islam
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا
یہ امیر المؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نورِ نظر اور دخترنیک اختر ہیں۔ ان کی والدہ ماجدہ کا نام ”اُمِ رُومان” ہے یہ چھ برس کی تھیں جب حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے اعلانِ نبوت کے دسویں سال ماہ شوال میں ہجرت سے تین سال قبل نکاح فرمایا اور شوال ۲ ھ میں مدینہ منورہ کے اندر یہ کاشانہ نبوت میں داخل ہو گئیں اور نو برس تک حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صحبت سے سرفراز رہیں۔ ازواجِ مطہرات میں یہی کنواری تھیں اور سب سے زیادہ بارگاہ نبوت میں محبوب ترین بیوی تھیں۔ حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا ان کے بارے میں ارشاد ہے کہ کسی بیوی کے لحاف میں میرے اوپر وحی نازل نہیں ہوئی مگر حضرت عائشہ جب میرے ساتھ بستر نبوت پر سوتی رہتی ہیں تو اس حالت میں بھی مجھ پر وحی الٰہی اترتی رہتی ہے۔(1)
(بخاری جلد۱ ص۵۳۲ فضل عائشہ)
بخاری و مسلم کی روایت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے فرمایا کہ تین راتیں میں خواب میں یہ دیکھتا رہا کہ ایک فرشتہ تم کو ایک ریشمی کپڑے میں لپیٹ کر میرے پاس لاتا رہا اور مجھ سے یہ کہتا رہا کہ یہ آپ کی بیوی ہیں۔ جب میں نے تمہارے چہرے سے کپڑا ہٹا کر دیکھا تو ناگہاں وہ تم ہی تھیں۔ اس کے بعد میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر یہ خواب اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ہے تو وہ اس خواب کو پورا کر دکھائے گا۔(2)(مشکوٰۃ جلد۲ ص۵۷۳)
فقہ و حدیث کے علوم میں ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کے اندران کا درجہ بہت ہی بلند ہے۔ دوہزار دو سو دس حدیثیں انہوں نے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں۔ ان کی روایت کی ہوئی حدیثوں میں سے ایک سو چوہتر حدیثیں ایسی ہیں جو بخاری و مسلم دونوں کتابوں میں ہیں اور چون حدیثیں ایسی ہیں جو صرف بخاری شریف میں ہیں اور اڑسٹھ حدیثیں وہ ہیں جن کو صرف امام مسلم نے اپنی کتاب صحیح مسلم میں تحریر کیا ہے۔ ان کے علاوہ باقی حدیثیں احادیث کی دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔(1)
ابن سعد نے حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نقل کیا ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا فرمایا کرتی تھیں کہ مجھے تمام ازواجِ مطہرات پر ایسی دس فضیلتیں حاصل ہیں جو دوسری ازواجِ مطہرات کو حاصل نہیں ہوئیں۔
(۱)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میرے سوا کسی دوسری کنواری عورت سے نکاح نہیں فرمایا۔
(۲)میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جس کے ماں باپ دونوں مہاجر ہوں۔
(۳)اﷲ تعالیٰ نے میری برأ ت اور پاک دامنی کا بیان آسمان سے قرآن میں نازل فرمایا۔
(۴)نکاح سے قبل حضرت جبریل علیہ السلام نے ایک ریشمی کپڑے میں میری صورت لا کر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو دکھلا دی تھی اور آپ تین راتیں خواب میں مجھے دیکھتے رہے۔
(۵)میں اور حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں سے پانی لے لے کرغسل کیا کرتے تھے یہ شرف میرے سوا ازواجِ مطہرات میں سے کسی کو بھی نصیب نہیں ہوا۔
(۶)حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نمازتہجد پڑھتے تھے اور میں آپ کے آگے سوئی رہتی تھی اُمہات المؤمنین میں سے کوئی بھی حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی اس کریمانہ محبت سے سرفراز نہیں ہوئی۔
(۷)میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ایک لحاف میں سوتی رہتی تھی اور آپ پر خدا کی وحی نازل ہوا کرتی تھی یہ وہ اعزاز خداوندی ہے جو میرے سواحضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی کسی زوجہ مطہرہ کو حاصل نہیں ہوا۔
(۸)وفات اقدس کے وقت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو اپنی گود میں لئے ہوئے بیٹھی تھی اور آپ کا سر انور میرے سینے اور حلق کے درمیان تھا اور اسی حالت میں حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کا وصال ہوا۔
(۹)حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے میری باری کے دن وفات پائی۔
(۱۰)حضورِ اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی قبر انور خاص میرے گھر میں بنی۔(1)
(زرقانی جلد۳ ص۳۲۳)
عبادت میں بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا مرتبہ بہت ہی بلند ہے آپ کے بھتیجے حضرت امام قاسم بن محمد بن ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہم کا بیان ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا روزانہ بلاناغہ نماز تہجد پڑھنے کی پابند تھیں اور اکثر روزہ دار بھی رہا کرتی تھیں۔
سخاوت اور صدقات و خیرات کے معاملہ میں بھی تمام اُمہات المؤمنین رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں خاص طور پر بہت ممتاز تھیں۔ اُمِ دُرّہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کہتی ہیں کہ میں حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے پاس تھی اس وقت ایک لاکھ درہم کہیں سے آپ کے پاس آیا آپ نے اسی وقت ان سب درہموں کو لوگوں میں تقسیم کر دیا اور ایک درہم بھی گھر میں باقی نہیں چھوڑا۔ اس دن میں وہ روزہ دار تھیں میں نے عرض کیا کہ آپ نے سب درہموں کو بانٹ دیا اور ایک درہم بھی باقی نہیں رکھا تا کہ آپ گوشت خرید کر روزہ افطار کرتیں تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا کہ تم نے اگرمجھ سے پہلے کہا ہوتا تو میں ایک درہم کا گوشت منگا لیتی۔
حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما جو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے بھانجے تھے ان کا بیان ہے کہ فقہ و حدیث کے علاوہ میں نے حضرت عائشہ (رضی اﷲ تعالیٰ عنہا) سے بڑھ کر کسی کو اشعار عرب کا جاننے والا نہیں پایا وہ دوران گفتگو میں ہر موقع پر کوئی نہ کوئی شعر پڑھ دیا کرتی تھیں جو بہت ہی بر محل ہواکرتا تھا۔
علم طب اور مریضوں کے علاج معالجہ میں بھی انہیں کافی بہت مہارت تھی۔ حضرت عروہ بن زبیر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک دن حیران ہو کر حضرت بی بی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے عرض کیا کہ اے اماں جان! مجھے آپ کے علم حدیث و فقہ پر کوئی تعجب نہیں کیونکہ آپ نے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی زوجیت اور صحبت کا شرف پایا ہے اور آپ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی سب سے زیادہ محبوب ترین زوجہ مقدسہ ہیں اسی طرح مجھے اس پر بھی کوئی تعجب اور حیرانی نہیں ہے کہ آپ کو اس قدر زیادہ عرب کے اشعار کیوں اور کس طرح یاد ہو گئے؟ اس لئے کہ میں جانتا ہوں کہ آپ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی نور نظر ہیں اور وہ اشعار عرب کے بہت بڑے حافظ و ماہر تھے مگر میں اس بات پر بہت ہی حیران ہوں کہ آخر یہ طبی معلومات اور علاج و معالجہ کی مہارت آپ کو کہاں سے اور کیسے حاصل ہو گئی؟ یہ سن کر حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے فرمایا کہ حضور اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم اپنی آخری عمر شریف میں اکثر علیل ہو جایا کرتے تھے اور عرب و عجم کے اطباء آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے لئے دوائیں تجویز کرتے تھے اور میں ان دواؤں سے آپ کا علاج کیا کرتی تھی اس لئے
مجھے طبی معلومات بھی حاصل ہو گئیں۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے شاگردوں میں صحابہ اور تابعین کی ایک بہت بڑی جماعت ہے اور آپ کے فضائل و مناقب میں بہت سی حدیثیں بھی وارد ہوئی ہیں۔
۱۷ رمضان شب سہ شنبہ ۵۷ھ یا ۵۸ھ میں مدینہ منورہ کے اندر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا وصال ہوا۔ حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے آپ کی نماز جنازہ پڑھائی اور آپ کی وصیت کے مطابق رات میں لوگوں نے آپ کو جنت البقیع کے قبرستان میں دوسری ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن کی قبروں کے پہلو میں دفن کیا۔(1)(اکمال و حاشیہ اکمال ص۶۱۲ و زرقانی جلد۳ ص۲۳۴ تا ۲۳۵)