islam
۔۔۔۔۔افعال ناقصہ کابیان۔۔۔۔۔
افعال ناقصہ کی تعریف :
وہ افعال فقط فاعل کے ساتھ ملکر مکمل جملہ نہ بنتے ہوں بلکہ فاعل کے بارے میں خبر کی بھی ضرورت ہو۔جیسے: کَانَ زَیْدٌ أَسِیْراً (زید قیدی تھا) صَارَ بَکْرٌ غَنِیًّا (بکر مالدار ہوگیا)۔
توضیح:
ان مثالوں میں اگر صرف ”کان زید”(زیدتھا)یا”صار بکر”(بکر ہوگیا)کہاجاتا تو یہ جملے مکمل نہ ہوتے لیکن چونکہ فاعل کے بارے میں خبر بھی دیدی گئی ہیں اس لیے یہ مکمل ہوگئے۔
افعال ناقصہ کا عمل:
یہ افعال جملہ اسمیہ پر داخل ہوتے ہیں۔ مبتدأ کو رفع اور خبر کو نصب دیتے ہیں۔ مبتدأ کو ”فعل ناقص کا اسم”اور خبر کو”فعل ناقص کی خبر” کہتے ہیں۔جیسے پہلی مثال میں کَانَ فعل ناقص ہے اورزَیْدٌ فعل ناقص کا اسم ہے اوراسی بناء پر وہ مرفوع ہے۔ اور أَسِیْراً فعل ناقص کی خبرہے اور اسی بناء پر وہ منصوب ہے۔اسی طرح دوسری مثال میں۔
فائدہ:
چونکہ یہ افعال لازم ہونے کے باوجودفقط اپنے فاعل کے ساتھ ملکر مکمل جملہ نہیں بنتے
بلکہ فاعل کے بارے میں خبر کے محتاج ہوتے ہیں اور یہ محتاجی نقص ہے اس لیے ان افعال کو ”افعال ناقصہ”(نامکمل افعال)کہا جاتا ہے۔اور جو افعال اپنے فاعل سے مل کرمکمل جملہ بن جاتے ہیں انہیں”افعال تامّہ” کہتے ہیں۔جیسے:
قَامَ زَیْدٌ، فَازَ خَالِدٌ وغیرہ۔
افعال ناقصہ سترہ (۱۷)ہیں :
۱۔کَانَ ۲۔صَارَ ۳۔ظَلَّ ۴۔بَاتَ ۵۔ أَصْبَحَ ۶۔أَضْحٰی ۷۔أَمْسٰی ۸۔عَادَ ۹۔اٰضَ ۱۰۔غَدَا ۱۱۔رَاحَ ۱۲۔مَا زَالَ ۱۳۔مَا انْفَکَّ ۱۴۔مَا بَرِحَ ۱۵۔مَافَتِیئَ ۱۶۔مَا دَامَ ۱۷۔لَیْسَ۔
۱۔ کان:
یہ چار طریقوں سے استعمال ہوتاہے:(۱)فعل ناقص کے طورپرجبکہ یہ اپنے فاعل سے ملکر مکمل جملہ نہ بن رہاہو۔جیسے: کَانَ الشَّارِعُ مُزْدَحِماً ۔
(۲)فعل تام کے طور پر جبکہ یہ صرف اپنے فاعل سے مل کر مکمل جملہ بن جائے ، اس صورت میں یہ حَصَلَ اور ثَبَتَ کے معنی میں ہوتاہے۔ جیسے:کَانَ مَطْرٌ(بارش ہوئی )
(۳)بطورزائد کہ اگر اسے عبارت سے نکال بھی دیا جائے تو اصل معنی میں کوئی فرق نہ آئے ۔جیسے: (کَیْفَ نُکَلِّمُ مَنْ کَانَ فِی الْمَھْدِ صَبِیًّا ) ( وہ بولے ہم کیسے بات کریں اس سے جو پالنے میں بچہ ہے) (۴) کَانَ بمعنی صَارَ۔ جیسے: کَانَ الشَّجَرُ مُثْمِراً (درخت پھل دا ر ہوگیا)
۲۔ صار:
یہ اپنے اسم کی حالت یا صفت کو تبدیل کرنے کے لیے استعمال ہوتاہے۔جیسے:صَارَ
الْمَاءُ بَارِداً(پانی ٹھنڈا ہو گیا)
۳، ۴، ۵، ۶، ۷۔ أَصْبَحَ، أَضْحٰی، أَمْسٰی، ظَلَّ، بَات:
یہ پانچوں اس بات پر دلالت کرتے ہیں ان کا اسم ان کی خبر کے ساتھ ان کے اوقات میں متصف ہیں۔ جیسے: أَصْبَحَ التِّلْمِیْذُ مُصَلِّیاً (طالب علم نے صبح کے وقت نماز پڑھی) أَضْحَی الْأُسْتَاذُ مُسْتَرِیْحاً (استاد نے چاشت کے وقت آرام کیا) أَمْسَی الطِّفْلُ نَائِماً (بچہ شام کے وقت سویا) ظَلَّ الْعَالِمُ مُسْافِراً (عالم نے دن کے وقت سفر کیا) بَاتَ الْقَاصِدُ مُنْتَظِراً (قاصدرات بھر انتظار کرتا رہا ) ۸، ۹، ۱۰، ۱۱۔ مَا زالَ ، مَا بَرِحَ، مَا فَتِیئَ، مَا انْفَکَّ:
یہ چاروں افعال خبر کے استمرار پر دلالت کرتے ہیں۔ جیسے: مَا زَالَ الْمَرِیْضُ بَاکِیاً (مریض مسلسل روتا رہا) مَا بَرِحَ زَیْدٌ یَضْرِبُ (زید برابر مارتا رہا) مَا فَتِیئَ الْیَھُوْدُ أَعْدَاءً لِلاِسْلاَمِ (یہود اسلام سے دشمنی کرتے رہے) مَا انْفَکَّ أَعْدَاءُ الاِسْلاَمِ یَکِیْدُوْنَ لَہٗ (دشمنان ِاسلام اس کے خلاف سازش کرتے رہے)۔
۱۲۔ مادام:
یہ ماقبل فعل کی مدت بیان کرنے کے لیے آتاہے۔دَامَسے پہلے مَا مصدریہ ظرفیہ ہے۔ جیسے: اِجْلِسْ مَادَامَ زَیْدٌ جَالِساً (تو زید کے بیٹھنے تک بیٹھ)
۱۳، ۱۴، ۱۵، ۱۶۔ عَادَ، اٰض، غَدَا، رَاحَ:
یہ چاروں جب ناقصہ ہوں تو صَارَ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ۔ جیسے: عَادَ زَیْدٌ غَنِیًّا (زید غنی ہو گیا)اسی طرح اٰضَ، غَدَا، رَاحَ زَیْدٌ غَنِیًّا (زید غنی ہو گیا)۔
او ر اگر تامہ ہوں تو پھر اپنے اپنے معنی میں ہونگے یعنی عَادَ بمعنی ”لوٹنا”۔جیسے: عَادَ زَیْدٌ مِنْ سَفَرِہٖ (زید اپنے سفر سے واپس آیا)اٰضَ بمعنی ”پھرنا”۔ جیسے: اٰضَ زَیْدٌ مِنْ سَفَرِہٖ (زید اپنے سفر سے واپس آیا) غَدَابمعنی ”صبح کے وقت جانا”۔ جیسے:غَدَا زَیْدٌ(زید صبح کے وقت گیا)رَاحَبمعنی ”شام کے وقت جانا”۔ جیسے:رَاحَ زَیْدٌ (زیدشام کے وقت گیا)۔
۱۷۔ لیس:
یہ اپنے اسم سے زمانہ حال میں خبر کی نفی پر دلالت کر تاہے۔ جیسے:لَیْسَ الْمُتَکَبِّرُ نَاجِحاً(متکبر آدمی کامیاب نہیں)
افعال ناقصہ کے چند ضروری قواعد
۱۔ ان کے اسم اورخبر کے وہی احکام ہیں جو مبتدأ اور خبر کے ہیں۔ اتنا فرق ہے کہ مبتدأ کی خبر مرفوع اور ان کی خبر منصوب ہوتی ہے۔
۲۔جس طرح مبتدأ کی خبر کو مبتدأ پر مقدم کرناجائز ہے اسی طرح افعال ناقصہ کی خبر کو بھی ان کے اسماء پر مقدم کرنا جائز ہے ۔جیسے:کَانَ قَائِماً زَیْدٌ۔
۳۔ افعال ناقصہ میں سے جن افعال کے شروع میں لفظ”مَا”نہیں آتا ان میں خود ان افعال پر بھی خبرکو مقدم کرنا جائز (۱) ہے۔ جیسے: قَائِماً کَانَ زَیْدٌ۔
۴۔ظَلَّ، بَاتَ، أَمْسٰی، أَصْبَحَ، أَضْحٰی یہ پانچوں بھی صَارَ کے معنی میں استعمال ہوتے ہیں ، اس صورت میں ان سے وقت مراد نہیں ہوتا صرف تبدیلی حالت مقصود ہوتی ہے۔
جیسے:أَمْسَی الْمَاءُ بَارِداً (پانی ٹھنڈا ہوگیا)۔
(۱)…… لیس کے بارے میں اختلاف ہے کہ اس کی خبر کو اس پر مقدم کرسکتے ہیں یا نہیں، جمہور کے نزدیک تقدیم جائز ہے، جبکہ بعض منع فرماتے ہیں۔