islam
تنبیہ: قدیر کا انکار کبیرہ گناہ ہے
تقدیر کے انکار کے گناہِ کبیرہ ہونے کی بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے صراحت کی ہے، اسی لئے اسے کبیرہ گناہ شمار کیا گیا ہے اور میں نے جو احادیثِ مبارکہ اس باب میں بیان کی ہیں وہ اس کے کبیرہ گناہ ہونے پر دلیل ہیں، تقدیر کو جھٹلانا اگرچہ ترکِ سنت میں داخل ہے جو کہ بذاتِ خود ایک کبیرہ گناہ ہے مگر اس کی حرمت کے سخت ہونے اور اہل سنت اور دیگر فرقوں میں تقدیر کے مسئلہ میں بہت زیادہ اختلاف کی وجہ سے اسے علیحدہ ذکر کیا گیا کیونکہ افعال کے مخلوق ہونے کا مسئلہ علمِ کلام کے نہایت اہم مسائل میں سے ہے۔
معتزلہ کے وہ دلائل جن کی بناء پر انہوں نے اللہ عزوجل پر افترأ باندھا اور سابقہ صریح آیات اور مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ماقبل میں بیان کردہ احادیث سے منہ موڑا ان میں سے ایک دلیل اللہ عزوجل کا یہ فرمان ہے :
وَ اِنۡ تُصِبْہُمْ حَسَنَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنْ عِنۡدِ اللہِ ۚ وَ اِنۡ تُصِبْہُمْ سَیِّئَۃٌ یَّقُوۡلُوۡا ہٰذِہٖ مِنْ عِنۡدِکَ ؕ قُلْ کُلٌّ مِّنْ عِنۡدِ اللہِ ؕ فَمَالِ ہٰۤؤُلَآءِ الْقَوْمِ لَا یَکَادُوۡنَ یَفْقَہُوۡنَ حَدِیۡثًا ﴿78﴾مَاۤ اَصَابَکَ مِنْ حَسَنَۃٍ فَمِنَ اللہِ ۫ وَمَاۤ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ترجمہ کنزالایمان:اور انہیں کوئی بھلائی پہنچے تو کہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے اور انہیں کو ئی برائی پہنچے تو کہیں یہ حضور کی طرف سے آئی تم فرما دو سب اللہ کی طرف سے ہے تو ان لوگوں کو کیا ہوا کوئی بات سمجھتے معلوم ہی نہیں ہوتے اے سننے والے تجھے جو اَصَابَکَ مِنۡ سَیِّئَۃٍ فَمِنۡ نَّفْسِکَ ؕ وَ اَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوۡلًا ؕ وَکَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًا ﴿79﴾
بھلائی پہنچے وہ اللہ کی طرف سے ہے اور جوبرائی پہنچے وہ تیر ی اپنی طرف سے ہے اور اے محبوب ہم نے تمہیں سب لوگوں کے لئے رسو ل بھیجا اور اللہ کافی ہے گواہ ۔(پ 5، النسآء:78۔ 79)