islam
پانچ مشہور اور پرانے بت
حضرت نوح علیہ السلام کی قوم بت پرست ہو گئی تھی۔ اور ان لوگوں کے پانچ بت بہت مشہور تھے جن کی پوجا کرنے پر پوری قوم نہایت ہی اصرار کے ساتھ کمربستہ تھی اور ان پانچوں بتوں کے نام یہ تھے۔(۱) ودّ (۲) سُواع (۳) یغُوث (۴) یَعُوق (۵) نسر
حضرت نوح علیہ السلام جو بت پرستی کے خلاف وعظ فرمایا کرتے تھے تو ان کی قوم ان کے خلاف ہر کوچہ و بازار میں چرچا کرتی پھرتی تھی اور حضرت نوح علیہ السلام کو طرح طرح کی ایذائیں دیا کرتی تھی۔ چنانچہ قرآن مجید کا بیان ہے کہ:
وَ قَالُوۡا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَ لَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّ لَا سُوَاعًا ۬ۙ وَّ لَا یَغُوۡثَ وَ یَعُوۡقَ وَ نَسْرًا ﴿ۚ23﴾وَ قَدْ اَضَلُّوۡا کَثِیۡرًا ۬ۚ
ترجمہ کنزالایمان:۔اور بولے ہرگز نہ چھوڑنا اپنے خداؤں کو اور ہرگز نہ چھوڑنا وَدّ اور سواع اور یغوث اور یعوق اور نسر کو اور بے شک انہوں نے بہتوں کو بہکایا۔(پ29،نوح:23،24)
یہ پانچوں بت کون تھے؟ ان کے بارے میں حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا بیان ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے یہ پانچوں فرزند تھے جو نہایت ہی دین دار و عبادت گزار تھے اور لوگ ان پانچوں کے بہت ہی محب و معتقد تھے۔ جب ان پانچوں کی وفات ہو گئی تو لوگوں کو بڑا رنج و صدمہ ہوا تو شیطان نے ان لوگوں کی تعزیت کرتے ہوئے یوں تسلی دی کہ تم لوگ ان پانچوں صالحین کا مجسمہ بنا کر رکھ لو اور ان کو دیکھ دیکھ کر اپنے دلوں کو تسکین دیتے رہو۔ چنانچہ پیتل اور سیسے کے مجسمے بنا بنا کر ان لوگوں نے اپنی اپنی مسجدوں میں رکھ لئے۔ کچھ دنوں تک تو لوگ ان مجسموں کی زیارت کرتے رہے پھر لوگ ان بتوں کی عبادت کرنے لگے اور خدا پرستی چھوڑ کر بت پرستی کرنے لگے۔ (تفسیر صاوی، ج۶، ص۲۲۴۵،پ۲۹، نوح:۲۳)
حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو برس تک ان لوگوں کو وعظ سنا سنا کر اس بت پرستی سے منع فرماتے رہے۔ بالآخر طوفان میں غرق ہو کر سب ہلاک ہو گئے۔ مگر شیطان اپنی اس چال سے باز نہیں آیا اور ہر دور میں اپنے وسوسوں کے جادو سے لوگوں کو اس طور پر بت پرستی سکھاتا رہا کہ لوگ اپنے صالحین کی تصویروں اور مجسمے بنا کر پہلے تو کچھ دنوں تک ان کی زیارت کرتے رہے اور ان کے دیدار سے اپنا دل بہلاتے رہے۔ پھر رفتہ رفتہ ان تصویروں اور مجسموں کی عبادت کرنے لگے۔ اس طرح شرک و بت پرستی کی لعنت میں د نیا گرفتار ہو گئی اور خدا پرستی اور توحید خالص کا چراغ بجھنے لگا جس کو روشن کرنے کے لئے انبیاء سابقین یکے بعد دیگرے برابر مبعوث ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ ہمارے حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ کے لئے بت پرستی کی جڑ اس طرح کاٹ دی کہ آپ نے تصویروں اور مجسموں کا بنانا ہی حرام فرما دیا اور حکم صادر فرمادیا کہ تصاویر اور مجسمے ہرگز ہرگز کوئی شخص کسی آدمی تو آدمی کسی جاندار کے بھی نہ بنائے اور جو پہلے سے بن چکے ہیں ان کو جہاں بھی دیکھو فوراً مٹا کر اور توڑ پھوڑ کر تباہ و برباد کردو تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔
درسِ ہدایت:۔آج کل میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے پیروں کے مریدین نے اپنے پیروں کی تصویروں کو چوکھٹوں میں بند کر کے اپنے گھروں میں رکھ چھوڑا ہے اور خاص خاص موقعوں پر اس کی زیارت کرتے کراتے رہتے ہیں بلکہ بعض تو ان تصویروں پر پھول مالائیں چڑھا کر اگربتی بھی سلگایا کرتے ہیں اور اس کے دھوئیں کو اپنے بدن پر ملا کرتے ہیں۔ اگر یہ لوگ اپنی ان خرافات سے باز نہ رہے اور علماء اہل سنت نے اس کے خلاف علم مخالفت نہ بلند کیا تو اندیشہ ہے کہ شیطان کا پرانا حربہ اور اس کی شیطانی چال کا جادو مسلمانوں پر چل جائے گا اور آنے والی نسلیں ان تصویروں کی عبادت کرنے لگیں گی۔ خوب کان کھول کر سن لو کہ: حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے بت پرستی کے جس درخت کی جڑوں کو کاٹ دیا تھا۔ آج کل کے یہ جاہل بدعتی پیر اور ان کے توہم پرست مریدین بت پرستی کی ان جڑوں کو سینچ سینچ کر پھر شرک و بت پرستی کے درخت کو ہرا بھرا اور تناور بنا رہے ہیں۔ آج کل کے جاہل اور دنیا دار پیروں سے تو کیا امید کی جا سکتی ہے کہ وہ اس کے خلاف زبان کھولیں گے۔ مگر ہاں حق پرست اور حق گو علماء اہل سنت سے بہت کچھ امیدیں وابستہ ہیں کہ وہ ان کے خلافِ شرع اعمال و افعال کے خلاف ان شاء اللہ تعالیٰ ضرور علم جہاد بلند کریں گے کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہر اس موقع پر جب کہ اسلام کی کشتی گمراہیوں کے بھنور میں ڈگمگانے لگی ہے تو علماء اہل سنت ہی نے اپنی جان پر کھیل کر کشتی اسلام کی ناخدائی کی ہے۔ اور آخر طوفانوں کا رخ موڑ کر اسلام کی کشتی کو غرقاب ہونے سے بچا لیا ہے۔
مگر اس زمانے میں اس کا کیا علاج ہے؟ کہ ان بے شرع پیروں اور مکار باباؤں نے چند روپیوں کے بدلے کچھ مولویوں کو خرید لیا ہے اور یہ مولوی صاحبان ان بے شرع پیروں اور مکار باباؤں کو ”مجذوب” یا فرقہ ”ملامتیہ” کا خوبصورت لبادہ اوڑھا کر خوب خوب ان کے کشف و کرامت کا ڈنکا بجا رہے ہیں۔ اور ان باباؤں کے نذرانے سے اپنی مٹھی گرم کررہے ہیں اور اگر کوئی حق گو عالم ان لوگوں کے خلاف کوئی کلمہ کہہ دے تو بابا لوگ اپنے داداؤں کو بلا کر اس عالم کی مرمت کرادیں اور ان کے زرخرید مولوی اپنی مخالفانہ تقریروں کی بوچھاڑ سے بے چارے حق گو عالم کی زندگی دوبھر کردیں۔ میں نے بارہا علماء اہلسنت کو پکارا اور للکارا کہ لِلّٰہ اٹھو اور حق کے لئے کمربستہ ہو کر کم از کم اتنا تو کردو کہ متفقہ فتویٰ کے ذریعے یہ اعلان کردو کہ یہ داڑھی منڈے ،اول فول بکنے والے، گَنجیڑی، تارک صوم و صلوٰۃ، بے شرع بابا لوگ فاسق معلن ہیں۔ جو خود گمراہ اور مسلمانوں کے لئے گمراہ کن ہیں اور ان لوگوں کو ولایت و کرامت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں۔ مگر افسوس کہ ایک مولوی بھی مجھ عاجز کی آواز پر لبیک کہنے والا نہیں ملا۔ بلکہ پتا یہ چلا کہ ہر بابا کی جھولی میں کوئی نہ کوئی مولوی چھپا ہوا ہے۔ جس کے خلاف کچھ کہنا خطرے سے خالی نہیں۔ کیونکہ جو بھی ان باباؤں کے خلاف زبان کھولے گا ان نذرانہ خور مولویوں کی کاؤں کاؤں اور چاؤں چاؤں میں اس کی مٹی پلید ہوجائے گی۔
فیا اسفاہ ویاحسرتاہ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ