islam
ان رسموں کی خرابیاں:
شریعت میں کفن اس کے ذمہ ہے جس کے ذمہ اس کی زندگی کا خرچہ ہے ۔ لہٰذا ہر جوان ، مالدار مرد کا کفن اس کے اپنے مال سے دیا جانا چاہیے ۔ اورچھوٹے بچوں کا کفن اس کے ماں باپ کے ذمے ہے۔ اسی طرح اگر بیوی کا انتقال رخصت سے پہلے ہوگیا تو بیوی کے باپ کے ذمہ ہے ۔ اگر رخصت کے بعد انتقال ہوا تو شوہر کے ذمہ ۔ شوہر کے ہوتے ہوئے اس کے باپ بھائی سے جبراً کفن لینا ظلم ہے اورسخت منع۔ سنت یہ ہے کہ میت کے پڑوسی یا قرابت دار مسلمان صرف ایک دن یعنی دو وقت کھانامیت کے گھر بھیجیں اوروہ کھانا صرف ان لوگوں کے لیے ہو جو غم یا مشغولیت کی وجہ سے آج پکا نہ سکے ۔ عام محلہ والوں اوربرادری کو اس کھانے کا حق نہیں ۔ ان کے لئے یہ کھانا سخت منع ہے ۔ ہاں میت کے گھر جو مہمان باہر سے آئے ہیں ان کو اس کھانے سے کھانا جائز ہے ۔ ایک دن سے زیادہ کھانا بھیجنا منع ہے ۔ میت والوں کے گھر تیجہ اورچالیسواں کی روٹی کرانا اوراس سے برادری کی روٹی لینا حرام ومکروہ تحریمی ہے ۔ لہٰذا یہ مروجہ تیجہ،دسواں،چالیسواں،چھ ماہی،برسی کی برادری کی دعوتیں کھلانے والے اورکھانے والے دونوں گنہگارہیں یہ کھانا صرف غریبوں فقیروں کا حق ہے کیونکہ یہ صدقہ وخیرات ہے اوراگر میت کا کوئی وارث بچہ ہے یا سفر میں ہے تو بغیر تقسیم کئے ہوئے اس کامال خیرات کرنابھی حرام ہے کہ نہ یہ فقیروں کوجائزاور نہ مالداروں کو،لہٰذا یا تو کوئی وارث خاص اپنے مال سے یہ خیرات کرے یا پہلے میت کا مال تقسیم کرلیں ۔ پھرنابالغ اورغائب کا حصہ نکال کر حاضر بالغ وارث اپنے حصہ سے کریں۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ان دعوتوں کا یہ شرعی حکم تھا ۔ اب دنیاوی حالت پر نظر کرو تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ان تیجہ چالیسواں اوربرسی کی رسموں نے کتنے مسلمانوں کے گھر تباہ کردئیے میرے سامنے بہت سی ایسی مثالیں ہیں کہ مسلمانوں کی دکانیں جائیدادیں اورمکانات چالیسواں اورتیجہ کھا گیا ۔ آج وہ ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں ۔ ایک صاحب نے باپ کے چالیسویں کے لیے ایک بنیے(کراڑ)سے چار سو روپے قرض لیے تھے ۔ ستائیس سو روپیہ ادا کرچکے مگر قرض ختم نہیں ہوا ۔ پھر لطف یہ ہے کہ اس تیجے اورچالیسویں کی رسموں سے صرف ایک ہی گھر تباہ نہیں ہوتا بلکہ دلہن کے میکے والے بھی ساتھ تباہ ہوتے ہیں ۔ یعنی
ہم توڈوبے ہی صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے
کیونکہ قاعدہ یہ ہوتاہے اگرتیجہ میت والا کرے تو چالیسویں کی روٹی اس کے سمدھیانے والے کریں ، میرے اس کلام کا تجربہ ان کو خوب ہوا ہوگا کہ جن کو کبھی ا ن رسموں سے واسطہ پڑا ہو۔ دیکھا گیا ہے کہ میت کا دم نکلا اورمحلہ والی عورتوں مردوں نے گھر گھیرلیا اور اول تو پان دان کے ٹکڑے اڑادئیے ۔ اب سب لوگ جمع ہیں ۔ کھانا آنے کا انتظار ہے ۔ بےچارہ میت والا مصیبت کا مارا اپنا غم بھول جاتاہے یہ فکر پڑ جاتی ہے کہ اس میلے کا پیٹ کس طرح بھروں ۔ پھر جب تک اس بیچارے کا دیوالیہ نہیں نکل جاتا یہ میلہ نہیں ہٹتا ۔ لہٰذا اے مسلمانوں ! ان ناجائز اورخراب رسموں کو بالکل بند کردو۔