islam
(۲۸) اللہ کے لیے محبت و عدا وت
حدیث:۱
عَنْ اَبِیْ ذَرٍّ قَالَ خَرَجَ عَلَیْنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ اَتَدْرُوْنَ اَیُّ الْاَعْمَالِ اَحَبُّ اِلَی اللہِ تَعَالٰی قَال قَائِلٌ الصَّلٰوۃُ وَالزَّکٰوۃُ وَقَالَ قَائِلٌ اَلْجِھَادُ قَالَ النَّبِیُّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلیَ اللہِ تَعَالٰی اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ۔(رواہ احمد و ابوداود)(1)
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۲۷)
حضرت ابوذررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا کہ کیا تم لوگ جانتے ہو کہ کون سا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہے؟ تو کسی کہنے والے نے کہا کہ نماز و زکوۃاور کسی نے کہا کہ جہاد توحضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ بے شک تمام اعمال میں سب سے زیادہ اللہ عزوجل کو محبوب اور پیار ا عمل اللہ عزوجل کے لیے دوستی اور اللہ عزوجل کے لیے دشمنی کرنا ہے۔
حدیث:۲
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ کُنْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ فَقَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ فِی الْجَنَّۃِ لَعُمُدًا مِّنْ یَاقُوْتٍ عَلَیْھَا غُرَفٌ مِّنْ زَبَرْجَدٍ لَھَا اَبْوَابٌ مُفَتَّحَۃٌ تُضِیْیئُ کَمَا یُضِیْیئُ الْکَوْکَبُ الدُّرِّیُّ فَقَالُوْا مَنْ یَّسْکُنُھَا قَالَ اَلْمُتَحَابُّوْنَ فِی اللہِ وَالْمُتَجَالِسُوْنَ فِی اللہِ وَالْمُتَلَا قُوْنَ فِی اللہِ (2)
(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۲۷)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی خدمت میں تھا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ بے شک جنت میں یاقوت کے چند ایسے ستون ہیں کہ ان کے اوپر زبر جد کے بالا خانے ہیں جن کے دروازے کھلے ہوئے ہیں ایسے چمکتے ہیں جیسے روشن تارا چمکتا ہے تو لوگوں نے عرض کیا کہ ان بالا خانوں میں کون لوگ رہیں گے؟ تو ارشاد فرمایا کہ وہ لوگ جو اللہ عزوجل کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے ہیں اور اللہ عزوجل ہی کے لیے ایک دوسرے کی ہم نشینی کرنے والے ہیں اور اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرنے والے ہیں۔
حدیث:۳
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ مَنْ اَحَبَّ لِلّٰہِ وَاَبْغَضَ لِلّٰہِ وَاَعْطٰی لِلّٰہِ وَمَنَعَ لِلّٰہِ فَقَدِ اسْتَکْمَلَ الْاِیْمَانَ۔رواہ ابوداود (1)
(مشکوٰۃ،ج۱،ص۱۴)
حضرت ابواُمامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جس نے اللہ عزوجل کے لیے محبت کی اور اللہ عزوجل کے لیے دشمنی کی اور اللہ عزوجل کے لیے کچھ دیا اور اللہ عزوجل کے لیے منع کردیا تو اس نے ایمان کو کامل بنالیا۔ اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے۔
حدیث:۴
عَنْ عُمَرَ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنَّ مِنْ عِبَادِ اللہِ لَاُنَاسًا مَا ھُمْ بِاَنْبِیَاءِ وَلَاشُھَدَاءَ یَغْبِطُھُمُ الْاَنْبِیَاءُ وَالشُّھَدَاءُ بِمَکَانِھِمْ مِنَ اللہِ قَالُوْا یَارَسُوْلَ اللہِ تُخْبِرْنَا مَنْ ھُمْ قَالَ ھُمْ قَوْمٌ تَحَابُّوْا بِرَوْحِ اللہِ عَلٰی غَیْرِ اَرْحَامٍ بَیْنَھُمْ وَلَا اَمْوَالٍ یَّتَعَاطُوْنَھَا فَوَاللہِ اِنَّ وُجُوْھَہُمْ لَنُوْرٌ وَاِنَّھُمْ لَعَلٰی نُوْرٍ لَا یَخَافُوْنَ اِذَا خَافَ النَّاسُ وَلَا یَحْزَنُوْنَ اِذَا حَزِنَ النَّاسُ وَقَرَأَھٰذِہِ الاْٰیَۃَ:اَ لَآ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ (1) رواہ ابوداود۔(2) (مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۲۶)
حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایابے شک اللہ عزوجل کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جونہ انبیاہیں نہ شہدامگراللہ تعالی کی طرف سے اُن کوملنے والے مرتبوں پرانبیاعلیہم السلام اور شہداعلیہم الرحمۃ رشک کریں گے تو لوگوں نے عرض کیاکہ یارسول اللہ! عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم ہم لوگوں کو خبر دیجئے کہ یہ کون لوگ ہوں گے؟ تو ارشاد فرمایا کہ یہ وہ قوم ہوگی جو اللہ عزوجل کی محبت کے ساتھ ایک دوسرے سے محبت کرتے رہے ہوں گے۔ بغیر اس کے کہ ان لوگوں کے درمیان کوئی رشتہ داری ہوگی نہ یہ لوگ آپس میں مال و سامان کالین دین کرتے رہے ہوں گے توبخداان لوگوں کے چہرے(قیامت کے دن)نورہوں گے اور یقینا یہ لوگ نور کے اوپر ہوں گے اور جب سب لوگ خوف زدہ ہوں گے اس وقت یہ لوگ بلا خوف ہوں گے اور جب لوگ غمگین ہوں گے تو ان لوگوں کو کوئی غم نہیں ہو گا۔ پھر حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے یہ آیت پڑھی کہ”خبردار ! اللہ کے اولیاء نہ ان پر کوئی خوف ہوگا نہ یہ لوگ غمگین ہوں گے۔”اس حدیث کو ابوداود نے روایت کیا ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تشریحات و فوائد
(۱) اللہ ہی کے لیے محبت اور اللہ ہی کے لیے دشمنی، اس کو عربی زبان میں اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ کہتے ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی سے محض اس بنا پر محبت کی جائے کہ وہ اللہ والااور اللہ کا مقبول بندہ ہے یہ محبت نہ کسی رشتہ داری کی بنا پر ہونہ مال کے لین دین کی بناپرنہ اور کسی غرضِ دنیاوی کی بناپر،یہ”اَلْحُبُّ فِی اللہِ”ہے۔ اور کسی سے دشمنی محض اس بناپررکھی جائے کہ وہ اللہ کادشمن اوراس کے دربارسے پھٹکاراہوا ہے۔ یہ دشمنی کسی غرض دنیاوی اور خواہش نفسانی کی بنیاد پر نہ ہو،یہ ”اَلْبُغْضُ فِی اللہِ” ہے۔ مثلاً ہم لوگ تمام انبیاء علیہم السلام اور تمام صحابہ و اہل بیت اور تمام اولیاء و شہداء و صالحین سے محبت رکھتے ہیں تو ہماری یہ محبت محض اسی بنیاد پر ہے کہ یہ لوگ اللہ والے اور اللہ کے پیارے ہیں،نہ ان لوگوں سے ہماری رشتہ داری ہے نہ کوئی تجارت نہ کسی قسم کا مالی لین دین ہے نہ کوئی غرض دنیاوی نہ کوئی خواہش نفسانی توبلاشبہ یہ محبت خالص اللہ ہی کے لیے ہے اور یقینا یہ محبت ”اَلْحُبُّ فِی اللہِ” ہے۔
اسی طرح ہم شیطان،ابولہب،ابوجہل اورتمام بددینوں،بے دینوں مثلاً وہابیوں، قادیانیوں،رافضیوں،خارجیوں وغیرہ سے جوعداوت اوردشمنی رکھتے ہیں توصرف اس بنیادپرکہ یہ سب اللہ عزوجل کے اوراس کے محبوبوں کے دشمن ہیں نہ توان لوگوں نے ہمارا کچھ بگاڑا ہے نہ ہمارامال لوٹاہے نہ ہماراکوئی حق چھیناہے غرض ان لوگوں سے دشمنی کرنے میں ہماری کوئی خواہش نفسانی یا غرض دنیاوی نہیں ہے۔ لہٰذا بلاشبہ اور یقینا یہ دشمنی”اَلْبُغْضُ فِی اللہِ”ہے اوریہ ہماری دوستی اوردشمنی ایسی ہے جو یقینا ہم کو جنت میں لے جانے والی اوربڑے بڑے مراتب و درجات دلانے والی ہے۔ اسی لیے اس دوستی اور دشمنی کو مذکورہ بالا حدیثوں میں جنت میں لے جانے والا عمل فرمایا گیاہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
لیکن افسوس!کہ آج کل سینکڑوں بلکہ ہزاروں لاکھوں مسلمان اس جنتی عمل سے غافل ہیں بلکہ بہت سے توجان بوجھ کراس کے تارک بلکہ منکرہیں چنانچہ یہ لوگ محض اپنی دنیاوی اغراض ومقاصدکی بناپراللہ عزوجل والوں سے دشمنی اوراللہ کے دشمنوں یعنی کافروں،مرتدوں،بددینوں،بے دینوں سے محبت اوردوستی رکھتے ہیں اورجنتی اعمال کی شاہراہوں کو چھوڑ کر جہنمی دھندوں کے گورکھ دھندھوں اور بھول بھلیوں میں پڑے ہوئے ہیں ہم ان حالات میں اب اس کے سوا اور کیا کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ارحم الراحمین !ان لوگوں کوگمراہی کی دلدل سے نکال کرہدایت کی سیدھی سڑک پر پہنچادے۔(آمین)
(۲)حدیث نمبر ۱ میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ عزوجل کے لیے محبت اور اللہ کے لیے دشمنی یہ تمام اعمال میں سب سے زیادہ اللہ عزوجل کو محبوب ہے تو اس کایہ مطلب ہے کہ اللہ عزوجل کے فرائض یعنی نمازوزکوٰۃاورروزہ وحج ادا کرنے کے بعداورتمام حرام کاموں سے بچنے کے بعد باقی جو اعمال ہیں ان میں سب سے زیادہ پیارا عمل اللہ عزوجل کے نزدیک اللہ کے لیے محبت اور اللہ عزوجل کے لیے دشمنی ہے ورنہ ظاہر ہے کہ اللہ عزوجل کے فرائض پر عمل کرنااور اللہ عزوجل کے حرام کیے ہوئے کاموں سے بچنا، اس سے بڑھ کر تو کوئی عمل افضل اور خدا کا محبوب ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ مسلمان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ مثلاً نماز تمام اعمال سے زیادہ افضل اور اللہ عزوجل کو پیاری ہے۔
(۳) حدیث نمبر ۲ کا حاصل یہ ہے کہ اللہ عزوجل کے لیے محبت کا مطلب یہ ہے کہ دل میں اللہ ہی کے لیے کسی کی الفت ہو اور اگرکسی کی صحبت میں بیٹھے تو اس میں بھی یہی محبت خداوندی کا جلوہ کار فرما ہو ہر گز ہرگز کسی رشتہ داری یا مالی فوائد کی غرض سے نہ ہو۔ خلاصہ یہ کہ ہم نشینی، ملاقات، ساتھ میں کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا، ادب و تعظیم جو کچھ بھی ہو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
صرف اللہ عزوجل ہی کے واسطے ہو، اس میں ہر گز ہرگز کسی غرض نفسانی کا عمل دخل نہ ہو تویہ محبت بلاشبہ اور یقینا ”اَلْحُبُّ فِی اللہِ”ہے جو یقینا جنت میں لے جانے والی ہے۔
(۴)حدیث نمبر۳میں جو فرمایاگیاکہ انبیاء وشہداء ان کے مرتبوں پررشک کریں گے۔ تو اس کا مطلب یہ ہے کہ انبیاء و شہداء ان کے مراتب و درجات کو دیکھ کر تعجب کریں گے اور خوش ہو کر ان لوگوں کی مدح و ثنا کریں گے رشک کرنے کا یہاں یہ مطلب نہیں کہ انبیاء اور شہداء ان کے مرتبوں کو حاصل کرنے کی تمنا اور آرزو کریں گے کیونکہ انبیاء اور شہداء کو تواللہ تعالیٰ ان سے کہیں بڑھ چڑھ کرافضل واعلیٰ مراتب ودرجات عطافرمائے گا پھر کمتر درجے کے مراتب کی تمنا اور آرزو کرنے کا کیا مطلب ہوسکتا ہے؟ لہٰذا واضح رہے کہ اس حدیث میں یُغْبِطُھُمْ کے لفظ سے غبطہ(رشک)کے مجازی معنی مراد ہیں۔ یعنی انبیاء و شہداء خوش ہوں گے نہ یہ کہ انبیاء ان کے مرتبوں کی تمنا کریں گے۔(1)
(حاشیہ مشکوٰۃ بحوالہ لمعات)(مشکوٰۃ،ج۲،ص۴۲۶)
لِلّٰہی محبت وعداوت کی اہمیت
اللہ عزوجل کے لیے محبت و عداوت کی کیا اہمیت اور کتنی ضرورت ہے؟ اس سلسلے میں ایک حدیث بہت زیادہ نصیحت خیز و عبرت انگیز ہے اس لیے اس مقام پر ہم اس حدیث کا ترجمہ تحریر کردیتے ہیں شاید کہ کچھ لوگوں کو اس سے ہدایت مل جائے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حدیث:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبیوں میں سے ایک نبی کی طرف یہ وحی بھیجی کہ آپ فلاں عابدسے کہہ دیجئے کہ دنیامیں توزاہدبن کر رہاتوتجھ کواس کافائدہ دنیاہی میں مل گیاکہ تو نے اپنے نفس کی راحت کو جلدی سے پالیا اور تو نے دنیا سے قطع تعلق کرکے میری طرف رجوع کیا اور تو میرا ہوگیا تو میری و جہ سے تو صاحبِ عزت بن گیا۔ اب تو یہ بتا کہ میرا حق جو تیرے اوپر ہے اس معاملہ میں تو نے کون سا عمل کیا ہے؟ تو وہ عابد کہے گا کہ اے رب ! وہ کون سا عمل ہے؟ تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ کیا تو نے میرے لیے کسی دشمن سے دشمنی،اور میرے لیے کسی دوست سے دوستی بھی کی ہے۔؟ (1)
(کنز العمال،ج۹،ص۳)
اللہ اکبر!مسلمانو!غورکروکہ زاہدہونے اوردنیاسے قطع تعلق کرنے کی خداوند قدوس کے دربار میں اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی کہ اس دربار میں زیادہ اہم اللہ عزوجل کے لیے محبت اور اللہ عزوجل کے لیے عداوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کو اس پر موقوف ٹھہرایا۔ سبحان اللہ!سبحان اللہ! کیا خوب ہے ”اَلْحُبُّ فِی اللہِ وَالْبُغْضُ فِی اللہِ ” کا جلوہ! مگر
آنکھ والا تیرے جلووں کا تماشا دیکھے
دیدہ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے؟