islam
یتیم کے سرپرہاتھ پھیرنے کی فضیلت:
(19)۔۔۔۔۔۔رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جس نے يتيم کے سر پر اللہ عزوجل کی رضا کے لئے ہاتھ رکھا تواس کے لئے ہر بال کے بدلے جن پر اس کا ہاتھ گزرا نيکياں ہيں اور جس نے يتيم بچے يا بچی کے ساتھ احسان کيا ميں اور وہ جنت ميں ان دو(انگلیوں)کی طرح ہوں گے۔”
(المسند للامام احمد بن حنبل ، حدیث ابی امامۃ الباھلی، الحدیث: ۲۲۲۱۵ ، ج۸ ، ص ۲۷۲)
(20)۔۔۔۔۔۔خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”بے شک اللہ عزوجل نے حضرت سيدنا يعقوب علیہ السلام سے ارشاد فرمایا کہ ان کی بينائی چلے جانے، پيٹھ جھک جانے اور حضرت سيدنا يوسف علیہ السلام کے بھائيوں نے جو کچھ ان کے ساتھ کيا اس کا سبب يہ ہے کہ ايک مرتبہ ايک بھوکا روزہ دار، مسکين يتيم ان کے پاس آيا اس حال ميں کہ انہوں نے اور ان کے گھر والوں نے ایک بکری ذبح کی اور اسے کھا ليا ليکن اس کو کچھ نہ کھلایا، پھراللہ عزوجل نے انہيں بتايا کہ اسے اپنی مخلوق سے يتيموں اور مسکينوں سے محبت کرنے سے زيادہ کوئی چيز پسند نہيں اورآپ علی نبينا وعليہ الصلوٰۃ والسلام کو حکم ديا کہ کھانا تيار کريں اور مساکين کو دعوت ديں پس آپ علی نبينا وعليہ الصلوٰۃ والسلام نے ايسا ہی کيا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المستدرک ،کتاب التفسیر ،سورۃ یوسف، باب علۃ ذھاب بصر ۔۔۔۔۔۔الخ ،الحدیث:۳۳۸۱،ج۳،ص ۸۸تا ۸۹،بتغیرٍ)
(21)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سیِّدُ المُبلِّغین،رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بيواؤں اور مساکين کی پرورش کرنے والا راہِ خدا عزوجل ميں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔” حضرت سيدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ميرا گمان ہے کہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”اور اس قيام کرنے والے کی طرح ہے جو سستی نہيں کرتا اور اس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہيں کرتا۔”
(صحیح مسلم ، کتاب الزھد ، باب فضل الاحسان الی الارملۃ ۔۔۔۔۔۔الخ ، الحدیث: ۷۴۶۸، ص ۱۱۹۴)
(22)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”بيواؤں اور مسکينوں کی پرورش کرنے والا راہِ خدا عزوجل ميں جہاد کرنے والے اور رات کو قيام اور دن کو روزہ رکھنے والے کی طرح ہے۔”
( سنن ابن ماجہ ،ابواب التجارات ، باب الحث علی المکاسب ، الحدیث: ۲۱۴۰ ، ص ۲۶۰۵)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
کسی نیک بزرگ کا کہنا ہے:”ميں ابتداءًبہت نشہ کرتا اور گناہوں ميں مبتلا رہتا تھا، ايک دن میں نے ايک يتيم ديکھا تو ميں اس سے شفقت سے پیش آیا جيسا کہ بچے پر شفقت کی جاتی ہے بلکہ اس سے بھی زيادہ۔ پھر ميں سو گيا تو ميں نے جہنم کے فرشتوں کو ديکھا جو مجھے سختی سے پکڑ کر جہنم کی طرف لے جا رہے ہیں، اچانک وہی يتيم میرے سامنے آکھڑا ہوا اور ان فرشتوں سے کہنے لگا:”اسے چھوڑ دو! يہاں تک کہ ميں اس کے بارے ميں اپنے رب عزوجل سے رجوع کر لوں۔” مگرانہوں نے انکار کر ديا، پھر اچانک ايک آواز آئی:”ہم نے اسے يتيم پر احسان کرنے کی وجہ سے اس کا حصہ عطاکر ديا ہے۔” لہذا ميں بيدار ہوا اور اس دن سے يتيموں کے ساتھ اورزیادہ احسان کرنے لگا۔”
منقول ہے کہ ”کسی خوشحال علوی کے ہاں لڑکياں تھيں، وہ مرگيا تو شديدفقرنے ان کے ہاں ڈیرے ڈال دئیے يہاں تک کہ انہوں نے جگ ہنسائی کے خوف سے اپنے وطن سے ہجرت کی اورايک شہرکی متروکہ مسجد(یعنی جس میں لوگوں نے نماز پڑھناچھوڑدی تھی)ميں داخل ہوگئیں، ان کی ماں نے انہيں وہاں چھوڑا اور خود ان کے لئے رزق تلاش کرنے کے لئے نکل کھڑی ہوئی، وہ شہر کے ايک مسلمان رئيس کے پاس سے گزری اور اسے اپنا حال بيان کيا ليکن اس نےتصديق نہ کی اور کہا:”مجھے اس کی دليل پيش کرو۔” اس نے کہا:”ميں مسافرہوں۔” ليکن اس مسلمان رئیس نے اس خاتون سے منہ پھیر ليا، پھر وہ ايک مجوسی کے پاس سے گزری اور اس سے اپنی لاچارگی بيان کی تو اس نےتصديق کرتے ہوئے اپنی ايک خاتون کو اس کے ساتھ بھيجا، لہذا وہ خاتون اس کو اور اس کی لڑکيوں کو اپنے گھر لے آئی اور ان کی بہت زيادہ عزت کی، جب نصف رات گزر گئی تو اس مسلمان نے خواب ديکھا:”قيامت قائم ہو چکی ہے اورنبئ کریم،رء وف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے سرپر”لِوَاءُ الْحَمْد” (يعنی حمد کا جھنڈا) ہے اور آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قريب ہی ایک عظيم الشان محل ہے، اس نے عرض کی:”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! يہ محل کس کے لئے ہے؟”تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”کسی بھی مسلمان شخص کے لئے۔” اس نے عرض کی:”ميں بھی تو مسلمان موحِّدہوں۔”توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشاد فرمایا:”ميرے پاس اس کی دليل پيش کرو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
وہ حيران و ششدرہوگيا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے اسے علوی خاتون کا قصہ بيان کيا،چونکہ وہ آدمی اس علوی خاتون کو دھتکارچکا تھا لہذا شدتِ غم و اَلم ميں بيدارہوااورانہیں تلاش کرنا شروع کر ديايہاں تک کہ اسے ايک مجوسی کے گھرميں اس کے موجود ہونے کا پتہ چلا،پس اس نے مجوسی سے مطالبہ کيا ليکن اس نے انکارکرديااورکہا:”مجھے اس کی برکات حاصل ہوچکی ہيں،مسلمان نے کہا:”يہ ایک ہزار(1000) دينارلے لواوروہ علوی خاتون ميرے حوالے کردو۔”ليکن اس مجوسی نے پھربھی انکارکرديا،تو مسلمان نے اس مجوسی کوایساکرنے سے متنفرکرنے کی کوشش کی لیکن اس مجوسی نے اس سے کہا:”جوتم چاہتے ہو ميں اس کا زيادہ حق دار ہوں اور وہ محل جو تم نے خواب ميں ديکھا ہے ميرے لئے بناياگياہے، کياتم مجھ پر اپنے اسلام کی وجہ سے فخرکرتے ہو،اللہ عزوجل کی قسم! ميں اور ميرے گھروالے اس وقت تک نہیں سوئے جب تک کہ اس علوی خاتون کے ہاتھ پراسلام قبول نہ کر ليا اور ميں نے بھی تمہارے خواب کی مثل خواب ديکھا ہے اور مجھ سے رسول اللہ عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے استفسار فرمایا:”علوی خاتون اور اس کی بيٹياں تيرے پاس ہيں؟”ميں نے عرض کی:”جی ہاں،يارسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم!”توآپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم نے ارشادفرمایا:”يہ محل تيرے اورتيرے گھر والوں کے لئے ہے۔” آخرکار وہ مسلمان چلا گيا اور اس کے حزن و ملال کواللہ عزوجل ہی جانتا ہے۔