Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

قرآن مجیدسے متعلق اہم اُمور پر متنبہ کرنے والی بعض احاديث

(14)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے :” قرآن کو یاد رکھو، اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت ميں ميری جان ہے! يہ لوگوں کے سينوں سے اونٹوں کے رسيوں سے چھٹکار ا پا نے سے بھی تيز نکل جاتا ہے۔”
(صحیح البخاری،کتاب فضائل القرآن، باب استذکار القرآن،الحدیث: ۵۰۳۳،ج۳،ص۴۳۶)
(15)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کافرمانِ عالیشان ہے :”قرآنِ کریم کو پڑھتے اورسنتے رہو(یعنی تکرارکرتے رہو)کیونکہ يہ وحشی (یعنی جنگلی درندوں کی طرح) ہے اور يہ اونٹوں کے رسيوں سے رہائی پانے سے بھی تيز لوگوں کے سينوں سے نکل جاتا ہے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۴۱۵،ج۱۰،ص۱۸۹،بلفظ” ولھو اشد تفصیا۔۔۔۔۔۔ الخ”)
(16)۔۔۔۔۔۔حضورِ نبئ پاک ، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآنِ کریم کوپڑھتے اورسنتے رہواُس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت ميں ميری جان ہے، يہ وطن سے دور اونٹوں سے بھی تیز لوگوں کے سينوں سے نکل جاتا ہے۔”
      (المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۳۴۷،ج۱۰،ص۱۶۸،بدون”فوالذی نفسی بیدہ”)
(17)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جس نے تين دن سے کم ميں مکمل قرآن پڑھا اس نے سمجھانہيں۔” يعنی کيونکہ اس وقت وہ اس کے مطالب ميں غور وفکر نہيں کریگا اور اس سے حاصل شدہ احکام پر عمل نہ کر سکے گا۔
(جامع الترمذی، ابواب القراء ا ت،باب فی کم أقرأ القرآن؟،الحدیث:۲۹۴۹،ص۱۹۴۸)
(18)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآنِ حکیم کو پاک ہونے کی حالت میں ہی چھوؤ۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

       (المعجم الکبیر،الحدیث:۳۱۳۵،ج۳،ص۲۰۵)
(19)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآن پاک کو سوائے پاک شخص کے کوئی نہ چھوئے۔”
     (کتاب المراسیل لأبی داؤد مع سنن ابی داؤد،باب ماجاء فی من نام عن الصلوٰۃ، ص۸ )
(20)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکا فرمانِ عالیشان ہے :”تم ميں سے کوئی یہ نہ کہے کہ ميں فلاں فلاں آيت بھول گيا بلکہ اسے بھلا دی گئی۔”
(صحیح مسلم،کتاب فضائل القرآن ، باب الامر بتعھد القرآن ، الحدیث:۱۸۴۲،ص۸۰۲)
(21)۔۔۔۔۔۔نبئ پاک،صاحب ِلولاک،سیاح اَفلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم ميں سے کسی کے لئے يہ کہنا بہت بُرا ہے کہ ميں فلاں فلاں آيت بھول گيا بلکہ اسے بھلا دی گئی۔”
(صحیح البخاری، کتاب فضائل القرآن، باب استذکارالقرآن وتعاھدہ،الحدیث: ۵۰۳۲،ص۴۳۶)
(22)۔۔۔۔۔۔مروی ہے کہ” سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے دشمن کی سرزمين ميں قرآنِ پاک لے کر سفر کرنے سے منع کيا ہے۔”
(سنن ابن ماجۃ،ابواب الجھاد،باب النھی ان یسافربالقرآن۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۸۷۹،ص۲۶۵۱)
(23)۔۔۔۔۔۔ حضورنبئ کریم ،رء ُ وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”وہ قرآنِ پاک پر يقين نہيں رکھتا جواس کی حرام کردہ چيزوں کوحلال جانتاہے۔”
(جامع الترمذی،ابواب فضائل القرآن،باب من قرأ القرآن۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۹۱۸،ص۱۹۴۴)
(24)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے قرآنِ پاک پڑھا تا کہ اس کے ذريعے لوگوں کے مال کھائے وہ قيامت کے دن اس حال ميں آئے گا کہ اس کا چہرہ ايسی ہڈی ہو گا جس پرگوشت نہ ہو گا۔”
    (شعب الایمان،باب فی تعظیم القرآن،فضل فی ترک قرأۃ القرآن۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۶۲۵،ج۲،ص۵۳۳)
(25)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :”ميں نے ايک آدمی کو قرآنِ پاک پڑھايا اس نے ميری طرف ايک کمان ھديۃً بھيجی تو ميں نے آقاصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے اس کا ذکر کيا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اگر تُو نے اسے لے ليا تو تُو نے آگ کی کمان لی۔”
(سنن ابن ماجۃ، ابواب التجارات، باب الاجر علی تعلیم القرآن،الحدیث:۲۱۵۸،ص ۲۶۰۶)
(26)۔۔۔۔۔۔اسی کی مثل ایک روایت حضرت سیدنا عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بھی مروی ہے اور اس میں مَخْزنِ جودو سخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے انہیں ارشاد فرمایا :”اگر تُو آگ کا طوق پہننا پسند کرتا ہے تو اس کمان کو لے لے۔”
       (سنن ابی داؤد،کتاب الاجارۃ ، باب فی کسب المعلم، الحدیث: ۳۴۱۶،ص۱۴۷۸)
(27)۔۔۔۔۔۔ ايک اور روايت ميں ہے :”اگر تُو چاہتا ہے کہ اللہ عزوجل آگ کی کمان تیرے گلے ميں لٹکائے تو اُ سے لے لے ۔ ” (حلیۃ الاولیاء، الحدیث: ۷۹۰۹،ج۶،ص۸۹)
(28)۔۔۔۔۔۔حضورنبی پاک صلّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو قرآنِ کریم کی تعليم پر کمان لے گا اللہ عزوجل آگ کی کمان اس کے گلے ميں لٹکائے گا۔”
(سنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب الاجارۃ، باب من کرہ اخذالاجرۃ،الحدیث: ۱۱۶۵۵،ج۶،ص۲۰۸)
(29)۔۔۔۔۔۔سرکار مدينہ راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے قرآن پڑھانے پر بدلہ ليا پس اس نے دنیا ہی میں اپنی نيکيوں کا بدلہ لينے ميں جلدی کی اور قرآنِ پاک قيامت کے دن اس سے جھگڑے گا۔”
(حلیۃ الاولیاء، الحدیث:۴۶۳۰،ج۴،ص۲۲،”یحاججہ”بدلہ”یخاصمہ”)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کی ايک جماعت نے ان احاديثِ مبارکہ کے ظاہر کو ليا اور تعليم قرآن پر اُجرت کو حرام قرار ديا جبکہ اکثرعلماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے اس فرمانِ مبارک کی وجہ سے اُجرت لینے کو جائز قرار ديا ہے کہ،
(30)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بے شک جن چيزوں پر بدلہ ليا جاتا ہے ان ميں سب زيادہ حقدار اللہ عزوجل کی کتاب ہے۔”۱؎
(السنن الکبریٰ للبیہقی،کتاب الاجارۃ ، باب اخذالاجرۃ علی تعلیم القرآن ، الحدیث: ۱۱۶۷۶،ج۶،ص۲۰۵)
(31)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عمير بن ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے :”صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ہم آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے قرآنِ کریم سن کر وہ اثر پاتے ہيں جو خلوت ميں خود پڑھنے سے نہيں پاتے۔” تو آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”بالکل ٹھيک ہے، ميں باطنی طور پر پڑھتا ہوں جبکہ تم ظاہری طور پر پڑھتے ہو۔” صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”يارسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! باطن کيا ہے اور ظاہرکيا ہے؟” تو آپ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”ميں پڑھتا ہوں اور غور وفکر کرتا ہوں اور جو کچھ اس ميں ہے اس پر عمل کرتا ہوں جبکہ تم اس طرح پڑھتے ہو (یہ فرماکر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے)اپنے ہاتھ سے اشارہ کيا جیسے ہاتھ سے رسی کو بَل(یعنی مروڑ) دیا ہو۔”
(کنز العمال،کتاب الاذکار،فرع فی محظورات التلاوۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۸۷۶،ج۱،ص۳۰۹،بتقدمٍ وتاخرٍ)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(32)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ِ قرآن پڑھنے والے تين طرح کے لوگ ہيں: (۱)وہ جس نے اسے اُجرت کا ذريعہ بنايا (۲)وہ جو منبر پر بيٹھ کر شيخی بگھارتا ہے يہاں تک کہ يہ بات اسے مزامير سے زيادہ پسند ہوتی ہے پس وہ کہتا ہے :”خدا کی قسم! نہ تو ميں کلام ميں غلطی کرتا ہوں اور نہ ہی ميرا کوئی حرف عيب والا ہے پس يہ ميری اُمت کا شرير ترين گروہ ہے اور (۳)وہ جس کے پيٹ (کے تقاضے) نے اسے لباس پہنایا اور دل (کی حرص)نے کھانا کھلایا لہٰذا اس نے اپنے دل کو ایک ایسا محراب بنا ليا کہ جس سے لوگ تو عافيت ميں ہيں لیکن وہ خود مصيبت ميں گرفتار ہے، ايسے لوگ (مرتبہ کے لحاظ سے) ميری اُمت ميں سرخ گندھک سے بھی کم ہيں۔”    (المرجع السابق ،الحدیث:۲۸۷۷)
(33)۔۔۔۔۔۔خاتَم ُالْمُرْسَلِین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلَمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”قرآن کو پڑھنے والے تين قسم کے ہوتے ہيں: (۱)وہ جس نے قرآن پاک پڑھاپھر اس کو سامانِ تجارت بنا ليا اور اس کے ذريعے لوگوں کو اپنی طرف مائل کيا (۲)وہ جس نے قرآن کو پڑھا اور اس کے حروف کوصحيح ادا کيا ليکن اس کے احکام پر عمل نہ کيا، اکثر قرآن پڑھنے والے ايسے ہی ہيں، اللہ عزوجل ان کو زيادہ نہ کرے (اٰمين)اور (۲)وہ جس نے قرآن پڑھا پس قرآن کی دوا کو دل کی بيماری پر لگا ليا، قرآن کے ذريعے اپنی راتوں کو بيدار کيا اور اس کے ذريعے اپنے دن کو پياسا کيا، انہوں نے اپنی سجدہ گاہوں ميں قیام کیااور اس کی عزت کی، تو يہی وہ لوگ ہيں اللہ عزوجل جن کی برکت سے بلائیں ٹالتا ہے، دشمنوں سے بچاتا ہے اور آسمان کی بارش نازل فرماتا ہے، خدا کی قسم! ايسے قُرَّآء سرخ گندھک سے بھی زيادہ عزت والے(يعنی قيمتی ) ہيں۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(شعب الایمان، باب فی تعظیم القرآن،فصل فی ترک المباھاۃ بقراء ۃ ، الحدیث:۲۶۲۱،ج۲،ص۵۳۱)
ؔ ۱ؔ؎:حضرت صدرالشریعہ ،بدرالطریقہ مفتی محمد امجدعلی اعظمی علیہ رحمۃاللہ القوی فرماتے ہیں:”طاعت وعبادت کے کاموں پر اجارہ کرنا جائز نہیں مثلااذان کہنے کے لیے،امامت کے لیے،قرآن وفقہ کی تعلیم کے لیے،حج کے لئے یعنی اس لئے اجیرکیاکہ کسی کی طرف سے حج کرے، متقدمین فقہاء کایہی مسلک تھامگرمتأ خرین نے دیکھاکہ دین کے کاموں میں سستی پیداہوگئی ہے اگراس اجارہ کی سب صورتوں کوناجائزکہاجائے تودین کے بہت سے کاموں میں خلل واقع ہوگا۔ انہوں نے اس کلیہ سے بعض امورکااستثناء فرمادیااوریہ فتویٰ دیاکہ تعلیم القرآن وفقہ اوراذان وامامت پراجارہ جائزہے کیونکہ ایسانہ کیاجائے توقرآن وفقہ کے پڑھانے والے طلب معیشت میں مشغول ہوکراس کام کوچھوڑدیں گے اورلوگ دین کی باتوں سے ناواقف ہوتے جائیں گے ۔اسی طرح اگرموذن وامام کو نوکر نہ رکھاجائے توبہت سی مساجدمیں اذان وجماعت کاسلسلہ بندہوجائے گااوراس شعاراسلامی میں زبردست کمی واقع ہوجائے گی اسی طرح بعض علماء نے واعظ پر اجارہ کوبھی جائزکہاہے اس زمانے میں اکثرمقامات ایسے ہیں جہاں اہل علم نہیں ہیں ادھرادھرسے کبھی کوئی عالم پہنچ جاتاہے جووعظ وتقریرکے ذریعہ انہیں دین کی تعلیم دے دیتاہے اگراس اجارہ کوناجائزکردیاجائے توعوام کوجواس ذریعہ سے کچھ علم کی باتیں معلوم ہوجاتی ہیں اس کاانسدادہوجائے گایہاں یہ بتا دینا بھی ضروری معلوم ہوتاہے کہ جب اصل مذہب یہی ہے کہ یہ اجارہ ناجائزہے ایک دینی ضرورت کی بناپراس کے جوازکافتویٰ دیاجاتاہے توجس بندۂ خداسے ہو سکے کہ ان امورکومحض خالصاً لوجہ اللہ انجام دے اوراجراخروی کامستحق بنے تواس سے بہترکیابات ہے پھراگرلوگ اس کی خدمت کریں بلکہ یہ تصورکرتے ہوئے کہ دین کی خدمت یہ کرتے ہیں ہم ان کی خدمت کرکے ثواب حاصل کریں تودینے والامستحق ثواب ہوگااوراس کولیناجائزہوگاکہ یہ اجرت نہیں ہے بلکہ اعانت وامدادہے ۔”                         (بہارشریعت،ج۲،حصہ۱۴،ص۸۲)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!