islam
مال کی آفات:
مال کی آفات:
مال کی دينی و دنيوی آفتيں بھی بہت سی ہيں۔
دينی آفتيں:
(۱)۔۔۔۔۔۔دينی آفتيں مثلاًمال انسان کو گناہ پر ابھارتا ہے کيونکہ کسی کا گناہ پر قدرت نہ پانا عصمت ميں سے ہے، نفس جب کسی گناہ پر قدرت کا شعور پا ليتا ہے تو اس کے دواعی بھی اس کی جانب مائل ہو جاتے ہيں اور اس کے بعد وہ اس وقت تک قرار نہيں پاتا جب تک اس گناہ کا ارتکاب نہ کر لے۔
(۲)۔۔۔۔۔۔مال انسان کو مباح لذتوں کی طرف لے جاتا ہے يہاں تک کہ وہ ان کا اس قدر عادی ہو جاتا ہے کہ انہيں چھوڑنے پر قدرت نہيں پاتا يہاں تک کہ اگر وہ کوشش يا حلال کمائی کے ذريعے انہيں حاصل نہ کرسکے تو حرام کام بھی کرنے لگتا ہے کيونکہ جس کے پاس مال کثرت سے ہو وہ لوگوں سے ميل جول اور تعلقات بڑھانے کازیادہ محتاج ہو جاتا ہے اور جواس چیز میں مبتلا ہوگیا وہ یقینا لوگوں سے منافقت سے پیش آئے گا اور انہیں راضی یا ناراض کرنے کی خاطراللہ عزوجل کی نافرمانی کا مرتکب ہوگا تو اس کے نتیجے میں وہ عداوت، کینہ، حسد، ریاکاری، تکبر، جھوٹ، غیبت، چغلی اور ان کے علاوہ لعنت و ناراضگی کے موجب کئی برے اخلاق میں مبتلا ہوگا۔
(۳)۔۔۔۔۔۔مال ان اُمور ميں مبتلا ہونے کا سبب بھی بن جاتا ہے جن سے کوئی مال دار نہيں بچ سکتا یعنی مال کی اصلاح اور اس ميں اضافے کی فکر کے سبب اللہ عزوجل کے ذکر اور اس کی رضا کے کام سے غافل ہو جانا اور ہر وہ شئے جو اللہ عزوجل کے ذکر سے غافل کر دے وہ نحوست اور کھلا خسارہ ہے اور يہ ایک نہايت سخت بيماری ہے کيونکہ عبادت کی اصل اور اس کا راز اللہ عزوجل کا ذکر اور اس کی جلالت ميں تفکر کرنا ہے اور يہ اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ دل ہر قسم کے تفکرات سے خالی ہو جبکہ مال کی اصلاح اور اس کے حصول ميں کوشش کرنے اور اس سے نقصانات دور کرنے کی فکر کی موجودگی ميں دل کا فارغ ہونا محال ہے کيونکہ يہ ايک ايسا سمندر ہے جس کا کوئی ساحل نہيں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
دنيوی آفتيں:
آخرت سے پہلے دنيا ميں مال داروں کو لاحق ہونے والی دنيوی آفتيں مثلاً مسلسل خوف و غم، پريشانی، انديشہ، نقصان دور کرنے کی مشقت، مصائب کا سامنا، مال کمانا اور اس کی حفاظت کرنا وغيرہ مزيد برآں ہيں۔
علاج:
مال کا اکسير اور علاج يہ ہے کہ بقدرِ حاجت اپنے پاس رکھا جائے باقی بھلائی کے کاموں ميں صرف کر ديا جائے کيونکہ ضرورت سے زائد مال زہرِ قاتل اور سببِ آفت ہے۔
مال خیر اور شر دونوں کا سبب ہے:
جب يہ باتيں ثابت ہو گئيں تو معلوم ہوا کہ مال نہ تو محض خیر ہے اور نہ ہی محض شر، بلکہ وہ ان دونوں باتوں کا سبب ہے يہ بعض اوقات قابلِ تعريف ہو تا ہے اور بعض اوقات قابلِ مذمت،لہذا جس شخص نے دنيا سے کفايت سے زائد حصہ ليا گويا اس نے بے خبری ميں اپنی موت کا سامان کر ليا اور چونکہ طبيعتيں ہدايت سے روکنے والی ہیں ،شہوات و خواہشات کی طرف مائل رہتی ہيں اور مال ان ميں آلے کا کام ديتا ہے تو ايسی صورت ميں کفايت سے زائد مال ميں شديد خطرات ہيں، اسی سبب سے انبياء کرامعليہم السلام نے مال کے شرسے پناہ مانگی یہاں تک کہ،
(78)۔۔۔۔۔۔ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دعا فرمائی : ”اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ قُوْتَ اٰلِ مُحَمَّدٍ کِفَافًا یعنی اے اللہ عزوجل !آل محمدصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے رزق کو بقدرِ کفايت کر دے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
( صحیح ابن حبان،کتاب التاریخ ، باب من صفتہٖ علیہ السلام واخبارہٖ،الحدیث: ۶۳۰۹،ج۸،ص۸۶،قوت بدلہ”رزق”)
(79)۔۔۔۔۔۔آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دنيا سے اتنا ہی مانگا جتنا خير محض ہے اور دعا فرمائی :”اَللّٰھُمَّ اَحْينیْ مِسْکِينا وَاَمِتْنِیْ مِسْکِينا یعنی اے اللہ عزوجل! مجھے مسکينی کی زندگی اور مسکينی کی موت عطا فرما۔”
(جامع الترمذی ، ابواب الزھد،باب ماجاء ان فقراء المھاجرین۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۳۵۲،ص۱۸۸۸)
(80)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”درہم ودینارکاغلام (يعنی ان سے محبت کرنے والا)تباہ وبربادہو ہلاک ہواوراوندھے منہ گرے اوراگراسے کوئی کانٹا چبھے توکبھی نہ نکلے۔”
(سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد،باب المکثرین،الحدیث: ۴۱۳۶،ص۲۷۲۹)