بلبل یہ دیکھ گلشن گلاب میں ہے
جلی ہے سوز جگر سے جاں تک ہے طالب جلوئہ مُبارک
دکھا دو وہ لب کہ آب حیواں کا لطف جن کے خطاب میں ہے
کھڑے ہیں مُنْکَر نَکِیْر سر پر نہ کوئی حامی نہ کوئی یاور!
بتا دو آکر مِرے پیمبر کہ سخت مشکِل جواب میں ہے
خدائے قہّار ہے غضب پر کُھلے ہیں بدکاریوں کے دفتر
بچا لو آکر شفیعِ محشر تمہَارا بندہ عذاب میں ہے
کریم ایسا مِلا کہ جس کے کُھلے ہیں ہاتھ اور بھرے خزانے
بتاؤ اے مفلِسو! کہ پھر کیوں تمہارا دل اِضطراب میں ہے
گنہ کی تاریکیاں یہ چھائیں اُمنڈ کے کالی گھٹائیں آئیں
خدا کے خورشید مہر فرما کہ ذرّہ بس اِضطراب میں ہے
کریم اپنے کرم کا صدقہ لئیمِ بے قدر کو نہ شرما
تُو اور رضاؔ سے حساب لینا رضاؔ بھی کوئی حساب میں ہے
٭…٭…٭…٭…٭…٭