جھوٹے مقرر نے حد کردی
کبھی کبھی ہمیں مقررین سے ایسی روایات سننے کو ملتی ہیں کہ ہم حیران و پریشان ہو جاتے ہیں- ایسے ایسے قصے کہ نہ تو کبھی آنکھوں نے دیکھے اور نہ کانوں نے سنے- ایسی روایات سن کر عوام بھی خوش ہوتی ہے کہ چلو آج کچھ نیا سننے کو ملا ہے- دور حاضر میں تو کئی مقررین کا یہی رویہ ہے کہ بس کچھ نیا ہونا چاہیے- ایسے مقررین کو بس اپنے بازار اور اپنی شہرت کی فکر ہوتی ہے- ہمارے زمانے کے مقررین تو قابل تعریف ہیں ہی لیکن گزشتہ زمانے میں بھی ایسے مقررین گزرے ہیں جن کے کارنامے قابل ذکر ہیں-ایک مرتبہ امام احمد بن حنبل اور امام یحییٰ بن معین نے ایک مسجد میں نماز ادا کی، اسی دوران ایک قصہ گو مقرر کھڑا ہوا اور اس نے بیان کرنا شروع کیا کہ “مجھ سے احمد بن حنبل اور یحییٰ بن معین نے روایت کی اور انھوں نے عبد الرزاق سے روایت کی، ان سے معمر نے، ان سے قتادہ نے، ان سے انس بن مالک نے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے ایک مرتبہ کلمۂ طیبہ پڑھا تو اللہ تعالی اس کے ہر لفظ سے ایک پرندہ پیدا فرماتا ہے جس کی چونچ سونے کی ہوتی ہے، اس کے پر مرجان کے ہوتے ہیں….. ” اور پھر اس حدیث کو اتنا طول دیا کہ تقریباً بیس صفحات میں آئے-مقرر صاحب کی بیان کردہ روایت سن کر امام احمد بن حنبل امام یحییٰ بن معین کو دیکھنے لگے اور وہ امام احمد بن حنبل کو؛ امام احمد بن حنبل نے امام ابن معین سے پوچھا کہ:
“کیا آپ نے اس سے یہ حدیث بیان کی ہے؟”
امام ابن معین نے کہا کہ خدا کی قسم! میں نے یہ حدیث آج پہلی بار سنی ہے-جب وہ قصہ گو اپنی تقریر سے فارغ ہوا تو ان دونوں نے اس کو بلایا اور امام ابن معین نے پوچھا کہ یہ حدیث تم سے کس نے بیان کی؟ اس نے جواب دیا کہ “مجھ سے احمد بن حنبل اور ابن معین نے بیان کی ہے” اس پر امام ابن معین نے فرمایا کہ میں ہی ابن معین ہوں اور یہ احمد بن حنبل ہیں اور ہم دونوں نے آج پہلی بار یہ حدیث تمھارے منھ سے سنی ہے-یہ سن کر اس نے فوراً کہا کہ “ارے تم ابن معین ہو؟” انھوں نے کہا کہ ہاں میں ہی ہوں تو اس نے کہا کہ “میں نے تو سنا تھا کہ ابن معین احمق ہے، آج اس بات کی تصدیق بھی ہو گئی” حضرت ابن معین نے پوچھا کہ تم نے کیسے جانا کہ میں احمق ہوں؟ اس نے کہا کہ “تم سمجھتے ہو کہ دنیا میں تم دونوں کے علاوہ کوئی احمد بن حنبل اور ابن معین نہیں ہے، اِن احمد بن حنبل کے علاوہ میں نے سترہ احمد بن حنبلوں سے یہ روایت سنی ہے”(الجامع الاحکام القرآن، ج1، ص69 بہ حوالہ نقد و نظر، ص13) عبد مصطفی
Post Views: 374