islam
خریدوفروخت کابیان
کبيرہ نمبر178: آزاد انسان کو بيچنا
(1)۔۔۔۔۔۔حضرت سيدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار مدينہ، راحتِ قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:اللہ عزوجل ارشادفرماتاہے:”ميں قيامت کے دن تين شخصوں سے جھگڑا کروں گا اور جس سے جھگڑا کروں گا اس پر غالب آجاؤں گا: (۱)وہ شخص جس نے میرے نام پرعہدکیاپھرعہدشکنی کی(یعنی اسے توڑدیا)(۲)جس نے کسی آزاد شخص کو(غلام بناکر) بيچا اور اس کی قيمت کھا لی اور (۳)جس نے کسی کو اُجرت پر رکھا پھر اس سے پورا کام لے ليا مگر اس کی اُجرت نہ دی۔”
(سنن ابن ماجۃ،ابواب الرھون،باب اجرالاجراء،الحدیث:۲۴۴۲،ص۲۶۲۳،”یعطہ” بدلہ”یوفہ”)
تنبیہ:
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اس حدیثِ پاک ميں وارد شديد وعيد کی بناء پر اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کيا گيا ہے، بعض متاخرين علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے اس کے کبيرہ گناہ ہونے کی صراحت بھی کی ہے اور يہ ايک واضح بات ہے،حضرتِ سیدناامام طحاوی علیہ رحمۃ اللہ الھادی فرماتے ہيں: ”ابتدائے اسلام ميں آزاد اگر مقروض ہوتا اور اس کے پاس قرض کی ادائيگی کے لئے کوئی ذريعہ نہ ہوتا تو اسے بيچ ديا جاتا تھا يہاں تک کہ اللہ عزوجل نے اپنے اس فرمانِ عالیشان سے اس عمل کو منسوخ فرماديا:
وَ اِنۡ کَانَ ذُوۡعُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیۡسَرَۃٍ
ترجمۂ کنز الايمان: اور اگر قرض دار تنگی والا ہے تو اسے مہلت دو آسانی تک۔(پ3، البقرۃ:280)
جبکہ ايک قوم نے اس کے منسوخ ہونے کا قول نہيں کيا بلکہ کہا ہے کہ”يہ حکم ابھی تک برقرار ہے۔”جيسا کہ،
(2)۔۔۔۔۔۔ايک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے:”مجھ پر کسی شخص کا مال يا قرض تھا وہ مجھے شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہ ميں لے کر حاضر ہوا ليکن آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ميرے پاس کوئی مال نہ پايا تو مجھے اس قرض کے عوض بيچ ديا يا اس قرض کی ادائيگی کے لئے بيچ ديا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(سنن الدار قطنی،کتاب البیوع،الحدیث:۳۰۰۶ ج۳،ص۷۴)
مگر يہ روايت ضعیف ہونے کی وجہ سے قابل حجت نہيں۔