islam
کسب کے نقلی فضائل
حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سب سے بہتر غذا وہ ہے جو انسان اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھائے ۔ داؤدعلیٰ بنیناوعلیہ الصلاۃوالسلام بھی اپنی کمائی سے کھاتے تھے۔
( صحیح البخاری ،کتاب البیوع ، باب کسب الرجل ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث ۲۰۷۲، ج ۲ ،ص۱۱ ) (ومشکوۃ المصابیح ، کتاب البیوع ، باب الکسب ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۲۷۵۹ ، ج۲ ، ص ۵۱۳)
(۲) فر ماتے ہیں(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)کہ طیب چیز وہ ہے جو تم نے اپنی کمائی سے کھائی او رتمہاری اولاد تمہاری کمائی ہے۔
یعنی ماں با پ اولاد کی کمائی کھاسکتے ہیں۔
(سنن التر مذی ،کتاب الاحکام ،باب ماجاء ان الوالد یا خذ من مال و لدہ، الحدیث ۱۳۶۳ ، ج۳ ،ص۷۶)
(۳) فرماتے ہیں(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا جس میں رو پیہ پیسہ کے سوا کوئی چیز کام نہ دے گی ۔
(۴) فرماتے ہیں(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)حلال کمائی فر ض کے بعد فرض ہے۔
( شعب الایمان ، باب فی حقوق الا ولاد و الاھلین ، الحدیث ، ۸۷۴۱ ، ج ۶ ،ص ۴۲۰ )
یعنی نما ز رو زہ کے بعد کسب حلال فر ض ہے ۔
(۵)فرماتے ہیں(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)کہ رب تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس چیز کا حکم دیا جس کا پیغمبر وں کو دیا تھا کہ انبیاء کرام سے فرمایا:
یٰۤاَیُّہَا الرُّسُلُ کُلُوۡا مِنَ الطَّیِّبٰتِ وَ اعْمَلُوۡا صَالِحًا ؕ
اے پیغمبرو! حلال رزق کھاؤ اور نیک عمل کرو۔ (پ18، المومنون:51)
اورمسلمانوں سے فرمایا:
کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ ؕ
ہماری دی ہوئی حلال چیزیں کھاؤ۔(پ1،البقرہ57)
( صحیح مسلم ،کتاب الزکاۃ ، باب قبول الصدقۃ ۔۔۔۔۔۔ الخ ، الحدیث ۱۰۱۵ ، ص۵۰۷)
(۶) بعض لوگ ہاتھ پھیلا پھیلا کر گڑ گڑ ا کر دعائیں مانگتے ہیں حا لانکہ ان کی غذا،ان کا لباس حرام کمائی کا ہوتاہے۔پھر ان کی دعا کیو نکر قبول ہو ۔
( صحیح مسلم ،کتاب الزکاۃ ، باب قبول الصدقۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث ۱۰۵۱ ، ص ۵۰۷)
(۷)فرماتے ہیں(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)کہ تین شخصوں کے سوا کسی کو مانگنا جائز نہیں ایک وہ جو کسی مقروض کا ضامن بن گیا اور قرض اسے دینا پڑگیا۔دو سرا وہ جس کا مال آفت ناگہانی سے بر باد ہوگیا ۔ تیسرا وہ جو فا قہ میں مبتلا ہوگیا ان کے سوا کسی اور کو سوال حلال نہیں ۔
( صحیح مسلم ،کتاب الزکاۃ ، باب من نحل لہ المسئلۃ ، الحدیث ۱۰۴۴ ، ص ۵۱۹)
(۸)ایک بار حضورعلیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں کسی انصاری نے سوال کیا فرمایا: ”کیاتیرے گھر میں کچھ عرض(یعنی سامان) ہے؟” عرض کیا: صرف ایک کمبل ہے جس کا آدھا بچھاتا ہوں ، آدھا اوڑھتا ہوں او ر ایک پیالہ جس سے پانی پیتا ہوں ۔ فرمایا: وہ دونوں لے آ، وہ لے آیا ۔حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم) نے مجمع سے خطا ب کر کے فرمایا: اسے کون خرید تا ہے ، ایک نے عرض کیا کہ میں ایک درہم سے لیتا ہوں پھر دو تین بار فرمایا کہ درہم سے زیادہ کو ن دیتا ہے ؟ دو سرے نے عرض کیا میں دو درہم (نو آنے ) میں خرید تا ہوں ۔ حضور علیہ السلام نے وہ دو نوں انہیں کو عطا فرمادیں (نیلام کا ثبوت ہوا ) اور یہ دو درہم ان سائل صاحب کو دے کر فرمایا کہ ایک کا غلہ خرید کر گھرمیں ڈالو دوسرے درہم کی کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ پھر اس کلہاڑی میں اپنے دست مبارک سے دستہ ڈالااور فرمایا جاؤ لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور پندر ہ رو ز تک میرے پاس نہ آنا ۔ وہ انصاری پندرہ رو ز تک لکڑیاں کاٹتے اور بیچتے رہے پندرہ رو ز کے بعد جب بارگاہ نبوی میں حاضر ہو ئے تو ان کے پاس کھانے پینے کے بعد دس درہم یعنی پونے تین روپے بچے تھے ۔ اس میں سے کچھ کا کپڑا خریدا کچھ کا غلہ ۔ حضور علیہ السلام نے فرمایا یہ محنت تمہارے لئے مانگنے سے بہتر ہے ۔
(ابن ماجہ ، مشکوۃ کتاب الزکوۃ ) (سنن ابی داؤد ،کتاب الزکاۃ ، باب ما تجوز فیہ المسالۃ ، الحدیث ۱۶۴۱ ،ج۲ ، ص ۱۶۸)
(۹)فرماتے ہیں(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)کہ جو کوئی بھیک نہ مانگنے کا ضامن بن جائے میں اس کے لئے جنت کا ضامن ہوں ۔
(سنن ابی داؤد ،کتاب الزکاۃ ، باب کراھیۃ المسئلۃ ، الحدیث ۱۶۴۳ ، ج۲ ،ص ۱۷۰)
(۱۰)حضور علیہ السلام نے ابو ذر سے فرمایا کہ تم لوگوں سے کچھ نہ مانگو ۔ عرض کیا بہت اچھا فرمایا اگر گھوڑے پر سے تمہارا کو ڑاگرجائے تو وہ بھی کسی سے نہ مانگواترکرخودلو۔
( مشکاۃ المصابیح ،کتاب الزکاۃ ، باب من لا تحل لہ المسالۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الفصل الثالث الحدیث ۱۸۵۸ ، ج۲ ، ص ۳۵۳ )( المسند للامام احمد بن حنبل ، حدیث ابی ذر الغفاری ، الحدیث ۲۱۶۲۹ ، ج ۸ ، ص ۱۳۷)
(۱۱) فرماتے ہیں(صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم)جو کو ئی اپنا فا قہ مخلوق پر پیش کر ے ۔ اللہ تعالیٰ اس کی فقیری بڑھائے گا۔
( سنن ابی داؤد ،کتاب الزکاۃ ، باب فی الاستعفا ف ، الحدیث ۱۶۴۵ ، ج ۲ ،ص ۱۷۰)
طبع فقیر ی ہے اور یاس غنا۔
( مشکوۃ المصابیح ،کتاب الزکاۃ ،باب من لا تحل ۔۔۔۔۔۔ الخ ، الفصل الثالث ، الحدیث ، ۱۸۵۶)