islam
غلام ربانی فدا کی نعتیہ شاعری
غلام ربانی فدا کی نعتیہ شاعری
سید محمد محی الدین شاہ قیسؔ
آداب کے پہرے ہیں لکھوں تو میں کیا لکھوں
لِلّٰہ! مجھے آقا اب فکرِ رسا دینا
( سید محمد محی الد ین شاہ قیسؔ )
میرے سامنے فداؔ کے نعتیہ اشعار رکھے ہوئے ہیں ،آج پہلی بار کسی کی کتاب پر مضمون لکھنے بیٹھا ہوں ،مجھ میں یہ سکت نہیں کہ نعتیہ کتاب پرمضمون لکھ سکوں ،مگر رفیقِ دیرینہ کی فرمائش پر خود کو آزمانے کی غرض سے قبول کیا ہوں ۔
عشق جب غالب ہوتا ہے تو عاشق میں صبر کی تاب نہیں رہتی اور دل کی آگ شعلہ ور ہو جاتی ہے ،قلب کسی طرح سکوں
نہیں پاتا حیرت واضطراب کے مقام میں بے قرار رہتا ہے اسی بے قراری کو تسکین دینے کے لئے عشق اسے عرضِ حال کی وادیوں میں ڈھکیل دیتا ہے ،یہی وہ جا ہے جہاں سے وارداتِ قلب ،رموزِعشق و اسرارکی کتھا شعر کی صورت زبانِ قلم سے صفحۂ قرطاس پر روپذیر ہوتی ہے ۔
عشق کی دو قسمیں ہیں ۱ )عشقِ حقیقی ۲)عشقِ مجازی
عشقِ حقیقی کی تعریف :۔خدااور رسول خداﷺاور ان سے منسوب چیزوں سے الحبٌّ فی اللہ کے تحت کیا جائے ۔
عشقِ مجازی کی تعر یف :۔جو دنیا اور دنیاداروں سے کیا جائے ،یا یوں کہیں جس کی طرف ہوائے نفس مائل ہو۔
عشق حقیقی میں لکھے ہوئے اشعار محامد ،نعوت اور مناقب کا مجموعہ ہوا کرتے ہیں ،جو کہ لائق تحسین ہے ،اور عشق مجازی کالہویات اور واہیات سے مرکب ،جو کہ لائق تنفر و ملامت ہے ۔ان ہی شعرا ء کے لیے اللہ تعالیٰ کا قول والشعراء یتبعھم الغاون ہے ۔
نعت کی تعریف :۔نعت اس کلام منظوم کو کہتے ہیں جو حبیب پاک ﷺکی شان اقدس میں زیب قرطاس ہو،خواہ کسی بھی ہیت شاعری میں ۔
نعت کا موضوع :۔نعت میں ہروہ موضوع شامل ہے جس میں ختم رسل ﷺکی پاکیزگی ،حسن وجمال ،اخلاق وکردار ،ولادت باسعادت ،اختیارات ،تصرفات ،معجزات وکمالات ،جودو سخا ،عفو و حلم ، لطف و عطا ، اسلامی انقلاب ،سراپا کی تعریف وتوصیف ، واقعات جہاد ،عشق ووارفتگی ،فراقِ حبیب ،ہدی�ۂدرود و سلام جیسے موضوعات کا تذکرہ ہو ۔
آپ ﷺ کی مدح و تو صیف کا بیان کر نا عین عبادت اور رو حِ ایمان ہے،اصولانبی رحمت ﷺ کی نعت خوانی کا آغاز ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کیا ۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ نعت پاک کا لکھنا کو ئی معمولی بات نہیں ،نعت بہت ہی نازک صنف سخن ہے اور فن شاعر ی کی پل صراط بھی ،کیونکہ خدا اور بندے کا فرق اسلام کا ایک بنیادی عقیدہ ہے ،نعت نگار کی ذرا سا شاعرانہ مبالغہ آرائی یاعجزبیاں کفر وضلالت کا باعث بن سکتی ہے ۔
مجروح ؔ سلطان پوری سے پوچھا گیا کہ اتنے اچھے شاعر ہونے کے باوجودآپ نے نعت کی طر ف توجہ کیو ں نہیں کی مجروح ؔ نے جواب دیاکوشش تو کی تھی کہ نعت لکھوں مگر ہاتھ کانپنے لگے اور قلم نے ساتھ نہیں دیا نبی کی شان میں لکھتے وقت ہزار بار خیال آتا ہے کہ کہیں کوئی ایسی بات نہ نکلے جو قابل گرفت ہو ،نعت میں لغزش ہوئی تو دنیا وا لے الگ لعنت بھیجیں گے اور خدا کا قہر الگ۔
میں آپ کو بتاتا چلوں نعت لکھنے کی بات تو بعید ہے حضرت ابوالولید حسان بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ متوفی ۵۴ ھ کے یہ شعر
واحسن منک لم ترقط عینی واجمل منک لم تلد النساء
خلقت مبرامن کل عیب کانک قد خلقت کما تشاء
کاصر ف ترجمہ کرتے وقت اچھے اچھے علامۂ وقت کا قلم کانپ جاتا ہے ،اسی لیئے علامہ شیخ سعدی شیرازی نے فرمایا
لایمکن الثناء کما کان حقہ
بعدا زخدابزرگ توئی قصہ مختصر
اردو زبان کے مشہور و معروف شاعر اسداللہ خاں غالب ؔ نے یوں کہا
غالبؔ ثنائے خواجہ بہ یزداں گذاشتیم
کہ آں ذات پاک مرتبہ دان محمد است
اور حقیقت بھی یہی ہے، مگر فدایانِ محمد ﷺ بساط کے مطابق اپنی بے بضاعتی کا اعتراف کرتے ہوئے آپ ﷺ کی شان میں اشعار لکھنے کی کوشش کرتے ہیں، تا کہ ان کا بھی نام’’ یو سف کے خریداروں‘‘میں ہو جائے، ہر شاعر لکھنے سے قبل یہ دعا ضرور کرتا ہے
آدابِ محبت کی توہین سے ڈرتا ہوں
تحریرِ محبت کا انداز سکھا دینا
(سید محمد محی الدین شاہ قیسؔ )
میدان نعت میں غزل کی طرح شاعر کو کو ئی آزادی یا چھوٹ نہیں ہوتی نعت گوئی بردم تیغ رکھنا ہے نعت نگار اس راہ میں بڑے ہوش و حواس کے ساتھ رہتا ہے
بس اسی کو ہے ثنائے مصطفی لکھنے کا حق
جس قلم کی روشنا ئی میں ہو شامل احتیاط
(حضور شیخ الاسلام اخترؔ )
اسی راہ کے راہ گیروں کو عر فی ؔ شیرازی نے یو ں مخاطب کیا
عرفیؔ ایں رہ نعت است نہ صحرا
آہستہ کہ رہ بردم تیغ قدم را
یہ بات حقیقت اور تسلیم شدہ ہے کہ بر صغیر ہند و پاک میں سب سے پہلے نعت گوئی کا رواج دکنی زبان میں دکن سے شروع ہوا اور اس کی خوشبو اطراف و اکناف ہند میں پھیلی ،اردو کا پہلا صاحبِ دیوان شاعر ہونے کا شرف بھی دکنی باشندہ سلطان محمدقلی قطب شاہ متوفی ۹۸۸ ھ کو حاصل ہے۔
یہ بات نا قابل فراموش حقیقت ہے کہ دکن کی زر خیز زمین نے ایک سے ایک ذی علم حضرات ،اولیاء ،صوفیا، علماء اور شعر اء کو پیدا کیاہے ،لیکن صد افسوس کہ اہل دکن نے ان اکابرین اور زعمائے دکن کو کما حقہ متعارف نہیں کروایا ۔
جواں سال ابھرتے ہوئے خوش فکر شاعر فداؔ بہت بہت قابل مبارکباد ہیں ،اس کم عمری میں وہ کام کرنے لگے ہیں جس کی توقع گنے چنے لو گوں میں ہی کی جاسکتی ہے ،فداؔ کی پیدا ئش ایک متوسط اور
مہذب گھرانے میں یکم جون ۱۹۸۸ ء کوہیرور تعلقہ ہانگل شریف میں ہوئی مکمل نام غلام ربانی اور تخلص فداؔ رکھتے ہیں جو کہ اسم بامسمی ہے موصوف نے حفظ و قرات کے بعد عا لمیت کی بھی تکمیل کی اور اب ہندوستان کا منفر د سہ ماہی رسالہ’’ جہانِ نعت ‘‘میں مصروفِ کار ہیں ،موصوف کا یہ پہلا نعتیہ مجموعہ ہے جس کو آپ اپنے ہا تھوں میں دیکھ رہے ہیں ۔
شعر و شاعری میں محبت کا جذبہ فطری ہے ہر شاعر کی شاعری اس کے جذبات دل کی عکاسی ہوتی ہے ،پیشِ نظر نعتیہ اشعار سے موصو ف کی کیفیتِ قلب کا اندازہ ہوتا ہے موصوف کے اشعار تہذیب زبان وبیان اور وسعت فکر سے آراستہ نظر آتے ہیں ،ان کے نعتیہ اشعار کو پڑھنے کے بعد واقعتا دلِ مومن میں نہاں عشق نبی کی کرنیں بقعۂ نور بن جاتی ہیں موصوف کی نعتوں میں حضور پرنور ﷺ کی سرا پاتعریف وتوصیف کے ساتھ ساتھ حیاتِ طیبہ ،اخلاقِ نبوی ،مدینہ سے دوری و مہجوری ،احساسِ گناہ ،شفاعت طلبی ، حوادثِ زمانہ ،اشکِ ندامت ، حضور ﷺ کے احسانات ،درود و سلام کا تذکرہ بھی ملتا ہے ۔بطو ر مثال ملاحظہ فرمائیں
رسول رحمت ﷺ کی ثنا ء
عرشِ علٰی پہ جانے والے میرے آقا میرے حضور
قربت رب کی پانے والے میرے آقامیرے حضور
اللہ اللہ ان کی رفعت اللہ اللہ ان کی سیرت
دشمن کو اپنانے والے میرے آقا میرے حضور
حوادثِ زمانہ کا تذکرہ
یا رسول خدا لیجئے اب خبر
آفتوں میں ہوا مبتلا ہر بشر
جو زمانے کے طبیبوں سے نہ اچھے ہوسکے
ان مریضوں کی دوا ہے آمنہ کی گودمیں
ہم کو سرکار بچالیجئے کہ ظالم انساں
ہم پہ کرنے کو مشقِ ستم آتے ہیں
مدینہ طیبہ میں حاضری کا متمنی اشکِ ندامت کے ساتھ
رورو کے کر رہا ہے فداؔ بس یہی دعا
یا رب سفر مدینہ کا ہوتا دکھا ئی دے
یادِ نبی میں آنسوں رہ رہ کے بہہ رہے ہیں
کب دل حزیں نہیں ہے کب چشم نم نہیں ہے
تصرف واختیاراتِ حبیب پاک ﷺ کا تذکر ہ
شق القمر کا معجزہ دکھلا کے آپ نے
مکہ کے بدووں کو مسلماں بنا دیا
پتھروں نے بند مٹھی میں بصد عجز و نیاز
آپ کا کلمہ پڑھا آقائے من پیارے نبی
احساس گناہ
نیچی نظریں کئے دربار میں ہم آتے ہیں
غم کے مارے ہیں لئے سیکڑوں غم آتے ہیں
ہم خطاکار ہیں اور آپ کا در ہے اقدس
شرم آ تی ہے یہ کہتے ہوئے ہم آتے ہیں
سرے محشر ملے گا آسر اان کی شفاعت کا
گناہوں سے پشیما ں ہوکے جب دل ڈوبتا ہوگا
در ودو سلام کا تذکرہ
مدینے کے آقا غلاموں کے سرور درودوسلام اے نبی پیش تم پر
مکرم ،مطہر ،معطر ،منور درودو سلام اے نبی پیش تم پر
لب پر میرے درود ہو اور دم تمام ہو
یوں میری زندگی کی مدینہ میں شام ہو
یہ تھے فداؔ صاحب کے نعتیہ کلاموں میں سے کچھ اشعار جس کو مشتے نمونہ از خروارے کے طور پر ذکر کیا گیا ،واقعی فداؔ صاحب کے اشعار عشق نبوی ﷺ میں ڈوبے ہوئے ہیں ،اللہ تعالی سے دست بدعا ہوں کہ مولیٰ تعالیٰ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے جیسے ہمارے اقوال ہیں ویسے احوال بھی فرمائے ۔
آخر میں ایک بات بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں آج کل کچھ بد عقیدہ لوگ بھی خود کو عاشقِ رسول ﷺ ظاہر کرنے کے لئے نعت پاک لکھنے لگے ہیں میں اس بارے میں زیادہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ لوگ آقا ﷺ کے معجزات واختیارات اور باحیات ہونے کا عقیدہ جب تک تسلیم نہیں کرلیتے نعتیہ شاعری کیا اس کی دہلیز تک بھی نہیں پہنچ سکتے
شعور و ادراک کو بھیک ،احساس و فکر کو توانائی رسو ل رحمت ﷺ کو باحیات اور آپ کے معجزات کو تسلیم کرنے پر ملتی ہے ،ورنہ الفاظ چند لکیروں کے نام کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتے ،لکیریں تو کاغذ پر بے شعور بچے بھی کھینچ دیتے ہیں لکیروں کو آقاﷺ کی تعظیم و احترام کے سبب زبان ملتی ہے وہ لوگ کیا خاک آقا ﷺ کی شان میں اشعار قلمبند کریں گے جن کے عقائد ہی درست نہیں ،اللہ تعا لیٰ ہدایت عطافرمائے ۔
آمین
بجاہ سیدالمرسلین وآلہ اجمعین
فقط
بندۂ عاصی
سید محمد محی الدین شاہ قیسؔ