(1)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم دعا کیا کرتے تھے : ”اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عِلْمٍ لَایَنْفَعُ وَمِنْ قَلْبٍ لَایَخْشَعُ وَمِنْ نَفْسٍ لَاتَشْبَعُ وَمِنْ دَعْوَۃٍ لَایُسْتَجَابُ لَھَا۔ یعنی اے اللہ عزوجل میں ایسے علم سے جو نفع نہ دے، ایسے دل سے جو عاجزی وانکساری نہ کرے، ایسے نفس سے جو سَیر نہ ہوتا ہو اور ایسی دعا سے جو قبول نہ کی جا سکتی ہو تیری پناہ چاہتا ہوں۔”
(صحیح مسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب فی الادعیہ، الحدیث: ۶۹۰۶،ص۱۱۵۰)
(2)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قیامت کے دن ایک شخص کو لا کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا تو اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی اور وہ ان کے گرد اس طرح گھومے گا جس طرح گدھا اپنی چکی کے گرد گھومتا ہے، تو جہنمی اس کے گرد جمع ہو کر پوچھیں گے اے فلاں! تجھے کیا ہوا؟ کیا تو ہمیں نیکی کی دعوت نہ دیتا تھا اور کیا توہمیں برائی سے منع نہ کرتا تھا؟” تو وہ کہے گا: ”میں تمہیں تو نیکی کی دعوت دیا کرتا تھا مگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تھا اور تمہیں تو برائی سے منع کرتا تھا مگر خود برائی میں مبتلا رہتا تھا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح البخاری ،کتاب بدء الخلق ،باب صفۃ النار وانھا مخلوقۃ،الحدیث:۳۲۶۷،ص۲۶۴)
(3)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”زَبَانِیَۃ (جہنم پرمؤکل فرشتوں کی ایک جماعت) فاسق قاریوں کی طرف بت پرستوں سے بھی پہلے جائے گی تو وہ کہیں گے :”کیا بت پرستوں سے پہلے ہم سے ابتداء کی جا رہی ہے ؟”تو ان سے کہا جائے گا:”جاننے والے نہ جاننے والوں کی طرح نہیں۔”
(الترغیب والترہیب، کتاب العلم، باب الترہیب من ان یعلم۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۱۰،ج۱،ص۹۱)
حافظ منذری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں :اس حدیث پاک کے”غریب ‘ ‘ہونے کے باجود اس کی”شاہد” موجود ہے اور ریاکاری کے بیان میں ایک صحیح روایت گزرچکی ہے کہ،
(4)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قیامت کے دن سب سے پہلے اس شخص کو بلایا جائے گا جس نے قاری کہلانے کے لئے قرآن یاد کیا ہو گا۔” حدیث مبارکہ کے آخری الفا ظ یہ ہیں ”یہ تین شخص اللہ عزوجل کی مخلوق میں وہ پہلا گروہ ہوں گے جن کے ذریعے قیامت کے دن جہنم کو بھڑکایا جائے گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المرجع السابق)
(5)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو قرآن پاک کی حرام کردہ اشیاء کو حلال سمجھے اس کا قرآن پاک پر ایمان ہی نہیں۔”
(جامع الترمذی، ابواب فضائل القرآن، باب من قرأ القرآن۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۲۹۱۸،ص۱۹۴۴)
(6)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قیامت کے دن بندہ اس وقت تک قدم نہ ہٹاسکے گا جب تک اس سے یہ چارسوالات نہ کرلئے جائیں:(۱)اپنی عمرکن کاموں میں گزاری(۲)اپنے علم پر کتنا عمل کیا(۳)مال کس طرح کمایا اور کہاں خرچ کیا اور (۴)اپنے جسم کو کن کاموں میں بوسیدہ کیا۔”
(جامع الترمذی، ابواب صفۃ القیامۃ، باب فی القیامۃ، الحدیث: ۲۴۱۷،ص۱۸۹۴)
(7)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار،باذنِ پروردگار عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”قیامت کے دن بندہ اس وقت تک قدم نہ اُٹھا سکے گا جب تک اس سے پانچ چیزوں کے بارے میں سوال نہ کرلیاجائے: (۱)عمر کن کاموں میں گزاری (۲)جوانی کن کاموں میں صرف کی(۳)مال کہا ں سے کمایا اور (۴)کہاں خرچ کیااور (۵)اپنے علم پر کہاں تک عمل کیا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المرجع السابق،الحدیث: ۲۴۱۶)
(8)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”کچھ جنتی لوگ جہنمیوں کی طرف جائیں گے تو ان سے پوچھیں گے تم جہنم میں کس وجہ سے داخل ہوئے، حالانکہ اللہ عزوجل کی قسم! ہم تو تمہاری ہی تعلیم سے جنت میں داخل ہوئے ہیں۔” تو وہ کہیں گے ہم جو بات کہا کرتے تھے اس پر خود عمل نہیں کرتے تھے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۴۰۵،ج۲۲،ص۱۵۰)
(9)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو بندہ لوگوں کووعظ ونصیحت کرتا ہے اللہ عزوجل اس سے پوچھ گچھ ضرور فرمائے گا۔” راوی کہتے ہیں میرا گمان ہے کہ یہ بھی ارشاد فرمایا :”یہ ضرور پوچھے گا کہ تو نے اس وعظ سے کیا نیت کی تھی۔”
(شعب الایمان،باب فی نشر العلم، الحدیث: ۱۷۸۷،ج۲،ص۲۸۷)
(10)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا جعفر رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ جب بھی یہ حدیثِ مبارکہ سناتے تو رو پڑتے، پھر جب افاقہ ہوتا تو ارشاد فرماتے :”تم لوگ یہ گمان کرتے ہو کہ تمہارے سامنے وعظ کرنے سے میری آنکھیں ٹھنڈی ہوتی ہیں حالانکہ میں جانتا ہوں کہ اللہ عزوجل قیامت کے دن مجھ سے پوچھے گا کہ تیرا وعظ سے مقصود کیا تھا؟”
(11)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے دریافت کیا گیا:”یا رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم! بدترین لوگ کون ہیں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے جواب میں دعا فرمائی ”اے اللہ عزوجل ! مغفرت فرما۔” پھر ارشاد فرمایا کہ ”اچھوں کے بارے میں پوچھا کرو بروں کے بارے میں دریافت نہ کیا کرو، بدترین لوگ بُرے علماء ہیں۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(البحرالزخار لمسند البزار، مسند معاذ بن جبل، الحدیث: ۲۶۴۹،ج۷،ص۹۳)
(12)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم،شاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”لوگوں کو علم سکھانے اور اپنے آپ کو بھول جانے والے کی مثال اس چراغ کی سی ہے جو لوگوں کو تو روشنی دیتاہے جبکہ اپنے آپ کو جلاتا ہے۔” (العجم الکبیر، الحدیث:۱۶۸۱، ج۲،ص۱۶۶)
(13)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ہر علم اپنے جاننے والے پر وبال ہے سوائے اس کے جو اس پر عمل کرے۔”
(مجمع الزاوئد،کتاب العلم،باب من علم فلیعمل،الحدیث:۷۴۹،ج۱،ص۴۰۳)
(14)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب اس عالم کو ہو گا جس کے علم نے اسے نفع نہ دیا ہو گا۔”
(شعب الایمان،باب فی نشر العلم، الحدیث: ۱۷۷۸،ج۲،ص۲۸۵)
(15)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے اسلامی احکام سکھانے کے لئے قیس قبیلے کے ایک محلے میں بھیجا، میں جب وہاں پہنچا تو پتہ چلا کہ وہ لوگ جنگلی اونٹوں کی طرح نظریں بلند رکھنے والے تھے، ان کی فکروں اور سوچوں کا محور صرف بکریاں اور اونٹ تھے، تو میں دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمتِ عالیشان میں لوٹ آیا، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے استفسار فرمایا :”اے عمار! تم نے کیا کیا؟” تومیں نے اس قوم کی حالت اور غفلت بھی بیان کر دی، توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اے عمار! کیا میں تمہیں ان سے بھی زیادہ تعجب انگیز لوگوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟ وہ قوم جو ایسی تمام باتیں جانتی تھی جن سے یہ لوگ ناواقف ہیں لیکن پھر بھی وہ ان کی طرح غافل ہو گئی۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(مجمع الزاوئد،کتاب العلم، باب لم ینتفع بعلمہ،الحدیث: ۸۷۳،ج۱،ص۴۴۱)
(16)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مجھے اپنی اُمت کے کسی مؤمن یا مشرک کے بارے میں اندیشہ نہیں، مؤمن کی حفاظت تو اس کا ایمان کریگا جبکہ مشرک کا کفر ہی اسے ذلیل ورسوا کر ے گا مگر مجھے تم پر زبان کے تيزطراز( یعنی گھما پھرا کر باتیں کرکے دھوکا دینے والے) منافق کاخوف ہے جو باتیں ایسی کریگا جنہیں تم پسند کرو گے اورعمل ایسے کریگا جنہیں تم ناپسند کرو گے۔”
(المعجم الاوسط،الحدیث:۷۰۶۵،ج۵،ص۲۰۰)
(17)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مجھے اپنے بعد تم پر ہر اس منافق کا خوف ہے جو( گُھما پھرا کر)گفتگوکرنے کا ماہر ہو ۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۵۹۳،ج۱۸،ص۲۳۷)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(18)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مجھے گمان ہے کہ آدمی اپنے کسی معلوم گناہ کی وجہ سے اسی طرح علم بھول جاتاہے جیسے اسے یاد کرتا ہے۔”
(الترغیب والترہیب، کتاب العلم، باب الترہیب من ان یعلم ولا بعمل۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۲۷،ج۱،ص۹۵)
(19)۔۔۔۔۔۔منصوربن زاذان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے خبرملی ہے :”جہنم میں کچھ ایسے لوگ داخل کئے جائیں گے جن کی بدبو سے دیگر جہنمیوں کوایذاء پہنچے گی تو اس جہنمی سے پوچھا جائے گا تيرا ستيا ناس ہو تو کون سا عمل کرتا تھا؟کیا ہم پر پہلے کم بلائیں تھیں کہ تو نے مزید اپنی بدبو میں بھی پھنسا دیا؟” تو وہ کہے گا :”میں عالم تھا مگر میں نے اپنے علم سے نفع حاصل نہیں کیا۔”
(شعب الایمان،باب فی نشر العلم، الحدیث:۱۸۹۹،ج۲،ص۳۰۹،ریحک بدلہ”رائحتک”)
تنبیہ:
ان احادیثِ مبارکہ سے ظاہرشدیدوعیدوں کی بناء پر اس گناہ کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے۔
سوال:وعید کی شدت تو اسی وقت ہو گی جب کوئی شخص واجبات کو ترک کرے یا حرام کام کا ارتکاب کرے، علم پر مطلق عمل نہ کرنا مراد نہیں، اگرچہ مستحبات کا ترک اور مکروہات پر عمل ہو۔ اس صورت میں اگر اُن کا یہ بیان مان لیا جائے کہ علم پر عمل نہ کرنا کبیرہ گناہ ہے تو پھر اسے ایک الگ کبیرہ گناہ شمار کرنا درست نہ ہو گا جیسا کہ فرض نماز کو ترک کرنا وغیرہ بھی ایک کبیرہ گناہ ہے اور (ان شاء اللہ عزوجل )ایسے گناہوں کا بیان آگے آئے گا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جواب:اس کی توجیہ ممکن ہے اگرچہ میں نے کسی کواس بات کی وضاحت کرتے ہوئے نہیں پایا کہ علم ہونے کے باوجود گناہ کرنا جہالت میں گناہ کرنے سے زیادہ برا ہے جیسا کہ احادیثِ مبارکہ بھی اس کی تائید کرتی ہیں۔نیزحرمِ مکہ میں گناہ کے بیان میں اس کی نظیرآئے گی کیونکہ مکہ مکرمہ کا شرف ومرتبہ اسی بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اس میں کیا جانے والا گناہ زیادہ فحش ہو، اگرچہ وہ گناہ صغیرہ ہی کیوں نہ ہو۔ لہٰذا عالم جب صغیرہ گناہوں میں مبتلا ہو تو وہ بھی باقی افراد کے صغیرہ گناہوں سے زیادہ فحش شمار کیا جائے گا اور یہ بات بعید بھی نہیں کیونکہ اس کا یہ صغیرہ گناہ ایک واسطے سے کبیرہ ہی بن جاتا ہے وہ اس طرح کہ وہ ان علوم و معارف کوجانتا ہے جو اس بات کا تقاضا کرتے ہیں کہ وہ مکروہات سے بھی رک جائے چہ جائیکہ محرمات کا ارتکاب کرے۔