Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

تقدیر کا لکھا ہوا ہو کر رہتا ہے :

 (36)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اگر آدمی اپنے رزق سے اس طرح بھاگے جیسے موت سے بھاگتا ہے تب بھی وہ رزق اسے مل کر رہے گا جیسے موت اسے آ کر رہتی ہے۔”  (حلیۃ الاولیاء،یوسف بن اسباط، الحدیث: ۱۲۱۶۹،ج۸،ص۲۷۰)
 (37)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اگر اسرافیل، جبرائیل، اورمیکائیل(علیہم الصلوٰۃ و السلام) اور حاملینِ عرش فرشتے بھی تمہارے لئے دعاکریں اور میں بھی ان کے ساتھ مل کر دعا کروں تب بھی تمہاری شادی اسی عورت سے ہو گی جو اللہ عزوجل نے تمہارے لئے لکھ دی ہے۔”
 (کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام، باب قسم الاقوال،فصل فی الایمان بالقدر،الحدیث:۴۹۷،ج۱،ص۶۹)
 (38)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اگر اللہ عزوجل کوئی فیصلہ فرما دے تو وہ ہو کر رہتا ہے۔”
           (کشف الخفاء،حرف اللام،الحدیث: ۲۱۰۴،ج۲،ص۱۴۳)
 (39)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم میں سے ایک دوسرے سے زیادہ کمانے والا نہیں، بے شک اللہ عزوجل نے مصیبت اور موت کا وقت لکھ دیا ہے اور رزق اور عمل کو تقسیم کر دیا ہے، اب لوگ اسی کے مطابق اپنے انجام کو پہنچیں گے۔”
(حلیۃ الاولیاء عبدۃ بن ابی لبابۃ ، الحدیث :۸۰۴۵ج۶،ص۱۲۴)
 (40)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”مجھے جو مصیبت بھی پہنچی وہ میرے لئے اس وقت سے لکھی ہوئی تھی جب( حضرت سیدنا) آدم علیہ الصلوٰۃ و السلام ابھی اپنی مٹی ہی میں تھے۔”
 (سنن ابن ماجہ ، ابواب اللباس،باب السحر،الحدیث:۳۵۴۶،ص۲۶۹۰)
 (41)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اپنے غموں میں اضافہ نہ کرو جو کچھ لکھ دیا گیا وہ ہو کر رہے گا اور تمہارا رزق تمہیں مل کر رہے گا۔”
 (شعب الایمان، باب التوکل والتسلیم،الحدیث:۱۱۸۸،ج۲،ص۷۰)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (42)۔۔۔۔۔۔دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب اللہ عزوجل اپنا فیصلہ اور تقدیر نافذ کرنے کا ارادہ فرماتا ہے تو عقل مندوں سے ان کی عقلیں چھین لیتا ہے یہاں تک کہ جب اس کا فیصلہ اور تقدیر نافذ ہو جاتی ہے تو ان کی عقلیں لوٹا دیتا ہے اور ندامت ثابت ہو جاتی ہے۔”
 (کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام، قسم الاقوال،باب فصل فی الایمان بالقدر،الحدیث:۵۰۵،ج۱،ص۷۰)
 (43)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب اللہ عزوجل کوئی اَمر نافذ کرنا پسند فرماتا ہے تو ہر دانا سے اس کی دانائی چھین لیتا ہے۔”
 (تاریخ بغداد،باب اللام الف، الحدیث:۷۴۴۳،ج۱۴،ص۱۰۲۔۱۰۳)
 (44)۔۔۔۔۔۔شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختارباِذنِ پروردْگارعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جب اللہ عزوجل کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو وہ کام کرنے تک لوگوں کی عقلیں چھین لیتا ہے پھر جب وہ کام ہو جاتا ہے تو ان کی عقلیں لوٹا دیتا ہے اور صرف ندامت باقی رہ جاتی ہے۔”
 (کنزالعمال،کتاب الایمان والاسلام، باب الفصل السادس فی الایمان بالقدر،الحدیث:۵۰۷،ج۱،ص۷۰)
 (45)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرعزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”جب اللہ عزوجل کسی چیز کو پیدا کرنے کا ارادہ فرما لے تو کوئی چیز اسے روک نہیں سکتی۔”
 (صحیح مسلم، کتاب النکاح،باب حکم العزل،الحدیث:۳۵۵۴،ص۹۲۰)
 (46)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”عمل کرو کیونکہ جسے جس کا م کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے لئے وہ کام آسان ہوتا ہے، عمل کرو کیونکہ ہر ایک کے لئے وہ کام آسان ہے جس کی اسے قول سے ہدایت دی گئی ہے، اللہ عزوجل جسے دوٹھکانوں یعنی جنت اور جہنم میں سے کسی ایک کے لئے پیدا فرماتاہے اسے اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دیتا ہے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

                  (المعجم الاوسط،الحدیث:۴۸۷۸،ج۳،ص۳۷۶)
(المسندللامام احمد بن حنبل،مسند البصریین،الحدیث:۱۹۹۵۶،ج۷،ص۲۱۷)
 (47)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ہر شخص کو جس کام کے لئے پیدا کیا گیا اس کے لئے وہ کام آسان ہوتا ہے۔”
    (المسندللامام احمد بن حنبل،حدیث ابی الدرداء عویم،الحدیث:۲۷۵۵۷،ج۱۰،ص۴۱۷)
 (48)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص جس کام کے لئے پیدا کیاگیا اس کے لئے وہ کام آسان ہے۔”
 (صحیح البخاری، کتاب التوحید،باب قول اللہ تعالیٰ ولقدیسرناالقرآن۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۷۵۵۱،ص۶۳۰)
 (49)۔۔۔۔۔۔حضور نبئ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل نے ایک قوم (کے لوگوں) پر احسان فرمایا تواُنہیں بھلائی کاالہام فرما کر اپنی رحمت میں داخل کر لیا اور ایک قوم(کے لوگوں ) کو آزمائش میں مبتلا فرما کررُسوا کیا اوراُن کے برے کاموں پر ان کی مذمت فرمائی ، جب وہ اس آزمائش سے نکلنے میں کامیاب نہ ہوئے تو اللہ عزوجل نے انہیں عذاب میں مبتلا فرما دیا اوریہ بھی اللہ عزوجل کا ان کے بارے میں عدل ہی ہے۔”  (جمع الجوامع ، قسم الاقوال،الحدیث:۵۴۷۵،ج۲،ص۲۹۱)
 (50)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اگر اللہ عزوجل آسمان وزمین والوں کو عذاب میں مبتلا فرما دے تب بھی وہ انہیں عذاب دیتے وقت ظالم نہ ہو گا اور اگر ان پر رحم فرمائے تو اس کا ان پر رحم فرمانا ان کے اعمال سے بہتر ہے، اور اگر تم اُحد پہاڑ جتنا سونا راہِ خدا عزوجل میں خرچ کرو تو جب تک تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ وہ تمہارا یہ عمل ہر گز قبول نہ فرمائے گا، لہٰذا یقین کر لو کہ جو کچھ تمہیں پہنچنے والا ہے وہ ہر گز تم سے خطا نہ کریگا، اور جو تم سے خطا ہونے والاہے وہ ہر گز نہ تمہیں پہنچے گا اور اگر تم اس طریقے کے علاوہ مروگے (یعنی تقدیر پر تمہارا ایمان نہ ہو گا) تو جہنم میں داخل ہو گے۔”


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (سنن ابی داؤد،کتاب السنۃ، باب فی القدر، الحدیث: ۴۶۹۹،ص۱۵۶۸)
 (51)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل نے ہر جاندار نفس کا جنت یا جہنم میں ٹھکانا لکھا ہوا ہے، اورسن لو! یہ بھی لکھا ہے کہ وہ خوش بخت ہے یا بدبخت۔” عرض کی گئی ”توکیا پھر ہم توکل نہ کریں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”نہیں، بلکہ عمل کرو تقدیر ہی پر تکیہ نہ کرو کیونکہ جسے جس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس کے لئے وہ کام آسان ہوتا ہے، سعادت مندوں کے لئے سعادت والے کام آسان ہیں جبکہ بدبختوں کے لئے بدبختی والے کام آسان ہیں۔”
     (صحیح البخاری ، کتاب الجنائز ، باب موعظۃالمحدث۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۳۶۲،ص۱۰۶)
(سنن ابن ماجہ ، ابواب السنۃ، باب فی القدر، الحدیث: ۷۸،ص۲۴۸۲)
 (52)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو تقدیر کے بارے میں کوئی بات کریگا اس سے بروزِ قیامت اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، اور جو تقدیر کے بارے میں بات نہ کریگا اس سے نہیں پوچھا جائے گا۔”
              (سنن ابن ماجہ ، ابواب السنۃ، باب فی القدر، الحدیث: ۸۴،ص۲۴۸۲)
 (53)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”طاقتور مؤمن بہتر ہے اور کمزور مؤمن کے مقابلے میں اللہ عزوجل کوزیادہ پسندہے اور ہر بھلائی کے معاملے میں اپنے لئے زیادہ نفع بخش چیز کو اختیار کرو، اللہ عزوجل سے مدد چاہواور مدد مانگنے سے عاجز نہ آؤ، اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ مت کہو:”اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا۔” بلکہ یہ کہو :”اللہ عزوجل نے ایسا ہی لکھاتھا اور اس نے جو چاہا وہی کیا۔” کیونکہ:”اگر” کا لفظ شیطانی عمل کی ابتداء کرتا ہے۔”
 (صحیح مسلم، کتاب القدر، باب الایمان بالقدر۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۶۷۷۴،ص۱۱۴۲)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (54)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اچھی، بری تقدیر پر ایمان نہ لے آئے، اس بات پر یقین نہ کرے کہ اسے جو مصیبت پہنچنے والی ہے وہ اس سے خطا نہ ہو گی اور جو اس سے خطا ہونے والی ہے وہ اسے نہيں پہنچ سکتی۔”
 (جامع الترمذی، ابواب القدر،باب ماجاء ان الایمان بالقدرخیر۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۱۴۴،ص۱۸۶۷)
 (55)۔۔۔۔۔۔سیِّدُ المبلغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا :”اے ابوہریرہ! جو کچھ تمہیں پہنچنے والا ہے وہ لکھ کر قلم خشک ہو چکا ہے۔”
 (صحیح البخاری، کتاب النکاح،باب مایکرہ من التبتل۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۵۰۷۶،ص۴۳۹)
 (56)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”مجھے دعوت دینے اور پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے اور (اس کے باوجود) ہدایت میں سے کوئی شئے میرے اپنے بس میں نہیں، جبکہ شیطان کو (خواہشات) آراستہ کر کے پیش کرنے والا بنا کر پیدا کیا گیا لیکن گمراہی کی کوئی بات اس کے بس میں نہیں۔”
 (الکامل فی ضعفاء الرجال،خالد بن عبدالرحمن، الحدیث: ۲۷/۵۹۷،ج۳،ص۴۷۱)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

 (57)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا حذیفہ بن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب ماں کے پیٹ میں نطفے پر بیالیس 42راتیں گزر جاتی ہیں تو اللہ عزوجل ایک فرشتے کو اس کی طرف بھیجتا ہے، وہ اس کی صورت بناتا ہے اور اس کی سماعت وبصارت، کھال وچربی اور ہڈی پیدا کرتا ہے پھر عرض کرتا ہے یارب عزوجل ! یہ لڑکا ہو گا یا لڑکی؟” تو اللہ عزوجل جو چاہتا ہے حکم فرماتا ہے اور فرشتہ اسے لکھ دیتا ہے، پھر عرض کرتا ہے ، یارب عزوجل! اس کی موت کب ہو گی؟” تو اللہ عزوجل جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے اور فرشتہ اسے لکھ لیتا ہے، وہ پھر عرض کرتا ہے :”یا رب عزوجل! اس کا رزق کتنا ہو گا؟”تو تیرا رب عزوجل جو چاہتا ہے فیصلہ فرماتا ہے اور فرشتہ اسے لکھ لیتا ہے، پھر فرشتہ وہ صحیفہ لے کر نکلتا ہے، تو اس میں نہ کسی چیز کا اضافہ ہوتا ہے اور نہ کمی۔”
 (صحیح مسلم، کتاب القدر، باب کیفیۃ خلق الآدمی۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۶۷۲۶،ص۱۱۳۸،”شحمھا”بدلہ” لحمھا”)
 (58)۔۔۔۔۔۔ حضرت سیدنا حذیفہ بن اُسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ماں کے رحم میں 40راتوں تک نطفہ یونہی رہتا ہے، پھر اسے پیدا کرنے والا (یعنی اس کام پر مقرر) فرشتہ صورت دے دیتا ہے، پھر وہ فرشتہ عرض کرتاہے :”یارب عزوجل! یہ لڑکا ہے یا لڑکی؟” تو اللہ عزوجل اسے مذکّر یا مؤنّث بنا دیتا ہے، پھر فرشتہ عرض کرتاہے :”یہ تندرست پیدا ہو گا یا معذور؟”تو اللہ عزوجل اسے تندرست یا معذور بنا دیتا ہے، فرشتہ پھر عرض کرتاہے: اس کا رزق کتنا اور موت کاوقت کیا ہو گا؟پھر اللہ عزوجل اسے شقی یا سعید بنا دیتا ہے۔”
 (المرجع السابق،الحدیث:۶۷۲۸،ص۱۱۳۹)


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(59)۔۔۔۔۔۔مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”رحم میں قرا رپکڑنے کے 40راتیں گزرنے کے بعد ایک فرشتہ نطفے کے پاس آتا ہے اور پھر عرض کرتا ہے:”یارب عزوجل! یہ بدبخت ہو گا یا خوش بخت؟ لڑکا ہو گا یا لڑکی؟” تو اللہ عزوجل جو کچھ ارشاد فرماتا ہے فرشتہ اسے لکھ لیتا ہے اور وہ فرشتہ اس کے عمل، رزق اور موت کا وقت لکھتا ہے، پھر صحیفہ لپیٹ لیتا ہے اس کے بعد نہ تو اس میں کوئی اضافہ ہوتا ہے نہ ہی کمی ۔”
 (المرجع السابق،الحدیث:۶۷۲۵،ص۱۱۳۸)
 (60)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم میں سے کسی ایک کی پیدا ئش کو ماں کے پیٹ میں 40دن تک جمع کیا جاتا ہے، پھر 40دن لوتھڑا بنا رہتا ہے، پھراسی طرح 40دن تک کے لئے مُضْغَہ بن جاتا ہے، پھر اللہ عزوجل اس کی طرف ایک فرشتہ بھیجتا ہے اور اسے چارچیزیں لکھنے کا حکم دیتا ہے اوراس سے کہاجاتاہے کہ اس کا عمل، اس کی موت کا وقت، اس کا رزق اور یہ لکھ دوکہ یہ شقی ہو گا یا سعید۔ پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے، بے شک تم میں سے کوئی شخص اہلِ جنت جيسے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ جنت اور اس کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے پھر اس کی تقدیراس پر غالب آ جاتی ہے تو وہ جہنمیوں جیسے عمل کر کے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے، جبکہ ایک شخص جہنمیوں جیسے عمل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کے درمیان ایک گز کا فاصلہ رہ جاتا ہے تو تقدیر اس پرغالب آ جاتی ہے اور وہ اہلِ جنت جیسے عمل کرنے لگتا ہے اور جنت میں داخل ہو جاتا ہے۔”
 (صحیح البخاری، کتاب بدء الخلق،باب ذکر الملائکۃ ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۳۲۰۸،ص۲۶۰،مختصرا)
    اس حدیثِ مبارکہ میں ثُمَّ یعنی ” پھر”کا لفظ ظاہراً ماقبل احادیث کی نفی کر رہا ہے، لہٰذا یا تو یہ وَاؤ یعنی” اور” کے معنی میں ہے یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ بچوں کے مختلف ہونے سے فرشتے کی آمد کی مدت بھی مختلف ہوتی ہے، کچھ بچوں کی طرف فرشتے کو پہلے 40دن مکمل ہونے پر بھیجا جاتا ہے اورکچھ کی طرف تیسرے 40دن مکمل ہونے پر بھیجا جاتا ہے۔ 


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

(61)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے(ايک دن اپنے دونوں ہاتھوں میں دو کتابيں پکڑ کر) ارشاد فرمایا :”کیا تم جانتے ہو کہ ان دو کتابوں میں کیا ہے؟ یہ کتاب، اللہ عزوجل کی طرف سے ہے اس میں جنتیوں کے، ان کے آبأ اور قبائل کے نام ہیں، پھر ان کے آخر میں اجمالاً ذکر کر دیا ہے لہٰذا نہ ان میں کمی ہو گی نہ زیادتی۔ اور یہ رب العالمین عزوجل کی طرف سے دوسری کتاب ہے اس میں اہلِ جہنم، ان کے آبأ اور قبائل کے نام ہیں، پھران کے آخرمیں ان کااجمالاًذکرکردیا ہے لہٰذا ان میں نہ کبھی کمی ہو گی نہ زیادتی، سیدھے رہو اور میانہ روی اختیار کرو کیونکہ جنتی کا خاتمہ اہلِ جنت کے اعمال پر ہو گا، اگرچہ وہ جیسے بھی عمل کرے اور جہنمی کا خاتمہ جہنمیوں کے اعمال پر ہو گا، اگرچہ وہ جیسے بھی عمل کرے، تمہارا رب عزوجل بندوں کے ایک فریق کے جنتی ہونے اور ایک کے جہنمی ہونے کا فیصلہ فرما چکا ہے ۔”

 (جامع الترمذی،ابواب القدر،باب ماجاء ان اللہ کتب کتابا لاھل الجنۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۱۴۱،ص۱۸۶۶ )
 (62)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی  اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اچھے عمل کرو، اگر تم مغلوب ہو گئے تو اللہ عزوجل کے لکھے اور اس کی تقدیر سے ہو گے اور اپنے کلام میں اگر کا لفظ شامل نہ کیا کرو کیونکہ جواگرکا لفظ بولتا ہے اس پر شیطان کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔”
       (تاریخ بغداد، ذکر من اسمہ عمار، الحدیث:۶۷۰۳،ج۱۲،ص۲۵۰)
 (63)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل نے حضرت آدم(علیہ الصلوٰۃ و السلام) کو پیدا فرمایا اور ان کی پشت پر (اپنی قدرت کے شايانِ شان) دایاں دستِ قدرت پھیرا (یعنی اس میں اپنی قدرت، برکت اور رحمت سے بھری ذُرِّیَّت پیدا فرمائی) پھراس میں سے ایک قوم کو نکال کر ارشاد فرمایا :”یہ لوگ جنتی ہیں اور یہ جنتیوں جیسے عمل کریں گے۔” پھر ان کی پشت پر اپنا دستِ قدرت پھیرا تو اس سے ایک قوم نکالی اور ارشاد فرمایا :”میں نے اسے جہنم کے لئے پیدا کیا ہے اور یہ جہنمیوں جیسے کام کریں گے۔اورجب اللہ عزوجل کسی بندے کو جنت کے لئے پیدا فرماتا ہے تو اس سے جنتیوں جیسے کام لیتاہے یہاں تک کہ وہ جنتی اعمال میں سے کسی عمل پر مرتا ہے اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل ہو جاتا ہے اور جب اللہ عزوجل کسی


(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});

   (شعب الایمان، باب فی حفظ اللسان، فصل فی المزاح ، الحدیث: ۵۲۳۷،ج۴،ص۳۱۶)
بندے کو جہنم کے لئے پیدا فرماتا ہے تو اس سے جہنمیوں جیسے کام لیتا ہے یہاں تک کہ وہ اہلِ جہنم کے اعمال میں سے کسی عمل پر مرتا ہے اور پھر اس کی وجہ سے جہنم میں داخل ہو جاتا ہے۔”
 (سنن ابی داؤد،کتاب السنۃ ،باب فی القدر، الحدیث: ۴۷۰۳،ص۱۵۶۹)
 (64)۔۔۔۔۔۔سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل نے حضرت آدم (علیہ الصلوٰۃ و السلام) کو پیدا فرمایا تو ان کی پشت سے کچھ مخلوق کو پکڑ کر ارشاد فرمایا :”یہ لوگ جنتی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اور یہ جہنمی ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔”
       (المسندللامام احمد بن حنبل ،مسند الشامیین،الحدیث: ۱۷۶۷۶،ج۶،ص۲۰۶)

Related Articles

Back to top button
error: Content is protected !!