islam
اونٹ بول پڑا
امام طبرانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ (360-260ھ) ‘ ‘اَلْکَبِیْر۱؎”میں فرماتے ہیں : حسین بن اسحاق،فروہ بن عبداللہ بن سلمہ انصاری سے،وہ ہارون بن یحیٰ حاطبی سے،وہ زکریابن اسماعیل بن زیدبن ثابت سے،وہ اپنے والد سے،وہ اسماعیل سے،وہ اپنے چچاسلیمان بن زید بن ثابت سے روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ حضرت سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:”ایک دن صبح کے وقت ہم اللہ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہ ٌعَنِ الْعُیوب عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ(زَادَھَااللہُ شَرْفاً وَّتَعْظِیْماً ) کی کسی گلی میں ایک جگہ جمع تھے کہ ایک اعرابی کو دیکھا جواپنے اونٹ کی نکیل تھامے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمکے پاس آکررُکا۔ہم بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اِردگردموجودتھے۔اس نے اس طرح سلام عرض کیا ”اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ وَبَرَکاَتُہ،”حضور نبئ کریم، رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے سلام کا جواب دیااور فرمایا:”صبح صبح کیسے آناہوا؟”
اسی اثناء میں اُونٹ بَلْبلایااورایک دوسرے شخص نے جو کہ محافظ تھاآگے بڑھ کرعرض کی: ”یارسولَ اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!اس اعرابی نے یہ اونٹ چُرایا ہے ۔ ” اونٹ نے دوبارہ بَلْبَلاتے ہوئے غم سے آوازنکالی تورسولِ اکرم،نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی فریادسننے کے لئے خاموشی اختیارفرمائی اور اس کاغم اورفریادسُنی۔جب اُونٹ اپنی فریاد سناچکا توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے محافظ کی طرف متوجہ ہو کرفرمایا:”اس سے بازرہ، اس لئے کہ اونٹ نے تیرے خلاف گواہی دی ہے کہ تُو جھوٹاہے۔”جب محافظ واپس چلاگیاتوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اعرابی کی طرف متوجہ ہوکراستفسارفرمايا: ”جب تم میرے پاس آئے تھے تو کیا پڑھا تھا؟”اس نے عرض کی:”میرے ماں باپ آپ صلی اللہ تعالیٰ علی وآلہ وسلم پر قربان! میں نے یہ پڑھاتھا: اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍحَتٰی لَاتَبْقَی صَلٰوۃٌ یعنی:” اے اللہ عزوجل!محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمپراتنا درودبھیج کہ کوئی درودباقی نہ رہے۔”
اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ حَتٰی لَاتَبْقَی بَرَکَۃٌ يعنی:” اے اللہ عزوجل !محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پراتنی برکتو ں کا نزول فرما کہ کوئی برکت باقی نہ رہے۔”
اَللّٰھُمَّ وَسَلِّمْ عَلٰی مُحَمَّدٍ حَتٰی لَایَبْقَی سَلَامٌ يعنی :”اے اللہ عزوجل ! محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پراتنی سلامتی فرما کہ کوئی سلامتی باقی نہ رہے۔”
اَللّٰھُمَّ وَارْحَمْ مُحَمَّدًا حَتٰی لَاتَبْقَی رَحْمَۃٌ یعنی :اے اللہ عزوجل ! حضور نبئ رحمت،شفیعِ اُمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر رحمتوں کا اتنا نزول فرما کہ کو ئی رحمت باقی نہ رہے ۔”(یہاں باقی نہ رہنے سے مرادرحمت برکت اور سلامتی کی کثرت ہے۔)
تورسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”اللہ عزوجل نے اس کا معاملہ مجھ پرظاہرفرمادیا، اونٹ کے بولنے نے اس (اعرابی)کوالزام سے بری کردیا اور فرشتوں نے آسمان کے کناروں کوڈھانپ لیا۔
(المعجم الکبیر،الحدیث:۴۸۸۷،ج۵،ص۱۴۱”سکن ”بدلہ”ہدأ ”)
امام حاکم رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ(405-321ھ)”اَلْمُسْتَدْرَکْ”میں فرماتے ہیں کہ ابومحمد حسن بن ابراہیم اسلمی فارسی ، جعفر ابن ذر ستو یہ سے ، وہ یمان بن سعید مصیصی سے، وہ یحیٰ بن عبداللہ مصری سے ، وہ عبدالرزاق سے ، وہ معمر سے ، وہ زہری سے ، وہ سالم سے اور وہ حضرت سيدناعبداللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہماسے روایت کرتے ہیں کہ ہم حُسنِ اَخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اَکبر عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گردحلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ ایک بلندآوازیمنی خانہ بدوش(يعنی بدو)سُرخ اونٹنی پرآيااوراسے مسجدکے دروازے پربٹھاکراندرداخل ہوااورحضورنبئ کریم،رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرکے بیٹھ گیا۔
جب اس نے سلام کرلياتوصحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی:”یارسولَ اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!اعرابی کے پاس جو اونٹنی ہے وہ چوری کی ہے۔”آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمايا:”کیااس کاکوئی ثبوت ہے؟”عرض کی :”جی ہاں، یارسولَ اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!”آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سیدنا علی المرتضی کَرّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْھَہ، الْکَرِیْم سے ارشادفرمایا:”اے علی!اگراعرابی کے خلاف کوئی گواہی ملتی ہے تو اس سے اللہ عزوجل کا حق لے لو،اگرکوئی دلیل نہیں ملتی توپھریہ معاملہ میرے سپردکردو۔”
اعرابی کچھ دیر سرجھکائے خاموش بیٹھارہا۔رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا:”اے اعرابی!یاتوحکمِ الٰہی عزوجل کے لئے ٹھہرے رہویاپھرکوئی دلیل پیش کرو۔”تودروازے کے پیچھے سے وہی اونٹنی بول پڑی :”یارسولَ اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوبزرگی کے ساتھ مبعوث فرمایا!اس نے مجھے نہیں چرایااورنہ ہی اس کے سوا میراکوئی مالک ہے۔”
شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے استفسارفرمایا: اے اعرابی!تجھے اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے تجھے الزام سے بری کرنے کے لئے اونٹنی کوقوتِ گویائی عطا فرمائی ، تُونے کیاکہاتھا۔”(جس کی وجہ سے بچ گیا)اس نے عرض کی:”میں نے یہ کہاتھا:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ لَسْتَ بِرَبِّ اِسْتَحْدَثْنَاکَ ،وَلَامَعَکَ اِلٰہٌ اَعَانَکَ عَلٰی خَلْقِنَا،وَلَا مَعَکَ رَبٌّ فَنَشُکَّ فِی رَبُوْبِیَّتِکَ ،اَنْتَ رَبُّنَاکَمَا نَقُوْلُ وَفَوْقَ مَا یَقُوْلُ الْقَائِلُوْنَ ،اَسْأَلُکَ اَنْ تُصَلِّیَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَاَنْ تُبَرِّئَنِیْ بِبَرَائَتِیْ
ترجمہ :”اے ہمارے رب عزوجل!تُوایسارب نہیں کہ ہم تیرے ساتھ کوئی نیارب بنالیں،نہ ہی تیرے ساتھ کوئی ایسامعبودہے جوہمیں پيداکرنے ميں تیری مددکرے اورنہ ہی تیرے علاوہ کوئی رب ہے کہ ہم تیری ربوبیَّت میں شک کریں۔جس طرح ہم اورديگرکہنے والے کہتے ہيں تُواس سے بھی بڑی شان والاہماراپروَردْگارہے، میں تیری بارگاہ ميں التجاکرتاہوں کہ حضورنبی رحمت،شفیعِ اُمت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پررحمت نازل فرمااورمجھے بری فرمادے۔”
رسولِ کریم،رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے ارشادفرمایا:”اے اعرابی!اس ذات کی قسم جس نے مجھے بزرگی عطافرماکرمبعوث فرمایا!میں نے فرشتوں کو گلیوں میں ایک دوسرے پرسبقت لے جاتے ہوئے دیکھا جوتمہاری گفتگوکو لکھ رہے تھے پس کثرت سے مجھ پر دوردپاک بھیجا کر۔”
(المستدرک،من کتاب آیات رسول اللہ۔۔۔۔۔۔الخ،کلام الناقۃ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۴۲۹۴، ج ۳ ، ص۵۲۲)
امام حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیثِ پاک کے آخرسے تمام راوی ثقہ ہیں جبکہ میں یحیٰ بن عبداللہ مصری کوعدالت اورجرح کے اعتبارسے نہیں جانتا۔
امام دیلمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۱؎ ( 509-445ھ)”مُسْنَدُالْفِرْدَوْسِ”میں فرماتے ہیں کہ غانم ابن محمد،حسین بن فرساہ سے،وہ ”اَلدُّعَاءِ”میں طبرانی سے،وہ محمد بن نصرقطان ہمدانی سے ، وہ عمر بن حفص اوصابی حمصی سے ، وہ سعید بن موسی ازدی ثوری سے ، وہ عمر و بن دینار سے ، وہ نافع سے اور وہ حضرت سيدناابن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ کچھ لوگ ایک شخص کوسرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب وسینہ ، باعثِ نُزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لائے اور اس کے خلاف گواہی دی کہ اس نے ان کی اونٹنی چرائی ہے۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس کا فیصلہ فرمایاتووہ شخص واپس چلاگیا اور یہ کہتا جا رہاتھا:
اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ حَتٰی لَایَبْقَی مِنْ صَلَاتِکَ شَیْئ، وَبَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ حَتٰی لَا یَبْقَی مِنْ بَرَکَاتِکَ شَیْیءٌ ،وَسَلِّمْ عَلٰی مُحَمَّدٍ حَتٰی لَا یَبْقَی مِنْ سَلَامِکَ شَیْئ
ترجمہ :” اے اللہ عزوجل!محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پراتنا درودبھیج کہ کوئی درودباقی نہ رہے، اے اللہ عزوجل !محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر اتنی برکتو ں کا نزول فرما کہ کوئی برکت باقی نہ رہے،اے اللہ عزوجل ! محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پراتنی سلامتی نازل فرما کہ کوئی سلامتی باقی نہ رہے ۔”
پس اونٹ بول پڑااورعرض گذار ہوا:”يا رسول اللہ عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!وہ شخص مجھے چوری کرنے کے الزام سے بری ہے۔”
حضورنبئ پاک،صاحبِ لولاک،سَیَّاحِ افلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”کون ہے جواس شخص کولے آئے؟” حاضرين میں سے ستر(70)صحابہ کرام علیہم الرضوان نے اسے لانے میں ایک دوسرے سے جلدی کی ،چنانچہ وہ اسے بارگاہِ رسالت علی صاحبھاالصلوٰۃ والسلام میں لے آئے۔
رحمتِ عالم،نورِمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا:”جب تم یہاں سے لوٹ رہے تھے توکیاکہہ رہے تھے؟”تواس نے جوکچھ کہاتھابتادیا۔”نبئ اکرم، نورِمجسَّم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”یہی وجہ ہے کہ میں نے فرشتوں کودیکھا جومدینہ منورہ کی گلیوں میں تیزی سے آرہے تھے ،قریب تھا کہ وہ میرے اور تمہارے درمیان حائل ہوجاتے پھر حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے ارشادفرمایا:” تم ضرور پُل صراط پر میرے پاس آؤ گے اورتمہاراچہرہ چودھویں رات کے چاندسے زیادہ چمکدار ہو گا ۔ ”
سوال:یہ ہے کہ سرکارِ مدینہ ،راحتِ قلب و سینہ،باعثِ نزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کاظاہراورباطن کاایک ساتھ فیصلہ دینے کے ساتھ مختص ہونا اور باقی تمام انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کاان دونوں میں سے ایک کے ساتھ فیصلہ کرنا ان انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں نقص اورعیب کا باعث ہے۔
جواب:یہ توبہت ہی عجیب بات ہے اس لئے کہ صحیح احادیثِ مبارکہ میں سرکارِ دوعالم،نورِ مجسَّم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خودارشاد فرماياہے کہ مجھے ایسے خصائل حميدہ(یعنی پسندیدہ اوصاف اورخوبیاں)عطاکئے گئے جومجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کئے گئے۔” تومعاذاللہ(يعنی اللہ عزوجل کی پناہ)کوئی مسلمان یہ کیسے کہہ سکتاہے کہ یہ باقی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں نقص اور عیب کاباعث ہے۔
بہت سی نصوص اورنقول ایسی آئی ہیں جن کے مطابق سرکارِ دوعالم،نورِمجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں ایسے اُمورحَسنہ جمع کر دیئے گئے جوآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کسی نبی میں جمع نہیں کئے گئے۔ان میں سے قتل عمد(يعنی جان بوجھ کرقتل کرنے)میں قصاص (يعنی مقتول کے بدلے قاتل کوقتل کرنا)اوردِیت(يعنی قتل کے بدلے مال لینے)میں اختیارکا ہوناشامل ہے حالانکہ حضرت سیدنا موسیٰ کلیم اللہ علی نبینا وعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی شریعت میں صرف قصاص تھا اور حضرت سیدنا عیسیٰ روح اللہ علی نبیناوعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی شریعت میں صرف دیت تھی۔
سرکارِ مدینہ ،قرارِ قلب و سینہ ،با عثِ نُزولِ سکینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا دونوں اُمور(يعنی ظاہروباطن)کے مطابق فیصلہ فرمانے کاعام اختيارآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کے عموم(یعنی عام ہونے)کی مثال ہے کیونکہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم بالاجماع تمام جن وانس کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں جبکہ ہر نبی کو خاص اس کی اپنی قوم کی طرف مبعوث کیا جا تا تھا توکیا کوئی مسلمان اس طرح کہہ سکتا ہے کہ یہ باقی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں نقص اورعیب ہے؟
اسی طرح آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے لئے تمام روئے زمین پر نمازاداکرنا مباح قراردیاگیاجبکہ باقی انبیاء کرام علیہم السلام کی عبادت کے لئے مخصوص جگہوں کے علاوہ باقی زمین پرنمازکی ادائیگی جائز قرارنہیں دی گئی توکیاکوئی مسلمان یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ عمومیت(یعنی تمام زمین پرنمازجائزہونا)جس کے ساتھ ہمارے نبئ مکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مختص کئے گئے باقی تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے حق میں نقص وعیب کا باعث ہے ؟معاذاللہ عزوجل
اور اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
تِلْکَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰی بَعْضٍ
ترجمہ ـ کنزالایمان:یہ رسول ہیں کہ ہم نے ان میں ایک کو دوسرے پر افضل کیا۔(پ3،البقرۃ:253)
ایک اور مقام پرارشاد فرماتاہے:
وَلَقَدْ فَضَّلْنَا بَعْضَ النَّبِیِّیْنَ عَلٰی بَعْضٍ
ترجمہ ـ کنزالایمان: اور بے شک ہم نے نبیوں میں ایک کو ایک پر بڑائی دی ۔(پ 15،بنی اسرائیل :55)
ہرمسلمان کا یہ عقیدہ ہے کہ ہمارے نبئ مکرم،نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مطلق طورپر تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل ہیں اوریہ انبیاء کرام علیہم السلام میں سے کسی کے حق میں بھی نقص اور عیب کا باعث نہیں۔
اس اعتراض کا جواب دینے کی ضرورت تونہ تھی لیکن میں نے اس خوف سے اس کاجواب دے دیاکہ کہیں ایسانہ ہوکہ کوئی جاہل ایسی بات سن کر يہ وہم کرے کہ يہ ديگر انبياء کرام علیہم السلام ميں عيب اور نقص کا باعث ہے اوراس کو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ان خصائص کے انکارپربرانگیختہ نہ کر دے جن کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوباقی تمام انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام پر فضیلت دی گئی ہے۔
نیزوہ اس بات کاانکار نہ کردے جو نبئ پاک، صاحبِ لَولاک،سَیَّاح اَفلاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے خودبيان فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ایسے خصائل حمیدہ عطا کئے گئے جو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے کسی نبی کوبھی عطا نہیں کئے گئے اور یہ کہ ہرہر خصلت(يعنی اچھی صفت)میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو ديگر انبیاء کرام علیہم السلام پر فضیلت عطا کی گئی۔لہذا ميں نے اس کا جواب دیاہے تاکہ معاذ اللہ کہیں وہ کافراور زندیق (يعنی بے دين)نہ ہوجائے ۔
ہم ایسی باتوں سے اللہ عزوجل کی پناہ مانگتے ہیں اوراللہ عزوجل سے سلامتی، عافیت اور حسنِ خاتمہ کاسوال کرتے ہیں ۔ (اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْنِ )
وصلی اللہ علی سیدنامحمدوعلی الہ وصحبہ وسلم تسلیماکثیرا
الی یوم الدین والحمدللہ رب العالمین
۱؎ المعجم الکبیر فی الحدیث للامام ابی القاسم سلیمان بن احمد الطبرانی علیہ رحمۃ اللہ الربانی آپ علیہ الرحمہ کی معجم الکبیر ۲۵ ہزار احادیث پر مشتمل ہے ۔ (کشف الظنون،ج۲،ص۱۷۳۷)
۱ ؎ الحافظ ،المحدث ، ابوشجاع شیر ویہ بن شہر دار بن شیر ویہ فنا خسرہ الدیلمی ، الھمذانی، آپ علیہ الرحمہ نے رجب المرجب کی ۱۹ تا ریخ کو وصال فرمایا ،آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے آثار میں سے ، فردوس الاخبار بماثور الخطاب، المخرج علی کتاب الشھاب فی الحدیث ، الفردوس بما ثور الخطاب ، مسند الفر دوس وغیرہ ہیں۔
(معجم المؤلفین،ج۱،ص۸۲۳،الاعلام للزرکلی،ج۳،ص۱۸۳)