islam
بنی اسرائیل پر طاعون کا عذاب
جب ”میدان تیہ” میں بنی اسرائیل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم زمین سے اگنے والے غلے اور ترکاریاں کھائیں گے تو ان لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ تم لوگ ”من و سلویٰ” کے نفیس کھانے کو چھوڑ کر گیہوں، دال اور ترکاریوں جیسی خسیس اور گھٹیا غذائیں کیوں طلب کررہے ہو؟ مگر جب بنی اسرائیل اپنی ضد پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم لوگ میدان تیہ سے نکل کر شہر بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ اور وہاں بے روک ٹوک اپنی پسند کی اور من بھاتی غذائیں کھاؤ مگر یہ ضروری ہے کہ تم لوگ بیت المقدس کے دروازے میں کمال ادب و احترام کے ساتھ جھک کر داخل ہونا اور داخل ہوتے وقت یہ دعا مانگتے رہنا کہ یا اللہ! تو ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے تو ہم تمہارے گناہوں کو بخش دیں گے۔
مگر بنی اسرائیل جو ہمیشہ سے سرکش اور شرارتوں کے عادی اور خدا کی نافرمانیوں کے خوگر تھے، بیت المقدس کے قریب پہنچ کر ایک دم ان لوگو ں کی رگ شرارت بھڑک اٹھی اور یہ نافرمان لوگ بجائے جھک کے داخل ہونے کے اپنی سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے اور حِطَّۃٌ(معافی کی دعا )کے بدلے حبۃ فی شعرۃ (ایک دانہ ہے ایک بال میں)کہتے ہوئے اور مذاق و تمسخر کرتے ہوئے بیت المقدس کے دروازے میں گھستے چلے گئے۔ فرمانِ ربانی کی اس نافرمانی اور حکم الٰہی کے ساتھ تمسخر کی وجہ سے ان لوگوں پر قہر خداوندی بصورت عذاب نازل ہو گیا کہ اچانک ان لوگوں میں طاعون کی بیماری وبائی شکل میں پھیل گئی اور گھنٹہ بھر میں ستر ہزار بنی اسرائیل درد و کرب سے مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
(صاوی،ج ۱،ص۳۱ و جلالین)
طاعون:۔ایک مہلک وبائی بیماری ہے جس کو ڈاکٹر ”پلیگ”کہتے ہیں اس بیماری میں گردن اور بغلوں اور کنجِ ران میں آم کی گٹھلی کے برابر گلٹیاں نکل آتی ہیں۔ جن میں بے پناہ درد اور ناقابل برداشت سوزش ہوتی ہے اور شدید بخار چڑھ جاتا ہے اور آنکھیں سرخ ہوجاتی ہیں اور دردناک جلن سے شعلہ کی طرح جلنے لگتی ہیں اور مریض شدتِ درد اور شدید بے چینی و بے قراری میں تڑپ تڑپ کر بہت جلد مرجاتا ہے اور جس بستی میں یہ وبا پھیل جاتی ہے اس بستی کی اکثر آبادی موت کے گھاٹ اتر جاتی ہے اور ہر طرف ویرانی اور خوف و ہراس کا دور دورہ پھیل جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے اس واقعہ کا ذکر فرماتے ہوئے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:۔
وَ اِذْ قُلْنَا ادْخُلُوۡا ہٰذِہِ الْقَرْیَۃَ فَکُلُوۡا مِنْہَا حَیۡثُ شِئْتُمْ رَغَدًا وَّادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا وَّقُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ نَّغْفِرْلَکُمْ خَطٰیٰکُمْ ؕ وَسَنَزِیۡدُ الْمُحْسِنِیۡنَ ﴿58﴾فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا قَوْلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمْ فَاَنۡزَلْنَا عَلَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا رِجْزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَفْسُقُوۡنَ ﴿٪59﴾
ترجمہ کنزالایمان:۔ اور جب ہم نے فرمایا اس بستی میں جاؤ پھر اس میں جہاں چاہو بے روک ٹوک کھاؤ اور دروازہ میں سجدہ کرتے داخل ہو اور کہو ہمارے گناہ معاف ہوں ہم تمہاری خطائیں بخش دیں گے اور قریب ہے کہ نیکی والوں کو اور زیادہ دیں تو ظالموں نے اور بات بدل دی جو فرمائی گئی تھی اس کے سوا توہم نے آسمان سے ان پر عذاب اتارا بدلہ ان کی بے حکمی کا۔ (پ1،البقرۃ:58۔59)
درسِ ہدایت:۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ خداوند قدوس کی نافرمانی اور احکام ربانی کے ساتھ تمسخر و مذاق کرنے کا کتنا بھیانک اور کس قدر ہولناک انجام ہوتا ہے کہ آخرت کا عذاب تو اپنی جگہ برقرار ہی ہے دنیا میں قہر الٰہی بصورت عذاب نازل ہوجاتا ہے جس سے لوگ ہلاک ہوکر فنا کے گھاٹ اتر جاتے ہیں اور بستیاں ویران ہوجاتی ہیں معاذ اللہ منہ۔
فائدہ:۔”طاعون” بنی اسرائیل کے حق میں عذاب تھا مگر اس خیرالامم یعنی خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے حق میں یہ بیماری رحمت ہے کیونکہ حدیث شریف میں آیا ہے کہ طاعون کی بیماری میں مرنے والا شہید ہوتا ہے۔
(تفسیر صاوی، ج۱،ص۶۸،پ۱،البقرۃ: ۵۹)
مسئلہ یہ ہے کہ جس بستی میں طاعون کی وبا پھیلی ہو وہاں جانا نہیں چاہے اور اگر اپنی بستی میں وبا آجائے تو بستی چھوڑ کر دوسری جگہ بھاگنا نہیں چاہیئے بلکہ طاعون کی وبا میں اپنی بستی ہی کے اندر خدا پر توکل کر کے صبر کے ساتھ رہنا چاہے اگر اس بیماری میں مر گیا تو شہید ہو گا اور طاعون کے ڈر سے بستی چھوڑ کر بھاگنے والے پر اتنا بڑا گناہ ہوتا ہے جتنا کہ جہاد کے دن میدان چھوڑ کر بھاگنے والوں پر گناہ ہوتا ہے اس لئے ہرگز ہرگز بھاگنا نہیں چاہے بلکہ اس بیماری میں صبر کے ساتھ اپنی ہی بستی میں مقیم رہنا چاہے کہ اس پر خداوند تعالیٰ نے اجر و ثواب کا وعدہ فرمایا ہے۔ (واللہ تعالیٰ اعلم)