islam
کبيرہ نمبر138 اللہ تعالیٰ کے نام پرجنت کے سواکچھ اورمانگنا کبيرہ نمبر139: اللہ تعالیٰ کے نام پرمانگنے والے کو کچھ نہ د ينا
کبيرہ نمبر138 اللہ تعالیٰ کے نام پرجنت کے سواکچھ اورمانگنا
کبيرہ نمبر139: اللہ تعالیٰ کے نام پرمانگنے والے کو کچھ نہ د ينا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ميں نے حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا”جو اللہ عزوجل کے نام پر سوال کرے وہ ملعون ہے اور جس سے اللہ عزوجل کے نام پرسوال کيا جائے اور وہ سوال کرنے والے کو نہ دے جبکہ وہ کسی بُری چيز کا سوال نہ کرے تو وہ بھی ملعون ہے۔”
(مجمع الزوائد، کتاب الادعیۃ، باب السوال بوجہ اللہ الکریم، الحدیث: ۱۷۲۴۱،ج۱۰،ص۲۳۴)
(2)۔۔۔۔۔۔سرکار ابدِ قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل کے نام پرجنت کے علاوہ کچھ نہ مانگا جائے۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب الزکوٰۃ ، باب کراہیۃ المسألۃ بوجہ اللہ ،الحدیث: ۱۶۷۱،ص۱۳۴۷)
(3)۔۔۔۔۔۔حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو اللہ عزوجل کے نام پرمانگے وہ ملعون ہے اور جس سے اللہ عزوجل کے نام پرسوال ہو اور وہ سوال کرنے والے کو کچھ نہ دے تو وہ بھی ملعون ہے۔” (المعجم الکبیر، الحدیث: ۹۴۳،ج۲۲،ص۳۷۷)
(4)۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”کيا ميں تمہيں بدترين مصيبت و آزمائش والے شخص کے بارے ميں نہ بتاؤں؟” صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی،”کيوں نہيں،يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! (ضرور بتائیے) ”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”جس سے اللہ عزوجل کے نام پر سوال کيا جائے اور وہ عطا نہ کرے۔”
(المسندللامام احمد بن حنبل، مسند ابی ہریرہ،الحدیث:۹۱۵۳،ج۳،ص۳۵۴،”بشرالبلیۃ”بدلہ”بشرالبریۃ”)
(5)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ معظم ہے :”جو اللہ عزوجل کے نام پر سوال کرے اسے عطا کرو، جو تمہاری دعوت کرے اس کی دعوت قبول کرو اور جو تمہارے ساتھ بھلائی کرے اس کا بدلہ دو، اگر تم اس کا بدلہ دينے کی استطاعت نہ رکھو تو اس کے لئے دعا کرو یہاں تک کہ تمہيں يقين ہو جائے کہ تم نے اس کا بدلہ دے ديا۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب الزکوٰۃ ، باب عطیۃ من سأل باللہ،الحدیث:۱۶۷۲،ص۱۳۴۸)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(6)۔۔۔۔۔۔اللہ کے محبوب،دانائے غیوب،منزہ عن العیوب عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ایک بارارشادفرمایا :”کيا ميں تمہيں حضرت خضر (علیہ السلام )کے بارے ميں نہ بتاؤں؟” صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی،”کيوں نہيں،يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! (ضرور بتائیے) ” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمايا:”ايک دن وہ بنی اسرائيل کے بازار سے گزر رہے تھے کہ ان پر ايک مکاتَب غلام۱؎ کی نظرپڑی تواس غلام نے ان سے عرض کی،”مجھ پر صدقہ کيجئے، اللہ عزوجل آپ (علیہ السلام )کو برکت عطا فرمائے۔” حضرت سیدنا خضر(علیہ السلام )نے ارشاد فرمايا:”ميں اللہ عزوجل پر ايمان رکھتا ہوں کہ جو معاملہ وہ چاہے وہی ہوتا ہے لہذا اس وقت میرے پاس تمہیں دینے کے لئے کچھ نہیں۔” مسکين بولا،”ميں نے آپ علیہ السلام سے اللہ عزوجل کے نام پر سوال کیا تھا کہ مجھ پر صدقہ کيجئے کيونکہ ميں نے آپ علیہ السلام کے چہرے پر سخاوت کے آثار ديکھے تھے اور ميں آپ علیہ السلام کے پاس برکت کی اُميد بھی رکھتا ہوں۔” حضرت خضر علیہ السلام نے اس سے ارشاد فرمايا:”میرا اللہ عزوجل پر ايمان ہے (اس وقت) ميرے پاس تمہيں دينے کے لئے کچھ نہيں ،ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ تم مجھے لے جا کر بيچ دو۔” مسکين نے پوچھا:”کياايسا کرنا درست ہو گا؟” حضرت خضر علیہ السلام نے ارشاد فرمايا:”ہاں! ميں تم سے کہہ رہا ہوں کیونکہ تم نے ايک عظيم وسيلہ سے سوال کيا ہے لہذا ميں تمہيں اپنے رب عزوجل کے نام پر رسوا نہيں کروں گا، مجھے بيچ دو۔”
نبئ کريم،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم ارشاد فرماتے ہیں کہ ”پھر وہ مسکين انہيں بازار لے گيا اور 400درہم ميں بيچ ديا، وہ ايک مدت تک اس خريدار کے ہاں يوں ہی ٹھہرے رہے کہ وہ ان سے کوئی کام نہ ليتا تھا ایک دن آپ(علیہ السلام ) نے اس سے فرمايا:”تم نے مجھے کام کرانے کے لئے خريدا ہے لہذا مجھے کسی کام کا حکم دو۔” تو اس نے کہا :”ميں آپ(علیہ السلام ) کومشقت ميں ڈالنا پسند نہيں کرتا، آپ(علیہ السلام ) بہت عمر رسيدہ اور ضعيف ہيں۔” آپ(علیہ السلام ) نے ارشاد فرمايا:”مجھے مشقت نہيں ہو گی۔” وہ بولا”اٹھیں اور يہ پتھر يہاں سے منتقل کر دیں۔” وہ پتھر چھ آدمی پورے ايک دن ميں ہی منتقل کر سکتے تھے، پھر وہ شخص کسی کام سے چلا گيا جب واپس آيا تو اس وقت تک پتھر وہاں سے منتقل ہو چکے تھے، اس نے کہا:”آپ( علیہ والسلام) نے بہت اچھا کيا، خوب کيا اور ميں جس کام کی آپ (علیہ السلام ) ميں صلاحيت نہيں سمجھتا تھا آپ(علیہ السلام ) نے اسے کر دکھايا۔”پھر اس شخص کو ایک سفر در پيش آيا تو اس نے آپ(علیہ السلام ) سے کہا:”ميں آپ(علیہ السلام) کو امانت دارسمجھتا ہوں اُمید ہے کہ ميرے بعد ميرے اہلِ خانہ کيلئے اچھے نگہبان ثابت ہوں گے۔” آپ(علیہ السلام ) نے ارشاد فرمايا:”مجھے کسی کام کا حکم دے جاؤ۔” اس نے کہا:”ميں آپ(علیہ السلام ) کو مشقت ميں ڈالنا پسند نہيں کرتا۔” آپ(علیہ السلام ) نے ارشاد فرمايا:”مجھے مشقت نہيں ہو گی۔”اس نے کہا:”پھر ميری واپسی تک ميرے گھر کے لئے اينٹيں بناتے رہیں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
رسولِ اکرم، شفيعِ معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے مزیدارشاد فرمایا :”پھر وہ شخص سفر پر چلا گيا، جب وہ واپس آيا تو آپ (علیہ السلام ) اس کے لئے اينٹيں بنا چکے تھے وہ بولا:”ميں آپ (علیہ السلام ) سے اللہ عزوجل کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ (علیہ السلام ) کا ماجرا اور معاملہ کيا ہے؟” آپ(علیہ السلام ) نے ارشاد فرمايا:”تم نے مجھے اللہ عزوجل کا واسطہ دے کر پوچھا ہے اور اللہ عزوجل کے واسطے ہی نے مجھے اس غلامی ميں ڈالا ہے۔” پھر فرمايا:”ميں تمہيں اپنے بارے ميں بتاتاہوں کہ ميں کون ہوں، مَیں وہی خضر (علیہ السلام )ہوں جس کا تذکرہ تم سن چکے ہو، مجھ سے ايک مسکين نے صدقہ کا سوال کيا اس وقت ميرے پاس کوئی ايسی چيز نہ تھی، پھر جب اس نے اللہ عزوجل کا واسطہ دے کر مجھ سے مانگا تو ميں نے اسے خود پر اختيار دے ديالہٰذا اس نے مجھے بيچ ديا اور ميں تمہيں يہ بتا رہا ہوں کہ جس سے اللہ عزوجل کا واسطہ دے کر مانگا جائے پھر وہ سائل کو قدرت کے باوجود خالی لوٹا دے، اسے قيامت کے دن اس حالت ميں کھڑا کيا جائے گاکہ اس کی جلد پر گوشت نہ ہو گا اور و ہ زور زور سے آوازيں نکال رہا ہو گا۔”
اس شخص نے کہا:”ميں اللہ عزوجل کی پناہ چاہتا ہوں، اے اللہ عزوجل کے نبی علیہ السلام ! ميں نے آپ علیہ السلام کو مشقت ميں ڈالا۔” آپ علیہ السلام نے ارشاد فرمايا:”کوئی حرج نہيں تم نے بہت اچھا کيا، خوب کيا۔” تو اس آدمی نے عرض کی:”ميرے ماں باپ آپ علیہ السلام پر قربان! ميرے اہل ومال کے لئے جو چاہيں حکم فرمائيں يا آزادی اختيار فرمائيں میری طرف سے آپ علیہ السلام کاراستہ کھلاہے۔” حضرت خضر(علیہ السلام ) نے ارشاد فرمايا”ميں يہ چاہتا ہوں کہ تم مجھے جانے دو تا کہ ميں اپنے رب عزوجل کی عبادت کر سکوں۔” تو اس نے آپ(علیہ السلام )کو رخصت کردیا، آپ نے دعا فرمائی: ”اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْۤ اَوْثَقَنِیْ فِی الْعُبُوْدِيَّۃِ ثُمَّ نَجَانِیْ مِنْھَا یعنی تمام تعریفیں اللہ عزوجل ہی کے لئے ہيں جس نے مجھے غلامی ميں ڈالا پھر اس سے نجات عطا فرمائی۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۷۵۳۰،ج۸،ص۱۱۳)
تنبیہ:
ان دونوں گناہوں کو کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنے کی وجہ صحيح حدیثِ پاک ميں ان پر وارد لعنت ہے اور دوسرا يہ کہ جس سے اللہ عزوجل کے نام پر سوال کيا جائے اور وہ عطا نہ کرے تو وہ لوگوں ميں بدترين شخص ہے جيسا کہ بعد والی حدیثِ پاک ميں ہے، مگر ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس سے استدلال نہيں کيا بلکہ ان دونوں کاموں کو مکروہ قرار ديا ہے اور کبيرہ تو درکنار انہيں حرام بھی نہیں قرارديا اور حدیثِ پاک ميں”سائل کو نہ دینے” پرواردوعیدکو اس پر محمول کرنا بھی ممکن ہے کہ یہاں مراد وہ سائل ہے جو انتہائی مجبور ہو۔
اس پر نص وارد کرنے کی حکمت يہ ہے کہ اللہ عزوجل کے نام پر سوال کرنا اور مجبور ہونے کے باوجودسائل کو نہ دينا قبيح ترين اَمر ہے اورحکمِ منع کوسوال پر محمول کرنا بھی ممکن ہے جبکہ وہ مانگنے ميں اصرار کرے اور اللہ عزوجل کے نام پر کثرت سے سوال کرے يہاں تک کہ جس سے سوال کيا جائے وہ مجبور ہو جائے اور اسے تکليف دے تو اس صورت ميں دونوں پر لعنت ہو گی اور دونوں کا کبيرہ ہونا ظاہر ہے اور ہمار ے اصحابِ شوافع رحمہم اللہ تعالیٰ نے بھی اس کا انکار نہيں کيا بلکہ ان کا کلام محض اللہ عزوجل کے نام پر سوال کرنے اور اس طرح سوال کرنے والے کو کچھ نہ دينے کے بارے ميں ہے، حالتِ اضطرار کی قيد نہيں اور اس سے ہمارے ائمہ کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے کلام اور گذشتہ احادیثِ پاک ميں تطبيق واضح ہو جاتی ہے۔
سیدنا حليمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی کتاب ”مِنْھَاج ”ميں لکھتے ہيں :”کوئی گناہ ايسا نہيں جس ميں صغيرہ اور کبيرہ نہ ہو اور کبھی کسی قرينہ کے ملنے سے صغيرہ کبيرہ بن جاتاہے اور کبھی کبيرہ فاحشہ کسی قرينہ کے ملنے کی وجہ سے صغيرہ بن جاتاہے، مگر يہ کہ اللہ عزوجل کی ذات کے ساتھ کفر نہ ہو کيونکہ يہ کبيرہ ترين ہے اور اس نوع کا کوئی گناہ صغيرہ نہيں۔”پھر فرماتے ہيں :”زکوٰۃ ادانہ کرنا کبيرہ گناہ ہے اور سائل کو عطا نہ کرنا صغيرہ ہے اور اگر سائل کو نہ دينے اور زکوٰۃ ادا نہ کرنے کو جمع کر دیا جائے يا پھر دينا ايک کی طرف سے ہو لیکن وہ روکنے ميں سختی اور جھڑکی سے کام لے تو يہ بھی کبيرہ ہوگا،اسی طرح اگر محتاج نے کسی آدمی کو ديکھا جو کھانے پر وسعت رکھتا ہو پس اس نے اس کی طرف اپنے آپ کو مائل کيا اور اس سے مانگا ليکن اس نے نہ ديا تو يہ بھی کبيرہ گناہ ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اعتراض: علامہ اذرعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس کلام کہ”سائل کو لوٹانا صغيرہ گناہ ہے اور محتاج کے مانگنے پر خوشحال کا نہ دينا کبيرہ گناہ ہے۔”پراعتراض کرتے ہوئے فرمایا:” ان دونوں ميں اشکال ہے مگر يہ کہ ان کی تاويل کی جائے اور سیدنا حليمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے کلام ميں تاويل کی گنجائش نہيں۔”
جواب:سیدنا جلال بلقينی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے اس کا جواب يہ دياکہ ميں کہتا ہوں :” دوسرا کلا م مجبور کے بارے ميں ہے اور پہلا کلام ایسے شخص سے مانگنے والے کے بارے ميں ہے جس پر زکوٰۃ فرض ہے،اوروہ ايسے شہر ميں ہو جس کے فقراء قيدمیں ہوں۔” پس سیدنا حليمی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے کلام کی تاويل کرتے ہوئے سیدناجلال بلقينی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے جو ذکر کيا وہ ميرے مؤقف کی تائيد ميں واضح ہے۔
ہاں! سیدناجلال بلقينی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کا اطلاق يہ ہے کہ جو بعد ميں مذکور ہوا وہ صغيرہ ہے يہ توديکھنے ميں بھی ظاہرہے،بے شک جب انہوں نے ان کو تين قسموں ميں شمار کيا تو سب سے کم درجہ ان لوگوں کا ہے جو مکمل طور پر زکوٰۃ کے مالک ہو گئے لہٰذااس صورت ميں ان ميں سے کسی کا نہ دينا بلاشبہ کبيرہ ہے اور اگراس ميں حصرکريں تويہ مالک پرتمام کوگھيرنے کے وجوب کا تقاضا کرتا ہے کہ و ہ مال پورااداکرے غورکروکہ اس وقت روکنا صغيرہ ہو گا کيونکہ عمومی طور پر اس پر واجب ہے ليکن وہ مکمل طور پر مالک نہيں ہوتے لہٰذا نہ دينا صغيرہ ہو گا کبيرہ نہيں اور علامہ جلال بلقينی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام اسی حالت کے بارے ميں ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
۱ ؎ : صدرالشریعہ،بدرالطریقہ مفتی محمدامجدعلی اعظمی علیہ رحمۃ اللہ القوی مکاتب غلام کے بارے میں فرماتے ہیں:”آقااپنے غلام سے مال کی ایک مقدارمقررکرکے یہ کہہ دے کہ اتنااداکردے توآزادہے اورغلام اسے قبول بھی کرلے اب یہ مکاتب ہوگیاجب کُل اداکردے گاآزادہوجائے گااورجب تک اس میں سے کچھ بھی باقی ہے غلام ہی ہے ۔” (بہارِشریعت،ج۱،حصہ ۹،ص۹)