islam
بيع کی ممنوع صورتيں
کبيرہ نمبر186: منع الفحل
(یعنی نرجانورکو جفتی کے لئے دینے سے روکنا)
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا بريدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”کبیرہ گناہوں میں سب سے بڑے گناہ اللہ عزوجل کے ساتھ شريک ٹھہرانا، والدين کی نافرمانی کرنا، فالتو پانی اور نر کو روکناہے۔”
(مجمع الزوائد ،کتاب الایمان ، باب فی الکبائر ، الحدیث: ۳۹۷، ج۱ ، ص ۲۹۶)
تنبیہ:
علامہ جلال بلقينی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے کلام ميں اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے ليکن اس کے بعد انہوں نے کہا کہ اس حديث کی سند ضعيف ہے اور اس کانقصان دوسرے کبيرہ گناہوں کے نقصان کو نہيں پہنچتا اور حديث ميں اس کا ذکر مقدم ہونے کی وجہ سے ہم نے اسے ذکر کيا۔
يہ اس بات کی تائيد ہے کہ جفتی کے لئے نر کو عاريتاًدينے کی غايت يہ ہے کہ يہ مکروہ ہے اوراگر اسے صحيح کہا جائے تو اسے ايسی صورت پرمحمول کرناممکن ہے کہ اگر کسی گاؤں والے اپنے پاس نر نہ ہونے کی وجہ سے نر کے محتاج ہو گئے تو اس وقت نر کو لينا ضروری ہے کيونکہ مادہ کے پيدائش ميں ہی روحوں کی اور دودھ سے بدن کی زندگی ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ یہ سب مفت میں ہو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اعتراض:اگر آپ کہيں کہ يہاں پر کيسے اجارہ کا تصورکيا جا سکتا ہے حالانکہ نر کی نسل کو روکنے کے بارے ميں اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی صحيح حديث پاک موجود ہے اور اس نر کی نسل کو روکنے سے مراد اس کی جفتی کرنے کی تعداد يا مادۂ منويہ کی مقدار کی بيع ہے يا جفتی کرنے کی اُجرت لينا ہے؟
جواب:مَیں(مصنف رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ )کہتا ہوں: اس کی صورت ممکن ہے وہ يہ کہ مادہ جانور کا مالک معين مدت کے لئے معين مال کے بدلے نر اُجرت پر لے اگرچہ ايک گھڑی کے لئے ہی ہو، اس سے جو چاہے نفع اٹھا لے پس يہ اجارہ صحيح ہے جيسا کہ اجارہ کے باب ميں علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام کا قياس ہے اور وہ اس کے پورے منافع حاصل کریگا اگرچہ وہ اسے اپنے مادہ جانور سے جفتی کرائے کيونکہ جس چيز کا اسے قصداً اُجرت پر لينا جائز نہيں تبعاً جائز ہو جائے گا(يعنی جفتی کے لئے اجرت پر نہيں لے سکتا ليکن کلی اختيارات کے ساتھ اُجرت پر لينے کے بعد جفتی بھی کراسکتا ہے)۔