islam
حقوقِ والدين
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
وَ وَصَّیۡنَا الْاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ حُسْنًا ؕ وَ اِنۡ جَاہَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیۡ مَا لَیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْہُمَا ؕ اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمۡ بِمَا کُنۡتُمْ تَعْمَلُوۡنَ ﴿۸﴾
ترجمہ کنزالایمان: اور ہم نے آدمی کو تاکيد کی(۱) اپنے ماں باپ کے ساتھ بھلائی کی(۲) اور اگر وہ تجھ سے کوشش کريں کہ تو ميرا شريک ٹھہرااسے جس کا تجھے علم نہيں(۳) توتُوان کا کہا نہ مان(۴) ميری ہی طرف تمہارا پھرنا ہے تو ميں بتا دوں گا تمہيں جو تم کرتے تھے(۵)۔(پ۲۰، العنکبوت:۸ )
تفسير:
(۱) يہ آيت حضرت سیدناسعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حق ميں نازل ہوئی۔يہ اپنی والدہ کے بڑے فرما بردار تھے۔ جب ايمان لائے تو ان کی ماں نے کہا کہ اسلام چھوڑ دو ورنہ ميں کھاؤں گی ، نہ پےؤں گی نہ سايہ ميں بیٹھوں گی ، سوکھ کر مرجاؤں گی اور ميرے خون کا وبال تجھ پر ہوگا۔ يہ کہہ کر اس نے کھانا پينا چھوڑديا دھوپ ميں بیٹھ گئی، چوبيس گھنٹے اسی حال ميں رہی اور بہت ضعيف ہو گئی۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمايا کہ ماں اگر تيری سو100جانيں بھی ہوں اور ايک ايک کر کے سب قربان ہوجائيں تو بھی ميں ايمان نہ چھوڑوں گا ۔ جب ماں مايوس ہو گئی تو اس نے کھانا
پينا شروع کر ديا ۔ اس موقع پر يہ آيتِ کريمہ اتری۔
(۲) معلوم ہوا کہ ماں باپ کا مادری پدری حق ضرور ادا کرے اگرچہ وہ کافر ہوں۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ حقِ فرزندی ہر قوم ميں مانا گيا ۔ اس لئے وَصَّينا الْاِنْسَانَ فرمايا گيا ۔ يہ بھی معلوم ہوا کہ احکامِ شرعی کے مقابلے ميں کسی قرابت دار کا کوئی حق نہيں جيسا کہ آيت سے معلوم ہو رہا ہے۔ لہٰذا ماں باپ کے کہنے پر شرعی احکام نماز وغيرہ نہ چھوڑے ۔
(۳) شرک سے مراد مطلقاً کفر ہے ۔يعنی ماں باپ کے کہنے سے کفر نہ کرو،جب کفر ميں ماں باپ کی بھی اطاعت نہيں تو کسی دوسرے کا ذکر کيا ۔
(۴) ماں باپ کے کہنے سے ايمان نہ چھوڑے نہ فرض عبادت۔نفل عبادت ماں کے منع پر چھوڑے۔ حجِ نفل کے لئے سفر بغير ماں باپ کی اجازت کے نہيں کر سکتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ ايمان ميں تقليد جائز نہيں ۔
(۵) يہ آيت پچھلی آيت کی دليل ہے کہ چونکہ تمہيں رب عزوجل کی طرف ہی رجوع کرنا ہے لہٰذا تمہيں لازم ہے کہ کسی کو راضی کرنے کے لئے اسے ناراض نہ کر لو۔(تفسير نورالعرفان)