islam
(۲۰) مدینہ طیبہ کی سکونت
عَنْ رَجُلٍ مِّنْ اٰلِ الْخَطَّابِ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ زَارَنِیْ مُتَعَمِّدًا کَانَ فِیْ جَوَارِیْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَمَنْ سَکَنَ الْمَدِیْنَۃَ وَصَبَرَ عَلٰی بَلَائِھَا کُنْتُ لَہٗ شَھِیْدًا وَّشَفِیْعًا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَمَنْ مَاتَ فِیْ اَحَدِ الْحَرَمَیْنِ بَعَثَہُ اللہُ مِنَ الْاٰمِنِیْنَ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ (1) (مشکوٰۃ،ج۱،ص۲۴۰)
آل خطاب کے ایک مرد سے روایت ہے، انہوں نے نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم سے روایت کیاہے کہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایاکہ جوشخص بالقصدمیری زیارت کو آیاوہ قیامت کے دن میری محافظت میں رہے گااورجوشخص مدینہ میں سکونت کریگا اورمدینہ کی تکالیف پر صبرکریگاتومیں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گااورجوشخص حرمین(مکہ،مدینہ)میں سے کسی ایک میں مرے گااللہ تعالیٰ اس کو اس حال میں قبر سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے خوف سے امن میں رہے گا۔
تشریحات و فوائد
(۱) مدینہ منورہ میں زندگی کی آخری سانس تک سکونت رکھنا اور وہاں کی تکالیف پر صبر کرنایہاں تک کہ اس مقدس شہر میں وفات ہوجائے۔یہ بھی جنت دلانے والے اعمال میں سے ایک بہت ہی امید افزا عمل ہے۔ چنانچہ ایک دوسری حدیث میں آیا ہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا کہ ”جو مدینہ میں مرسکے اس کو چاہیے کہ وہ مدینہ ہی میں مرے اس لیے کہ جو مدینہ میں مرے گا میں اُس کی شفاعت کروں گا ۔(2)اس حدیث کو امام احمد اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔(مشکوٰۃ،ج۱،ص۲۴۰)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(۲) بالقصد اور عمداً زیارت کرنے کا یہ مطلب ہے کہ خاص زیارت ہی کی نیت سے
مدینہ طیبہ کا سفر کیا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی دوسرے کام مثلاً تجارت وغیر ہ کی نیت سے مدینہ منورہ جائے اور ضمنی طور پر زیارت بھی کرلے یا بالقصد اور عمداً کا مطلب یہ ہے کہ بالکل ہی اخلاص کے ساتھ زیارت کرے اور بجز طلبِ ثواب کے اور کوئی دوسری نیت یا غرض مقصود نہ ہو۔
بعض عارفین کے متعلق مشہور ہے کہ وہ حج کے لیے گئے تو حج کے بعد مدینہ طیبہ کی زیارت کے لیے نہیں گئے اور یہ کہا کہ یہ سفر تو ہم نے حج کی نیت سے کیا ہے تو سفر حج کے تابع بناکر ضمنی طورپرہم روضہ اقدس کی زیارت نہیں کریں گے بلکہ گھرجاکرپھر خاص روضہ انورکی زیارت کی نیت سے دوسراسفرکرکے ہم روضہ اقدس کی زیارت کریں گے تاکہ بالقصد اورعمداًحضوراقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی زیارت کے لیے ہماراجاناہو۔(1)
(حاشیہ مشکوٰۃ،ص۲۴۰بحوالہ مرقاۃ)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1۔۔۔۔۔۔مشکاۃالمصابیح،کتاب المناسک،الفصل الثالث،الحدیث:۲۷۵۵،ج۱،ص۵۱۲
2۔۔۔۔۔۔سنن الترمذی،کتاب المناقب،باب فی فضل المدینۃ،الحدیث:۳۹۴۳،ج۵، ص۴۸۳
1۔۔۔۔۔۔مرقاۃ المفاتیح،کتاب المناسک،تحت الحدیث:۲۷۵۵،ج۵،ص۶۳۱