Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islamwaqiyatمقبولیات

حضرت پیر سید مقبول شاہ کشمیری علیہ الرحمہ ہانگل شریف

 دین و سنیت کا ایک عظیم داعی و مبلغ 

حضرت پیر سید مقبول شاہ کشمیری علیہ الرحمہ ہانگل شریف

ازقلم:محمد کاشف شادؔ مصباحی، استاد:دارالعلوم رضائے مصطفےٰ، گلبرگہ
ریسرچ اسکالر:گلبرگہ یونیوسٹی گل برگہ
9902371231

جس آقا کی بارگاہ میں عقیدت و محبت کے چند سطور پیش کرنے جارہا ہوں ان کی حالات زندگی کے مطالعہ نے آنکھیں اشکبار کردیں اوردل و دماغ کی کیفیت کچھ دیر کیلئے ناقابل فہم ہوکر رہ گئی، مری مراد رازی دوراں غزالی زماں عمدۃ المحدثین سید المحققین حسامی سنن، ہادی دکن ہاحی بدع و فتن آئینہ ذات رضا شمس العلما پیر سید مقبول احمد شاہ قادری کشمیری ہانگل شریف ضلع ہاویری کرناٹک ہے۔

آپ کی ولادت باسعادت صوبہ کشمیر کے ضلع بارہمولہ تحصیل سوپور کے ایک چھوٹے سے خوبصورت گاؤں ڈنکی وچھ میں ۳۱۳۱؁ھ میں ہوئی کم و بیش چارسال کی عمر مبارک میں قرآن کریم کی تعلیم سے فراغت پائی اور بارہ سال کی عمر مبارک میں اپنے بڑے بھائی (جو ایک متجر عالم دین تھے) سے درس تطامی کی تعلیم مکمل کرلی اس کے بعد تشنگی علوم سے مزید سیرابی کیلئے باہر کا سفر کرنا چاہا تو کشمیری دستور کے مطابق اس کم عمری ہی میں احباب نے آپکو رشتہ ازدواج سے منسلک کردینا چاہا تو والدین کی رضا ہی کے لئے آپ نے اسے قبول فرمالیا، پھر شادی کے دوسرے، تیسرے سال علم دین کے حصول کے لئے ترک وطن فرماکر ہند و بیرون ہند کا دورہ کیا اور عالم اسلام کی عظیم اور معروف یونیورسٹی جامعہ ازھر مصر سے اول کامیابی حاصل کی اور اسکے بعد ہندوستان لوٹ کر سلطان الہند خواجہ ئ خواجگاں خواجہ معین الدین چشتی اجمیری علیہ الرحمۃ الرضوان کی نگری اجمیر شریف حاضر ہوئے اور وہاں چند د ن مدرسہ معینیہ میں درس دیا (یہ وہی مدرسہ معینیہ عثمانیہ ہے جس کیلئے شیخ الاسلام علامہ انوار اللہ فاروقی علیہ الرحمہ نے حکومت آصفیہ سے خصوصی وظائف جاری کرائے اور اس ادارہ کو مجدد مأ ۃ ماضیہ الشاہ امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ کے خلیفہ و شاگرد خاص صدر الشریعہ علامہ امجد علی علیہ الرحمہ مصنف ”بہار ِ شریعت“ نے اپنے علم وہنر سے 1334 تا 1350 صدر معلمین رہ کر پروان چڑھایا۔ (شاد ؔ مصباحی)

دوران قیام اجمیر شریف ایک شب عالم رؤیا میں حضرت خواجہ غریب نواز علیہ الرحمۃ و الرضوان کی جانب سے تبلیغ دین متین کا پروانہ ملا، لہٰذا پہلے بریلی شریف دربار امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ و الرضوان میں حاضر ہوئے اور مستفیض ہوئے (آپ کی ملاقات فاضل بریلوی سے ہوئی یا نہیں واضح تذکرہ مجھے نہ ملا لیکن قرائن اور تحمینے بتاتے ہیں کہ ملاقات ضرور ہوئی ہوگی) پھر وہاں سے برمارنگوں، سری لنکا، کولمبو، نیل گیری، مدراس، بنگلور، میسور، مالا بار اور بھٹکل سرسی ہوتے ہوئے ہانگل شریف پہونچے اس دوران خبرملی کہ آپ کی رفیقہ حیات اور دختر کا انتقال ہوگیا ہے۔

کوئی بھی فرد جو طلب علوم یا تلاش معاش وغیرہ میں اپنے وطن عزیز کو چھوڑا ہو اور اسے دوران سفر شریک سفر و نور نظر کے بچھڑ جانے کی خبر ملے تو یہ خبر ہی اس کے دل و دماغ سے مسرتیں چھین کر دنیا بیزار کردینے کیلئے کافی ہے لیکن خدا کا محبوب و مقرب بندہ ایسی خبروں کو اپنی آزمائش سمجھ کر اپنے معبود کی طاعت و بندگی میں کوئی فرق نہیں آنے دیتا ہے، شمس العلماء حضرت سید محمد مقبول شاہ کشمیر ی علیہ الرحمہ نے ہر غم کو جھیل کر دین کی فروغ و اشاعت کا کام کیا، شریک سفر اور نور نظر کے بچھڑنے کا ہی غم نہ تھا بلکہ آپ خود فرماتے ہیں۔ ”ہم نے دین کی تبلیغ و اشاعت کیلئے اپنے وطن کو چھوڑا اور دربدر پھرتے رہے اللہ کو کیا منظور تھا افسوس! کہ ہماری یاد میں روتے روتے ہمارا سارا گھر فنا ہوگیا“ اس کے باوجود آپ نے ہانگل شریف اور اطراف واکناف میں جو دین وسنیت کا کام انجام دیا اسکی وہاں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

ہانگل شریف میں آپ کی آمد کے وقت وہاں کے حالات یہ تھے کہ پورا ہانگل اور اطراف و اکناف بدمذہبیت کی جنگل میں دبا ہوا تھا آپ نے اپنے علم و فضل، حکمت و دانائی کے ذریعہ بدمذہبیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا، مناظروں میں انہیں شکستیں دے کر اس خطے کو دین و سنیت سے منور فرمایا آپ نے اس علاقہ میں پھیلائی دین و سنیت کوقائم رکھنے کیلئے خود کو وقف کردیا حتی کہ تلاشتے تلاشتے کشمیر سے ہانگلی شریف تک یکے بعد دیگرے آپ کے بھتیجے، چچا، بھائی سبھی پہونچے کہ آپ کو کشمیر لے جائیں لیکن آپ نے سبھی کو پہچاننے سے انکار کردیا صرف اسلئے کہ اگر کہیں آپ وہاں سے چلے جاتے تو ممکن تھا بلکہ یقین کہ بدمذہبیت پھر سے اپنا کام کردیتی۔

آپ ایک متبحر عالم دین پابند شرع بامقصد مناظر اور باکرامت ولی اور عظیم عاشق رسول تھے آپ نے پوری عمر خدمت دین متین میں گذاردی یہ سوچ کر یہ اس دنیا میں رہ کر رب کی رضا حاصل کرنی ہے، آپ فرماتے تھے ”کتنے آئے کتنے گئے کون رہا ہے کون رہے یہ دنیا جس کیلئے بنائی گئی ہے وہ اب نہ رہے تو ہم کب رہیں گے“۔ دنیا فانی ہے آج ہم وطن سے ہزاروں میل دور ہیں کہاں کشمیر اور کہاں ہانگل شریف۔

یہ مرد مجاہد دین سنیت کا کام کرتا ہوا ۵/صفر المظفر 1390 مطابق 12/اپریل 1980 کے دن صبح وقت سات بج کر 20/منٹ پر اپنے معبود حقیقی سے جاملا۔ انا للہ و اناالیہ رجعون۔

آپ کا مزار مبارک ہانگل شریف ضلع ہاویری کرناٹک میں مرجع عوام و خواص بنا ہوا ہے جہاں سے ہزاروں عقیدتمند مستفیض ہورہے ہیں۔اللہ اس مرد مجاہد کی تربیت پر اپنی رحمتوں کے پھول برسائے۔

 


 

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!