islam
تَدْوِینِ حدیث
تدوین حدیث(حدیث کو جمع کرنے)کا سلسلہ عہدِ رسالت صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم سے لے کر تبع تابعین تک مسلسل جاری رہا۔اگرچہ ابتدائی دور میں سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو احادیث لکھنے سے منع فرمادیاتھا کیونکہ ابتدائی دور آیاتِ قرآنیہ کے نزول کا دور تھا لہذا اس دور میں صرف قرآن کریم کوہی ضبطِ تحریر میں لانا اہم ترین کام تھا، اور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم احادیث لکھنے سے منع فرماتے تھے تاکہ قرآن اور احادیث میں التباس نہ ہوجائے چنانچہ ابتداء آپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا:
” لاَ تَکْتُبُوْا عَنِّيْ وَمَنْ کَتَبَ عَنِّيْ غَیْرَ الْقُرْآنِ فَلْیَمْحُہُ ”
میرا کلام نہ لکھو اور جس نے قرآن کے علاوہ مجھ سے سن کر لکھا وہ اسے مٹادے۔
(صحیح مسلم شریف ، کتاب الزہد، جلد۲، ص۴۱۴)
لیکن جوں ہی نزول قرآن کا سلسلہ ختم ہوااور التباس کے خطرات باقی نہ رہے توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے کتابتِ حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔چنانچہ امام ترمذی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں:
”کَانَ رَجُلٌ مِّنَ الْاَنْصَارِ یَجْلِسُ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَیَسْمَعُ مِنْہُ الْحَدِیْثَ
فَیُعْجِبُہ، وَلَا یَحْفَظُہُ فَشَکَا
ترجمہ : ”انصار میں سے ایک آدمی حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرہوتاپھرآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے ارشادات سنتااور خوش ہوتااور
ذٰلِکَ اِلٰی رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ ”اِسْتَعِنْ بِیَمِیْنِکَ وَأَوْمَأَ بِیَدِہٖ اِلَی الْخَطِّ”
انہیں یاد نہ رکھ سکتا تو اس نے سرکار صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی بارگاہ میں اس بات کی شکایت کی توآپ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے فرمایا: اپنے دائیں ہاتھ سے مدد
لواور ساتھ ہی اپنے دست مبارک سے لکھنے کا اشارہ فرمایا”۔
ایک اور حدیث نقل کرتے ہوئے امام ترمذی فرماتے ہیں،صحابہ کرام حضور نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کے پاس بیٹھ کر احادیث لکھا کرتے تھے،ان میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں یہی وجہ ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے ان کے بارے میں ارشاد فرمایا:
”مَا مِنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ أَکْثَرُ حَدِیْثاً مِنِّیْ اِلاَّ مَا کَانَ مِنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ فَاِنَّہُ کَانَ یَکْتُبُ وَلَا أَکْتُبُ”
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالی عنہ کے سواء صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مجھ سے زیادہ احادیث محفوظ کرنے والا نہیں کیونکہ وہ احادیث لکھاکرتے تھے اورمیں نہیں لکھتاتھا۔ (جامع ترمذی)
لہذا معلوم ہوا کہ تدوین حدیث کا سلسلہ سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے عہد مبارک ہی سے جاری ہوااور سرکارصلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے بذات خود اس کی اجازت مرحمت فرمائی۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان کی طرح تدوین حدیث کا یہ سلسلہ تابعین کہ دور میں بھی جاری رہا، ان تابعین میں حضرت سعید بن مسیب، حضرت سعید بن جبیر، حضرت مجاہد بن جبیرمکی، حضرت قتادہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز جیسے جلیل القدر تابعین بھی شامل ہیں۔(رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین)
تابعین کے بعد تیسری صدی ہجری میں ان مشاہیر علما ء نے تدوین حدیث کا کام انجام دیا۔علی بن المدینی، یحیی بن معین، ابوبکرابن ابی شیبہ، ابوزرعہ رازی،ابوحاتم رازی، محمد بن جریر طبری، ابن خزیمہ، اور اسحاق بن راہویہ۔
ان کے بعد امام بخاری ومسلم اور دیگر کئی محدثین نے تدوین حدیث کا کام کیا۔امام بخاری ومسلم، علی بن المدینی ، یحیی بن معین اور اسحاق بن راہویہ کے شاگردوں میں ہیں۔(اللہ تعالی کی ان پر رحمت ہواوران کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔اٰمین)۔
یاد رہے کہ ہر بات جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم کی طرف منسوب کر دی جائے حدیث نہیں ہو سکتی بلکہ اس بات کے ثبوت کے لئے کہ یہ حدیث ہے یا نہیں اس کی سند دیکھی جاتی ہے یعنی اس حدیث کے راویوں(بیان کرنے والوں) کے حالات و صفات و دیگر لوازمات دیکھے جاتے ہیں ،مثلاان کا ایک دوسرے سے سماع(حدیث سننا) ثابت ہے بھی یا نہیں اور آیا یہ سلسلہ حضور صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم تک متصل ہے یا نہیں ۔راویوں کے اسی سلسلے کو سند یا اسناد کہتے ہیں چونکہ اس سے حدیث کی صحت و سقم یعنی اس کے صحیح و غیر صحیح ہونے کا پتا چلتا ہے اسی لئے علماء و محدثین نے اس اہم ترین موضوع کے لئے باقاعدہ ایک مستقل فن ”علم اصول حدیث ”مدون فرمایا جس کے ذریعے انھوں نے احادیثِ صحیحہ و غیرِ صحیحہ کوالگ الگ کرکے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی کر دکھایا۔
(اللہ عزوجل کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو)۔
علم اصول حدیث میں اگرچہ سند ومتن دونوں سے بحث کی جاتی ہے لیکن متنِ حدیث کے مقابلے میں سندِ حدیث پر بہت زیادہ کلام کیا جاتا ہے لہذا ہم یہاں سند ِحدیث کی اہمیت بیان کرتے ہیں۔