islam
جودوسخاکے فضائل
(81)۔۔۔۔۔۔حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبر عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”ہر وہ دن جس ميں بندے صبح کرتے ہیں اس میں دوفرشتے نازل ہوتے ہیں، ان ميں سے ايک دعا مانگتا ہے کہ اے اللہ عزوجل! خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما۔ اور دوسرا دعا کرتا ہے کہ اے اللہ عزوجل! مال کوروک کر رکھنے والے کا مال ضائع فرما۔”
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ،باب قول اللہ تعالیٰ فامامن اعطی۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۱۴۴۲،ص۱۱۳)
جبکہ ابن حبان کی روایت میں یہ الفاظ ہیں :” جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازے پرفرشتہ کہتا ہے کہ جو آج قرض دے گا وہ کل جزاء پائے گا۔” اور دوسرے دروازے پر ايک فرشتہ دعا کرتا ہے :”اے اللہ عزوجل!(مال) خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور روک کر رکھنے والے کا مال ضائع فرما۔”
(صحیح ابن حبان،کتاب الزکاۃ،باب صدقۃ التطوع ، الحدیث: ۳۳۲۳،ج۵،ص۱۴۰)
(82)۔۔۔۔۔۔ سرکار ابد قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”آسمان کے دروازوں ميں سے ايک دروازے پر فرشتہ کہتا ہے کہ جو آج قرض دے گا وہ کل جزاء پائے گا۔ اور دوسرے دروازے پر فرشتہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ عزوجل!(مال) خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اور روک کر رکھنے والے کا مال ضائع فرما۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المسند للامام احمد بن حنبل،مسند ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ ،الحدیث: ۸۰۶۰،ج۳،ص۱۷۳)
(83)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :”خرچ کر ميں تجھ پر خرچ کروں گا۔”اور پھر رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”اللہ عزوجل کے خزانے بھرے ہوئے ہيں دن رات جودوکرم کے ساتھ خرچ کرنے سے ان ميں کمی نہيں ہوتی، کيا تم نہيں ديکھتے کہ جب سے اس نے زمين و آسمان پيدا فرمائے ہيں برابر خرچ کر رہا ہے مگر اس کے خزانے ميں کوئی کمی واقع نہيں ہوئی جبکہ اس کا عرش پانی پر ہے اور ميزانِ عدل اس کے دستِ قدرت ميں ہے، وہ اسے پست و بلند کرتا ہے۔”
(صحیح البخاری،کتاب التفسیر،سورۂ ھود(علیہ السلام)،باب قولہ وکان عرشہ علی المآء،الحدیث: ۴۶۸۴،ص۳۸۹ )
(84)۔۔۔۔۔۔نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ معظَّم ہے :”اے ابن ِآدم ! اگر تو حاجت سے زائد مال خرچ کرے تو يہ بہتر ہے اور اگر اسے روکے رکھے تو يہ برا ہے حالانکہ تجھے بقدرِ کفايت مال پر ملامت نہيں کی جائے گی اور اپنے زير کفالت لوگوں سے ابتداء کرو اور اوپر والا ہاتھ نيچے والے ہاتھ سے بہتر ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح مسلم، کتاب الزکاۃ ، بیان ان الید العلیاء خیر من ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۲۳۸۸،ص۸۴۱)
(85)۔۔۔۔۔۔رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :ہميشہ طلوعِ آفتاب کے وقت سورج کے پہلو ميں دوفرشتے ہوتے ہيں جو نداء ديتے ہيں:”اے اللہ عزوجل!(مال) خرچ کرنے والے کو بدلہ عطا فرما اورروک کر رکھنے والے کا مال ضائع فرما۔”
(صحیح ابن حبان،کتاب الرقائق،باب الفقر والزھد۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث:۶۸۵،ج۲،ص۳۷،مفہوما)
(86)۔۔۔۔۔۔ایک اور روایت میں ہے :”ان دونوں فرشتوں کی آواز جن و انس کے علاوہ ساری مخلوق سنتی ہے، وہ کہتے ہيں : لوگو! اپنے رب عزوجل کی طرف آ جاؤ، بے شک جو چيز کم ہو اور کفايت کرے وہ اس چيز سے بہتر ہے جو زيادہ ہو مگر غفلت ميں ڈال دے۔”
(المرجع السابق، الحدیث: ۳۳۱۹،ج۵،ص۱۳۸)
(۱)اللہ عزوجل نے ارشا د فرمايا:
وَاللہُ یَدْعُوۡۤا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ ؕ وَ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیۡمٍ ﴿25﴾
ترجمۂ کنز الایمان : اور اللہ سلامتی کے گھر کی طرف پکارتا ہے اور جسے چاہے سيدھی راہ چلاتا ہے۔(پ11، يونس:25)
(2) وَ الَّیۡلِ اِذَا یَغْشٰی ۙ﴿1﴾وَ النَّہَارِ اِذَا تَجَلّٰی ۙ﴿2﴾وَ مَا خَلَقَ الذَّکَرَ وَ الْاُنۡثٰۤی ۙ﴿3﴾اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی ؕ﴿4﴾فَاَمَّا مَنۡ اَعْطٰی وَ اتَّقٰی ۙ﴿5﴾وَ صَدَّقَ بِالْحُسْنٰی ۙ﴿6﴾فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی ؕ﴿7﴾وَ اَمَّا مَنۡۢ بَخِلَ وَ اسْتَغْنٰی ۙ﴿8﴾وَ کَذَّبَ بِالْحُسْنٰی ۙ﴿9﴾فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی ﴿ؕ10﴾ (پ: 30،اللیل:1تا10)
ترجمۂ کنز الایمان :اور رات کی قسم جب چھا جائے اور دن کی جب چمکے اوراس کی جس نے نر و مادہ بنائے بے شک تمہاری کوشش مختلف ہے تو وہ جس نے ديا اور پرہيز گاری کی اور سب سے اچھی کو سچ مانا تو بہت جلد ہم اسے آسانی مہيا کرديں گے اور وہ جس نے بخل کيا اور بے پرواہ بنااور سب سے اچھی کو جھٹلايا تو بہت جلد ہم اسے دشواری مہيا کرديں گے۔
(87)۔۔۔۔۔۔نبئ کريم، رؤوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”دوست 3ہيں (۱)وہ جو کہتا ہے :”ميں تيری قبر تک تيرے ساتھ جاؤں گا۔” (۲)وہ دوست جو کہتا ہے :”میں اس وقت تک تیرا رہوں گا جب تک تو خرچ کرتا رہے گا اور جب تو روک لے گا تو تيرا نہ رہوں گا۔” يہ تيرا مال ہے اور (۳)وہ دوست ہے کہ جو کہتا ہے :”تو جہاں جائے گا يا جہاں سے آئے گا میں تيرے ساتھ رہوں گا۔” يہ تيرا عمل ہے، تو وہ بندہ کہے گا :خدا کی قسم! تو مجھ پر ان تينوں ميں سب سے ہلکا تھا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المستدرک ، کتاب الایمان،الاخلاء ثلاثۃ،الحدیث: ۲۵۶،ج۱،ص۲۵۴،”بتقدمٍ وتأخرٍ”)
(88)۔۔۔۔۔۔رسول اکرم، شفيع معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے صحابہ کرام عليہم الرضوان سے دریافت فرمایا :”تم ميں سے کون ہے جو اپنے مال سے زيادہ اپنے وارث کے مال سے محبت کرتا ہے؟” صحابہ کرام عليہم الرضوان نے عرض کی :”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ہم ميں سے ہر ايک وارث کے مال کے مقابلے ميں اپنے مال سے زيادہ محبت ر کھتا ہے۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بے شک اس کا مال تو وہی ہے جو اس نے آگے بھيج ديا اور جو پيچھے رہ گيا وہ تو اس کے وارث کا مال ہے ۔ ”
(صحیح البخاری، کتاب الرقاق،باب من قدم من مالہ فھو لہ ، الحدیث: ۶۴۴۲،ص۵۴۱)
(89)۔۔۔۔۔۔حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم حضرت سيدنا بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تشريف لائے اور ان کے پاس کھجور کا ايک ڈھير ديکھ کر دریافت فرمایا :”اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ! يہ کيا ہے؟” انہوں نے عرض کی :”آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے مہمانوں کے لئے تيار کر رہا ہوں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”کيا تم اس بات سے نہيں ڈرتے کہ کہيں يہ تمہارے لئے جہنم کا دھواں نہ ہو، خرچ کر دو بلال (رضی اللہ تعالیٰ عنہ)! عرش والے سے کمی کا خوف نہ رکھو۔” (البحر الزخار،بمسند البزار،مسند ابن مسعود،الحدیث: ۱۹۷۸،ج۵،ص۳۴۸)
(90)۔۔۔۔۔۔ايک اور روايت ميں ہے :”کيا تم جہنم کی آگ ميں بھاپ بلند ہونے سے نہيں ڈرتے۔”
(شعب الایمان، باب التوکل والتسلیم،الحدیث: ۱۳۴۵،ج۲،ص۱۱۸)
(91)۔۔۔۔۔۔اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب ، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”بخل نہ کيا کرو تاکہ تم سے بھی بخل نہ کيا جائے۔”(يعنی اپنا مال ذخيرہ کر کے نہ رکھو اسے لوگوں پر خرچ کرنے سے نہ روکو کہيں تم اس مال کی برکت سے محروم نہ ہو جاؤ۔)
(صحیح البخاری، کتاب الزکاۃ، باب التحریض علی الصدقۃ ۔۔۔۔۔۔الخ، الحدیث: ۱۴۳۳،ص۱۱۳)
(92)۔۔۔۔۔۔شہنشاہِ خوش خِصال، پیکرِ حُسن وجمال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ!اللہ عزوجل سے فقير ہو کر ملنا غنی ہو کر مت ملنا۔” انہوں نے عرض کی :”ميں ايساکيسے کر سکتا ہوں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”تجھے جو رزق ملے اسے مت چھپانا اور تجھ سے کچھ مانگا جائے تو منع نہ کرنا۔”انہوں نے عرض کی :”ميں يہ کيسے کر سکتا ہوں؟” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”ايسا ہی کرو ورنہ جہنم(ٹھکاناہوگا)۔”
(المستدرک،کتاب الرقاق،باب القی اللہ فقیراًولا۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۷۹۵۷،ج۵،ص۴۵۰)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(93)۔۔۔۔۔۔حضرت طلحہ بن عبيد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زوجہ محترمہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر کچھ ثقل محسوس کيا تو دریافت فرمایا :”آپ کو کيا ہوا ہے؟ شايد ہم سے کوئی تکليف پہنچی ہے اس لئے آپ ہم سے ناراض ہيں۔” تو آپ نے ارشاد فرمايا :” نہيں، تم مسلمان مرد کی اچھی بيوی ہو مگر بات يہ ہے کہ ميرے پاس بہت سا مال جمع ہو گيا ہے اور ميں فيصلہ نہيں کر پا رہا کہ اس کا کيا کروں۔” بيوی نے کہا :”اس ميں غمگين ہونے کی کيا بات ہے، اپنی قوم کے لوگوں کو بلا کر وہ مال ان ميں تقسيم کر دیں۔” تو آپ نے اپنے غلام سے ارشاد فرمايا :”اے غلام! ميری قوم کے لوگوں کو بلا لاؤ۔” اس دن جو مال تقسيم ہُواوہ چارلاکھ 4,00,000 درہم تھے۔” (المعجم الکبیر، الحدیث: ۱۹۵،ج۱،ص۱۱۲،بتغیرٍ قلیلٍ)
(94)۔۔۔۔۔۔دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل نے اپنے دوبندوں پر وسعت فرماتے ہوئے انہيں کثرتِ مال و اولاد سے نوازا، پھر ان ميں سے ايک سے ارشاد فرمايا :”اے فلاں بن فلاں!” اس نے عرض کی :”لَبَّيک رَبِّ وَسَعْدَيک!”تو اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :”کيا ميں نے تجھے کثرتِ مال و اولاد سے نہيں نوازا؟” اس نے عرض کی :”کيوں نہيں، اے میرے رب عزوجل! ” تو اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :”پھر تو نے ميری عطا کردہ نعمتوں کے عوض کيا کيا؟” اس نے عرض کی :”ميں محتاجی کے خوف سے اسے اپنی اولاد کے لئے چھوڑ آيا ہوں۔” تو اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :”اگر تُو حقيقت جان ليتا تو ہنستا کم اور روتا زيادہ تو ان کے بارے میں جن باتوں سے ڈرتا تھا ميں نے وہی آفت ان پر ڈال دی ہے۔”
پھر دوسرے شخص سے ارشاد فرمائے گا :”اے فلاں بن فلاں! ”وہ عرض کریگا :”لَبَّيک اَیْ رَبِّ وَ سَعْدَيک!” تو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا :”کيا ميں نے تجھے کثرتِ مال و اولاد سے نہيں نوازا تھا؟” وہ عرض کریگا : ” کيوں نہيں، اے میرے رب عزوجل! ”تو اللہ عزوجل ارشاد فرمائے گا :”پھر تو نے ميرے عطا کردہ مال کا کيا کيا؟” وہ عرض کریگا :”ميں نے اسے تيری فرمانبرداری ميں خرچ کيا او ر اپنے بعد اپنی اولاد کے لئے تيری وسيع عطا، فضل، قدرت اور بے نيازی پر بھروسہ کيا۔” تو اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا :”اگر تو حقيقت جان ليتا تو ہنستا زيادہ اور روتا کم تو نے ان کے لئے مجھ پر جو بھروسہ کيا تھا ميں نے انہيں وہ عطا فرما ديا۔” (المعجم الاوسط، الحدیث: ۴۳۸۳،ج۳،ص۲۱۷/۲۱۸)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(95)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے ایک غلام کو حضرت سيدنا ابوعبيدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے 400دينار دے کر بھيجا اوراسے ان کے ہاں ٹھہرنے کا حکم ديا تاکہ وہ ديکھ سکے کہ ان ديناروں کا کيا ہوتا ہے، وہ غلام دينار لے کر گيا اور حضرت سيدنا ابو عبيدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت ميں پيش کر دئيے، آپ نے کچھ غور کيا پھر ان سب کو تقسیم کر ديا، تو وہ غلام حضرت سيدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لوٹ آيا اور سارا واقعہ عرض کر دیا اور ديکھا کہ انہوں نے ايسی ہی عطا حضرت سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے بھی تيار کر رکھی ہے، پھر آپ نے وہ عطا اس غلام کودے کر حضرت سیدنا معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی طرف بھی بھيجی اوراسے ان کے ہاں بھی ٹھہرنے کا حکم ديا تا کہ وہ ديکھ سکے کہ ان ديناروں کا کيا ہوتا ہے، اس نے ايسا ہی کيا حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ دينارتقسيم کر دئيے، جب آپ کی زوجہ محترمہ کو اس کی خبر ہوئی تو وہ بولیں :”خدا کی قسم! ہم بھی مسکين ہيں، ہميں بھی عطا فرمائيے۔” آپ کے خرقہ ميں دودينار بچے تھے آپ نے وہ انہيں دے دئيے، پھر وہ غلام حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس لوٹ آيا اور قصہ عرض کیا تو آپ نے ارشاد فرمايا :”يہ لوگ آپس ميں بھائی بھائی ہيں۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۴۶،ج۲۰،ص۳۳،بتغیر)
(96)۔۔۔۔۔۔جب رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم ورضی اللہ تعالیٰ عنہاکو مرض لاحق ہوا، اس وقت آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے پاس سات دينار موجود تھے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو حکم ديا کہ وہ حضرت علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کوصدقہ کرنے کے لئے دے ديں، پھر آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم پر غشی طاری ہو جانے کی وجہ سے اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس حکم پر عمل کرنا ياد نہ رہا، پھر جب بھی آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کچھ افاقہ محسوس فرماتے انہيں يہی حکم ديتے رہے يہاں تک کہ انہوں نے وہ درہم حضرت سیدنا علی کَرَّمَ اللہُ تَعَالیٰ وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو دے دئيے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم جس رات اس دنيا سے آخرت کی طرف تشريف لے گئے اس وقت اُم المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس کچھ نہ تھا، جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو چراغ کی ضرورت محسوس ہوئی تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کسی کوچراغ لینے کے لئے کسی ام المؤمنین کی طرف بھيجا۔” (المعجم الکبیر، الحدیث:۵۹۹۰،ج۶،ص۱۹۸،بتغیرٍ قلیلٍ)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(97)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے وظيفے کا مال نکال کر اپنی ضروريات ميں خرچ کر لیا اور جب آپ کے پاس سات دينار بچ گئے تو آپ نے انہيں بھی نکالنے (یعنی خرچ کرنے) کا حکم ديا، جب اس کے بارے ميں پوچھا گيا تو آپ نے ارشاد فرمايا :”ميرے خليل خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمَین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے مجھے وصيت فرمائی ہے :”جس سونے یا چاندی پر بخل کیا جاتا ہے وہ راہِ خدا عزوجل ميں خرچ کئے جانے تک اپنے مالک پر انگارا ہے۔”
(المسندللامام احمد بن حنبل، حدیث ابی ذر غفاری ،الحدیث: ۲۱۵۸۴،ج۸،ص۱۲۵)
(98)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہ بھی مروی ہے کہ ميں نے سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا :”جس نے سونے يا چاندی پر بخل کيا اور اسے راہِ خدا عزوجل ميں خرچ نہ کيا تو وہ قيامت کے دن ايک ايسا انگارا ہو گا جس کے ساتھ اسے داغا جائے گا۔”
(المعجم الکبیر، الحدیث: ۱۶۴۱،ج۲،ص۱۵۳)
(99)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”ميں اس بات کو پسند نہيں کرتا کہ اُحد پہاڑ ميرے لئے سونا بن جائے اور اسے ميں تيسرے دن کی صبح تک باقی رکھوں اور ميرے پاس اس ميں سے کچھ رہے مگر وہ چيز جسے ميں قرض کے لئے تيار رکھوں۔”
(الترغیب والترہیب،کتاب الصدقات،باب الترہیب فی الانفاق۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۳۸۱،ج۱،ص۴۳۸)
(100)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اس ذاتِ پاک کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت ميں ميری جان ہے،اگر اُحد پہاڑ آلِ محمد (صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم)کے لئے سونا بن جائے جسے ميں اللہ عزوجل کی راہ ميں خرچ کروں تو مجھے يہ پسند نہيں کہ جس دن ميں مروں اس ميں سے کچھ چھوڑوں سوائے ان دوديناروں کے ، جو ميں قرض (ادا کرنے) کے لئے تيار رکھوں اگر مجھ پر قرض ہو۔”
(المسندللامام احمد بن حنبل، مسند عبداللہ بن عباس،الحدیث: ۲۷۲۴،ج۱،ص۶۴۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(101)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت سيدنا ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مکتوب بھيجا :”اے میرے بھائی! دنيا کا ايسا مال جمع کرنے سے بچتے رہنا جس کا تم شکر ادا نہ کر سکو کيونکہ ميں نے رحمتِ کونين، ہم غريبوں کے دلوں کے چین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے سنا :” اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں ايک ايسے مال دار کولايا جائے گا جس نے دنيا ميں اللہ عزوجل کی اطاعت کی تھی، اس کا مال اس کے سامنے رکھا ہو گاجب بھی وہ پل صراط کوپارکرنے لگے گا تو اس کا مال اس سے کہے گا :” (پل صراط سے)گزرجا، تو نے ميرے معاملے ميں اللہ عزوجل کا حق ادا کر ديا تھا۔” پھر اللہ عزوجل کی بارگاہ ميں ايک ايسے مال دار کو لايا جائے گا جس نے دنيا ميں اللہ عزوجل کی اطاعت نہيں کی تھا، اس کا مال اس کے سامنے رکھا ہو گا جب بھی وہ پل صراط کو پار کرنے لگے گا اس کا مال اس سے کہے گا :”تُوہلاک وبرباد ہو! تُو نے ميرے معاملے ميں اللہ عزوجل کا حق کیوں ادا نہ کيا۔” وہ اسی طرح رہے گا يہاں تک کہ اپنی ہلاکت و بربادی کی دعائيں کرنے لگے گا۔”
(مصنف عبدالرزاق،کتاب الجامع، باب اصحاب الاموال،الحدیث: ۲۰۹۸،ج۱۰،ص۱۳۵)
(102)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اُم المؤمنين حضرت سيدتنازينب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس عطيہ بھيجا تو انہوں نے اسی وقت وہ سارا مال رشتہ داروں اور يتيموں ميں تقسيم کر ديا اور دعا مانگی :”اے اللہ عزوجل! آئندہ سال عمر کا عطيہ مجھ تک نہ پہنچے، آپ نے ازواج مطہرات رضوان اللہ تعالیٰ علیہن اجمعین ميں سے سب سے پہلے وصال فرمايا۔”
(الطبقات الکبری لابن سعد،ذکرازواج رسول اللہ زینب بنت جحش،ج۸،ص۸۶/۸۷)
(103)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدناحسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہيں :”خدا کی قسم! جس کسی نے درہموں کی عزت کی اللہ عزوجل نے اسے ذليل کر ديا۔”
(حلیۃ الاولیاء،الحسن البصری،الحدیث:۱۸۲۴،ج۲،ص۱۷۳)
(104)۔۔۔۔۔۔منقول ہے کہ جب سب سے پہلے درہم و دينار بنے تو ابليس نے انہيں اٹھا کر پيشانی تک بلند کيا اور چوم کر کہا :”جو تم سے محبت کریگا وہ ميرا حقيقی غلام ہو گا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(احیاء علوم الدین،کتاب ذم البخل۔۔۔۔۔۔الخ،بیان ذم المال۔۔۔۔۔۔الخ،ج۳،ص۲۸۸)
(105)۔۔۔۔۔۔اسی لئے بعض بزرگانِ دين رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہيں :”يہ دونوں (یعنی درہم و دينار) منافقين کی لگاميں ہيں جن کے ذريعے انہيں جہنم کی طرف ہانکا جائے گا۔” (المرجع السابق)
(106)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابن معاذ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں :”درہم ایک بچھو ہے، اگر تم اسے تعويذ کے بغير پکڑو گے تو وہ تمہيں اپنے زہر سے قتل کر دے گا۔” پوچھا گيا :”اس کا تعويذ کيا ہے؟” تو آپ نے ارشاد فرمايا :”وہ يہ ہے کہ تم اسے حلال طريقے سے لو اور حق کی جگہ استعمال کرو۔” (المرجع السابق)
(107)۔۔۔۔۔۔جب حضرت سیدنا عمر بن عبد العزيز رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مرض الموت ميں ان سے کہا گيا :”آپ نے اپنے تيرہ بچوں کو حالتِ فقر ميں چھوڑ ديا کہ ان کے پاس نہ تو دينار ہیں نہ ہی درہم۔” تو آپ نے ارشاد فرمايا :”ميں نے نہ ان کا حق ان سے روکا اور نہ ہی غير کا حق انہيں ديا، ميری اولاد ان دو قسموں ميں سے ايک ہو گی ياتو وہ اللہ عزوجل کی فرمانبردار ہو گی تب تو اللہ عزوجل انہيں کفايت کریگا کيونکہ وہ صالحين کا والی ہے يا اللہ عزوجل کی نافرمان ہو گی اس صورت ميں مجھے اس کی کوئی پرواہ نہيں کہ وہ کس حال ميں رہتی ہے۔” پوچھا گيا :”انہوں نے اپنا اتنا مال کس کے لئے خرچ کيا، اگر وہ اپنے بيٹے کے لئے جمع کر ليتے۔” تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمايا :”ميں اسے اپنے رب عزوجل کے پاس اپنے لئے ذخيرہ کرنا چاہتا ہوں اور اپنی اولاد کے لئے اپنے رب عزوجل کو کافی سمجھتا ہوں۔” (المرجع السابق،ص۲۸۸/۲۸۹)
(108)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابن معاذ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہيں :”دو مصيبتيں ايسی ہيں جن کی مثل اگلوں پچھلوں نے نہ سنی ہوں گی جو بندے کی موت کے وقت اسے پہنچتی ہيں ايک تو يہ کہ ميت کا سارا مال اس سے چھين ليا جاتا ہے دوسری يہ کہ اس سے سارے مال کا حساب ليا جاتا ہے۔” (المرجع السابق،ص۲۸۹)