حکایت نمبر41: عقل کے چور
حضرت سیدنا عبد الواحد بن یزید علیہ رحمۃاللہ المجید فرماتے ہیں :” ایک مرتبہ میں ایک راہب کے پاس سے گزرا جو لوگو ں سے الگ تھلگ اپنے صومعہ (یعنی عبادت خانہ) میں رہتا تھا۔ میں نے اس سے پوچھا :”اے راہب !تو کس کی عبادت کرتا ہے؟” کہنے لگا: ”میں اس کی عبادت کرتا ہوں جس نے مجھے اور تجھے پیدا کیا ۔”میں نے پوچھا:” اس کی عظمت وبزرگی کا کیاعالم ہے؟” اس نے جواب دیا: ”وہ بڑی عظمت ومرتبت کا مالک ہے، اس کی عظمت ہر چیزسے بڑھ کر ہے ۔” میں نے پوچھا :”انسان کو دولتِ عشق کب نصیب ہوتی ہے ؟” تو وہ کہنے لگا:” جب اس کی محبت بے غرض ہو اور وہ اپنے معاملہ میں مخلص ہو۔”
میں نے پوچھا:”محبت کب خالص وبے غر ض ہوتی ہے ؟” اس نے جواب دیا:” جب غم کی کیفیت طاری ہو اور وہ محبوب کی اطاعت میں لگ جائے ۔”میں نے کہا:” محبت میں اخلاص کی پہچان کیا ہے ؟” کہنے لگا:” جب غمِ فرقت کے علاوہ کوئی اور غم نہ ہو۔
میں نے پوچھا:” تم نے خلوت نشینی کو کیوں پسند کیا ؟”کہنے لگا:”اگر توتنہائی وخلوت کی لذت سے آشنا ہوجائے توتجھے اپنے آپ سے بھی وحشت محسوس ہونے لگے ۔”
میں نے پوچھا:”انسان کو خلوت نشینی سے کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے ؟” راہب نے جواب دیا:” لوگو ں کے شر سے امان مل جاتی ہے اور ان کی آمد ورفت کی آفت سے جان چھوٹ جاتی ہے۔” میں نے کہا:” مجھے کچھ اور نصیحت کر۔” تووہ کہنے لگا: ”ہمیشہ حلال رزق کھاؤ پھر جہاں چاہوسوجا ؤ تمہیں غم وپریشانی نہ ہوگی۔”میں نے پوچھا:” راحت وسکون کس عمل میں ہے ؟” اس نے کہا:” خلافِ نفس کام کرنے میں۔”مَیں نے پوچھا: ”انسان کو راحت وسکون کب میسر آئے گا ؟ ”تووہ کہنے لگا:” جب وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔”
میں نے پوچھا:” اے راہب! تو نے دنیا سے تعلق توڑ کر اس صومعہ (یعنی عبادت خانہ) کو کیوں اختیار کرلیا؟” کہنے لگا:” جو شخص زمین پر چلتا ہے وہ اوندھے منہ گر جاتا ہے اور دنیا داروں کو ہروقت چوروں کا خوف رہتا ہے،پس میں نے دنیا داروں سے تعلق ختم کرلیا اور دنیا کے فتنہ وفساد سے محفو ظ رہنے کے لئے اپنے آپ کواس ذات کے سپرد کردیا جس کی بادشاہی زمین و آسمان میں ہے، دنیا دار لوگ عقل کے چور ہیں پس مجھے خوف ہوا کہ یہ میری عقل چُرا لیں گے اور حقیقی بات یہ ہے کہ جب انسان اپنے دل کو تمام خواہشاتِ نفسانیہ اور بر ائیوں سے پاک کرلیتا ہے تو اس کے لئے زمین تنگ ہوجاتی ہے ( یعنی اسے دنیا قید خانہ معلوم ہوتی ہے) پھر وہ آسمانوں کی طر ف بلندی چاہتا ہے اور قُربِ الٰہی عزوجل کا متمنّی ہوجاتا ہے اور اس بات کو پسند کرتا ہے کہ ابھی فوراََ اپنے مالک حقیقی عزوجل سے جا ملے۔”
پھر میں نے اس سے پوچھا:” اے راہب! تو کہا ں سے کھاتا ہے ؟” کہنے لگا:” میں ایسی کھیتی سے اپنا رزق حاصل کرتاہو ں جسے میں نے کاشت نہیں کیا بلکہ اسے تو اس ذات نے پیدا فرمایا ہے جس نے یہ چکّی یعنی داڑھیں میرے منہ میں نصب کیں،میں اسی کا دیا ہوا رزق کھاتا ہوں۔” میں نے پوچھا:” تم اپنے آپ کو کیسا محسو س کرتے ہو؟” کہنے لگا:” اس مسافر کا کیا حال ہوگا جو بہت دشوار گزار سفر کے لئے بغیر زادِراہ کے روانہ ہوا ہو ، او راس شخص کا کیا حال ہوگا جو اندھیری اور وحشت ناک قبر میں اکیلا رہے گا، وہاں کوئی غم خوار ومو نِس نہ ہوگا پھر اس کا سامنا اس عظیم و قہار ذات سے ہوگا جو احکمُ الحاکمین ہے جس کی بادشاہی تمام جہانوں میں ہے۔” اتنا کہنے کے بعد وہ راہب زار وقطار رونے لگا۔
میں نے پوچھا:” تجھے کس چیز نے رلایا ؟” کہنے لگا:”مجھے جوانی کے گزرے ہوئے وہ ایام رُلا رہے ہیں جن میں ،مَیں کچھ نیکی نہ کرسکا اور سفرِ آخرت میں زادِ راہ کی کمی مجھے رُلا رہی ہے، کیا معلوم میرا ٹھکانا جہنم ہے یا جنت؟”
میں نے پوچھا:” غریب کون ہے ؟” کہنے لگا:” غریب اور قابلِ رحم وہ شخص نہیں جو روزی کے لئے شہربہ شہر پھرے بلکہ غریب (اور قابلِ رحم) تو وہ شخص ہے جو نیک ہو اور فاسقوں میں پھنس جائے ۔”
بار بارصرف(زبان سے) استغفار کرنا (اور دل سے توبہ نہ کرنا) توجھوٹو ں کا طریقہ ہے ، اگر زبان کو معلوم جاتا کہ کس عظیم ذات سے مغفرت طلب کی جارہی ہے تو وہ منہ میں خشک ہوجاتی۔ جب کوئی دنیا سے تعلق قائم کرتا ہے توموت اس کا تعلق ختم کردیتی ہے ۔
پھرکہنے لگا:”اگر انسان سچے دل سے تو بہ کرے تواللہ عزوجل اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بھی معاف فرمادیتا ہے ، اور جب بندہ گناہوں کو چھوڑنے کا عزمِ مصمّم کرلے تو اس کے لئے آسمانوں سے فتوحات اترتی ہیں،اور اس کی دعائیں قبول کی جاتی ہیں ، او ر ان دعاؤں کی برکت سے اس کے سارے غم کافور ہوجاتے ہیں۔”راہب کی حکمت بھری باتیں سن کرمیں نے اس سے کہا:” میں تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ،کیا تم اس بات کو پسند کر وگے ؟”تو وہ راہب کہنے لگا:”میں تمہارے ساتھ رہ کر کیا کروں گا، مجھے تو اس خدا عزوجل کا قرب نصیب ہے جو رزّاق ہے اورروحوں کو قبض کر نے والا ہے ،وہی موت وحیات دینے والا ہے ، وہی مجھے رزق دیتا ہے ،کوئی اور ایسی صفات کا مالک ہو ہی نہیں سکتا (یعنی مجھے وہ ذات کا فی ہے ، میں کسی غیر کا محتاج نہیں)