عورتوں کیلئے پردہ بہت ضروری چیز ہے اور بے پردگی بہت ہی نقصان دہ، اے مسلم قوم !اگر تو اپنی دینی اور دنیوی ترقی چاہتی ہے تو عورتوں کو اسلامی حکم کے مطابق پردے میں رکھ ہم اس کے متعلق ایک مختصر سي گفتگو کرکے پردے کے عقلی اور نقلی دلائل اور بے پردگی کے نقصان بیان کرتے ہیں ۔
قدرت نے اپنی مخلوق کو علیٰحدہ علیٰحدہ کاموں کیلئے بنایا ہے اور جس کو جس کام کیلئے بنایا ہے اسکے مطابق اس کا مزاج بنایا،ہر چیز سے قدرتی کام لینا چاہے جو خلافِ فطرت کام لے گا وہ خرابی میں پڑے گا۔اسکی سینکڑوں مثالیں ہیں ۔ٹوپی سر پر رکھنے اور جوتا پاؤں میں پہننے کیلئے ہے جو جوتا سر پر باندھ لے اور ٹوپی پاؤں میں لگالے وہ دیوانہ ہے ،گلاس پانی پینے اور اگالدان تھوکنے کے لئے ہے جو کوئی اگالدان ميں پانی پئے اور گلاس میں تھوکے وہ پورا پاگل ہے، بیل کی جگہ گھوڑا اور گھوڑے کی جگہ بیل کام نہیں دے سکتا۔اسی طرح انسان کے دو گروہ کئے گئے ہيں ایک عورت دوسرے مرد۔عورت کو گھر میں رہ کر اندرونی زندگی سنبھالنے کیلئے بنایا گیا ہے اور مرد کو باہر پھر کر کھانے اور باہر کی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے بنایا ۔مثل مشہور ہے کہ کہ پچاس عورتوں کی کمائی میں وہ برکت نہیں جو ایک مرد کی کمائی میں ہے اور پچاس مرد وں سے گھر میں رونق نہیں جو ایک عورت سے ہے، اسی لئے شوہر کے ذمہ بیوی کا سارا خرچ رکھا ہے اور بیوی کے ذمہ شوہر کا خرچہ نہیں ۔کیونکہ عورت کمانے کیلئے بنی ہی نہیں اسی لئے عورتوں کو وہ چیزيں دیں جس سے اس کو مجبوراً گھر میں بیٹھنا پڑے۔اور مردوں کو اس سے آزاد رکھا۔جیسے بچے جننا ،حيض و نفاس آنا ۔ بچوں کو دودھ پلانا وغیرہ اسی لئے پچپن سے ہی لڑکوں کو بھاگ دوڑ،اُچھل کود کے کھیل پسند ہیں جیسے ،کبڈی، کسرت،ڈنڈلگانا وغیرہ اور لڑکیوں کو قدرتی طورپر وہ کھیل پسند ہیں جن میں بھاگنا دوڑنا نہ ہو بلکہ ایک جگہ بيٹھارہنا پڑے جیسے گڑیاسے کھیل ۔سینا پرونا چھوٹی چھوٹی روٹیاں پکانا آپ نے کسی چھوٹی بچی کو کبڈی کھیلتے ،ڈنڈ لگاتے نہ دیکھا ہوگااس سے معلوم ہوتا ہے کہ قدرت نے لڑکوں کو باہر کیلئے اور لڑکیوں کوگھرکیاندرکیلئے پیداکیا ہے۔اب جوشخص عورتوں کوباہرنکالےیا مردو ں کو اندر رہنے کا مشورہ دے وہ ایسا ہی دیوانہ ہے جیسا کہ جو ٹوپی پاؤں میں اور جوتا سر پر رکھے ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جب آپ نے اتنا سمجھ لیا کہ مرد اور عورت ایک ہی کام کیلئے نہ بنے بلکہ علیٰحدہ علیٰحدہ کاموں کیلئے تو اب جو کوئی ان دونوں فریقوں کو ایک کام سپرد کرنا چاہے وہ قدرت کا مقابلہ کرتا ہے اس کو کبھی بھی کامیابی نہ ہوگی۔گویا یوں سمجھو کہ عورت اور مرد زندگی کی گاڑی کے دوپہیئے ہیں اندورنی اور گھریلو دونوں کیلئے عورت گھر اور مرد باہر کیلئے اگر آپ نے عورت اور مرد دونوں کو باہر نکال دیا تو گویا آپ نے زندگی کی گاڑی کا ایک پہیہ نکال دیا تویقینا گاڑی نہ چل سکے گی۔اب ہم عقلی اور نقلی دلائل پر دہ کے متعلق عرض کرتے ہیں ۔
(۱)سب مسلمان جانتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی بیویاں مسلمانوں کی مائیں ہیں ایسی مائیں کہ تمام جہان کی مائیں ان کے قدم پاک پر قربان اگر وہ بیویاں مسلمانوں سے پردہ نہ کرتيں تو ظاہراً کوئی حرج نہیں معلوم ہوتا تھاکیونکہ اولاد سے پردہ کیسا۔مگر قرآن کریم نے ان پاک بیویوں سے خطاب کرکے فرمایا،
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وَقَرْنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوۡلٰی
یعنی اے نبی کی بیویو!تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہاکرو۔اوربے پردہ نہ رہو۔جیسے اگلی جاہلیت کی بے پردگی۔(پ22،الاحزاب 33)
اس میں تو ان بیویوں سے کلام تھا۔اب مسلمانوں سے حکم ہورہا ہے ۔
وَ اِذَا سَاَلْتُمُوۡہُنَّ مَتَاعًا فَسْـَٔلُوۡہُنَّ مِنۡ وَّرَآءِ حِجَابٍ ؕ
یعنی اے مسلمانو!جب تم نبی کی بیویوں سے کوئی استعمال کی چیز مانگو،توپردے کے باہر سے مانگو۔(پ22،الاحزاب:53)
دیکھو بیویوں کو اُدھر گھروں میں روک دیا اور مسلمانوں کو باہر سے کوئی چیز مانگنے کا یہ طریقہ سکھایا۔
(۲)مشکوٰۃبابُ النظرالی لمخطوبہ میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم اپنی دو بیویوں حضرتِ امِ سلمہ اور میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہماکے پاس تشریف فرما تھے کہ اچانک حضرت عبد اللہ ابن مکتوم جو کہ نابینا تھے آگئے حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے ان دونوں بیویوں سے فرمایا:کہ اِحْتَجِبَامِنْہُ ان سے پردہ کرو۔انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم یہ تو نابینا ہیں فرمایا تم تو نابینا نہیں ہو۔
( جا مع التر مذی ،کتاب الادب ، باب ماجاء ۔۔۔۔۔۔ الخ ، الحدیث ۲۷۸۷ ، ج۷ ، ص ۳۵۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس سے معلوم ہوا کہ صرف یہ ہی ضروری نہیں کہ مرد عورت کو نہ دیکھے بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ اجنبی عورت غیر مرد کو نہ دیکھے ۔دیکھو یہاں مرد نابینا ہیں مگر پردہ کا حکم دیا گیا۔
(۳)ایک لڑائی میں حضور انورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم تشریف لے جارہے ہیں آگے آگے حضرت آنجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کچھ گیت گاتے ہوئے جارہے ہیں لشکر کے ساتھ کچھ باپردہ عورتیں بھی ہیں حضرت آنجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہت خوش آوازتھے ارشاد فرمایا:اے آنجشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنا گیت بند کرو کیونکہ میرے ساتھ کچی شيشیاں ہیں۔
(مشکوٰۃ المصابیح ، کتاب الآدب ، باب البیان والشعر ، الفصل الثانی ، الحدیث ۴۸۰۶ ، ج ۳ ، ص ۱۸۸) (وصحیح مسلم ،کتاب الفضائل ، باب رحمۃالنبیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم، الحدیث ۲۳۲۳ ، ص ۱۲۶۹)
اس میں عورتوں کے دلوں کو کچی شیشیاں فرمایا ،جس سے معلوم ہوا ہے کہ پردہ میں رہ کر بھی عورت مرد کا اور مرد عورت کا گانا نہ سنیں ۔
(۴)حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے زمانہ میں عورتوں کو بھی حکم تھا کہ نمازِ عید اور دوسری نمازوں میں حاضر ہوا کریں اسی طرح وعظ کے جلسوں میں شرکت کیا کریں کیونکہ اسلام بالکل نیانیا دنیا میں آیا تھا ۔اگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وعظ عورتیں نہ سنتیں تو شریعت کے حکم اپنے لئے کیسے معلوم کرتیں مگر پھر بھی ان کے نکلنے میں بہت پابندیاں لگادی گئی تھیں کہ خوشبو لگا کر نہ نکلیں ،بیچ راستہ کسی غیر سے بات نہ کریں فجر کی نماز اس قدر اندھیرے میں پڑھی جاتی تھی کہ عورتیں پڑھ کر نکل جائیں اور کوئی پہچان نہ سکے عورتیں مردوں سے بالکل پیچھے کھڑی ہوتی تھیں لیکن حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے خلافت کے زمانہ میں ان کو مسجدوں میں آنے اور عید گاہ جانے سے بھی روک دیا عورتوں نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاسے شکایت کی کہ ہم کو حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نیک کاموں سے روک دیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے فرمایا کہ اگر حضورعلیہ الصلاۃوالسلام بھی اس زمانہ کو دیکھتے تو عورتوں کو مسجدوں سے روک دیتے دیکھو شامی وغيرہ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(رد المحتار ،کتاب الصلاۃ ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب فی حمل المیت ، ج ۳ ، ص ۱۶۲ صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب انتظار الناس ۔۔۔۔۔۔ الحدیث ۸۶۹ ، ج۱ ،ص ۳۰۰)
ان احادیث میں غور کرو کہ وہ زمانہ نہایت خیر وبرکت کا۔یہ زمانہ شرو فساد کا، اسوقت عام مرد پرہیز گار، اب نہایت آزاد اور فسّاق اور فجّار،اس وقت عام عورتیں پاک دامن حیا والی اور شرمیلی ۔اب عام عورتیں بے غیر ت ،آزاد اور بے شرم جب اس وقت عورتوں سے پردہ کرایا گیا تو کیا یہ وقت اس وقت سے اچھا ہے ؟ہم نے مختصر طریقہ سے قرآن وحدیث کی روشنی میں پردہ کی ضرورت بیان کی ۔
(۵)اب فقہ کی بھی سیر کرتے چلئے ۔فقہا فرماتے ہیں کہ عورت کے سر سے نکلے ہوئے بال اورپاؤں کے کٹے ہوئے ناخن بھی غير مردنہ دیکھے (دیکھو شامی باب الستر)
عورت پر جمعہ کی نماز فرض نہیں عید،بقر عید کی نماز واجب نہیں ،کیوں ؟اسلئے کہ یہ نمازیں جماعت سے مسجدوں میں ہی ہوتی ہیں اور عورتوں کو بلا ضرورتِ شرعی گھر سے نکلنے کی اجازت نہیں۔عورت پر حج کیلئے سفرکرنا اس وقت تک فرض نہیں جب تک کہ اسکے ساتھ اپنا محرم نہ ہو یعنی ،باپ بیٹایا شوہر وغیرہ عورت کا منہ غیر مرد نہ دیکھے۔(دیکھو شامی باب الستر)
( الدر المختارورد المحتار ،کتاب الحج ، مطلب فی قولھم ۔۔۔۔۔۔ الخ ، ج۳ ،ص ۵۳۱)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
حضرت فاطمہ زہرارضی اللہ تعالیٰ عنہانے وصیت فرمائی تھی کہ مجھے رات میں دفن کیا جائے کیوں؟اسلئے کہ اگر دن میں دفن کیاگیا تو کم ازکم دفن کرنے والوں کو میرے جسم کا اندازہ تو ہوجائے گا۔یہ بھی منظور نہیں غرضیکہ پردہ کی وجہ سے شریعت نے بہت سے حکم عورتوں سے اُٹھالئے ۔
غور تو کرو:کہ جب عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت نہیں قبرستان جانے کی اجازت نہیں عیدگاہ میں جاکر عید پڑھنے کی اجازت نہیں تو بازاروں، کالجوں اور کمپنی باغوں میں سیر کیلئے جانیکی اجازت کیونکر ہوگی۔کیا بازار کالج اور کمپنی باغ مسجدوں اور مکّہ شریف سے بڑھ کر ہیں؟
نوٹ ضروری:جن احادیث میں عورتوں کا باہر نکلنا آتا ہے وہ یا تو پردہ فرض ہونے سے پہلے تھایا کسی ضرورت کی وجہ سے پردہ کے ساتھ تھا۔ان احادیث کو بغیر سوچے سمجھے بوجھے بے پردگی کیلئے آڑ بنانا محض نادانی ہے اسی طرح اس زمانہ میں عورتوں کا جہادوں میں شرکت کرنا اس وجہ سے تھا کہ اسوقت مردوں کی تعداد تھوڑی تھی اب بھی اگر کسی جگہ مسلمان مرد تھوڑے ہوں اور کفّار زیادہ اور جہاد فرض عین ہوجائے تو عورتیں جہاد میں ضرور جائیں ان جہادوں کو اس زمانہ کی بے حیائی کیلئے آڑ نہ بناؤ۔ اب جہادکے بہانہ سے عورتوں کو مردوں کے سامنے ننگا پریڈ کرایا جاتا ہے بعض دفعہ مجاہدین نے ضرورتاً گھوڑوں کے پیشاب پئے ،درختوں کے پتے کھائے ،کیا اب بھی بلا ضرورت یہ کام کرائے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ وہ وقت نہ لائے جب جہاد میں عورتوں کی ضرورت پڑے۔یہاں تک تو نقلی دلائل سے ہم نے پردہ کی ضرورت ثابت کردی اب عقلی دلیلیں بھی سنيئے۔
(۱)عورت گھر کی دولت ہے اور دولت کو چھپا کر گھر میں رکھا جاتا ہے ہر
ایک کودکھانے سے خطرہ ہے کہ ٖکوئی چوری کرلے۔اسی طرح عورت کو چھپانا اور غیروں کو نہ دکھانا ضروری ہے۔
(۲)عورت گھر میں ایسی ہے جیسے چمن میں پھول اور پھول چمن میں ہی ہر ابھرا رہتا ہے اگر توڑ کر باہر لایا گیا تو مرجھا جائیگا۔اسی طرح عورت کا چمن اس کا گھر اور اسکے بال بچے ہیں اسکو بلاوجہ باہر نہ لاؤ ورنہ مرجھا جائے گی۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(۳)عورت کا دل نہایت نازک ہے بہت جلد ہر طرح کا اثر قبول کرلیتا ہے اسلئے اس کو کچی شیشیاں فرمایا گیا۔ہمارے یہاں بھی عورت کو صنِف نازک کہتے ہیں اور نازک چیز وں کو پتھروں سے دور رکھتے ہیں ۔کہ ٹوٹ نہ جائیں،غیروں کی نگاہیں اس کیلئے مضبوط پتھر ہے اسلئے اس کو غیروں سے بچاؤ۔
(۴) عورت اپنے شوہر اور اپنے باپ دادا بلکہ سارے خاندان کی عزت اور آبرو ہے اور اس کی مثال سفید کپڑے کی سی ہے ،سفید کپڑے پر معمولی سا داغ دھبہ دور سے چمکتا ہے اور غیروں کی نگاہیں اس کے لئے ایک بد نما داغ ہیں،اس لئے اس کو ان دھبوں سے دور رکھو۔
(۵) عورت کی سب سے بڑی تعریف یہ ہے کہ اس کی نگاہ اپنے شوہر کے سوا کسی پر نہ ہو، اسلئے قرآن کریم نے حوروں کی تعریف میں فرمایا قٰصِرٰتُ الطَّرْفِ ( الرحمن :56)
اگر اس کی نگاہ میں چند مرد آگئے تو یوں سمجھو کہ عورت اپنے جوہر کھوچکی ،پھر اسکا دل اپنے گھر بار میں نہ لگے گا جس سے یہ گھر آخر تباہ ہوجائیگا۔
اعتراض:بعض لوگ پردہ کے مسئلہ پر دو اعتراض کرتے ہیں اوّل یہ کہ عورتوں کا گھروں میں قید رکھنا ان پر ظلم ہے جب ہم باہر کی ہوا کھاتے ہیں تو انکو اس نعمت سے کیوں محروم رکھا جائے دوسرے یہ کہ عورت کو پردے میں رکھنے کی وجہ سے اس کو تپِ دق ہوجاتی ہے اس لئے ضروری ہے کہ ان کو باہر نکالا جائے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
جواب:اوّل سوال کا جواب تو یہ ہے کہ گھر عورت کیلئے قید خانہ نہیں بلکہ اس کا چمن ہے گھر کے کاروبار اور اپنے بال بچّوں کودیکھ کر وہ ایسی خوش رہتی ہیں جیسے چمن میں بُلبل، گھر میں رکھنا اس پر ظلم نہیں ،بلکہ عزت وعصمت کی حفاظت ہے اس کو قدرت نے اسی لئے بنایا ہے بکری اسی لئے ہے کہ رات کو گھر رکھی جائے اور شیر چیتا اور محافظ کتا اسلئے ہے کہ انکو آزاد پھرایا جائے اگر بکری کو آزاد کیا تو اس کی جان خطرے میں ہے اسکو شکاری جانور پھاڑ ڈالیں گے۔
دوسرے سوال کا جواب میں کیا دوں ،خود تجربہ دے رہا ہے وہ یہ کہ عورت کیلئے پردہ تپ دق کا سبب نہیں ہماری پرانی بزرگ عورتیں گھر کے دروازے سے بھی بے خبر تھيں مگر وہ جانتی بھی نہ تھیں کہ تپ دق کسے کہتے ہیں اور آج کل بے پردگی میں اوّل نمبر دو صوبہ ہیں ایک کاٹھیاواڑ ،دوسراپنجاب، مگر اللہ تعالیٰ کی شان ہے کہ ان ہی دونوں صوبوں میں تپ دق زیادہ ہے یوپی میں عام طورپر شریفوں کی بہو بیٹیاں پردہ نشین ہیں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان میں دق بہت ہی کم ہے بلکہ اگر کہا جائے کہ دق ہے ہی نہیں تو بھی بے جا نہ ہوگا۔جناب اگر پردہ سے دِق پیدا ہوتی ہے تو مردوں کو دِق کیوں ہوتی ہے۔
دوستو!دِق کی وجہ کچھ اور ہے یاد رکھو!تندرستی کے دوبڑ ے اصول ہیں ان کی پابندی کرو۔ان شاء اللہ عزوجل! تندرست رہو گے۔اوّل یہ کہ بھوکے ہوکر کھاؤاورپیٹ بھرکر نہ کھاؤ بلکہ روٹی سے بھوکے اُٹھو اور دوسرے یہ کہ تھک کر سوؤ پہلے عورتیں چائے کو جانتی بھی نہ تھیں گھر میں محنت مشقّت کے کام کرتی تھیں ۔چکی پیسنا،غلّہ صاف کرنا،خوب پسینہ آتا تھا۔بھوک کھل کر لگتی تھی اور رات کو چارپائی پر خوب بے ہوشی کی نیند آتی تھی اسلئے تندرست رہتی تھیں ، آج ہم دیکھتے ہیں کہ پردہ والی عورتیں ہشاش بشاش معلوم ہوتی ہیں ،ان کے چہرے ترو تازہ ہوتے ہیں مگر آوارہ اور بے ہودہ عورتیں ایسی معلوم ہوتی ہیں جیسے کہ اس پھول کو لُو لگ گئی ہے۔ دوستو!یہ سب بہانہ ہیں، ضروری ہے کہ مکان کُھلے ہوا دار صاف ہوں ،اپنے مکانوں کے صحن بڑے بڑے اور کھلے ہوئے ہوا دار رکھو او رعورتوں بچوں کو چائے اور دوسری خشک چیزوں سے بچاؤ اور دودھ گھی وغيرہ کا استعمال رکھو عورتوں کو آرام طلب نہ بناؤ۔