islam
جنگِ خندق کی آندھی
حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نُصِرْتُ بِالصَّبَا وَاُھْلِکَتْ عَادُ بِالدَّبُوْرِ (بخاری جلد۲ ص۵۸۹ غزوۂ خندق) یعنی پُروا ہوا سے میری مدد کی گئی اور قوم عاد پچھوا ہو اسے ہلاک کی گئی۔(2)
اس کا واقعہ یہ ہے کہ غزوۂ خندق میں قبائل قریش و غطفان اور قریظہ و بنی النضیر کے یہود اور دوسرے مشرکین نے متحدہ افواج کے دل بادل لشکروں کے ساتھ مدینہ پر چڑھائی کر دی اور مسلمانوں نے مدینہ کے گرد خندق کھود کر ان افواج کے حملوں سے پناہ لی تو ان شیطانی لشکروں نے مدینہ کا ایسا سخت محاصرہ کر لیا کہ مدینہ کے اندر مدینہ کے باہر سے ایک گیہوں کا دانہ اور ایک قطرہ پانی کا جانا محال ہو گیا تھا۔ صحابۂ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ان مصائب و شدائد سے گو پریشان حال تھے مگر ان کے جوش ایمانی کے استقلال میں بال برابر فرق نہیں آیا تھا۔ ٹھیک اسی حالت میں نبی اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا یہ معجزہ ظاہر ہوا کہ پورب کی طرف سے ایک ایسی زور دار آندھی آئی جس میں کڑاکے کا جاڑا بھی تھا اوراس میں اس شدت کے جھونکے اور جھٹکے تھے کہ گردوغبار کا بادل چھا گیا۔ کفار کی آنکھیں دھول اور کنکریوں سے بھر گئیں ان کے چولہوں کی آگ بجھ گئی اور بڑی بڑ ی دیگیں چولہوں سے الٹ پلٹ کر دور تک لڑھکتی ہوئی چلی گئیں، خیموں کی میخیں اکھڑ گئیں اور خیمے اڑ اڑ کر پھٹ گئے، گھوڑے ایک دوسرے سے ٹکرا کر لڑنے لگے، غرض یہ آندھی کفار کے لئے ایک ایسا عذاب شدید بن کر ان پر مسلط ہو گئی کہ کفار کے قدم اکھڑ گئے ان کی کمر ہمت ٹوٹ گئی اور وہ فرارپر مجبور ہو گئے اور بدحواسی کے عالم میں سر پر پیر رکھ کر بھاگ نکلے۔ یہی وہ آندھی ہے جس کا ذکر خداوند قدوس نے اپنی کتاب مقدس قرآن مجید میں ان لفظوں کے ساتھ ارشاد فرمایا کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوۡا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیۡکُمْ اِذْ جَآءَتْکُمْ جُنُوۡدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیۡہِمْ رِیۡحًا وَّ جُنُوۡدًا لَّمْ تَرَوْہَا ؕ وَ کَانَ اللہُ بِمَا تَعْمَلُوۡنَ بَصِیۡرًا ۚ﴿۹﴾(1)
اے ایمان والو! اﷲ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب تم پر کچھ لشکر آئے تو ہم نے ان پر آندھی اور وہ لشکر بھیجے جو تمہیں نظر نہ آئے اور اﷲ تمہارے کاموں کو دیکھتا ہے۔(احزاب)