Our website is made possible by displaying online advertisements to our visitors. Please consider supporting us by whitelisting our website.
islam

جامعہ نظامیہ کے مشاہیر علماء و محققین

جامعہ نظامیہ کے 
مشاہیر علماء و محققین 

از : شاہ محمد فصیح الدین نظامی ،
 مہتمم کتب خانہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد ،دکن

جامعہ نظامیہ تشنگان بادہ علم و عرفان کے لئے نہرِ سلسبیل، طالبانِ منزلِ حکمت کا خضرِ معتبر، وادی گنگ وجمن میں دارِ ارقم اور سینہء ارض دکن پر اشارۂ خیر البشر، جس کے خوشہ چینوں میں سلطان ونادار بھی اور جسکی عظمت شعور و آگہی کے آگے بندگان وتاجور بھی سر خمیدہ ہیں۔ 136سال کے طویل عرصہ میں جامعہ نظامیہ نے قوم وملت کو علماء ادباء قراء، شعراء مفسرین، محدثین،مصلحین، مصنفین، مورخین، مبلغین، مفکرین، قائدین، عمائدین واساطین علم و فن دیئے جنہوں نے فکر و نظر کو سوز و گداز کی سوغات عطا کرنے والے درس، دلنشین وعظ ونصیحت دینی و دعوتی خدمات کے ساتھ اپنی غیر معمولی شخصیت کااثر قائم کیا۔ فضل وکمال کے اس قافلے میں چند معروف اور نمایاں نام یہ ہیں۔ حضرت مظفر الدین معلیؔ، حضرت سید شاہ ندیم اللہ بختیاریؒ، حضرت مفتی محمد رکن الدین ؒ، حضرت شیخ صالح باحطابؒ، حضرت شیخ سالم بن صالح باحطابؒ، حضرت سیدابراہیم ادیب رضویؒ، حضرت حکیم محمود صمدانیؒ،حضرت مفتی سید محمود کان اللہ لہؒ، حضرت مفتی محمد رحیم الدینؒ، حضرت سید شاہ محمد شطاری ؒ، حضرت سید غوث الدین قادریؒ، حضرت ابوالوفاء الافغانی ؒ ، حضرت سید محمد قادریؒ، حضرت محمد قاسمؒ، حضرت محمد بشیر الدینؒ،حضرت مفتی سید احمد علی قادری صوفیؒ،حضرت قاضی عبدالقادر فاروقیؒ، حضرت حکیم ابوالفداء محمود احمدؒ، حضرت مفتی مخدوم بیگ الھاشمیؒ، حضرت مفتی اشرف علی اشرفؔؒ، حضرت اکبر علی ؒ مدیر صحیفہ ، حضرت سید محمود یافع نظامی ؒ، حضرت راز دار بیگ الھاشمیؒ، حضرت سید عبدالغنیؒ، حضرت ابوالخیر محمد پیرؒ، حضرت ڈاکٹر محمد عبد الحقؒ، حضرت اسماعیل شریف ازلؔؒ، حضرت اسماعیل ہزاریؒ، حضرت سید ندیم اللہ حسینی سالکؔؒ، حضرت عبدالواحد اویسیؒ، حضرت محمود احمد حسین نقویؒ ،حضرت ھبتہ اللہ ؒ ،حضرت عبدالقادر قیصرؔ،ؒ حضرت سید شاہ پیر حسینیؒ ،حضرت سید عبدالرحیم حسینیؒ ،حضرت محمد حسین المحدثؒ ،حضرت حبیب عبداللہ المدیحج حضرمیؒ ،حضرت سید ابوتراب یافع نظامیؒ ،حضرت فضل علیؒ ،حضرت احمد رضویؒ ،حضرت سید عبدالرحیم حسینیؒ ،حضرت حکیم سید محمد عثمان حسینیؒ، حضرت سید ابراہیم حسینیؒ ،حضرت قاری عبدالرحمن بن محفوظ الحمومیؒ، حضرت سعید العمودی الازہری یمنیؒ ، حضرت قاضی میر انور علیؒ، حضرت خواجہ عبدالعزیز ؒ ایڈوکیٹ، حضرت محمد یسینؒ، حضرت محمد حسین شاہ نوریؒ، حضرت سید شاہ غلام غوث قادری شطاریؒ، حضرت غلام محبوب،ؒ حضرت حکیم حافظ احمد عبدالعلیؒ ،حضرت شیخ محبوبؒ ، حضرت عبدالباقی شطاریؒ،حضرت مفتی عبدالحمیدؒ ، حضرت شیخ محمد سعیدؒ ، حضرت غلام احمد ؒ، حضرت محمد فیض الدینؒ ، حضرت سید صبغۃ اللہ بختیاریؒ ، حضرت محمد وجیہ الدینؒ ، حضرت حاجی منیرالدینؒ،  حضرت سید عمر علی انورؔؒ،  حضرت سید مظہر علی، ؒ حضرت محمد عثمانؒ، حضرت عبدالوکیل جعفری ، ؒ حضرت محمد جلال الدین حسامی کاملؒ ، حضرت سید شاہ سیف الدین شرفیؒ ، حضرت حکیم عبدالقدیر وجودیؒ ، حضرت صوفی احمد حسینؒ، حضرت سید عبدالغنیؒ ، حضرت غلام مرتضیؒ ، حضرت حافظ محمد بشیرالدینؒ ، حضرت سید حبیب اللہ قادری رشید پاشاہؒ ، حضرت نوراللہ قادری، ؒ حضرت قاضی سید علیؒ، حضرت سید حبیب پاشاہؒ ، حضرت سید عطاء اللہ نقشبندیؒ ، حضرت محمد حمیداللہ خانؒ ، حضرت محمد الطاف حسین فاروقیؒ ، حضرت عزیز بیگؒ ، حضرت ابوالخیر کنج نشینؒ،  حضرت پیر زادہ روحی قادریؒ ، حضرت قاری عبدالباریؒ ، حضرت قاری حسن شاہؒ ، حضرت میر کاظم علی حسینیؒ، حضرت قاری اکبر علی بیگؒ ، حضرت حکیم ریاض الدینؒ ، حضرت شاہ محی الدین نبیرہ قادریؒ، حضرت محمد خلیل اللہ حضرمیؒ، حضرت محمد شریفؒ، حضرت قاری انصار علی قریشی جاویدؔؒ ، حضرت جامیؔ صدیقیؒ ،
چند مشاہیر کے مختصر حالات قارئین کی نذر ہیں:
حضرت مفتی سید محمد مخدوم حسینی الحسنی قادری قدس سرہ 
قرآن پاک میں ارشاد ربانی (انما یخشی اللہ من عبادہ العلماء) یعنی (اس کے بندوں میں اللہ تعالی سے وہی ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں) سے جہاں علمائے کرام کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے وہیں حضور اکرمﷺ کے فرمان مبارک (علماء امتی کانبیاء بنی اسرائیل)یعنی (میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کی طرح ہیں) سے علماء حق کے اعلی مدارج کی توثیق ہوتی ہے۔
چونکہ اب کوئی دوسرا نبی یا رسول آنے والا ہر گز نہیں۔ لہذا حقانی علوم کی اشاعت وتبلیغ کا فریضہ صرف امت مرحومہ کے علمائے محتشم ہی ادا فرماتے رہینگے۔ جس کا سلسلہء فیضان قیامت تک جاری وساری رہے گا۔ علم ربانی کی یہ شمعیں یکے بعد دیگرے دنیا میں فروزاں ہوتی رہیں گی جسکی روشنی سے عالم منور ہوتا رہیگا۔ علماء پیدا ہوتے رہیں گے اور مینارۂ نور بن کر طالبانِ علم کے قلوب و اذہان کو روشن کرتے رہیں گے اور اپنے مقدس فریضہ کی ادائی کے بعدفنافی اللہ ہو کر واصل بحق ہوجائیں گے۔ لیکن ان کا نام اور کام رہتی دنیا تک یادگار اور ناقابل فراموش بن جائیگا۔
حقانی علم کے ایسے ہی درخشاں میناروں میں سے ایک مینار حضرت مفتی سید شاہ محمد مخدوم حسنی الحسینی قادری قدس سرہ کی ذات بابرکات ہے شریعت وطریقت کے جملہ علوم کے عالم ورہنما کی حیثیت سے نہ جانے کتنی شمعوں کو روشن کردیا جو آج ملک وبیرون ملک میں اپنی تابانی کے ذریعہ حضرت ممدوح علیہ الرحمہ کا نام روشن کئے ہوئے ہیں۔ آپ نے دین وملت کے لئے جو گراں مایہ خدمات انجام دی ہیں وہ آج بھی زندئہ جاوید اور نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں۔
ولادت : ریاست آندھراپردیش میں واقع ’’بلہاری شریف‘‘ کے محلہ تالاب کٹہ میں ماہ ذیقعدہ۱۲۹۸؁ھجری نبوی میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی، مادئہ تاریخ ’’رحمت خدا آمد‘‘(۱۲۹۸ھجری) ہے۔
نام وکنیت: اسم گرامی ’’سید محمد مخدوم حسینی‘‘ہے لیکن عرف عام میں ’’سید خواجہ پیر حسینی‘‘ کے نام سے مشہور ہیں۔
القاب: احتراما عوام و خواص میں ’’حضرت مفتی صاحبؒ کا لقب مقبول تھا۔ اسکے علاوہ علماء ومشائخ وخلفاء اور تلامذہ ومریدین میں کئی تعظیمی القاب سے آپ آج بھی یاد کئے جاتے ہیں جیسے سید السادات، خواجۂ خواجگان، امام العارفین، عمدۃ الواصلین، قطب الارشاد، تاج العلماء، فخر الفضلاء وغیرہ۔
خاندان ونسب: اپنے والد ماجد حضرت سید عبدالقادر محی الدین حسینی قادریؒ کی جانب سے آپ کا سلسلۂ نسب وسلسلہء خلافت حضرت سید الشھداء سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ تک اور والدہ معظمہ کی جانب سے سلسلہء حسب حضرت امام حسن مجتبی رضی اللہ عنہ سے جاملتا ہے۔ اسلئے آپ حسنی الحسینی کہلاتے ہیں۔
ذہانت طبع:۔ آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین واقع ہوئے تھے جس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ جملہ علوم ظاہری کی تکمیل کے بعدفقہ، تفسیر وحدیث میں خصوصا جب کامل ہوئے تو آپ کی عمر صرف سترہ(۱۷) سال تھی۔ چنانچہ اسی موقع پر آپ کی دستار بندی کی جو یادگار تقریب کرنول شریف میں منعقد ہوئی تھی اس محفل میں ہندوستان بھر کے مختلف حصوں سے مشہور ومعروف علماء کرام نے شرکت فرمائی تھی۔
علمی تبحر :۔ تفسیر، حدیث، فقہ، کلام، ادب وغیرہ جملہ علوم ظاہری میں کمال حاصل فرمانے کے بعد علمِ تصوف کی تحصیل اور سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد سے کی اور بہت جلد علوم شریعت وطریقت کے جامع ایک عالم دین ہونے کے ساتھ ساتھ صوفی صافی بن کر مسند تعلیم وارشاد پر فائز ہوئے تو تشنگان علم دور دور سے جمع ہو کر آپ سے فیضان حاصل کرنے لگے۔
ایک طرف قرآن شریف کے ستائیس پاروں کے حافظ تھے تو دوسری طرف حافظ شیرازیؒ کے دیوان فارسی کے حافظ تھے ۔معرفت و تصوف پر مشتمل کئی غزلیں لفظ بہ لفظ زبانی روانی کے ساتھ سنادیتے۔ عربی ، فارسی اور اردو پر اس قدر عبور حاصل تھا کہ ان تینوں زبانوں میں آپ نے خود کئی نظمیں، نعتیں اور سلام موزوں فرمائے ہیں۔ جس کا ایک ایک شعر ادبیت، فصاحب اور بلاغت کے جواہر پاروں سے بھرپورہے۔
آپ کے علم وفضل کے چرچے ملک کے گوشہ گوشہ تک پہونچ گئے۔ اس وقت ریاست حیدرآباد دکن علوم وفنون کا مثالی گہوارہ تھا۔ جہاںعصری علوم کا مرکز جامعہء عثمانیہ اور مشرقی علوم کا سر چشمہ جامعہء نظامیہ تھا جہاں سے بے شمار فرزندان علم فارغ ہو کر ملک وبیرون ملک علمی خدمت میں مصروف تھے۔ بانی جامعہ نظامیہ حضرت مولانا انواراللہ فاروقی فضیلت جنگؒ بڑے مردم شناس واقع ہوئے تھے۔ اپنی جامعہ کو فروغ دینے کیلئے آپ نے دور دور سے لائق علماء واساتذہ کو حیدرآباد آنے کی دعوت دی اسی دور میں حضرت سید شاہ محمد مخدوم حسینی رحمۃ اللہ علیہ جیسی فاضل شخصیت بھلا کسطرح چھوٹ سکتی تھی جنھوں نے جامعہ نظامیہ میں در وتدریس کی پیشکش کو قبول فرمالیا۔ پھر تو کیا تھا بڑے بڑے گھرانوں کے طالبان علم نے آپ کے روبرو زانوئے ادب تہ کرنے کو اپنے لئے سعادت اور خوش نصیبی قرار دیا۔ آپ کے فیض علم سے سیراب ہونے والا ہر شاگرد ارباب علم کی نظر میں بڑا معتبر اور مستند سمجھاجاتا۔ یہی وجہ تھی کہ آپ کی شخصیت پر بانی جامعہء نظامیہ فخر وناز فرماتے اور آپکو ہر وقت نہایت عزیز رکھتے۔
آپ کے تبحر علمی کا ڈنکا حضور نظام کے دربار تک بجنے لگا جس سے متاثر ہو کر نواب صلابت جاہ بہادر اور نواب بسالت جاہ بہادر کے استاد کی حیثیت سے فرمان شاہی کے ذریعہ آپ کا تقرر عمل میں آیا۔ آپ کی قدر افزائی کرتے ہوئے کنگ کوٹھی سے گھوڑا گاڑی پورے شاہانہ اعزاز کے ساتھ آپ کی خانقاہ تک روزانہ آیا کرتی جسمیں آپ تشریف لیجاکر شہزادگان خانوادئہ آصفیہ کو درس دیا کرتے۔ دریں اثناء اعلحضرت نواب میر عثمان علی خاں بہادر آصفجاہ سابع کو جب کبھی علمی مسائل میں کوئی تشنگی ہوتی تو آپ سے ہی رجوع کرتے اور سوالات کے تشفی بخش جوابات پاکر بڑے مطمئن ہوجاتے۔
فن افتاء میں خصوصا آپ کو ید طولی حاصل تھا۔ چنانچہ عرصہ تک جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں شیخ الفقہ اور مفتی جامعہء نظامیہ کی حیثیت سے کارگزار رہے۔ اس دوران جو فتاوی صادر فرماتے وہ ہند وستان اور دیگر بیرونی ممالک میں جایا کرتے جس میں بطور خاص مصر بھی شامل ہے۔ اسکے علاوہ آپ مفتی عدالت العالیہ ریاست حیدرآباد دکن کے عہدئہ جلیلہ پر بھی ایک عرصہ تک فائز رہے۔ اعلحضرت آصف سابع ہر مسئلہ شرعی میں آپ ہی کے فتوی کو حرف آخر تصور کرتے۔
فقہ کی مشہور و معتبر کتب کا ایک بار مطالعہ کرلینے کے بعد اسکی عبارت کا ایک ایک لفظ ازبر ہوجاتا اور حافظہ میں محفوظ رہتا۔ کسی استفتاء کے جواب میں حوالوں کی ضرورت لاحق ہوتی تو اپنے تلامذہ یا معاونین کو ہدایت دیتے کہ فلاں الماری سے فلاں نام کی کتاب لے آئیں پھر اپنے حافظہ کے زور پر کتاب کے صفحہ اور سطر نمبر کی نشاندہی فرماتے جہاں مطلوب حوالہ کی عبارت کوئی وقت ضائع کئے بغیر منٹوں میں نکل آجاتی۔ اسطرح فقہ کی اکثر کتب کے بھی آپ گویا حافظ کہلائے جاسکتے ہیں۔
ذاتی کتب خانہ:۔ آپ اپنا ایک ذاتی کتب خانہ رکھتے تھے جس میں ادب وانشاء، حدیث وتفسیر، فقہ وتصوف وغیرہ جملہ علوم وفنون پر مشتمل کوئی پچاس ہزار کتابیں موجود تھیں ان میں بعض قلمی ومطبوعہ کتب تو بالکل نادر ونایاب تھیں۔
تصنیفات وتالیفات:۔ چونکہ آپ جملہ فنون ظاہری میں عالم اجل ہونے کے ساتھ ساتھ علم تصوف وعرفان کے بھی امام تھے اسلئے آپ کی تصانیف دونوں علوم پر محیط ہیں جنکی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں چند کے نام درج ذیل کئے جاتے ہیں جن میں سے بعض زیور طبع سے آراستہ بھی ہوچکے ہیں۔
۱۔مخدوم الاعجاز شرح مثنوی گلشن راز
۲۔ ارشاد خواجہ پیر برہان الدین
۳۔ خادم مخدوم
۴۔ کرامات محبوب سبحانی
۵۔ مخدوم الانساب
۶۔ مخدوم الاحزاب
۷۔ خیر الارشاد
۸۔ ضرورت المسلمین
۹۔ مخدوم الکمالی فی شان الجلالی والجمالی
ان کے علاوہ کئی ایسے مخطوطات بھی موجود ہیں جو اشاعت کے لائق ہیں یوں تو آپ کی ہر کتاب علمی شہ پاروں کا ایک مرقع ہے لیکن ان میں جس کتاب کو غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی وہ فن تصوف میں آپ کی معرکۃ الآراء کتاب ’’مخدوم الاعجاز‘‘ ہے۔ اس کا ترجمہ اور تحشیہ آپ نے اس قدر دل پذیر انداز میں تحریر فرمایا ہے کہ تصوف ومعرفت کے بڑے بڑے مشکل مسائل ایک مبتدی قاری کو سمجھنے کے لئے آسان سے آسان ہوگئے ہیں۔
دیگر تبلیغی سرگرمیاں:۔ رب تبارک وتعالی نے آپ کو قلم اور زبان دونوں نعمتوں سے مالا مال فرمایاتھا۔ چنانچہ اشاعت الاسلام اور دینی علوم کی تبلیغ میں آپ کی تصنیفات اور آپ کے مواعظ حسنہ ایک عظیم ذریعہ ثابت ہوئے۔ علمی مجالس اور تقریری نشستوں کے سوا میلاد النبیﷺ کی اکثر محافل آپ ہی کی مقدس نگرانی اور سرپرستی میں منعقد ہوا کرتی تھیں۔ جنکا حیدرآباد دکن کے علاوہ آندھرا اور ملک کے دیگر مقامات پر خصوصی انتظام ہوا کرتا۔ ان مواقع پر آپ کے بصیرت افروز ارشادات ایسے دلنشین ہوتے تھے کہ عامۃ المسلمین کے علاوہ جید علمائے کرام ان محفلوں میں شرکت کے دلدادہ ہوتے۔ عشق رسول اور عرفان و تصوف کے عنوان سے ایسے ایسے علمی نکات بیان فرماتے کہ سامعین کے قلوب میں شوق و ذوق کا ایک طوفان موجزن ہوجاتا اور ایمان کو تازگی نصیب ہوجاتی۔
تلامذہ:۔ آپ کے تلامذہ بے شمار ہیں جو ملک وبیرون ملک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ کے چشمہء علم وعرفان سے جو بھی سیراب ہوا وہ اپنے دورکا جید عالم، صوفی، خطیب، مفتی، قاضی غرض کہ ہر شعبہ ء علم کا پیشوا ثابت ہوا۔ آپ سے فیض یاب شاگردوں کی فہرست نہایت طویل ہے۔ جن میں سے کئی حضرات حکومت اور جامعات میں اعلی عہدوں پر فائز ہوئے اور شایان شان خدمات انجام دینے کے بعد واصل بحق ہوئے تو اپنا نام اور کام بطور باقیات الصالحات چھوڑ گئے اور دیگر جو حضرات موجود ہیں دین وملت کی گراں قدر خدمات میں منہمک و مصروف ہیں۔ ان میں علمائے حق بھی ہیں اور مشائخ وارباب طریقت بھی ہیں۔
جامعہ نظامیہ کے اکثر شیوخ کو آپ ہی سے تلمذ کا شرف حاصل رہاہے۔ جن میں اکثر شیخ الجامعہ اور امیرجامعہ کے اعلی عہدہ پر متمکن ہوئے۔ سابق امیران جامعہ نظامیہ میںمولانا سید شا ہ قطب الدین صاحب حسینی صابری مرحوم اور مولانا سید رشید پاشاہ صاحب قادری بھی آپ ہی کے تلمیذ رشیدہیں۔ ان کے علاوہ شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ کی حیثیت سے آپکے تلامذہ میں مولانامحمد عبدالحمید صاحبؒ ، مولانا حکیم محمد حسین صاحبؒ نیز مولانامفتی شیخ سعید صاحب ؒاور مولانا سید طاہر صاحب رضوی ؒقابل ذکر ہیں دیگر تلامذہ میں مولانا ابوالوفا صاحب افغانیؒ شیخ الفقہ، مولانا حاجی منیر الدین صاحبؒ شیخ الادب وخطیب مکہ مسجد، مولانا حافظ عبدالرحمن صاحب ؒخطیب شاہی مسجد باغ عامہ، مولانا حبیب اللہ صاحبؒ مدیحج صدر مصحح دائرۃ المعارف العثمانیہ، مولانا مفتی عبدالجلیل صاحبؒ مشیر امور مذہبی نظام ٹرسٹ، مولانا غلام احمد صاحبؒ شیخ المعقولات مولاناصفدر علی صاحبؒ، مولانا ریاض الدین صاحبؒ، مولانا عبدالواحد اویسی صاحبؒ مرحوم صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین، مولانا ابوالخیر کنج نشین صاحبؒ مرحوم، مولوی سید حیدر صاحبؒ، مولوی عبدالقادر صاحبؒ، مولوی حامد علی صاحبؒ، مولوی شیخ محمد محاسبؒ نظامیہ اور مولانا قاری روشن علی صاحب ؒ  بھی شامل ہیں۔
جن مشائخ عظام نے آپ کے درس وتدریس سے استفادہ فرمایا ہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں:۔ حضرت مفتی صاحب کے داماد سید مجیب الدین حسینی بخاری واصلؔ مولانا سید محمد بادشاہ صاحب حسینیؒ، مولانا سید شاہ حسین حسینی صاحب بندہ نوازی، مولانا مچھلی والے شاہ صاحبؒ، مولانا سید فرید پاشاہ صاحبؒ،مولانا شیخن احمد صاحبؒ شطاری کاملؔ(فرزند) مولانا سید شاہ فضل اللہ حسینی صاحبؒ، مولانا سید فصیح اللہ حسینی صاحب ؒسجادہ چنچولی، مولانا شیخ علاء الدین صاحب جنیدیؒ، مولانا سید محی الدین حسینی قادریؒ، مولانا سید عثمان صاحب قادریؒ، مولانا سید ابراہیم حسینی صاحبؒ قادری، فقیر سید حبیب پاشاہ قادری مخدومی(داماد مفتی صاحبؒ)، مولانا سید عبد المحی الدین قادری موسوسیؒ،مولانا سید شاہ عبدالکریم بغدادیؒ، مولوی ابوالفضل سید محمود صاحب قادری موظف منصف، ڈاکٹر میر ولی الدین صدر شعبہ فلسفہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباد۔
مریدین ومتوسلین وخلفاء:۔ آپ کے دست حق پرست پر بیعت کا شرف ہزاروں اصحاب کو حاصل ہوا۔ آپ کے مریدین کی ایک کثیر تعداد ادھونی، کرنول، بلہاری، پڈاٹور اور ہاس پیٹ حیدرآباد میں اب بھی موجود ہے۔ کئی حضرات خلافت سے ممتاز ہوئے ہیں۔ جن میں مولانا سید شاہ صبغۃ اللہ اللّٰہی قادری چشتی کے علاوہ فقیر کے پیرومرشد حضرت سید شاہ محمد مجیب الدین حسینی بخاری واصل قدس سرہ خصوصی ذکر کے مستحق ہیں۔
حلیہ مخدوم:۔ دراز قد، قوی الجشہ،واقع ہوئے تھے، رنگ سفید اور شخصیت نہایت پرکشش تھی۔ چہرہ بے حد نورانی جسے دیکھتے ہی اللہ یاد آئے جو کہ اللہ والوں کی علامت ہے۔ رفتار باوقار اور گفتار عالمانہ جن کے ہر جملہ وکلمہ سے علم وعرفان کی موتیاں ٹپک پڑتے ہمیشہ سیاہ جبہ اور مدنی عمامہ زیب تن کئے ہوئے رہتے۔ گھر سے باہر کبھی مخلی بالطبع نہیں نکلتے۔ بلکہ معمولی کام کیلئے بھی باہر جاناہو تا تو اپنے عالمانہ لباس میں ہی نکلتے۔
اوصاف حسنہ:۔ نہایت بااخلاق اور عالی ظرف تھے۔ بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت سے پیش آتے ملنے ملانے یا بات چیت، ہر بات میں سنت نبوی پر عمل پیرا ہونے کا ہمیشہ مظاہرہ فرماتے تھے۔
وصال :۔آپ کا وصال بتاریخ ۱۰؍شعبان ۱۳۶۴ہجری نبوی بروز جمعہ بعد نماز فجر خانقاہ مخدومیہ حیدرآباد آندھراپردیش میںہوا۔
مزار مبارک:۔ محلہ بہادرپورہ (خیابان مخدومی) میں آپ کا مزار پر انوار واقع ہے جو آج بھی بے شمار طالبان حق کے لئے چشمۂ فیوض و برکات بناہوا ہے۔
خیابان مخدومی:۔ احاطہ درگاہ، حضرت ’’خیابانِ مخدومی‘‘ کے نام سے مقبول خاص وعام ہے جو وقتا فوقتا تعمیر وتوسیع کے بعد وہ واقعی ایک روحانی خیابان نظر آنے لگاہے۔ زائرین کے قیام کے لئے جملہ ضروریات سے آراستہ کیا گیا ہے۔ زنانہ کے لئے کشادہ ہال بنادیئے گئے ہیں جن کے پردہ کا معقول انتظام ہے۔
علمی بصیرت کے چند واقعات:۔ جیسا کے پچھلے صفحات میں تذکرہ کیا گیا قدرت نے آپ کو اپنے فن میں کمال کے ساتھ ساتھ علمی بصیرت سے بھی نوازا تھا۔ جس کا مظاہرہ جلوت و خلوت میں جگہ جگہ دیکھنے میں آتا ۔ اپنے راسخ العلم ہونے کا تمام علمی حلقوں میں آپنے گویا لوہا منوالیاتھا۔ جس کا مشاہدہ جلیل القدر علماء کرام کی محفلوں میں برسرعام کیا گیا۔ بطور مشتے نمونہ از خروار اس نوعیت کے چند واقعات ذیل میں درج کئے جاتے ہیں۔ مثلا:
۱۔ ندوہ کے مشہور عالم دین مولانا سلیمان ندوی صاحب مرحوم جب حیدرآباد تشریف لائے تھے تو ایک موقع پر آپ نے وعظ کے دوران حافظؔ شیرازی کا ایک شعر پڑھ دیا اور غالباً وہاں موجود علمائے جامعہ نظامیہ کے بطور امتحان یہہ فرمایا کہ اسکے بعد کا شعر اگر کسی کو یاد ہوتو مجھے یاد دلائیں۔ اس وقت حضرت مفتی سید محمد مخدوم حسینی صاحبؒ جو قریب ہی بیٹھے ہوئے تھے فوراً مطلوبہ ایک شعر ہی نہیں بلکہ سلسلہ وار جملہ پچاس اشعار حافظؔ شیرازی کے سنادیئے جس پر مولانا سلیمان ندوی صاحب خوش ہوگئے اور فرمایا کہ ماشاء اللہ اس پایہ کی زبردست علمی شخصیت دکن میں موجود ہے اسکے بعد انہوں نے حضرت مفتی صاحبؒ سے کہا کہ ’’میں ایک کتاب لکھ کر لایا ہوں اگر آپ اسکی تصحیح فرمادیں تو میں ممنون ہوں گا‘‘۔ حضرت مفتی صاحب علیہ الرحمہ نے صرف ایک رات میں کامل کتاب کی تصحیح فرماتے ہوئے تقریبا نصف کتاب کے مواد کو قلم زد فرمایا۔اسکی تصدیق مولانا سلیمان ندوی صاحب کے سفر نامہ سے ہوتی ہے جس میں موصوف نے اس واقعہ کا فخریہ انداز میں تذکرہ فرمایاہے۔
۲۔ مولانا شیخ کریم الدین صاحب نامی ایک عالم دین محلہ چوک اسپاں میں مقیم تھے۔ ایک مرتبہ کسی رضاعی (دودھ کے) مسئلہ پر ہندوستان بھر کے کئی مفتیان دین سے انہوں نے فتاوی حاصل کئے جن میں حضرت مفتی علیہ الرحمہ کا روانہ کردہ فتوی بھی شامل تھا ۔جب یہ فتاوی حضرت مفتی صاحبؒ کے ایک استاذ محترم مولانا محمد عمر صاحب قبلہ کرنولی کے سامنے پیش کے گئے حالانکہ ان فتاوی میںخود استاذ موصوف کا فتوی بھی شامل تھا لیکن موصوف نے مفتی صاحب کے فتوے ہی کو سب سے بہتر استدلال اور حوالہ پر مشتمل قرار دیا یہی نہیں بلکہ محترم استاذ موصوف سیدھے حیدرآباد دکن تشریف لائے خانقاہ مخدومیہ پہنچے اپنے لائق شاگرد رشید کے اس علمی کارنامہ پر مبارک باد دی، درازی عمر اور مزید علم میں برکت کے لئے دعا فرمائی اور ان الفاظ میںاپنے فخر وناز کا اظہار فرمایا کہ ’’میرا یہہ شاگرد ہندوستان کے علماء کی ناک بنا ہوا ہے‘‘ اسی مسرت میں ایک ہفتہ قیام کے بعد واپس کرنول ہوئے۔
۳۔ جامعہ نظامیہ کی شہرت اقطاع عالم خصوصاً عرب ممالک تک پہنچ چکی تھی جہاں سے عرب علماء کرام اور سرکاری طور پر عرب ممالک کے سفراء خصوصی طور پر جامعہ نظامیہ کا دورہ کرنے آتے اور تفصیلی معائنہ جامعہ کی ترقی اور علمی سرگرمیوں کا جائزہ لے کر واپس ہوتے۔ ایسے ہی ایک موقع پر ملک شام کے ایک سفیر کے اعزاز میں ایک تقریب عالیشان مقرر ہوئی تھی جس میں اکابر علمائے کرام تشریف رکھتے تھے۔ سفیر شام عربی میں اپنی تقریر کے دوران ایک حدیث شریف کا حوالہ دینا چاہتے تھے۔ باربار ان کی زبان سے’’کن فی۔ کن فی‘‘ کے الفاظ نکلے جارہے تھے لیکن باقی الفاظ اس وقت انھیں یاد نہیں آرہے تھے۔حضرت مفتی صاحبؒ نے جو اس وقت وہیں قریب بیٹھے ہوئے تھے فوراً بے ساختہ فرمایا: ’’کن فی الدنیا کانک غریب‘‘ جس پر مسرت واطمینان کااظہار کا اظہار کرتے ہوئے معزز سفیر شام نے اس طرح مفتی صاحبؒ کا شکریہ ادا کیا کہ میں اسی حدیث کا تذکرہ کرنا چاہتا تھا جو ذہن کے کسی گوشہ میں تو تھی لیکن بر موقع لب پر نہیں آرہی تھی اسی کے بعد سفیر موصوف نے فرمایا میں جامعہ عثمانیہ کا بھی تفصیلی دورہ کیا ہے اور اسکے بعد آج جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن میں حاضر ہوا ہوں۔ دکن کے ان دونوں علمی گہواروں سے بے حد متاثر ہونے کے بعد میرا یہہ احساس ہے کہ ’’میں نے جامعہ عثمانیہ کو جسم اور جامعہ نظامیہ کو روح پایا‘‘ ان تاثرات کے اظہار پر مفتی صاحبؒ نے فوراً ارشاد فرمایا:’’اب عبد کامل ہوگیا‘‘۔
مشہور عالم دین اور پیر طریقت حضرت پیر جماعت علی شاہ صاحبؒ جب کبھی حیدآباد تشریف لاتے حضرت مفتی صاحبؒ سے نہ صرف ملاقات کرتے بلکہ مختلف حساس مسائل پر تبادلہ خیال فرماتے آپ کو حضرت کے تبحر علمی کاپورا اعتراف تھا۔ آصف سابع جب بھی کوئی اشکال پیداہوتا توآپ ہی سے نہ صرف رجوع کرتے بلکہ بارہا حضرت کے فتاوی پر مسرت وخوشنودی کا اظہار کیا کرتے تھے۔(۱)
شیخ الشیوخ حضرت سید شاہ محمد شطاریؒ
ولادت: مولانا کی ولادت باسعادت چودھویں صدی کے شروع ہونے سے صرف ایک ماہ قبل یعنی 1299 ہجری ماہ ذی الحجہ کی چاند رات کو ہوئی۔
اسم گرامی، کنیت اور سلاسل طریقت: مولانا کا اسم مبارک ’’سید شاہ محمد‘‘اور کنیت ابوالقاسم ہے۔ آپ کو حسنی والحسینی اور طرفین سے سادات ہونے کا شرف حاصل ہے۔ قادری طریق آپ تک آبائی و خلفائی طور پر پہنچا ہے اور شطاری طریق مولانا تک اس طرح پہنچا کہ آپ کے جد امجدحضرت سید شاہ زین العابدین عرف پیر پاشا صاحب قبلہؒ کو قطب شطاریہ حضرت شیخن احمد صاحب شطاریؒ کے فرزند حضرت غلام حسین عرف ابن صاحب قبلہ قدس سرہ العزیز سے چودہ طریقوں میں بیعت و ارادت حاصل ہوئی۔ یہاں سے یکے بعد دیگرے مولانا کو جدی و آبائی طور پر چودہ سلاسل میں ارادت و نسبت حاصل ہوئی۔
نسبت حسنی و حسینی: طرفین سے سادات اور حسنی ہونے کی تفصیل یہ ہے کہ مولاناکے جدین (دادا اور نانا) سترہویں اور اٹھارویں پشت پر محبوب سبحانی قطب ربانی محی الدین سید عبدالقادر جیلانیؒ کے علی الترتیب دو صاحبزادوں حضرت سید ابونصر عبدالرزاقؒ اور حضرت سید عبدالعزیزؒ سے جاملتے ہیں۔ مولانا حسینی اس طرح سے ہیں کہ آپ کے والد بزرگوار حضرت سید شاہ حسام الدین قادری و شطاریؒ کا نسب اپنے نانا سید شاہ غلام احمد جیلانی محمدؐ  محمدؐ الحسینی کے ذریعہ حضرت سید محمدؐ گیسودراز (بندہ نواز) قدس سرہ العزیز سے جاملتاہے جو حسینی اور زیدی ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے فضل و کرم سے مولانا کو نہ صرف بہترین و اصلی نسب میں پیدا کیا بلکہ رشد و ہدایت سے بھی سرفراز فرمایا۔ اگرچہ قانونی و عملی طور پر سوائے چند تخصیصات کے نسب کوئی چیز نہیں، لیکن عنداللہی نقطہ نظر سے یہ بہت کچھ معتبر و موثر ہے۔ کیونکہ تمام انبیاء و رسل علیہم السلام اعلیٰ حسب و نسب اور مخصوص خاندانوں ہی سے ہوتے رہے ہیں۔ یوں بھی مشاہدہ و تجربہ ہے کہ نسل و خاندان کے اختلاف کے ساتھ ساتھ خصائل و خوبیوں میں بھی فرق ہوتاہے۔
میلانِ طبع: آپ کے عادات و اطوار عام لڑکوں اور عمر کے تقاضوں کے خلاف تھے۔عنفوان شباب میں پنجگانہ نماز باجماعت کی ادائی اور تہجد گزاری کے ساتھ ساتھ مختلف طریقوں کے مشہور و معروف بزرگوں کے نام قرآن پڑھ کر ایصال ثواب کرنا اور اوقات فرصت میں ان کی زیارت کرنا آپ کے محبوب ترین مشاغل تھے۔ ان خصوصیات سے آپ کے اساتذہ تک واقف تھے۔ مختصراً یہ کہا جاسکتا ہے کہ آپ کی تربیت اویسی طریقہ پر ہوئی تھی۔ تب ہی تو آپ ان خصوصیات کے حامل اور ابتدا ہی سے صوفی منش، امن پسند اور صالحین میں سے تھے۔ 
تحصیل ِعلوم: آپ کی ابتدائی تعلیم گھر پر اور مدرسہ غوثیہ میں ہوئی۔ مدرسہ میں تمام اساتذہ اور ہر آنے والے ناظر نے آپ کی ذکاوت و ذہانت اور حاضر جوابی کی داد دی اور آپ کے والد محترم کے پاس سفارش کی کہ اس لڑکے کو انگریزی تعلیم بھی دلوائی جائے جس کو محترم یہ کہہ کر رد کردیتے کہ میرا یہ لڑکا اپنی دینی تعلیم کے مختص ہے۔ چودہ سال کی عمر میں نہ صرف عربی صرف و نحو پر آپ کو کافی عبور حاصل ہوگیا تھا بلکہ زبان فارسی پر بھی آپ کو کافی دسترس حاصل ہوگئی تھی چنانچہ مسکین شاہ صاحب قبلہؒ کی رحلت پر آپ نے قطعۂ تاریخ ’’مسکن مسکین رب جنت شدہ‘‘ کہا تھا۔ حصول علم کا مرحلہ اول مذکورہ استعداد پر 1314ھ ختم ہوا۔
آپ کو قرأت و تجوید میں حضرت قاری تونسی صاحبؒ سے، ادب، تفسیر، حدیث اور اصول فقہ میں حضرت مولانا حکیم عبدالرحمن صاحب سہارنپوریؒ سے اور فقہ، منطق، معقول فلسفہ میں مختلف علماء اور خصوصاً مولانا منصور علی خاں صاحب مرادآبادیؒ اور مولانا شیر علی صاحبؒ سے شرف تلمذ حاصل رہا اور اٹھارہ سال کی عمر میں آپ ان تمام علوم سے فارغ ہوگئے۔ اس موقع پر آپ کی دستار بندی اور عطائے سند کا جلسہ مولانا حکیم عبدالرحمن صاحب سہارنپوریؒ کے مکان پر منعقد ہوا۔
عقدِ نکاح: آپ حیدرآباد کو چھوڑدرویشانہ سیر و سیاحت کے لیے نکل پڑے۔ ابھی چند ہی بزرگان ہند کی زیارت کی تھی کہ والدہ محترمہؒ کی شفقت مادری کی کشش نے آپ کو لوٹ آنے پر مجبور کردیا اور آتے ہی آپ کو ازدواجی زندگی میں منسلک کردیا گیا۔ 
علوم حقایق و معانی: جب آپ تحصیل علوم اور ان پر تحقیقات سے فارغ ہوئے تو حضرت مولانا محمد انوار اللہ فاروقی صاحب فضیلت جنگ علیہ الرحمہ بانی جامعہ نظامیہ کے حلقہ فتوحات مکیہ میں حاضر ہونے لگے۔ پہلے ہی سے آبائی عرفانی مادہ اور تحقیق علوم دین اور اس پر یہ حلقۂ فتوحات مکیہ سونے پر سہاگے کا کام کیا۔ درس و تدریس کے موقع پر آپ کے کچھ نہ کچھ جوہر کسی نہ کسی طرح ظاہر ہو ہی جاتے تھے۔ چند ہی نشستوں میں موصوف جان گئے کہ آپ کس لیاقت کے حامل ہیں۔ ان دنوں موصوف سجادہ نشینوں کے امتحان کے لیے ایک کورس مرتب کرنا چاہتے تھے۔ چنانچہ آپ کی نظر انتخاب دوسرے علما و مشائخین کی موجودگی میں مولانا پر پڑی۔ مولانا نے اس کام کو بحسن و خوبی کم و بیش ایک ماہ طبعزاد طور پر قرآن و حدیث کی روشنی میں (99) سوالات و جوابات کی شکل میں انجام دیا۔ ایک یا دیڑھ سال بعد کتابی شکل میں اُس کا تاریخی نام ’’ہدایات الشیوخ‘‘ رکھا گیا۔ اس کتاب کے سوالات و جوابات نہ صرف تمام علما و مشائخین عظام کے کئی بھرے اجلاسوں میں پڑھے اور پسند کئے گئے بلکہ فضیلت جنگ علیہ الرحمہ اور موصوف کی وفات کے بعد مولانا محمد حبیب الرحمن خاں صاحب شیروانی سابق صدر الصدور اُمور مذہبی نے سفارش کی کہ ان کو کتابی شکل میں محکمۂ صدارت العالیہ سے شائع کیا جائے۔ چنانچہ یہ کتاب اسی محکمہ سے شایع ہوئی جس پر مولانا نے کوئی معاوضہ طلب نہ کیا۔ اس امر سے مولانا کی انتہائی اعلیٰ ظرفی اور بے لاگ خدمت کے ساتھ ساتھ حقایق و معارف میں بلند پائیگی اور فضیلت علمی اظہر من الشمس ہے۔
جامعہ نظامیہ میں تدریس: اللہ جل شانہ نے اپنے فضل و کرم سے مولانا کو ایک ایسے عہدہ سے منسلک کردیا جو آپ کی افتاد طبع کے عین موافق تھا۔ حالانکہ تحصیل علم سے آپ کی غرض کوئی ملازمت یا عہدہ حاصل کرنا نہ تھی۔ اگر یہ بات ہوتی تو (18) سالہ عمر میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد مزید 19,18 سال کی مدت میں کبھی کے آپ ملازم ہوجاتے یا کچھ نہ کچھ سندیں اور اعلیٰ ڈگریاں حاصل کرنے کی ٹوہ میں رہتے۔ بحمداللہ آپ اس سے مبرا رہے۔ یکم جمادی الاول 1337ھ مطابق 3 فروری 1919ء کو جامعہ نظامیہ میں شیخ التفسیر و الحدیث کی جائیداد پر آپ کا تقرر ہوا۔ چند سال بعد آپ کو شیخ الادب بنا دیا گیا اور اس کے کچھ عرصہ بعد صدر مدرس کی جائیداد پر ترقی دی گئی
جامعہ عثمانیہ میں ملازمت :  لیکن صدارت پر آنے سے قبل اور اس کے کچھ عرصہ بعد لکچرار شعبۂ دینیات جامعہ عثمانیہ کی حیثیت سے بھی آپ نے کام کیا اور صلابت جاہ بسالت جاہ کی تعلیم کے لیے بھی جامعہ نظامیہ کی جانب سے آپ ہی مقرر ہوئے۔ اپنی تحقیقات کو یکسوئی کے ساتھ قلمبند کرنے اور کبرسنی کی وجہ یہ سلسلسلہ ملازمت آپ نے 4 صفر 1374؁ھ کو منقطع کردیا۔ حالانکہ اس کے 5-4 سال قبل ہی آپ کو وظیفہ ہوگیا تھا، لیکن جامعہ نظامیہ کی ضرورت کے پیش نظر آپ کی باز ماموری عمل میں آئی تھی۔ مختصر یہ کہ آپ کا دور ملازمت مجموعی حیثیت سے 36 سال سے کچھ زائد رہا۔ 
بحیثیت شیخ الشیوخ : جس میں سے 20 سال آپ نے جامعہ کے شیخ الشیوخ یعنی صدر کی حیثیت سے کام انجام دیا۔ صرف یہی ایک امر آپ کی علوم دینیہ میں ہمہ گیری، تبحر علمی اور اعلیٰ قابلیت کے بین ثبوت کے لیے بہت کافی ہے۔
خصائل : اگر یہ کہا جائے کہ آپ کی ذات قرون اولیٰ کے علمائے ربانی کی یاد تازہ کرتی تھی تو کوئی مبالغہ نہ ہوگا۔ بہترین اعلیٰ نسب، خاندان ، علم و فضل، رشد و ہدایت اور جاہ و حشمت ہونے کے باوجود آپ کا انداز آج کل کے ایک مولوی یا مرشد صاحب قبلہ کا سا بھی نہ تھا۔ آپ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے بندہ گندہ کو تفاخر سے کیا نسبت۔
ہر روز بعد نماز فجر ’’مسجد ملک دانا‘‘ میں کم و بیش ایک گھنٹہ تفسیر کلام پاک فرماتے اور عصر سے مغرب تک مسجد میں تشریف فرماکر ہر شخص کے سوال کا اطمینان بخش جواب دیتے اور تمام حاضرین آپ کی تفہیمات سے مستفید ہوتے یا خود آپ کسی نہ کسی مسئلہ پر گفتگو چھیڑ دیتے تھے اور اس کو اس طرح تفصیل سے سمجھاتے کہ پھر اس میں کسی قسم کی تشنگی یا شک باقی نہ رہتا۔ آپ کا ہر ہر لفظ بہت ہی سادہ، تحقیق و اجمال کا مرقع، انتہائی وسعت کا حامل اور سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ فہم و فطرت کے موافق ہوتا تھا۔
آپ کی زندگی کاماحصل اورسب سے اہم مقصد تحریک جماعت قرآنیہ رہا جو عالمگیر بین المذہبی و قومی اتحاد کی داعی، امن عالم کی علمبردار اور تفریق و اختلاف کی دشمن ہے۔ 
مولانا کا طرز عمل و سلوک اُن کے ہر ملنے والے اور شاگرد کے ساتھ اس قسم کا تھا کہ ہر شخص یہ محسوس کرتا تھا کہ مولانا سب سے زیادہ مجھے عزیز رکھتے ہیں۔ آپ ہر سال کئی دفعہ غربا و مساکین اور اہل محلہ کو عام دعوت دیتے اور بعد ختم قرآن تناول طعام کرواتے۔ آپ کسی شخص کو بھی کسی قسم کی تکلیف پہنچانے سے احتراز فرماتے تھے۔ کسی کی تکلیف مولانا سے دیکھی نہیں جاتی تھی اور مولانا ہر ضرورت مند کی حتی الوسع انتہائی پوشیدہ طور پر اعانت فرماتے رہتے تھے۔ مختصر یہ کہ مولانا نے اپنی زندگی خدمت خلق اور دین خدا کے لیے وقت کر رکھی تھی۔ 
خدائے پاک کا فیضان اور احسان عظیم ہے کہ اُس نے مولانا کے ذریعہ خاص طورپر توحید، اسلام، ایمان، احسان اور ان کے متعلقات کے حقایق و مقاصد نیز راز ہائے فطرت و نوامیس قانون قدرت، جنت و دوزخ، حیات الدنیا، حیات الحسنی والطوبیٰ والعیشۃ الراضیہ، حیات الاولیٰ و حیات الاُخریٰ، آخرت، الیوم الآخر الساعۃ۔ القیامۃ و نشاۃ الاخرہ کے اسرار و معارف اور راز ہائے گونا گوں و بے چوں و چگوں کھول دیئے ہیں۔ چنانچہ مولانا ان کے باریک فرق اور حقیقتوں کو کھول کھول کر بیان کرتے رہے۔ 
علمی ادبی خدمات
(۱) تفسیر سورۂ عصر: اس کتاب میں زمانہ کی زبان سے عصری پیشنگوئیاں بالتفصیل بیان کی گئی ہیں۔
(۲) معجزات القرآن : معجزات قرآنی کی تفصیلی وضاحت ایک نادراسلوب و جدید طرز میں مولانا کے رواں قلم کا عمدہ نمونہ و علمی خزینہ کہا جاسکتا ہے۔
(۳) مقسمات القرآن (جلد اول): قرآن پاک میں اللہ تبارک تعالیٰ نے کن چیزوں کی قسم کھائی ہے اور کیوں کھائی ہے؟ کی تصریح ایک نئے اور بالکل انوکھے انداز میں کی گئی ہے اور وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ زمانہ کی حیرت انگیز ایجادات و اختراعات کی پیشنگوئیاں آج سے ساڑھے تیرہ سو برس پہلے کس طرح نبی امی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے، ادا ہوئیں۔
(۴) مقسمات القرآن (جلد دوم):اس کتاب میں پیشنگوئیاں کم اور معارف اسرار زیادہ بیان کئے گئے ہیں۔
(۵) حروف مقطعات : تمام علمائے امت کا متفقہ خیال ہے کہ ان حروف کا علم بجز اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے کو نہیں ہے، لیکن بحمداللہ مصنف نے ان حروف کے رموز کو بوضاحت سپرد قلم کیاہے کہ کس طرح ان میں اسلامی عہد کے عربوں کی ترقی و تنزل کی تصویر کھینچی گئی ہے۔
(۶) کلمۃ الفصل :اس تصنیف میں مذاہب اسلام کی حقیقت کو تفصیلاً پیش کیا گیا ہے کہ کونسا مذہب کس حد تک احکام خدا و رسول کے مطابق ہے اور کس حد تک اس کے قوانین خود ساختہ ہیں۔
(۷) ہدایات الشیوخ: نصاب برائے سجادگان و ذمہ داران خانقاہ، تعلیمات احسان و تصوف کا بے مثال مرقع سوال جواب کی صورت میں ترتیب کردہ حسب الحکم حضرت امام محمد انوار اللہ فاروقی  ؒ۔
علالت و وصال: آخر کاراس صدی کا محقق و مجدد اعظم اور بے باک حق گو، دو ہفتہ کی سخت علالت کے بعد 75 سال کی عمر میں اس جہاں فانی کے ناقدر دانوں سے منہ موڑ کر جہاں جاودانی کی طرف بروز یکشنبہ بتاریخ 19 ذی الحجہ 1375؁ھ المطابق 28 جولائی 1956 ؁ء رحلت کرگیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ خدائے رحمن و رحیم آپ پر زیادہ سے زیادہ رحمتیں نازل فرمائے اور آپ کو مقام بلند و اجر عظیم عطا فرمائے۔ آمین
مولانانے اپنی ساری زندگی محض للہ قرآن پاک اور اس دین پاک کی حقیقی تعلیمات کی طلب صادق اور اشاعت میں لگادی اور بلاشبہ ’’خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ‘‘کا مصداق بنے۔ آپ فقیر منش بزرگ ہونے کی وجہ دنیاداری سے ہمیشہ بچتے رہے اور اپنا فرض سمجھ کر بے لاگ کام کرتے رہے۔(۲)
محدث کبیرمولانا محمد عبدالوہاب عندلیبؒؔ 
  اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم نے سر زمینِ دکن کو اتنا زرخیز بنایا ہے کہ اس کے فرزندوں میں عالمانِ دین کا ایک لامتناہی سلسلہ قائم ہوگیا اور اس کی تاریخ کے ہر دور میں کئی نامور علماء پیدا ہوئے جنہوں نے قرآنِ کریم ، احادیثِ شریفہ ، اُسوہ حسنہ سے لے کر سیرتِ صحابہ ؓ اور احوالِ اولیاء و اصفیاء، طب ، شعروفن ، سائنس و ریاضی وغیرہ وغیرہ میں علم کے کئی کئی خزانے چھوڑے جن سے لوگ آج بھی فائدہ اُٹھارہے ہیں اور ان شاء اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ دیر تک قائم رہے گا۔یہی نہیں بلکہ یہاں کے پادشاہوں کی علم دوستی نے دیگر ریاستوں کے علماء وفضلاء کی بھی ہمت افزائی کی اور اُن کی مالی امداد کرکے اُن سے بڑے بڑے کام لئے۔
تیرہویں[۱۳ویں]صدی ہجری کے آخری دہے اور چودہویں [۱۴ ویں] صدی کے ابتدائی دورمیں بھی حیدرآباد میں نشر واشاعت کا وہ سلسلہ زور و شور سے قائم تھا جس نے حیدرآباد کو عالمِ اسلام میں ایک خاص مقام بخشا۔ سلطنتِ حیدرآباد دکن  کے آخری تاجدار نواب میر عثمان علی خان آصفِ سابع نے اہلِ علم کی ایسی سرپرستی فرمائی کہ ریاست کے باہر شمالی ہند اور جنوبی ہند کے نامور علماء اور فضلاء بھی اپنے علمی کارنامے اُن کی مالی اعانت کی وجہ سے انجام دے سکے۔ریاستِ حیدرآباد سے مالی امداد پانے والوں میں دینی مدارس وجامعات کے ساتھ ہی ساتھ عصری تعلیم دینے والے جامعات میں بنارس یونیورسٹی بھی شامل ہے۔ڈاکٹر داؤد اشرف صاحب نے اپنی کتاب  ’’ بیرونی اربابِ کمال اور حیدرآباد ‘‘ میں اُن لوگوں کی ایک طویل فہرست دی ہے جن کیلئے آصفِ سابع نے وظائف مقرر کئے تھے تاکہ وہ دین کی خدمت میں ہمہ تن لگ جائیں۔ اس فہرست میں علامہ شبلی نعمانی، علامہ سید سلیمان ندوی، سر راس مسعود، عبدالماجد دریابادی اور محمدمارک ڈیوک پکتھال کے نام بھی شامل ہیں۔ نہ جانے اوربھی کتنے نام ہونگے جو اس فہرست میں شامل نہوسکے۔اس کتاب میںڈاکٹر داود اشرف صاحب نے دارالمصنفین ندوہ کا ایک خاص واقعہ نقل کیا ہے۔ انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی میں ندوہ کے علماء نے بھی نمایاں حصہ لیا۔یہ بات انگریزی سرکار پر گراں گزری ۔انتقامًا رزیڈنسی سے ایک حکم جاری کیا گیاکہ ریاستِ حیدرآباد کوچاہیے کہ وہ دار المصنفین ندوہ کو دی جانے والی امداد فوری بند کردے۔اس کے جواب میں آصفِ سابع نے کھلے الفاظ میں حکومتِ برطانیہ کو آگاہ فرمادیا کہ کتاب سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تالیف کیلئے جو رقم اس ریاست سے دارالمصنفین کو دی جارہی ہے اُس وقت تک ملتوی نہیں کی جاسکتی جب تک یہ کام جو ایک مذہبی کام ہے جاری رہیگا ۔ اور اس امداد کو اُس وقت تک نہیں روکا جاسکتا جب تک یہ کام بند نہ ہوجائے۔ (صفحہ [۲۰۱] تا [۲۰۴])۔ آصفِ سابع نے علامہ شبلی نعمانی کو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تالیف کیلئے پہلے ایک سو روپئے ماہانہ وظیفہ مقرر کیا تھا۔ ۱۹۱۳؁ء میں علامہ شبلی کی درخواست پر یہ وظیفہ بڑھاکرماہانہ [۳۰۰] روپئے کلدار کردیا گیا۔نومبر ۱۹۱۴؁ء میں شبلی کے انتقال پر یہ وظیفہ(ماہانہ ۳۰۰ روپئے کلدار)اُن کے قائم کردہ ادارہ دارالمصنفین کوجاری کردیا گیا۔ اس کے علاوہ سیرت کی اس کتاب کی تکمیل کیلئے علامہ سید سلیمان ندوی نے آصفِ سابع کی طرف سے ماہانہ [۲۰۰] روپئے کلدار وظیفہ سے  ۱۹۱۸؁ ء سے ۱۹۴۱؁ ء تک استفادہ کیا۔آصفِ سابع کی طبیعت میں فقیری اورعلم دوستی کے راسخ ہوجانے میں اُن کے اتالیق عارف باللہ حضرت مولانا محمد انوار اللہ فاروقی رحمۃ اللہ علیہ کی صحبت کو بڑا دخل تھا۔اُنہوں نے صدرالمہام امورِ مذہبی کی حیثیت سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ دائرۃ المعارف العثمانیہ، جامعہ نظامیہ حیدرآباد اور مجلسِ اشاعت العلوم بھی اُن کے باقیات الصالحات میں سے ہیں ۔دائرۃ المعارف العثمانیہ حیدرآباد میں چھپنے والی بے شمار کتابیںآج تمام عالمِ اسلام میں پھیلی ہوئی ہیں اور اُن کی مانگ روزافزوں ہے۔ان کے علاوہ مولانا کے شاگردوں اور جامعہ نظامیہ سے وابستہ علماء اور دیگر مشاہیرعلمائِ کرام کی خدمات الگ ہیں۔
الحمدللہ مولانا محمد عبدالوہاب عندلیبؔ علیہ الرحمہ کا شمار بھی جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے اُن ممتاز عالمانِ دین میں ہوتا ہے جو اپنی ذات میں بیک وقت ایک انجمن تھے۔جہاںوہ ایک زبردست عالمِ دین تھے وہیں ایک عظیم محدث ،ادیب اور ایک بزرگ شاعر کی حیثیت سے اُنہوں نے دینِ حنیف کی ایسی نمایاں خدمت کی ہے جو ہمیشہ یاد کی جائیگی۔وہ ۱۸۸۵؁ء میں مومن آباد کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ خطیبوں کایہ خانوادہ اپنی علمی خدمات کی وجہ سے ایک خاص مقام رکھتا تھا۔مثنویؔ فیاض اور چمنستانِؔ حمزہ ،تاریخِ ؔقندھار اور ایسی ہی کئی ایک مشہور کتابوں کے مصنفین کا تعلق اسی خانوادہ سے تھا۔     
مولانا عندلیبؒ نے جامعہ نظامیہ حیدرآباد میں تعلیم حاصل کی اور فاضلینِ جامعہ نظامیہ میں ایک خاص مقام پیدا کرلیا۔ جہاں مولانا محمد سعیدالدین انصاریؓ سہارنپوری(شیخ الفقہ) اور مولانا محمد یعقوبؒ (شیخ التفسیر و شیخ الحدیث)جیسے یکتائے روزگار اساتذہ سے اُنہیں تلمذ کا شرف حاصل رہا وہیں مولانا عبدالوہاب عندلیبؒ نے بحرالعلوم مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی حسرت ؔعلیہ الرحمہ اور حیدر جنگ طباطبائی سے بھی خوب استفادہ کیا۔اس کے بعداُنہوں نے محکمہ امورِ مذہبی میں ملازمت اختیار کی۔
محکمہ امورِ مذہبی میں اُن کو منتظمِ مساجد مقرر کیا گیا۔ اس قابلِ صد احترام عہدہ کی وجہ سے اُنہیں مسلمانوں کے ہر طبقہ کے لوگوں سے ربط قائم کرنے کا موقع ملا۔مسلمانوں کی پسماندگی اور کم علمی کا قریب سے مطالعہ کرنے کی وجہ سے اُنہوں نے محسوس کیا کہ اس وقت سب سے زیادہ ضرورت ہے تو ایک ایسے واعظ کی ہے جوآسان زبان میںلوگوں کو دینی معلومات فراہم کرے اور مثبت انداز سے لوگوں کے سامنے پیش ہو، فروعی اختلافی مسائل میں نہ خود الجھے نہ دوسروں کو الجھائے۔حق سبحانہ وتعالیٰ نے اُن کی مدد فرمائی۔اس کے بعد اُنہوں نے تصنیف وتالیف کا ایک طویل سلسلہ شروع کیا۔نوعمری ہی میں اُنہوںنے مختلف موضوعات پر چھوٹی چھوٹی کتابیں لکھیں اوراپنی صلاحیتوں کے وہ جوہر دکھلائے کہ خود اُن کے اساتذہ اور دیگر بڑی بڑی نامی گرامی ہستیوں نے اُن کی کھل کر تعریف کی ۔نوجوانی ہی میںاُن اسلوبِ اور انداز تحریر نے جہاں لوگوں کے دل میں اپنا مقام بنالیا وہیں بانی جامعہ نظامیہ و صدر المہام امورِ مذہبی شیخ الاسلام حضرت مولانا محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ قدس سرہ العزیز کوبھی اپنی طرف متوجہ کرلیا۔آپ مولانا عندلیبؔ کے متعلق ایک موقع پر فرماتے ہیں ــ  ۔
’’دعا گو نے عبدالوہاب صاحب عندلیبؔ کی قابلیت کا اندازہ کیا جو تالیفات اور مضامین اُنہوں نے پیش کئے اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ بہت ذہین اور لائق شخص ہیںچنانچہ نواب عماد الملک بہادر اور مہاراجہ یمین السلطنۃ بہادر اور دیگر ماہرینِ فنِ ادب کی تحریرات سے ظاہر ہے۔ یہ ایک نوجوان شخص ہیں اور ان کو علمی مذاق بھی ہے اس لئے امید کی جاتی ہے کہ وہ تالیف و تصنیف کے کام میں مشغول رہیں گے اور ان کے مفید تصانیف سے قوم کو فائدہ پہنچے گا‘‘
حضرت فضیلت جنگ رحمۃ اللہ علیہ کی اس تحریر سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مہاراجہ کشن پرشاد اور نواب عمادالملک بہادر بھی مولانا عندلیب ؒ کی تالیفات وتصنیفات اور اُن کے اعلیٰ علمی مذاق سے آگاہ تھے۔ فضیلت جنگ قدس سرہ العزیزمحکمہ امورِ مذہبی کے صدر المہام تھے۔آپ کی تحریک اور محکمہ امورِ مذہبی کے تعاون سے مولانا عندلیبؒ نے ہفتہ وار رسالہ واعظ کی اشاعت شروع کی اور تصنیف و تالیف میںپوری طرح مشغول ہوگئے۔ اُنہوں نے اپنی تصانیف سے قوم و ملت کی ناقابلِ فراموش خدمت انجام دی ۔یہ رسالہ تقریبًا نصف صدی تک پابندی سے نکلتا رہا۔اس طرح حضرت فضیلت جنگ رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا عندلیبؒ سے جو توقع رکھی تھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے وہ پوری ہوئی۔اس پرچے میں زیادہ تراُنہیں کے مضامین ہوا کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مشہور علمائِ دین نے بھی رسالہ واعظ کے لئے مضامین لکھے۔اُن کے ہفتہ وار واعظ نے ہزاروں ایسے واعظ پیدا کردئے جن کے سامنے حق سبحانہ و تعالیٰ کی رضا کے سوا کچھ نہ تھا۔
تصنیف وتالیف کے ان کاموں کے ساتھ ہی ساتھ وہ دوسرے علماء کرام کے شانہ بشانہ مختلف دینی مجالس سے وابستہ ہوکر ان کی اعانت بھی کرتے رہے۔ ’’رسالہ دعوۃ الاخوان لاحیاء معارف النعمان‘‘ میں مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کی اعانت کرنے والے رفقاء مجلس کی جو فہرست شائع ہوئی ہے اس میں بھی مولانا محمدعبدالوہاب عندلیبؔ کا بھی نام ملتا ہے۔ یہ رسالہ مولانا مفتی محمدرحیم الدین علیہ الرحمہ کا مرتبہ ہے جس میں مجلس کے قیام کی غرض وغایت،مجلس کا دستور اور ائمہ حنفیہ کے کتابوں کی وہ ابتدائی فہرست بھی شامل ہے جو مولانا ابوالوفا افغانی علیہ الرحمہ نے مرتب کی تھی۔
لاہور سے نکلنے والے رسالہ مشیر الاطباء و چشمۂ زندگی کے مدیر محمد حسن قریشی صاحب نے مولاناعندلیبؒ کے انداز اور اُن کی صلاحیتوں کو جن خوبصورت الفاظ میں سراہا ہے اس سے اُس کارنامہ کی بلندی کا احساس ہوتا ہے جو واعظ کے مضامین کے ذریعہ مولانا عندلیبؒ نے انجام دیا۔وہ لکھتے ہیں ۔
’’جناب عندلیب صاحب نے سببِ مرض کو صحیح طور پرتشخیص کرنے کے بعد اس کااُصولی علاج شروع کیا ہے۔ ہفتہ وار کے ذریعہ مذہب کے متعلق سادہ و سہل زبان میں صحیح معلومات بہم پہنچانے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے۔فی الحقیقت واعظ مسلمانوں کیلئے صحیح معنوں میں سرچشمۂ رُشد و ہدایت ہے ۔ہر اسلامی گھر کو اس سے بہرہ اندوز ہونا چاہئے‘‘۔
ابوالمٖظفرمحمد سعید الدین الانصاری سہارنپوری سے اہلِ علم اچھی طرح واقف ہیں۔اُنہوں نے مدرسہ نظامیہ میں شیخ الفقہ کی خدمت بھی انجام دی ہے۔آپ رسالہ ٔواعظ کا تعارف کرواتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں
’’ناظرین رسالۂ واعظ پر مخفی نہیں ہے کہ سال میں ہر فصل اپنے ثمرات اور پھول پھلواری اپنی ساتھ لاتی ہے۔ اور مشتاقوں کو آسودہ و شاد کام کرجاتی ہے یہی حال مضامین کے لحاظ سے رسالہ واعظ کا ہے مثلاً محرم میں ذکر شہادت واحکامِ عاشوراء ،صفر میں صفر کے خصوصیات کا ذکر اور عام خیالات جو صفر کی نحوست کے متعلق ہیں اُن کی تردید۔ ربیع الاول میں مجالس میلاد اور فضائل وخصوصیات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان۔ ربیع الثانی میں مجالس یازدہم شریف و خصوصیات ومناقب حضرت غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کا بیان، رجب میں مناقب امام اعظم رضی اللہ عنہ و معراج شریف کا بیان۔ شعبان میں شب برات اور اس کی خصوصیات کا ذکر، رمضان المبارک میں فضائل رمضان واحکام صیام کا ذکر، الحاصل اسی طرح ہر مہینے میں جواس کی خصوصیات ہیں ان کے متعلق رسالہ واعظ میں مبسوط مضامین دئے جاتے ہیں اور اس کے علاوہ عقائد اہلِ سنت والجماعت واحکام فقہ و اخلاق حسنہ و ردِّ بدعات ورسوم و تائید و ترغیب ارکان اسلام وغیرہ اپنے اپنے موقع و محل پر عام فہم عبارت میں لکھے جاتے ہیں مثلاً صراط مستقیم کیا چیز ہے اس کو چند نمبروں میں نہایت مدلل و مفصل بیان کیا ہے ۔اسوۂ حسنہ استقامت اتحاد، سیرت نبوی ﷺ، ضرورت فقہہ ، رحمدلی، سخاوت وغیرہ مضامین منجیات و مہلکات سے ہر ایک کے متعلق ِتفصیلی بیان دیا جاتا ہے جس کا لطف اور اثر دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے بحکم مَنْ لَّمْ یَذُقُ لَمْ یَدْرِ یعنی جس نے نہیں چکھا وہ نہیں جانتا ہے‘‘۔
بحرالعلوم مولانامحمد عبدالقدیر صدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے مولانا عبدالوہاب عندلیب ؒکے ہفتہ وار واعظ کے مطالعہ کے بعد اس کی خدمات کو واضح کرتے ہوئے تمام مسلمانوں کی توجہ اس رسالہ کو خریدنے، خود پڑھنے، بیوی بچوں کو سنانے اور دوستوں احباب کو دکھانے کی طرف مبذول کروائی۔آپ فرماتے ہیں۔
’’میں نے رسالہ واعظ کے کئی سال کے پرچے دیکھے۔ اس رسالے نے اب تک اسلام کی ایک نہایت گراں قدر خدمت کی ہے۔ اعتقادات، اخلاقیات، فقہیات، اکابر اسلام کے حالات کا ایک بہت بڑا ذخیرہ اس میں جمع ہوگیا اور ہورہا ہے۔طرزِ بیان سادہ اور سلیس کہ معمولی آدمی بھی سمجھ سکے ۔چھپوائی صاف اور واضح کہ پڑھنے میں کچھ گرانی نہ ہو۔ شرکت کا چندہ نہایت ہی قلیل کہ کسی کو لینے میں بار نہ ہو۔مسلمانوں کو چاہئے کہ اس کو خریدیں ، خود پڑھیں ، بیوی بچوں کو سنائیں، دوستوں کو دکھائیں۔ ‘‘
مصورِ فطرتحضرت خواجہ حسن نظامی رحمۃ اللہ علیہ اپنے روزنامچہ میں تحریر فرماتے ہیں۔
’’رسالہ واعظ حیدرآباد دکن کا ہفتہ وار رسالہ ہے ۔ میں نے دیکھا اس کی ایک جلد سرسری نظر سے پڑھی۔ بہت عام فہم اور مفید چیز ہے۔ آج کل کے زمانے میں اشاعت و حفاظتِ اسلام کا خیال ہر جگہ مسلمانوں کو ہورہاہے اس رسالہ کا مطالعہ فائدہ دیگا۔‘‘
مولانا سید سلیمان ندوی نے فرمایا
’’واعظ حیدرآباد اپنے خیال کا واحد رسالہ ہے ۔ وہ خالص مذہبی مواعظ و نصائح سے پُررہتاہے۔ مولوی عبدالوہاب صاحب عندلیبؔ کی یہ مذہبی خدمت لائقِ تعریف ہے۔ عام مسلمانوں کو وہ مؤثر انداز میں دین و مذہب اور اخلاق و آداب کی تعلیم دیتا ہے‘‘۔
شیخ الاسلام مولانا سید محمد پادشاہ حسینی علیہ الرحمہ نے فرمایا ۔ 
’’رسالہ واعظ کے چند پرچے نظر سے گزرے ۔ اس میں قرآنِ مجید کے احکام و نواہی اور سلفِ صالح اور بزرگانِ دین کے حالات اچھے پیرایہ میں لکھے گئے ہیں۔ بڑی بات یہ ہے کہ اس کی عبارت سلیس ہوتی ہے اور مضامین عام فہم ہوتے ہیں۔ فقیر کے خیال میں اس رسالہ کا وجود عام مسلمانوں کیلئے بہت مفید ثابت ہوگا۔ بھائیوں کوچاہئے کہ اس اشاعت میں مولوی حاجی عبدالوہاب صاحب عندلیبؔ کا ہاتھ بٹائیں اور اس کو کثیر الاشاعت بنائیں‘‘۔
مولوی محمدعبدالوہاب عندلیب علیہ الرحمہ نے ۱۳۳۷ ؁ ھ سے۱یک جزء یعنی سولہ صفحوں پر  ہفت روزہ[ weekly ]رسالہ واعظ کی اشاعت شروع کی۔یہ رسالہ قمری مہینوں کی تاریخ کا لحاظ کرتے ہوئے ہر پہلے، دوسرے، تیسرے اور چوتھے ہفتہ کو نکلا کرتا۔اس پرچے کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ عندلیب علیہ الرحمہ تقریبًا پینتالیس سال سے زیادہ عرصہ تک یہ رسالہ شائع کرتے رہے اور اس کا معیار اونچے سے اونچاکرتے رہے ۔ جیسا کہ عندلیب ؔ علیہ الرحمہ نے خود لکھا ہے اکثر تنظیم یافتہ مساجد میں نمازِ جمعہ کے بعد رسالہ واعظ سنایا جاتا اور ایک مجلسِ وعظ کی کیفیت پیدا ہوجاتی۔ مولانا مفتی سیدمحمود کان اللہ لہ علیہ الرحمہ (ناظم جمیعتِ محبوب وخطیبِ مکہ مسجد)اور دوسرے حضرات کے بیان سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔تفصیلات واعظ کے اس ضمیمہ میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں جس میں واعظ اور مولاناعندلیبؒ کے متعلق (۱۰۶) صفحات پر مشتمل رسالہ میں (۸۰) سے زیادہ مشاہیر کی رائیں شائع کی گئی ہیں۔
واعظ میںاکثرمضامین ایک ہی جز یعنی سولہ صفحوںپر ختم ہوجاتے لیکن جو مضامین طویل ہوتے اُن کو اس انداز میں تقسیم کردیا جاتا کہ اُن کا ہر حصہ سولہ صفحوں پر ختم ہونے والا ایک مستقل مضمون ہوتا۔ مثلًا رجب ۱۳۳۹؁ھ کے پہلے ہفتہ سے ایک مضمون زکوۃ پر شروع ہوا جو شعبان کے دوسرے ہفتہ کو جملہ چھ قسطوں میںختم ہوا۔ہر قسط کے سامنے اُس کا نمبرلکھ دیا گیا یعنی’’ زکوۃ [۱] ،زکوۃ [۲]… زکوۃ [۶]۔ اسی طرح سیرت طیبہ، معجزات ، اربعینِ عندلیب ،تعلیم الاحادیث ، اہلبیت اطہار، ارادۃ اللہ ، حبل اللہ ، آزادیٔ نسواں،شرفِ نسب ، مساوات حفظِ لسان، وصیت ،حبِّ نبوی ﷺ، بیت اللہ،حفاظتِ خود اختیاری، ارشاداتِ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم ، مواعظِ میلاد ، ارشاداتِ غوثیہ، اعظم الاولیاء، حفظِ لسان، حکمت، صبغۃ اللہ، عہد وقرض، مجالسِ محبوب، مجاہدہ، محاسبہ ،مراقبہ، ارض اللہ ،اغوائے شیطان،وساوس اور ایسے ہی دوسرے بہت سارے مضامین ہیں جو کئی قسطوں میں اسی انداز سے شائع ہوتے رہے ۔اربعینِ عندلیب ؒ کا سلسلہ واعظ میں شعبان ۱۳۵۰؁ھ  سے شروع ہوا ۔ اس کی آخری قسط کا نمبر (۸۰) تھا۔دوسری کتابوں کی طرح مولاناؒ نے بعد میں ان حصوں کو ایک جگہ کرکے شائع کیا تھا۔ اصل کتاب میںمولاناؒ نے منظوم ترجمہ پر اکتفا کیا تھالیکن نوشین پبلکیشنز یو یس اے کی طرف سے اسے چارجلدوں میں شائع کرتے وقت حافظ مولانا ڈاکٹرسید بدیع الدین صابری کامل الحدیث جامعہ نظامیہ (اسوسیٹ پروفیسرجامعہ عثمانیہ حیدرآباد)کااردواور انگریزی ترجمہ بھی اس میں شامل کرلیاگیا۔الحمدللہ اس طرح عصری تقاضوں کو پورے کرنے اور اپنے بزرگوں کے قیمتی اثاثہ کی حفاظت کرکے پروفیسر معین انصاری (نبسۂ علامہ عندلیبؒؔ) نے ایک نمایاں کارنامہ انجام دیا ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ اُنہیں جزائِ خیر عطا فرمائے۔ آمین۔
مولانا عندلیب ؒ کے مضامین کے علاوہ بعض مشاہیر کے ایسے مضامین بھی رسالہ واعظ میںملتے ہیں جو وقفہ وقفہ سے کئی اقساط میں شائع ہوئے لیکن اُن کا سلسلہ نمبر دیا جاتا رہا ۔ اِن مضامین میں مواعظِ کاظمیہ خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں جن میں کاظم جنگ مرحوم نے حالاتِ حاضرہ کا جائزہ لیتے ہوئے لوگوں کو مخاطب کیا ہے۔
واعظ اپنی ایک خاص شناخت کے ساتھ تقریباً نصف صدی تک عندلیب علیہ الرحمہ کی ادارت میں باقاعدہ پابندی سے شائع ہوتا رہا۔ واعظ میں وہ خود مضامین لکھتے اور ساتھ ہی اس وقت کے اکثربڑے بڑے علماء و مشائخین کے مضامین بھی شائع کرتے جو اُس وقت کے حالات کی آئینہ داری کرتے ہیں۔اس طرح یہ رسالہ تین نسلوں کی کیفیت اور اُن کے بدلتے ہوئے حالات کا منظر پیش کرتا ہے اور ایک مستند تاریخی دستاویزہے۔ واعظ کی اشاعت کے سات سال مکمل ہونے پر واعظ اور مدیر کے تعلق سے(۱۰۶) صفحات پر مشتمل ایک ضمیمہ شائع کیاگیا تھا جس میںریاست، بیرونِ ریاست اور حجازِ مقدس کے (۸۰) سے زیادہ علماء اور مشاہیرکی رائیں نقل کی گئیں ہیں۔اتنی بڑی تعداد میں ہم عصر علماء اور مشاہیر کا ایک زبان ہوکر تعریف کرنا مولانا عندلیب ؒ کی غیر معمولی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔ ان آراء کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسالۂ واعظ سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ علماء ، واعظین اور مشائخین نے بھی استفادہ کیا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ عندلیب علیہ الرحمہ کے پیشِ نظر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی اور اس کے حبیب علیہ السلام والتسلیم کی رضا تھی ۔ یہ وہ قیمتی اثاثہ تھا جس نے اُن کے لئے دینِ حنیف کی اتنی بڑی خدمت آسان کردی ۔
رسالہ واعظ کی مقبولیت اور اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ شمالی ہند کے کئی رسالوں نے اس کے مضامین اپنے رسالوں میں واعظ کے حوالے کے ساتھ شائع کئے ہیں۔ ۱۳۴۴؁ھ میں جب  واعظ نے اپنی عمر کے سات سال مکمل کرلئے تو ادارہ کی طرف سے ایک رسالہ جس میں[۱۰۶] صفحے ہیں شائع کیا گیا ۔اس رسالہ میں واعظ کے متعلق سو کے قریب علماء اور مشائخین کی رائیں درج ہیںاور آخر میں اُن [۱۳۹] رسالوں کی فہرست ہے جن میں واعظ کے مضامین اُس وقت تک وقتًا فوقتاً شائع ہوچکے تھے اِن پرچوں میں حسبِ ذیل پرچے قابلِ ذکر ہیں۔
[۱]درویش دہلی [۲]گلچین دہلی [۳]نظام المشائخ دہلی  [۴]مولوی  دہلی [۵]دین دنیا دہلی  [۶]خطیب  دہلی [۷]المومن کلکتہ  [۸]انوار الصوفیہ لاہور [۹]تصوف لاہور [۱۰]نیرنگِ خیال لاہور [۱۱]الکلام بنگلور ۱۲]شریعت [۱۳]مسلمان [۱۴]اہل الذکر فیض آباد۔
اس ضمیمہ میں سو [۱۰۰]سے زیادہ مشاہیر کی رائے شامل ہے ان میں محمد علی بن حسین مالکی وزیر وڈائرکٹر سررشتہ تعلیمات حجازِ مقدس مکہ مکرمہ ، محمود زیدی،داود دہّان ، سراج ششہ صاحبان (مدرسین مسجد حرام مکہ مکرمہ) بھی ہیں۔ اس سے مولاناکی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
’’قَدْ اطلعناعلیٰ بعضہ اعداد مجلۃ الواعظ عدد ۱۶  الی عدد ۱۹  التی تطبع حیدرآباد دکن بلسانہ الاردو لمنشئہا و رئیس تحریر ہا الشاب الغیور الفاضل الاریب المولوی عبدالوہاب عندلیب فوجدنا لہا مجلۃ دینیۃ علمیۃ نافعۃ۔ لاہل الہند ولکل منہ یفہم لسانہ الاردو فنشکر صاجہا علی ہمۃ العالیۃ وحمیۃ الاسلامیہ بنشرالمبادی الدینیۃ الصحیحۃ فی الاقطار الہند یہ ونطلب من اللہ تعالی دام نشرہا و نجاحہا وانتفاع المسلمین بہا جزاہ  اللہ تعالیٰ احسن الجزا فی الدارین‘‘
حیدریار جنگ(بہادر) طباطبائی اپنی رائے تحریر کرتے ہیں۔
’’رسالۂ واعظ حقیقت میں نہایت مفید اور پاکیزہ رسالہ ہے اس سے اردو خواں طبقہ دین و آئین و اخلاق و حکم و تاریخ بزرگان دین کی اشاعت ہوتی ہے۔ تمام ملک ہند میں یہ رسالہ خدا کرے جایا کرے کہ اس کی بہت ضرورت ہے اسلام کیا شئے ہے اور مسلمان کسے کہتے لوگ اس رسالہ کو پڑھکر سیکھیں اور سمجھیں‘‘۔
محمد کفایت اللہ صدر جمیعۃ العلماء ہندنے اپنے پیام میں فرمایا۔
’’مدیر رسالہ مولوی محمد عبدالوہاب صاحب عندلیبؔ صحیح طور پر مذہب اور قوم کی خدمت کر رہے ہیں حق تعالیٰ انہیں جزائے خیر عطا فرمائے۔ اور قوم کو ان کی مساعی مشکورہ سے مستفید کرے‘‘ ۔ آمین۔
مولانا عبدالعزیز ایڈیٹراخبار ’’طلوع افغان‘‘ اپنے تہنیتی پیام لکھتے ہیں۔
’’(رسالہ ہفتہ وار واعظ) در ۱۶ صفحہ بغرض وعظ و نصیحت از شاہ علی بندہ حیدرآباد دکن اشاعۃ می یا بد۔زبان ایں رسالہ بطورے اردوے عام فہم و سلیس است کہ نسوان و اطفال نیزازاں اخذ مدعا و فائدہ کردہ میتوانند۔ دریں رسالہ اوامر و نواہی قرآن عظیم و سیرت و اخلاق نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام واقوال وعادات و ارشادات قابل تقلید صحابہ کرام و بزرگان و اسلاف دین مقدس اسلام بایک طرز خاص ودلنشین مندرج می گرددکہ اگر خواندہ و ملاحظہ شود صورت محفل وعظ یقینا پیدا و ظاہرمی گرددوازمباحث اختلافی بشدت احتراز۔ اُصول مذہب اسلام محض بیک روش خیلے سہل و سادہ موافق فطرت تقدیم قارئیں کرام آں نمودہ و توجہات شانرابطرف پابندی وتعمیل آں متوجہ میگرداند۔ مضامین ایں رسالہ دردیگر رسائل مشہور مذہبی بکثرت نقل و برائے تنظیم مساجد درہرجافر ستادہ میشود۔ چنانچہ از حسن مضمون وبے آلائشی در اکثر مساجد نقاط مختلفہ وعظ قراء ت می یا بد لہذا از برادرانِ اسلامی خویش استد عامی نمایم کہ رسالۂ موصوفہ راخودشاں وبہ نسوان و اطفال خواندہ و نیز باقی اخوان اسلامی خودراکہ بے سواد باشند بمقصود آں بفہما نند تا خود ہا از فرائضِ مہمہ اصلاح مسلمانان سبکدوش گردانند۔
(ترجمہ:’’رسالہ ہفتہ وار واعظ شاہ علی بنڈہ حیدرآباد دکن سے واعظ ونصیحت کیلئے شائع ہوتا ہے۔ اس رسالہ کی زبان نہایت ہی عام فہم اور سلیس اردو ہے جس سے خواتین اور بچے بھی سمجھ کر فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔اس رسالہ میں قرآنِ عظیم کے اوامر ونواہی ، سیرت، اخلاقِ نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام ، صحابہ کرام اور اسلاف اوربزرگانِ دین ِ مقدس اسلام کے قابلِ تقلیداقوال، عادات اور ارشادات ایک خاص دلنشین انداز سے درج کئے جاتے ہیں کہ اگرپڑھیں اور سنے تو یقینًاایک وعظ کی محفل کی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔اس رسالہ میں اختلافی مباحث سے شدت کے ساتھ احتراز کیا گیا ہے۔مذہبِ اسلام کے اُصولوں کو ایک خاص انداز سے بہت ہی آسان اورسادہ، موافقِ فطرت طریقے سے قارئینِ کرام کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے اُن کو اس کی تعمیل اور پابندی کی طرف مائل کرتے ہیں۔ اس رسالہ کے اکثر مضامین دوسرے مذہبی رسالوں میں بھی شائع ہوئے ہیں اور تنظیمِ مساجدکے سلسلے میں ہر جگہ فراہم کیا جارہا ہے۔ چنانچہ مضامین کی خوبی اور بے الائشی کی وجہ سے اکثرمساجد میں مختلف انداز سے قرأت وسماعت کیا جاتا ہے۔ لہذا برادرانِ اسلام سے گزارش کی جاتی ہے کہ اس رسالہ کوخود اپنے اہل وعیال کے ساتھ پڑھیں اور اپنے بے سواد اسلامی بھائیوں تک بھی پہنچائیں تاکہ افہام وتفہیم کے فریضہ سے بھی سبکدوش ہوں‘‘۔
اس پیام میں جس عمدگی کے ساتھ مولانا عبدالوہاب عندلیب علیہ الرحمہ کوخراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے بار بار پڑھنے کے قابل ہیں ۔
جن رسائل نے واعظ کو ساتویں سال گرہ پراپنے پیغامات بھجوائے تھے ان میں حسبِ ذیل قابلِ ذکر ہیں۔
[۱]دین دنیا دہلی  [۲] طلوع افغان(فارسی) [۳]المؤمن کلکتہ  [۴]رسالہ دستکاری دہلی [۵]اسرار تصوف لاہور [۶]پیسہ اخبار لاہور [۷]الکلام بنگلور [۸] الکمال لاہور  [۹]مشیر الاطباء و چشمۂ زندگی لاہور [۱۰] نیرنگِ خیال لاہور  [۱۲] نیر اعظم مراد آباد [۱۳] اخبار اہل السنۃو الجماعۃ امرتسر پنجاب [۱۴اہل الذکر فیض آباد [۱۵]اتحادالاسلام امرتسر [۱۶]تنظیم امرتسر [۱۷]دربار آگرہ [۱۸]جماعت امرتسر (پنجاب) [۱۹] سعید کانپور [۱۹]اردو معلی دہلی[۲۰]معارف اعظم گڑھ  [۲۱]اتالیق حیدرآباد [۲۲]المعالج حیدرآباد  [۲۳]نمائش حیدرآباد  [۲۴] ارتقاء بوئن پلی  
  کتنی عجیب بات ہے کہ اہل شمال تو اپنے علماء کی تصنیفات وتالیفات کی ایسی حفاظت کرتے ہیں کہ معمولی سے معمولی کام بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ اور اہل دکن اپنے علم کے خزانوںکی حفاظت سے غافل ہیں۔یہی نہیں بلکہ اپنے پاس قیمتی دفینے رکھتے ہوئے دوسروں کے  جھوٹے موتیوں پر جان دیتے ہوئے فخر بھی محسوس کرتے ہیں۔ بلکہ یہ جانتے بھی نہیں کہ اب بھی ہمارے پاس بہت کچھ ہے۔آج بھی ہمارے مدرسے،ہمارے معہد، ہماری جامعات، ہماری خانقاہیںعلم کے خزانے لُٹارہی ہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
عندلیبؔ علیہ الرحمہ نے اپنے پرچوں میں عمدہ مضامین تحریر فرمانے کے علاوہ انہوںنے واعظوں اور خطیبوں کی ایسی جماعت تیار کی جسے لوگوں کو اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے کے سوا کچھ بھی معلوم نہ تھا۔ اس طرح مولانا عندلیبؒ کو ایک مایہ ناز ادیب، ایک بزرگ شاعر، ایک ممتاز عالمِ دین،ایک عظیم المرتبت محدث اور مفسر کہنااظہارِ حق کے سوا کچھ نہیں۔
یہاں مولانا عندلیبؒؔ کی تحریر سے چند نمونے پیش کئے جاتے ہیں۔
(۱) آیاتِ قرآنی کی تفسیر۔ (اطاعت کا ترجمہ ’’محبت‘‘)
نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّیْ عَلیٰ رَسُوْلِہٖ الْکَرِیْمِ اَمَّا بَعْدُ فَقَالَ اللّٰہُ جَلَّ وَعَلَا وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلََ فَاُوْلٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مِنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصَّلِحِیْنَ وَحَسُنَ اُوْلٰٓئِکَ رَفِیْقًا۔
جو شخص اللہ سبحانہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت رکھتا اور اُن کی اطاعت کرتا ہے وہ آخرت میں ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ سبحانہ نے انعام کیا۔ وہ لوگ انبیاء (علیہم السلام) و صدیقین اور شہداء و صالحین ہیں ان کی رفاقت اچھی رفاقت ہے۔ اطاعت لازمۂ محبت ہے: 
حضرات! اطاعت کا ترجمہ ’’محبت‘‘ ہم نے جو کیا ہے اس سے آپ کو تعجب ہوگا لیکن اگر آپ نظر تعمق سے ملاحظہ فرمائیں تو کوئی تعجب کی بات نہیںہے۔ محبت کا لازمہ اطاعت و اتباع ہے اور اس کا نتیجہ معیت ہے ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ آدمی اسی شخص کے ساتھ ہوگا جس کو وہ محبوب جانتا ہے۔ اسی طرح اس آیۃ کریمہ میں ارشاد ہوا ہے کہ جو شخص اللہ اور اس کے رسول کو محبوب جانتا ہے تو اس کا حشر بھی انبیا علیہم السلام اور صدیقین ۔ شہداء و صالحین کے ساتھ ہوگا۔ انبیاء میں اس کا محبوب بھی ہے۔ (آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم) اور اس کے محبوب کے محبین و محبوبین یعنی انبیاء، صدیقین، شہداء ، صالحین۔ تو آیۃکریمہ میں جس معیت کا ذکر ہے وہ در اصل نتیجۂ محبت ہے۔ اور محبت کا لازمہ اطاعت و اتباع۔
اس کا دوسرا شاہد اس آیہ کریمہ میں ہے۔ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِی۔ اے نبی کریم!  آپ ان لوگوں سے فرمادیجئے کہ بغیر اتباع کے دعوے محبت فضول ہے۔(واعظ بابتہ ہفتۂ اول ربیع الاول ۱۳۴۳؁ھ)
اربعینِ عندلیب اور تعلیم الاحادیث 
عندلیب ؔعلیہ الرحمہ کی کتابوں میں جو دستیاب ہوسکیں ہیں دواہم کتابیںاربعینِ عندلیب اور تعلیم الاحادیث ہیں۔
مولاناعندلیب علیہ الرحمہ کے نواسہ پروفیسر معین انصاری صاحب نے اربعین عندلیبؔ کواردو اور انگریزی ترجمہ کے ساتھ نوشین پبلکیشنز یو یس اے کی طرف سے شائع کروا یا۔ اس کتاب پر علماء کرام نے جو تقاریظ لکھی ہیں اس سے مولانا عندلیب کی عظمت و منزلت کا پتہ چلتا ہے۔حضرت مولانا محمد خواجہ شریف مدظلہ العالی شیخ الحدیث و ناظم مرکز تحقیقات اسلامیہ جامعہ نظامیہ حیدرآباد اس کتاب کے دوسرے حصہ کیلئے لکھی ہوئی تقریظ میں فرماتے ہیں
’’کتاب منیف اربعین عندلیب تألیف حضرت شیخ علامہ محمد عبدالوہاب عندلیبؔ علیہ الرحمہ جو (۳۲۰۰) احادیث شریفہ علیٰ صاحبھا والہ والصلوۃ والسلام پر مشتمل، خواص و عوام ہر ایک کیلئے نہایت مفید کتاب ہے۔ اس میں حیات انسانی سے متعلق (۸۰) مضامین ہیں اور ہر مضمون کی منتخب (۴۰) احادیث شریفہ جمع ہیں۔ اور کتاب کو (۴)  اجزاء پر تقسیم کیا گیا ہے۔ اور ہر جز میں (۸۰) احادیث شریفہ علیٰ صاحبھا والہ الصلوۃ والسلام ہیں۔………… مولانا محمد عندلیبؔ صاحب حیدرآباد کی عظیم و معروف إسلامی یونیورسٹی جامعہ نظامیہ کے فارغ اہلِ قلم، صاحبِ تصانیف علماء میں سے ہیں۔ اپنے وقت کے عظیم محدث و قادر الکلام ادیب و شاعر اور واعظ تھے۔ تألیف و تقریر میں آپ کا اسلوب سلف صالحین کے جیسا ناصحانہ اور دل نشین و اثرپذیر ہے۔ ………………مولانا عبدالوہاب عندلیب ؒمحدث نے اخلاقی، تہذیبی، دینی و مذہبی، تعلیمی و تربیتی (۸۰) مضامین کا انتخاب کرکے (۸۰) اربعنیات کی تالیف کی اور اس کا اردو زبان میں نہایت سہل الفہم شستہ حلاوت سے بھر پور معنی خیز منظوم ترجمہ بھی کیا۔ اس طرح یہ اپنے موضوع کی اہم کتاب ہے۔ آپ کو اس کتابِ منیف میں عبادات، معاملات، اخلاقیات، سیاسیات ومعاشیات اور مسلمانوں کی تمام ضرورتوںمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث شریف ملے گی۔ ‘‘ (اربعینِ عندلیب جلد دوم صفحہ[ v] تقریظ)
شیخ الحدیث مولانا الحاج محمدعباس علمبردار صدیقی مدظلہ العالی نبیرۂ بحرالعلوم مولانا محمد عبدالقدیر صدیقی حسرت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ عندلیبؔ علیہ الرحمہ کی ان دو کتابوں کے متعلق فرماتے ہیں۔
’’مولانا عندلیب کے کارناموں میں یوں تو بہت سی کتابیں ہیں لیکن علم حدیث شریف میں اربعین عندلیب کے علاوہ تعلیم الاحادیث کے نام سے انہوں نے ایک بیش بہا ذخیرہ چھوڑا ہے جس میں (۱۲۴) عنوانات کے تحت (۴۸۲۴ )احادیث یکجا کئے گئے ہیں۔ ارشاد نبوی کی رو سے انھوں نے جنت میں اپنا ٹھکانہ بنالیا ہے اور اس نیک کام میں دامے درمے قدمے سخنے کام کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے دعاء ہے کہ وہ اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے طفل اپنی رحمتوں اور برکتوں سے نوازے آمین ‘‘(اربعینِ عندلیب حصہ دوم ہندوستان میں علمِ حدیث صفحہ[ix])
ڈاکٹر عقیل ہاشمی صاحب سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد اربعینِ عندلیبؒ کے پہلے حصہ کاخصوصی مطالعہ کرتے ہوئے اپنے تأثرات نقل کئے ہیں۔ اُنہوں نے کئی پہلؤوں سے اس کتاب کا جائزہ لے کر ایک قابلِ قدرتبصرہ کیا ہے ۔ اس کے مطالعہ سے مولانا عبدالوہاب عندلیب علیہ الرحمہ کی شخصیت کے قد وخال ابھر کر سامنے آتے ہیں اور اُن کی عظمت سمجھ میں آتی ہے۔ وہ لکھتے ہیں   ؎
’’عندلیب صاحب نے اپنے منظوم ترجمہ کیلئے موقعہ و محل کے لحاظ سے فردیات اور کہیں رباعیات کا طریق اپنا یا مگر جلد ہی موصوف نے اس نہج کو بدل کر ترجمہ کو مثنوی کے طور پر لکھنا شروع کیا جو کم از کم ختم کتاب تک باقی رہا البتہ ضرورتا کبھی کبھی فرد اور رباعی یاپھر قطعہ کا انداز اختیار کیاہے۔ عنوان اول روزہ، نماز سے عنوان دوم حفظ لسان خیر خیرات، صلہ رحمی اور حقوق ہمسایہ کے تحت یعنی تقریبا (۶۰) احادیث تک رباعیات کا التزام ملتا ہے۔  بعد ازاں صلہ رحمی سے مثنوی کاا ور وہ بھی مثنوی مولانا روم کی بحر میں منظوم ترجمہ کیا ہے اور جہاں کہیں تشریحات و توضیحات کی ضرورت محسوس کی یا پھر کوئی تفصیل کی گنجائش ہوتو کئی اشعار میں اسکی وضاحت کی ہے۔ مثلا
[۱]جلد اول حدیث نمبر ۲۷ ص ۱۶ 
اِنَّ طُوْلَ صَلٰوۃِ الرَّجُلِ وَقَصْرَ خُطْبَتِہٖ مَئِنَۃٌ مِنْ فِقْھِہٖ (مسلم، ابودائود)
 بے شک آدمی کی نماز کی درازی اور اسکے خطبہ کا اختصار ذکاوت کی علامت ہے۔ 
Verily the length of a man’s prayer and the shortsness of his sermon is a sign of his wisdom. (Muslim & Abu Dawood)
تم آپ اکیلے جو پڑھو کوئی نماز
اچھا ہے اگر کرو نماز اپنی دراز
لیکن بالاختصار پڑھنا خطبہ
مردِ ہشیار کا ہے کارِ ممتاز
[۲]جلد اول حدیث نمبر ۴۰ ص ۲۳ 
کَانَتْ صَلٰوۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَصْدًا  وَخُطْبَتُہٗ قَصْدًا
(الخمسۃ الاالبخاری)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز معتدل تھی اور آپﷺ کا خطبہ معتدل تھا۔ 
The prayer of the Messenger(PBUH) was of moderate lenght and his sermon was also moderate.(The Five books except Bukhari).
کرتے تھے دراز آپ نہ خطبہ نہ نماز
ان میں سے ہر ایک عبادت اوسط ہوتی
[۳] جلد اول حدیث نمبر ۲۸ ص ۴۴
وَلْیُحْسِن جَوَارَمَنْ جَارَ ( شعب الایمان)
 اسے اپنے ہمسایہ (پڑوس) کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہئے۔
He should treat well with his neighbour.(Suabul Iman)
ساتھ ہمسایہ کے ہو حُسن سلوک
(ہو کبھی اس میں نہ تم سے بھول چوک)  
[۴] جلد اول حدیث نمبر ۸ ص ۱۰۲ 
وَالصَوْمُ نِصْفُ الصَّبْرِ(مسلم) 
 روزہ نصف صبر ہے۔ (مسلم)
8. Fasting is the half of patience.
صبر کی قیمت ہے کیا پہچان لو
روزہ نصف صبر ہے یہ جان لو
عبارت مختصر ! مولانا عبدالوہاب عندلیب جو اپنی ذات سے ایک انجمن تھے دانستہ اور شعوری طور پر اپنے مقبول خاص و عام ہفت روزہ رسالہ واعظ کے ذریعہ دین حنیف کی جو خدمت انجام دی ہے وہ بلا شبہ لائق صد تحسین و تقلید ہے خصوصیت سے انہیں نے ’’اربعین‘‘ یا چہل حدیث کے انتخاب اسکی تشریح اور اسکا منظوم ترجمہ کیا وہ بقول جناب نصر الحق ایک ایسا تاریخی کام ہے جسکی مثال اردو میں کیا شاید کسی اور زبا ن میں بھی نہیں۔ یہ منفرد انوکھا اورایمان افروز کارنامہ آج مدتوں بعد دو بارہ کتابی صورت سے شائع ہوا ہے جس کی افادیت اور اہمیت مسلم ہے۔ مزید اس موجودہ ایڈیشن کو ڈاکٹر سید بدیع الدین صابری کامل الحدیث جامعہ نظامیہ و اسوسیٹ پروفیسرشعبہ عربی عثمانیہ یونیوسٹی نے بڑی جانفشانی اور یکسوئی سے اردو اور انگریزی تراجم سے وقیع اور کار آمد بنادیا جسکی فی الوقت و فی زمانہ بہت ضرورت تھی۔ بہر حال پروفیسر معین انصاری (پالمریونیورسٹی۔مولانا مرحوم کے نواسہ) کے زیر اہتمام اہلِ ایمان و ایقان کیلئے نعمت عظمیٰ فراہم کی گئی ہے ۔ (اربعینِ عندلیب ؒ حصہ چہارم صفحہ خصوصی مطالعہ از ڈاکٹر عقیل ہاشمی سابق صدر شعبہ اردو عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد)
حضرت مولانامحمد عبدالوہاب عندلیب رحمۃ اللہ علیہ کی کی زندگی کا دوسراقیمتی سرمایہ اربعینِ عندلیب ؒ کے بعدتعلیم الاحادیث کے نام سے ہزاروں مختصر مختصر احادیث کو مختلف عنوانات اور ذیلی عنوانات کے تحت جمع کرنا اور اُن کوترجمہ کے ساتھ شائع کرناہے۔ اُُنہوں نے رسالۂ واعظ میں رمضان ۱۳۶۱؁ ھ سے ’’روزہ کے متعلق صحیح حدیثیں‘‘ کے عنوان سے یہ سلسلہ شروع کیا۔واعظ کی جلد ۵۳ بابتہ ۱۳۶۹؁ ھ تک اس کی کڑیاں ملتی ہیں۔ اس طرح اب تک جو رکارڈ مل سکا ہے اس میںایک ہزار دو سو صفحات پر پانچ ہزار سے زیادہ احادیث کا ذخیرہ ہے جوکئی سو کتبِ احادیث کا نچوڑ ہے۔ ہر حدیث کے ساتھ اُس کا مصدر لکھ دیاگیا ہے۔کچھ احادیث کی شرح بھی کی۔اس کتاب اور اُس کے مرتب کی عظمت کا اندازہ اس کتاب کے عنوانات اور ذیلی عنوانات سے لگایا جاسکتا ہے۔
روزہ کے متعلق صحیح حدیثوں کے تحت ترغیب،رویت،۔ سحر، افطار، روزۂ سفر،، نمازِ شب، اعتکاف،شبِ قدر، کفّارہ، عید الفطر، صدقۂ فطر، سۃ شوال اورنفل روزے جیسے ذیلی عنوانات قائم کئے اور[۱۳۰] حدیثیں لائیں۔حج، عمرہ ،شہادت،شمائلِ نبوی ﷺ،درود، وسیلہ، معراج، قران،سواری،مدینہ طیبہ،فضائلِ اہلِ بیت، فضائل النبی ﷺکے عنوانات قائم کئے ، اتحاد کے متعلق(۳۴۹) ، عورتوں کے متعلق(۳۸۳)صحیح حدیثیں، ہمہ وقتی دعائیںاور موقتی دعائیں (۱۱۲)، دعا کرنے کے متعلق صحیح(۷۷) حدیثیں اور حفظِ لسان(۱۴۱) حدیثیںلائیں۔اولیاء اللہ کے عنوانات کے تحت خواب، مہدی، ابدال، مجاہدین، محفوظ دستہ، مجدد، عزلت گزین، فقراء، مساکین، غریب الوطن، کمزور، مستجاب الدعوات،  شفاعت، صحبتِ نیکاں، تعظیمِ اہلِ فضل، علم و عمل،خشیت، خیر زمانہ، دعا،اولو الامرکے ذیلی عنوانات قائم کئے اور اس کے تحت جملہ (۱۰۱) حدیثیں درج کیں۔زکات کے متعلق (۲۱) ، صدقہ کے متعلق (۱۴۴) حدیثیں،قرابت کے متعلق (۹۱)، دنیا، علم،عمل، دفاع کے بعد بدخلقیوں کے متعلق احادیث لائی گئیں اور ذیلی عنوان جیسے جھوٹ، غیبت، جہالت، گالی گلوج، لعن طعن، کافر بنانا، مارپیٹ، قتل باہمی، نفاق، چغلی، آبرو ریزی، تہمت، شرارت، فسق و فجور، نشہ، اسراف، سوال، چوری، حرص،رشوت، ظلم، غصہ، بغض و حسد کے تحت جملہ (۳۲۷) حدیثیں لکھیں۔آزمایش کے عنوان کے تحت جملہ (۲۹۶) حدیثیں بیماری، علاج (دعا سے) امیدِ قبولیت، حفظِ ماتقدم، مصیبت کے وقت پڑھنے کی دعا، شدتِ مرض میں پڑھنے کی دعا، دشمن کے دفعیہ کی دعا، علاج  (دوا سے)، خبر گیری،  نمازِ جنازہ،  تدفین، ایصالِ ثواب، نوحہ،  صبر، وصیت کے ذیلی عنوانات کے ساتھ نقل کیں۔ طہارت کے مسائل کے تحت ، مسواک، وضو، غسل، تیمم کے ذیلی عنوانات کے ساتھ (۱۳۲)حدیثیں درج کیں۔نماز کیلئے نماز، نماز تہجد،جماعت امامت،  صف بندی، صف اول، نمازِ جمعہ، خطبہ،  نمازِ چاشت، سورج گہن اور چاند گہن کی نماز، اذاں، مساجدکے ذیلی عنوانات کے تحت (۳۴۳) احادیث جمع کئے۔ محرم سنہ ۱۳۶۸ھ کے بعد کے پرچوں میں خوش خلقی، تواضع و انکساری، حاجت روائی، حیاء، حلم (بردباری)، نرمی کرنا، توکل، صلح جوئی، جھوٹوں پر مہربانی اور بڑوں کی منزلت دانی، عفو، رحم، نیکیاں کرنا، انصاف، استغناء، تقویٰ، رحمت، حقوقِ یتامیٰ، کسب، بیع، زراعت، سود، قرض، رہن، امانت، عہد، قسم، سفر، کھانا پینا، قناعت، شکر، حقوقِ ہمسایہ، ہدیہ، مہمانی، دعوت، عقیقہ، تسمیہ، رضاعۃ، عادات و اطوار، ایمان، دین، اسلام، شرک، بدعت، توبہ، ریا، سلام، مصافحہ وغیرہ کے الگ الگ عنوانات پر حدیثیں اکٹھا کیں۔ اس سلسلہ میں پورا رکارڈ نہیں مل سکا ہے۔جس قدر مل سکا ہے اس میں احادیث کی جملہ تعداد چار ہزارآٹھ سوسے زیادہ ہے۔جملہ صفحات کی تعداد بھی بارہ سو سے کم نہیں ہے۔ بعض احادیث کا درمیان میں ضمنی نمبروں کے ساتھ اضافہ کیا گیا۔ اُن احادیث کی گنتی اس میں شامل نہیں ہے۔
حدیث شریف کی ان دو مایہ ناز کتابوں کے سوا مولانا عندلیبؒ نے  اربعینِ اہلِ بیت کی شرح بھی دو اقساط میں شائع کی۔ یہ اربعین، اربعینِ شاہ ولی اللہ ؒ کے نام سے بھی مشہور ہے۔ اس اربعین کی یہ خصوصیت ہے کہ شاہ ولی اللہ محدثِ دہلویؒ نے یہ چالیس احادیث اپنے استاذِ محترم حضرت مولانا ابوطاہر مدنی رحمۃ اللہ علیہ سے لیں ہیںجن کا سلسلہ ٔ نسب سیدنا امام زین العابدین ابن سیدناامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ملتا ہے۔ابوطاہر مدنی رحمۃ اللہ علیہ نے یہ احادیث اپنے والدِ محترم سے روایت کیں، اُن کے والدِ محترم نے اپنے والدِ محترم سے اور یہ سلسلہ اسی طرح سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم سے ہوکر حضور آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتا ہے ۔ یہاں نمونہ کے طور پر اس اربعین کی شرح سے ایک حدیثِ شریف ’’ اَلْحَیَائُ خَیْرٌ کُلُّہٗ‘‘ کی شرح نقل کرنے کی شعادت حاصل کی جاتی ہے۔
(۲) احادیث کی شرح
اَلْحَیَآئُ خَیْرٌ کُلُّہٗ  حیا اچھی ہی اچھی ہے۔
کسی بُری چیز کی بُرائی معلوم ہوجانے کے بعد اُس کے ارتکاب سے رُک جانے کو حیا کہتے ہیں۔ یہ وصف جس شخص میں زیادہ پایا جائے گا اُس کا ایمان بھی اُسی طرح کامل ہوگا۔ اور جس میں یہ وصف نہیں اُس کا ایمان کامل نہیں۔ لَااِیْمَانَ لِمَنْ لَاَحَیَائَ لَہٗ کا یہی مطلب ہے۔ اور اَلْحَیَائُ شُعْبَۃٌ مِنَ الْاِیْمَانِ اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔
خنزیر کی حرمت کا بہت بڑا سبب یہی ہے کہ اس کا گوشت کھانے سے بے حیائی پیدا ہوتی ہے۔اسی سبب سے شریعت مطہرہ نے اس کو نجس العین فرمایا کہ اس کا پالنا اور خرید و فروخت کرنا۔ گوشت کھانا۔ دُودھ پینا۔ یا اُس کا جھوٹا استعمال کرنا۔ یا اُس کے بال یا چمڑے اور ہڈی کا استعمال کرنا جملہ امور حرام قرار دئے گئے۔ اِتنی نجاست اور بُرائی کسی دوسرے جانور کی نسبت شریعت مقدسہ میں نہیں بیان کی گئی ہے۔ علیٰ ہذا زنا۔ جھوٹ۔ غیبت۔ یا دیگر فواحش جو حرام کئے گئے اُس میں بھی اِسی حیاء کی تعلیم منظور تھی۔ اِس بیان سے ظاہر ہے کہ حیاء میں شر کا نام نہیں جو کچھ ہے خیرہی خیر ہے۔( واعظ …ضمیمہ اربعینِ اہلبیتِ اطہارؓ)
حصولِ برکت اور سعادت کے دروازے عوام و خواص کیلئے کھولتے ہوئے بحرالعلوم مولانامولوی محمد عبدالقدیر حسرت ؔصدیقی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی روایت اور سندسے حیدرآباد میں اربعینِ شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کو عام کیا۔مولانا مولوی سید محمد پادشاہ حسینی قادری لئیقؔرحمۃ اللہ علیہ کے اردو ترجمہ اور مولوی محمد نصراللہ خان علیہ الرحمہ کے انگریزی ترجمہ کے ساتھ یہ چہل حدیث کا رسالہ بازار میں مل سکتا ہے۔للہ الحمد جمیعا۔
احادیث شریفہ کے منظوم ترجمہ کے علاوہ مولانا عندلیب ؒ نے قصیدہ بردہ کا بھی ترجمہ کیا ہے۔ دوسرے مترجمین علیہم الرحمہ کی طرح انہوں نے قافیہ ردیف کی پابندی نہیں کی بلکہ مفہوم کو منظوم ترجمہ میں ڈھالنے اور اس کا مطلب واضح کرنے پر زور دیا۔ اگرکہیں ضرورت ہوتو انہوں نے ایک شعرکے ترجمہ اور مفہوم کو دو یا دو سے زیادہ اشعار میں مکمل کیاہے۔ یہاں مثال کے طور پر تین اشعار کا ترجمہ درج ہے۔[۱]ایک شعر کاترجمہ تین اشعار میں 
استغفر اللہ من قول بلا عمل
لقد نسبت بہ نسلا لذی عقم
قول سے ایسے نہ ہو جس پر عمل
کچھ نہ ہو روزِ جزا جس کا بدل
مجھ سے بھولے سے نہ ہو ایسا گناہ
اے خدائے انس و جاں! تیری پناہ
بانج ہو عورت تو کیوں کر ہو ولد
ہوگا قولِ بے عمل کیونکر نہ رد  
[۲]ایک شعر کاترجمہ دو اشعار میں 
ظلمت سنۃ من احیی الظلام الی
ان اشتکت قدماہ الضر من قدم
سنتوں پر بھی ستم میں نے کیا
جو نبی محترم کی تھیں عطا
جو نبی طاعت میں تھے ثابت قدم
آگیا تھا جن کے پاوں پر ورم 
[۳]ایک شعر کا ترجمہ ایک شعر میں
ھو الحیب الذی ترجٰی شفاعتہ
لکل ھول من الأھوال مقتحم
ان سے ہے سب کو شفاعت کی امید
لاکھ ہوں آفات وآلامِ شدید
عالیجناب محمد عبدالجبار صدیقی مرحوم و مغفور مولوی عندلیب علیہ الرحمہ کے بڑے بھائی کے صاحبزادے تھے۔لوگ عام طور پر اُن کو خشک مزاج سمجھتے تھے مگر اُن کا علمی مذاق بہت بلند تھا۔ اُن کی کہی ہوئی باتیں پتھر کی لکیر ہوتیں۔ وہ مولانا عندلیب علیہ الرحمہ کے بڑے مداح تھے۔ مولاناکی پادشاہ رسی کے قصے اور لطیفے مزے لے کر سنایا کرتے تھے۔ مولاناکی کتابوں میںوہ خاص طور پر جمعہ کے خطبات اور سورہ کہف اور بعض دوسرے سوروں کی تفسیر کا ذکر کیا کرتے تھے۔میں نے ان کتابوں کا ذکر قدردان علم وفن جناب عزان جابری مرحوم ومغفور سے بھی سنا ہے مگر افسوس ہے کہ میں ان کتابوں کو ڈھونڈھ کر نہیں نکال سکا۔ اللہ سبحانہ سے امید ہے کہ یہ کام بھی کسی نہ کسی سے کروالے گا۔
اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی عجیب شان ہے۔جن کو چاہتے ہیں آزمائشیں اُن کا مقدر بن جاتی ہیںاور مدارج کی بلندی روز افزوں ہوتی ہے۔عبدالجبارصدیقی صاحب کہا کرتے تھے کہ مولانا عندلیب علیہ الرحمہ نے اپنی ضعیفی کے پیشِ نظر اعلیٰ حضرت آصفِ سابع سے گزارش کرکے اپنی حسنِ خدمت کا وظیفہ ایک خصوصی جی او نکلواکر اپنے حینِ حیات ہی اپنی اہلیہ محترمہ اور اپنے ایک فرزند کے نام نصف نصف جاری کروالیاکیونکہ اُن دنوں وظیفہ خوار کی موت کے بعد اُس کے افرادِ خاندان کو فیملی پنشن نہیں ملتا تھا۔لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔اہلیہ محترمہ اورمولاناکے وہ صاحبزادے جن کے نام وظیفہ جاری ہوا تھا دونوں کا انتقال مولانا کے سامنے ہوگیا اور دونوں وظیفے بند ہوگئے۔ حالات بدل چکے تھے ۔ مولانا ؒنے  وظیفہ کو اُن کے نام جاری کرنے کی درخواست بھی دی ۔ تحت کے دفتروں سے اُن کے موافقت میں لکھا بھی گیا مگریہ کاروائی دفترِمعتمدی میں منظور نہیں ہوسکی ۔ 
[۸۰] برس کی عمر میں مولانا محمد عبدالوہاب عندلیب علیہ الرحمہ نے ۲۴/ مارچ ۱۹۶۵؁ء کو حیدرآباد میں  داعی ٔ اجل کو لبیک کہا۔ اُن کی آخری آرام گاہ انجن باؤلی فلک نما کے قریب مغل فقیر کے تکیہ میںہے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ (۳)
مولانا حافظ عبدالرحمن بن محفوظ الحمومیؒ
عالم باعمل ، جید حافظ، قرات سبع وعشرہ کے ماہر، سابق خطیب شاہی مسجد باغ عام و سابق شیخ التجویدو القرأت جامعہ نظامیہ مولانا حافظ عبدالرحمن بن محفوظ الحمومی کے آباواجداد اپنے آبائی وطن ’حضرموت‘ سے ہندوستان آئے تھے، ۱۳۳۰؁ھ  ۱۹۰۱؁ء میں آپ کی پیدائش محلہ نور خاں بازار حیدرآباد میں ہوئی ، آپ کی ابتدائی تعلیم جامعہ نظامیہ میں ہوئی ، مدرسہ حفاظ مکہ مسجد سے ۱۳۴۲؁ھ میں بعمر۱۳ سال عربی النسل استاذ محمد قریشی صاحب سے حفظ کی تکمیل کی اور بادشاہ وقت نواب میر عثمان علی خاں بہادر کے ہاتھوں سند وخلعت حاصل کی مابعد شیخ القراء قاری روشن علی حسینی صاحب کے پاس قرات سبعہ وعشرہ کی تکمیل کی ابھی آپ جامعہ نظامیہ میں مولوی کے طالبعلم تھے کہ آصف سابع نے آپ کو طلب فرماکر اپنی بنائی ہوئی مسجد باغ عام کا پہلا خطیب وامام مقرر کیا ، ۱۳۵۱؁ھ میں جامعہ نظامیہ سے مولوی کامل کیا او ردوسرے ہی سال یعنی ۱۳۵۲؁ھ میں نظامیہ کے شیخ التجوید کا منصب سنبھال لیا جہاں آپ نے ۲۲؍سال کا طویل عرصہ قرات وتجوید کی بے مثال خدمات انجام دیں او ربحیثیت ناظرالقراء علم تجوید کی کامیاب تنقیح کی ، لیکن ۱۳۷۴؁ھ میں تخفیف جائیداد کی وجہ سے خدمات سے سبکدوش کردئیے گئے۔ دوران تعلیم آپ پر مفتی مخدوم بیگ صاحبؒ کی خاص توجہ رہی او رآپ نے علامہ ابوالوفاافغانی صاحبؒ سے بھی اکتساب فیض کیا۔ آپ نے عربی وفارسی خوشنویسی میں کمال حاصل کیا اور تقریباً ۵۵؍سال مسجد باغ عام میں خطابت وامامت کے فرائض بحسن خوبی انجام دئیے شیخ القراء عبدالحق مکی جو مکہ معظمہ سے حیدرآباد تشریف لائے تھے اس وقت حضرت نے بھی آپ سے استفادہ حاصل کیا۔ 
۱۹۷۸؁ء میں انجمن طلبائے قدیم جامعہ نظامیہ کی جانب سے قراء ت وتجوید کی جلیل القدر خدمات کی بناء ’شیخ القرا‘ کے خطاب سے نو زاگیا۔
علاوہ ازیں آپ کے استاذ محترم قاری روشن علی صاحب نے مجلس حمایت القرات کے چالیس سالہ خصوصی جشن کے موقعہ پر’ نصیر القراء ‘کا خطاب عطا فرمایا آپ سے ہزاروں اصحاب نے ناظرہ قرآن مجید پڑھا اور فن تجوید و قرأت کی تربیت پائی او ربیشمار لوگ اس فن کے ماہربنے ، قرات سبع وعشرہ میں جو ماہرین نکلے ان میں یہ سات اسماء قابل ذکر ہیں حضرت مفتی محمد ولی اللہ صاحبؒ شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ ، مولوی سید حمید اللہ حسینی صاحب ، مولانا شیخ صالح یافعی صاحب ، مولانا عبدالستار خاں صاحب نقشبندی (سابق صدر شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ) ، ڈاکٹر وحیدالزماں خاں صاحب مرحوم ، مولوی سید انورحسین صاحب اور مولوی حافظ سید محمود صاحب ۔
قاری نشرگاہ قاری عبدالباری صاحب مرحوم نے بھی حضرت سے بخیال صحت چند پاروں کی تلاوت کی تھی لیکن چندماہ میں انتقال کرگئے علامہ سید محمود مدراسیؒ جو علم ہیئت کے ایک متبحر عالم تھے آپ کی ادائی حرف ’ص‘وصحت قرات سے بہت خوش ہوتے تھے۔ 
بچپن سے نیک اطوار تھے ، اکثر بچوں کو جمع کر کے مکہ مسجد کے جمعے خطبہ کی نقل کرتے تھے ، طبیعت میں نہایت سادگی تھی لباس صاف ستھرہ پہنتے تھے ، حافظہ قوی تھا ، کھانے پینے او ررہن سہن کے طور طریقوں میں تکلف بالکل نہ تھا ، آپ شہرت پسند نہیں تھے کم سخنی وگوشہ نشینی آپ کا خصوصی وصف تھا ، آپنے ستائش کی تمنا او رصلہ کی خواہش سے بے نیازہوکرتاحیات قرآن کریم کے بے لوث خدمات انجام دیں۔ اس سلسلہ میں ایک واقعہ قابل ذکرہے۔
شریف خاں کے والد محمد خاں صاحب بھی افغانی تھے جنہوںنے کابل میں مولانا ابوالوفاصاحب کے پاس قرآن مجید پڑھا تھا۔ اس وقت مولانا ابوالوفاء صاحب بھی بچے تھے۔ حیدرآبادمیں محمدخاں صاحب اپنے لڑکے شریف خاں کوقرآن کریم کی تعلیم کیلئے مولانا ابوالوفاء صاحب کے پاس لے گئے ، مولانا نے ایک خط اپنے خاص شاگرد مولانا عبدالرحمن بن محفوظ کے نام لکھ کر دیا اورمسجد باغ عام جانے کیلئے کہا جب چھ سال کا شریف خان مولانا کی خدمت میں پہنچا توانہوں نے خط کو نہایت احترام سے حاصل کیا اور باربار کہا کہ کیا مولانا نے میرا نام کہاہے، یہ واقعہ  ۱۹۶۲؁ء کا ہے اور شریف خان نے تین سال کی مدت میں تجوید کے ساتھ ناظرہ کی تکمیل کی اور مولانا نے پڑھائی کی کوئی اجرت نہیں لی بلکہ روزآنہ اپنی چائے میں آدھی پیالی شریف خان کودیتے تھے۔ختم کے دن جب جلیبی لائی گئی تو مولانا نے اپنی شہادت کی انگلی جلیبی پر لگائی اور چکھ لیا اورساری جلیبی شریف خان کو واپس کردی ۔ 
آپ نہایت متقی، پرہیزگار، عابد وزاہد اور متشرع او رمتبع سنت تھے ، شرع کو اپنی جان سے زیادہ عزیزرکھتے تھے ، خلاف شرع کوئی کام ہو تو پسندنہ کرتے تھے۔
آپ کا زیادہ وقت مسجد میں گزرتاتھا ، ہمیشہ قرآن مجید کی بات کرتے تھے او رگھر والوں کی اصلاح کو دوسروں کی اصلاح پر مقدم رکھتے تھے، اکثر راتوں میں قرآنی آیات میں تدبر کرتے او ررات رات بھر اسی شغف میں رہتے اکثر پچھلے پہر گھر سے پیدل نکل جاتے اور جلال کوچہ میں مولانا ابوالوفاء افغانیؒ کی اقتداء میں فجر کی نماز پڑھتے اور ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ ان کے درس میں شریک رہتے ۔ 
میرے جگری دوست امتیازحسین احمد (ایم فل )کا کہنا ہے کہ آپ نہایت قانع ، متوکل ، متقی او رعالم باعمل تھے آپ کو دنیا وی اسباب کی فکرنہ تھی ، دنیا وی تدابیر کرنا نہ آتا تھا ، بس اللہ پربھروسہ آپ کے دنیا وی کام خود بخود ہوتے رہتے تھے۔ نیک کام چھپا کر کرتے اور اسی کی ترغیب دیتے۔ آپ کی نگاہوں سے محبت رسول کا سبق ملتا اور باتوں باتوں میں دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیتے تھے حتی المقدور لوگوں کی مدد کرتے آپ نے کبھی امراء سے اپنی حاجت بیان نہیں کی بلکہ ان سے بے اعتنائی برتی او رہمیشہ رجوع الی اللہ رہے ، جمعہ کے دن بعد نماز آپ گھر پر وعظ فرماتے جس میں دوردورسے خواتین شرکت کرتیں اور آپ سے دعائیں کراتیں اور کہتیں کہ حضرت کی دعاء سے ہمارے کام بن جاتے ہیں۔
آپ اپنے گھر میں ۱۳؍تاریخ کو پابندی کے ساتھ قصیدہ بردہ شریف کا اہتمام کرتے تھے اس متبرک محفل میں آپکے ہمعصر علماء صلحاء اور مخصوص اہل خاندان شرکت کرتے تھے ۔
آپ مسجد باغ عام میں ابتداء سے آخر عمر تک نماز تراویح پڑھاتے رہے ۔ سواپارہ کی تکمیل دوگھنٹے میں ہوتی جس کو سننے کیلئے امراء ورؤسا اور صاحب ذوق حضرات دوردور سے شرکت کرتے اٹھائیسویں شب کو تراویح کا ختم ہوتا بعض دفعہ اس ختم کی محفل میں مولانا ابوالوفا افغانی ؒ نے بھی شرکت فرمائی ، ختم کی شب آپ بہت خوش ہوتے اور فرماتے کہ آج الحمد اللہ سنت کے مطابق تراویح کا ختم ہوا اس ختم قرآن کی محفل میں شہر کے جید حفاظ قرآن او راہل خاندان خاص طور پر شریک ہوتے ۔
  ۱۹۶۱؁ء میں مسجد غالب جنگ (پتھر گٹی )میں جب حضرت مفتی ولی اللہ صاحبؒ نے دیگراحباب کے ساتھ دارالعلوم نعمانیہ کی بنیاد ڈالی توشعبہ حفظ مولانا عبدالرحمن الحمومی کے ذمہ کیاگیا اس مدرسہ کے سرپر ست اعلی علامہ ابوالوفاء افغانی تھے ، یہ مدرسہ آپ حضرات کی نگرانی میں آٹھ برس تک خاموشی کے ساتھ کام کرتا رہا جہاں سے کئی حفاظ فارغ ہوکر نکلے ۔
آپ کی زندگی کے ایک واقعہ کو بطور کرامت بیان کیا جاتا ہے حضرت کو لڑکیاں زیادہ تھیں حضرت کو نرینہ اولاد ہوتی لیکن پیدائش کے بعد انتقال ہوجاتا آپ کے موجودہ اکلوتے فرزند بچپن میں سخت بیمار ہوئے علاج بہت کچھ کرایا لیکن فائدہ کی صورت نظرنہ آئی بلکہ طبیعت بگڑتی ہی چلی گئی خواتین بیحد غمزدہ تھیں اس پر یشانی کے عالم میں آپ نے سب کو چھوڑ کر مسجد قبول پاشاہ نورخاں بازار کا رخ کیا اور مسجد میں داخل ہو کر خالق دوجہاں کی بارگاہ میں بڑی آہ وزاری اور رنج وکرب کے عالم میں اپنے سرکو اپنے مولا کے حضور میں جھکادیا۔ بہت دیر تک اسی حالت میں رہے پھر مسجد سے گھر جاکراپنے فرزند کو دیکھا تو حالت میں بہتری آگئی تھی پھر چند دنوں بعدمکمل صحت ہوگئی یہ آپ کی دعاؤں کی قبولیت کا نتیجہ تھا۔ 
۱۹۲۸؁ء میں آپ نے حج بیت اللہ شریف وزیارت روضۃ النبی ﷺ کی سعادت حاصل کی اس وقت آپ کے ساتھ آپ کے فرزندحافظ محمد بن عبدالرحمن الحمومی اور آپ کی حافظ صاحبزادی تھیں ان دنوں راقم الحروف بھی جدہ میں مقیم تھا اور خوش بختی کہ آپ کے ساتھ تمام مناسک حج اداکرنے کا موقعہ ملا ۔ حسین بی کی رباط سے نماز وں کیلئے مسجد حرام جاتے تو راستے میں جوبھی آپ کو دیکھتا احترام سے سلام کرتا اور بیت اللہ شریف میں عرب حجاج پوچھتے کہ شیخ کا تعلق کس ملک سے ہے اور بتایا جاتا کہ آپ ہندی ہیں تو انہیں تعجب ہوتاکہ ہندمیں اب بھی ایسے باکمال حضرات موجود ہیں پورے مناسک حج میں مجھے آپ کے ساتھ رہنے کا موقع ملا لیکن آپ نے مقامات مقدسہ میں کہیں بھی کسی سے ناراضگی کا اظہار نہیں کیا اور بڑے تحمل سے کام لیا میدان عرفات کی واپسی کی دعاؤ ں کے وقت ایک عجیب کیفیت ہم سب پر طاری رہی اور اس کی وجہ سے بیحد لطف حاصل رہا دربارنبوی ﷺ میں جب صلواۃ وسلام عرض کرتے ہوئے گذررہے تھے تو اس وقت ایک عجیب سرور کی کیفیت ہم سب پر طاری ہوئی اور یہ کیفیت مجھ کوبعد کی روضۃ النبی ﷺ کی حاضری کے وقت میسرنہ آسکی ، شایدیہ آپ کی حضور ﷺ سے گہری عقیدت ومحبت تھی کہ اس کا کچھ حصہ مجھ ناچیز کو بھی میسرآیا۔
حج کے بعد آپ کا قیام میرے مکان پر رہا دوسرے دن جمعہ تھا فجر کی نماز محلہ جامعہ کی مسجد میں اداکرکے واپس ہوتے ہوئے مجھ سے کہنے لگے کہ آج مسجد کے امام نے فجرکی نماز سنت کے مطابق پڑھائی (پہلی رکعت میں سورہ سجدہ کی تلاوت کی گئی تھی)
مکہ معظمہ ، مدنیہ طیبہ اوربحرہ میں سعودی عرب کے علماء صلحاء اور ائمہ کرام سے ملاقاتیں ہوئیں ان حضرات نے آپ کو اپنے ہاں مدعوکیا۔
آخرزمانے میں آپ پر جذب اور خود فراموشی کی سی کیفیت طاری رہتی تھی ۱۱؍ربیع المنور ۱۴۰۹ھ  بروزدوشنبہ ، عصرو مغرب کے درمیان آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی ۱۲؍ربیع الاول کو بعدنماز ظہرمسجد باغ عام میں آپ کے فرزند مولانا حافظ محمدبن عبدالرحمن الحمومی نے نماز جنازہ پڑھائی اور درگاہ حضرت عبداللہ شاہ صاحب نقشبندیؒ (مصری گنج) میں چبوترہ پاراں میں تدفین عمل آئی۔ پسماندگان میں آپ نے چھ صاحبزادیوں اور ایک فرزند کوچھوڑا۔ آپ کے فرزندنے آپ کی یاد میں گھر پر ہی ایک مدرسہ بنام ’’مدرسۃ الحمومی لتحفیظ القرآن الکریم‘‘ قائم کیا جہاں ناظرہ او رشعبہ حفظ قائم ہیں اور آپ کے بعد آپ ہی کے فرزند مسجد باغ عام کے خطیب وامام مقرر ہوئے الحمدللہ آپ کے تینوں پوتے حافظ ہیں ۔ 
آپ متشرع تو تھے ہی خلاف سنت کوئی کام پسند نہ کرتے تھے ، آپ کا حفظ نہایت دلنشیں ہوتا اور بات دل میں اترجاتی تھی ۔ آپ کی تعلیم کا خلاصہ یہ تھا کہ 
زندگی آمد برائے بندگی
زندگی بے بندگی شرمندگی (۴)
مولانا قاضی غلام محی الدین رحمۃ اللہ علیہ
مولاناقاضی غلام محی الدین صاحب ؒقاضی سرکار گھن پورہ ضلع محبوب نگر کی پیدائش بتاریخ 21 محرم 1300ھ میں ہوئی آپ کے والد کا نام قاضی محمد عمر مرحوم ہے۔ قضاء ت آپ کے مورث اعلیٰ قاضی شیخ رفیع الدین صاحب کو اورنگ زیب عالمگیر رحمۃ اللہ علیہ نے عطاء کی۔ آپ جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل ہیں۔
محکمہ صدارت العالیہ نے تمام قاضی صاحبان ممالک محروسہ سرکار عالی کو ایک گشتی 1320ف میں اجراء کی تھی کہ قاضی صاحبان اپنے اپنے حدود قضاء ت میں دورہ کرکے مسلمانان دیہات کی اصلاح کریں اور تفصیلی رپورٹ پیش کریں۔ قاضی صاحب موصوف ہی نے اس کام کو بحسن خوبی انجام دیا اور مسلمانان دیہات کی مذہب سے دوری سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کی۔ جس کو نہ صرف بڑی قدر کی نگاہوں سے دیکھا گیا بلکہ محکمہ کی جانب سے اس رپورٹ کو طبع کراکر جملہ قاضی صاحبان ممالک محروسہ سرکار عالی کو عمل کرنے کی ہدایت کے ساتھ بھیجا گیا۔
اس رپورٹ کی طباعت کے بعد شیخ الاسلام حافظ محمد انوار اللہ شاہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نے آپ کو اصلاح اہل خدمات شرعیہ کے لیے ترتیب نصاب کا کام تفویض کیا۔ بربناء احکام آپ نے ’’نصاب اہل خدمات شرعیہ‘‘کی تالیف فرمائی جس میں تمام دینی مسائل فقہ حنفیہ کو نہایت سلیس اور عام فہم زبان میں مرتب کیا جو 1327ف میں تکمیل پائی۔ جس کو فضیلت جنگ علیہ الرحمہ نے پسند فرمایا اور جامعہ نظامیہ کے نصاب میں شامل فرمایا۔ اس کے علاوہ تنقیح محرمات نکاح اور نمونہ تختہ سیاہہ بھی آپ نے ترتیب دے کر فضیلت جنگ علیہ الرحمہ کی خدمت میں پیش کیا جس کو موصوف نے بے حد پسند کیا اور ممالک محروسہ میں رائج کیا جو آج تک بھی جاری ہے۔ آپ کے ان مذہبی امور کو بہ حسن خوبی انجام دینے کے ضمن میں مندرجہ ذیل اکابرین نے توصیفی اسناد سے نوازا۔
1۔ مولانا محمد انوار اللہ فاروقی فضیلت جنگ علیہ الرحمہ ذریعہ مراسلہ نمبر 1312م 22 اسفندرا 1327ف
2۔ مولانا محمد حبیب الرحمن خاں شروانی صدر الصدور امور مذہبی ذریعہ مراسلہ 3519م 28 امرداد 1327ف
3۔ نواب سر امین جنگ بہادر صدر المہام پیشی مبارک م 5 رجب 1333ھ
4۔ نواب لطف الدولہ بہادر صدرالمہام امور مذہبی م27 صفر 1350ھ
حضرت نے تاحین حیات دینی و مذہبی امور انجام دیتے ہوئے بعمر 63سال بتاریخ 17 آبان 1354ف م 24 دسمبر 1945ء کو وفات پائی۔ تدفین قبرستان متصل مسجد عباداللہ صاحب چنچل گوڑہ عقب ریلوے اسٹیشن دبیرپورہ میں عمل میں آئی۔ (۵)
حضرت مولانا مفتی مخدوم بیگؒ 
حضرت مولانا مفتی مخدوم بیگ صاحب ؒ کی ولادت آندھراپردیش کے ضلع سنگاریڈی میں بتاریخ ۱۷؍محرم ۱۳۱۴ء؁ روز دوشنبہ بوقت عصر ہوئی۔ آپ کی ولادت کے تھوڑی دیر بعد آپ کے برادر جناب رازدار بیگ صاحب بھی تولد ہوئے۔ یہ دونوں بھائی توام اور نہ صرف صورت میں مشابہ تھے بلکہ سیرت میں بھی ملتے جلتے تھے۔ چنانچہ دونوں کی ابتدائی تعلیم گھر ہی پر ان کے والد مرحوم اور برادر بزرگ مرزا اسد اللہ بیگ مرحوم نے دی۔ قدرت نے ایسا ذہن رسا دیا تھا، تسمیہ خوانی کے وقت سورہ ناس سے سورۂ اقراء تک کے سارے سورے یہ دونوں پڑھ لئے تھے اور (۸) سال کی عمر میں ناظرہ قرآن ختم کیا۔ گیارہ سال کی عمر میں تحتانوی امتحان جو ان دنوں اسپیشل کہلاتا تھا امتیاز سے پاس کیا۔ 
۱۳۲۶ء؁ میں والد مرحوم نے ان دونوں کو مدرسۂ نظامیہ میں شریک کرادیا۔ حضرت فضیلت جنگؒ جو ان دنوں صدر و بانی مدرسہ تھے ان دونوں بھائیوں کو اس قدر مشابہ دیکھ کر ط۔ظ سے موسوم فرمایا۔ اور شرکت کی اجازت دے دی۔ اس زمانہ میں مدرسۂ نظامیہ میں جماعت بندی باضابطہ نہ تھی۔ چونکہ یہ لوگ ذہین تھے جلد جلد منازل تدریس کی تکمیل کرنا شروع کیا۔ بڑی کتب کے ختم پر علماء سے امتحان دلوایا جاتا، بلکہ اکثر خود نواب فضیلت جنگؒ بھی امتحان لیتے اور یہ امتحان سخت قسم کا ہوتا تھا۔ نتائج کے اشارات ک= (کامیاب)۔ م=(متوسط)۔ ن=(ناقص) ہوا کرتے تھے۔ حکیم محمود صمدانی مرحوم بھی اکثر ممتحن ہوا کرتے اور بہت سخت سوالات کیا کرتے اس لیے طلبا ان کے نام سے گھبراتے تھے۔ مگر ان دونوں بھائیوں کا امتحان لے کر اظہار خوشنودی کرتے ہوئے ’’ک ک‘‘ دو کاف لکھا۔ اس سے ان برادران کی قابلیت کا اظہار ہوتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ایک دفعہ سالانہ ممتحن نواب فاروق یارجنگ مرحوم نے لیا اور مولوی مخدوم بیگ صاحب مرحوم کی حاضر جوابی اور قابلیت سے متاثر ہوکر انہیں اپنے پاس بلواکر اکثر ہائیکورٹ کی فتاویٰ نویسی کا کام لیا اور اعلیٰ تعلیم خود بھی دیا کرتے۔ 
۱۳۳۶ء؁ میں مرحوم نے فارغ التحصیل کی سند حاصل کی اور مدرسہ نظامیہ میں مدرس بنالئے گئے اور 15 روپئے مشاہرہ سے 50 روپئے تک ترقی کی اور ایک عرصہ تک 50 روپئے ماہوارہی پاتے رہے۔ مرحوم اتنے خوددار تھے کہ اپنی ترقی کے لیے باوجود سینئر اور ہر طرح مستحق ترقی ہونے کے کبھی ترقی کے لیے کسی سے جاکر سفارش نہیں کروائی۔ بالآخر قدرت نے مرحوم کو ترقی دی اور 500 روپئے ماہوار مشاہرہ پانے لگے آخر میں 350 روپئے وظیفہ مل رہا تھا۔ اس طرح چالیس سال اپنے خدمات سے سینکڑوں طلبا کو مستفید کیا۔ متعلم سے معلم اور پھر شیخ الفقہ و مفتی بنے۔ مرحوم فی الحقیقت حلم و مروت کا مجسم نمونہ تھے۔ باوجود عالم فاضل ہونے کے کبھی کسی سے سختی سے بات نہیں کی۔ طلباء سے تو مشفقانہ برتاؤ تھا ہی مگر اپنے دوست احباب کے علاوہ اجنبی حضرات سے بھی خوش خلقی و مروت سے پیش آتے۔ اگر کوئی شخص سختی کرتا بھی تو آپ اس کا جواب نرمی سے دیتے۔ 
جامعہ نظامیہ کے طلبا کے علاوہ بیرونی طلبا بھی آتے اور آپ انہیں بلا لحاظ وقت جب بھی فرصت ملے اور جہاں موقع ملے پڑھا دیا کرتے۔ ان کے تعلیمی شوق پر اپنے آرام کو کبھی ترجیح نہیں دیا۔ لوگ منع بھی کرتے تو آپ کہتے کہ ’’یہ طلبا دور سے آتے ہیں، انہیں انتظار میں رکھنا یا مایوس لوٹانا مناسب نہیں‘‘۔ طلباء مختلف سوالات صحیح غلط، اچھے برے ہر قسم کے کرتے مگر آپ ان سے متاثر ہوئے بغیر تشفی بخش جواب دیا کرتے۔ چنانچہ فجر کے بعد دس بجے تک گھر پر برابر طلباء آتے اور بعض مغرب کے بعد سے عشاء تک آکر مستفید ہوا کرتے۔ مدرسہ میں دس سے چار بجے تک مسلسل کام کرتے۔ تدریس کے علاوہ فتاویٰ کا کام کرتے۔ اس کے علاوہ ’’انجمن احیاء المعارف النعمانیہ‘‘ جس کی داغ بیل مولانا ابوالوفاء نے ڈالی اور جس کے ذریعہ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ کی تصانیف و تالیف کی نشر و اشاعت کا کام جاری ہے۔ مرحوم اکثر ان کتب کی تصحیح اور مولانا ابوالوفاء صاحب کے دوسرے علمی مشاغل میں برابر ممد و معاون رہتے۔ اس انجمن کے معتمد بھی تھے اور اپنی خدمات سے اس انجمن کو نہ صرف ہند بلکہ دیگر ممالک اسلامیہ عرب، مصر، شام تک بھی معروف کروایا تھا۔ مولانا ابوالوفا صاحب سے کمال محبت تھی، شاید ابوالوفا صاحب کا بھائی یا فرزند بھی ہوتا تو مرحوم سے زیادہ مولانا کی اطاعت و خدمت کرتا!
فقہی مسائل اور فتاویٰ صادر کرنے میں بھی آپ کو کمال حاصل تھا۔ دور دور سے فتوے طلب کئے جاتے اور آپ ان کے جوابات بدلائل دیا کرتے۔ اس لیے دس سال جامعہ نظامیہ کے افتاء کا کام بھی آپ ہی کے سپرد تھا اور اس منصب کو بھی نہایت مستعدی و نیک نامی سے انجام دیا۔
پولیس ایکشن کے بعد حیدرآباد میں بینک سے زائد حاصل ہونے والی رقم لینے کا جواز اور پولیس ایکشن میں عصمت کے تحفظ کے خیال سے جن مسلمان عورتوں نے باؤلیوں میں گر کر خودکشی کی تھی ان عورتوں کے اس فعل کو ناجائز قرار دیا۔
جناب ابوالوفاء صاحب کہتے ہیں کہ ایک دفعہ نماز فجر سے کچھ پہلے انہوں نے کچھ گنگناہٹ سنی تو بیدار ہوکر دیکھا کہ مرحوم ایک طالب علم کو پڑھا رہے ہیں۔ اس طالب علم کے شوق تعلیمی اور مستعدی سے متاثر ہوکر کوئی اور وقت نہ ملنے سے نماز فجر سے قبل کا وقت اس کے لیے مقرر کردیا تھا۔ گھر میں بھی مرحوم کا سلوک نہایت مشفقانہ تھا۔ خاندان کے بیسیوں افراد سال کے بارہ مہینے برابر آپ کے گھر میں موجود اور ناخواندہ مہمانوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ بعض لوگ تو آپ کے مکان کو لنگر خانہ کہا کرتے تھے۔ 
مرحوم کی کافی آمدنی ہونے کے باوجود لباس اور غذا نہایت سادہ اور معمولی، وہ تکلف سے ہمیشہ متنفر رہے اور کسی وقت بھی امتیاز سے کام نہیں لیا۔ حج و زیارت حرمین شریفین کی سعادت دو دفعہ حاصل ہوچکی تھی۔ 
انتقال سے ایک رات قبل تک نہایت ہی صحت مند تھے۔ سب سے ملے جلے، اپنے مشاغل قرآن خوانی سے فارغ ہوکر دودھ پیا، اس کے دس منٹ بعد ہی سینہ کا درد ہوا اور بے چین ہوگئے۔ درد اس شدت کا ہوا کہ تاب نہ لاسکے۔ ڈاکٹر صاحب کو بلایا گیا انہیں دو انجکشن بھی دیئے گئے مگر کارگر نہ ہوا، آخر میں کہا ’’بھائی راز دار کو بلاؤ!‘‘ اور پھر کلمۂ شہادت پڑھتے ہوئے جاں بحق تسلیم کئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون
بعد مغرب تدفین گنبد حضرت شجاع الدین رحمۃ اللہ علیہ (عیدی بازار، حیدرآباد)کے احاطہ میں عمل میں آئی۔ جنازہ کے ہمراہ علماء و مشائخین اور طلبائے مدرسہ قدیم و جدید کا ایک مجمع کثیر تھا۔ 
(بشکریہ : ماہنامہ القدیر (یادرفتگاں)، ربیع الاخر ۱۳۷۶ہجری، بقلم: مولانا رازدار بیگ صاحبؒ۔ مدیر احمد اللہ قادری القدیری، تلخیص و ترمیم مرتب)
مولانا حکیم محمد حسین نقشبندی قادری رحمۃ اللہ علیہ
شیخ الحدیث، جامع المنقول والمعقول، متبحر عالم زمان، طبیب، عظیم خطیب، امیر الجامعۃ النظامیہ، استاذ الاساتذہ مولانا حکیم محمد حسین  ۱۳۱۲ھتعلقہ وقارآباد کے ایک قریہ میں پیدا ہوئے، والد بزرگوار علیہ الرحمۃ نے آٹھ برس کی عمر میں جامعہ نظامیہ میں داخل فرمایا۔ اس عظیم جامعہ میں آپ نے ابتدائی، ثانوی، فوقانی اور جامعی تعلیم حاصل فرماکر فضیلت اور کامل کی فن حدیث میں سند حاصل فرمائی۔ علاوہ ازیں پنجاب یونیورسٹی سے مولوی فاضل کا امتحان امتیازی درجہ میں کامیاب فرمایا نیز دورۂ حدیث کی تکمیل فرماکر سند حاصل فرمائی، علوم متداولہ کی تکمیل کے بعد فن طب کی طرف توجہ فرمائی اور شہر کے معروف طبیب مولانا حکیم منصور علی خاں اور مولانا حکیم ابوالفدا محمود احمد رحمۃ اللہ علیہما سے نظری اور عملی طبابت میں کامل مہارت حاصل فرمائی، مولانا بڑے نباض تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں شفاء رکھی تھی، نہ صرف شہر بلکہ اضلاع اور بیرون ہند سے بیمار آپ کی خدمت میں رجوع ہوکر شفایاب ہوتے تھے۔ صلہ رحمی کا یہ حال تھا کہ پڑوسیوں، طلباء اور اہل علم سے دواؤں پر اجرت نہیں لیا کرتے۔ طلباء نظامیہ کی ہر سال کئی مرتبہ خصوصاً عیدین کے موقع پر دعوت طعام سے شفقت فرماتے، جود و سخا کا یہ حال تھا کہ کسی سائل کو خالی ہاتھ واپس نہ فرماتے۔ احباب کو بڑی بڑی رقمیں بطور قرض حسن دیتے، حضرۃ الاستاذ مولانا ابوالوفا علیہ الرحمۃ فرمایا کرتے کہ جامعہ نظامیہ نے دو سخی پیدا کئے ہیں ایک مولانا مفتی رحیم الدین دوسرے مولانا حکیم محمد حسین (علیہما الرحمۃ) جامعہ نظامیہ کے دارالاقامہ کے طلبا کا مفت علاج فرمایا کرتے۔ مولانا حکیم محمد حسین رحمہ اللہ تدریس، حسن معاشرت اور حسن معاملت میں اپنی مثال آپ تھے۔ نماز باجماعت، تلاوت قرآن پاک اور دلائل الخیرات کے ورد میں بڑے قاعدہ تھے۔ اشارۂ غیبی سے حضرت محدث دکن قدس سرہ سے بیعت بھی فرمائی۔ عمر کے آخری حصہ میں طویل علالت کا سلسلہ رہا اور جو کوئی عیادت کے لیے حاضر ہوتا اہل خانہ کو تاکیدی حکم تھا کہ چائے وغیرہ سے لازماً تواضع کی جائے۔ اگر کوئی عرض کرتا کہ یہ چیز باعث تکلیف ہے تو اہل خانہ فرماتے کہ اگر ہم تواضع نہ کریں تو ہم سے ناراض ہوجاتے ہیں۔
مولانا علیہ الرحمۃ کے ہاں تین صاحبزادے پیدا ہوئے۔ عزیزم فیض الحسن جو پاکستان منتقل ہوگئے، عزیزم عبدالغنی شہید ریاض سے حج کے لیے جاتے ہوئے حادثہ میں انتقال فرما گئے اور تیسرے ڈاکٹر عبدالمغنی امریکہ کی ریاست نیویارک میں مقیم ہیں۔ 
صاحبزادیوں میں عزیزم منور سلطانہ صاحبہ ایم اے، ایم فل (عربی) کلیۃ اناث انوار العلوم کالج میں لکچرار ہیں۔ مولانا کے بڑے داماد مولانا سید طاہر رضوی ؒجامعہ نظامیہ کے شیخ الشیوخ اور اپنے والد بزرگوار حضرۃ الاستاذ مولانا سید ابراہیم رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے جانشین تھے۔ 
آپ کی شب و روز کی مصروفیات اس قدر زیادہ تھیں کہ آپ تصنیف و تالیف کی طرف توجہ نہ دے سکے۔ البتہ علماء کی ایک بڑی جماعت نے آپ سے استفادہ کیا جو جامعہ نظامیہ کے معروف اساتذہ ہیں۔ مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کے اساسی رکن تھے۔
عاجز راقم نہ صرف طالب علمی کے دوران اور بعد بھی اکثر حاضر خدمت رہتا اور آپ کی ہدایات اور علمی نکات سے مستفید ہوتا رہا۔
جامعہ نظامیہ کی زندگی بھر قدمے، قلمے، سخنے اور دامے درمے بھرپور خدمات انجام دیں اور تین سال امیر جامعہ کی حیثیت سے سربراہ رہے اور دوران امارت تدریس کا کام برابر انجام دیا۔ بہرحال مولانا کی زندگی ایک مثالی زندگی تھی۔ رمضان المبارک میں آپ کا معمول یہ ہوتا کہ عشرۂ اولیٰ میں قرآن پاک کی سماعت فرماتے اور اس کے بعد نہ صرف شہر بلکہ اضلاع میں اپنے خرچہ سے جامعہ کے لیے فنڈز کی وصولی کے لیے سفر فرماتے اور ایک طالب علم کو اپنے خرچہ سے ہمراہ سفر رکھتے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد سلطان محی الدین صاحب نے اپنی ڈاکٹریٹ کے مقالہ میں مولانا کی جامع سوانح قلمبند کی ہے۔ جزاہ اللہ عنا خیرا۔
حضرت مولانا حکیم محمد حسین علیہ الرحمہ ۲۰ ربیع الاول ۱۴۰۷ھ ۲۴ نومبر ۱۹۸۶ء دوشنبہ کی صبح انتقال فرمایا اور مقبرہ متصل مسجد یٰسین سید علی چبوترہ حیدرآباد میں مدفون ہوئے۔ اللھم اغفرلہ وارحمہ واعف عنہ واجعل الجنۃ مثواہ ۔ آمین بحرمۃ سیدالمرسلین۔
(تذکرہ حضرت محدث دکن ص ۶۰۷ تا ۶۰۹؍ ڈاکٹر محمد عبدالستار خاں صاحب نقشبندی و قادری، ۱۹۹۹ء اسپیڈ پرنٹس، حیدرآباد)۔
 امام القراء حضرت میر روشن علی حسینی سناؔؒ
اتالیق شہزادہ گان ذیشان ناظر القراء (عہد عثمانی) بہ مملکت حیدرآباد شیخ القرأت جامعہ نظامیہ امام القراء والمقرئین سید علی حسینی عرف میر روشن علی سنا بروز دوشنبہ 24 رمضان المبارک 1300ھ مطابق 1883 ء بمقام ایرانی گلی حسینی منزل حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مدرسہ دارالعلوم من بعد مدرسہ جامعہ نظامیہ میں ہوئی، 1322ھ میں حضرت رضا علی شاہ چشتیؒ سے اولاً سلسلہ چشتیہ میں من بعد 1338ھ میں حضرت مولانا سید مخدوم حسینی قادریؒ مفتی جامعہ نظامیہ سے سلسلہ قادریہ میں بیعت ہوئے اور حضرت موصوف سے حدیث و علم فقہ و تصوف کی تعلیم حاصل کی۔ 1330ھ میں جامعہ نظامیہ میں شیخ التجوید والقرأت کے عہدہ پر آپ کا تقرر ہوا۔ 1354ھ میں جامعہ نظامیہ سے سر رشتہ تعلیمات سرکار عالی میں تبادلہ ہوا۔ شیخ التجوید کی حیثیت سے ناظر القراء کی خدمت پر جملہ سرکاری مدارس بلدہ کی قرآن مجید، فارسی، عربی، اردو، دینیات اور اخلاقیات کی تنقیح کا کام حضرت موصوف کے سپرد رہا۔ 16 سالہ یہ خدمت انجام دینے کے بعد 1369ھ وظیفہ پر سبکدوشی ہوئی۔ 1342ھ میں (اتالیق شہزادہ گان بلند اقبال (عہد عثمانی) کو بھی حضرت موصوف کافی عرصہ تک درس دیتے رہے۔ 1322ھ میں قاری محمد ابراہیم صاحب سے علم تجوید حاصل کیا۔ حفظ قرآن مجید بروایت قرأت سبعہ اور قرأت عشرہ تکمیل کی۔ آپ نے سبعہ قرأت کی مکمل جدار (جدول) سات جلدوں میں تیار کی۔ 1335ھ میں حضرت قاری عبدالحق مکی حیدرآباد تشریف لائے تو حضرت موصوف کی خدمت میں قرأت سبعہ اور قرأت عشرہ کی تکمیل کی۔ قاری عبدالحق صاحب کے مکہ واپس جانے کے بعد 1337ھ میں مفتی محمود صاحب سے تلمذ رہا۔ آپ نے نہایت وثوق سے فرمایا کہ میں نے اپنے استادوں سے علم تجوید اور قرأت حاصل کیا مگر ادائی تعلیم میں کوئی فرق و اختلاف نہیں پایا۔ مخارج صفات و مدہ و ادغام کی تعلیم میں سب کی رائے متفق تھی۔ حضرت موصوف نے جس شوق و محنت سے علم تجوید حاصل کیا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ چونکہ ذہانت خداداد تھی سمجھ اچھی پائی تھی۔ حافظہ اتنا قوی تھا کہ بغیر کتابوں کے شاگردوں کو تعلیم دیتے رہے۔ حافظ سید یوسف صاحب سے فارسی وغیرہ حاصل کی۔ موصوف اچھے خطاط بھی تھے۔ حضرت موصوف نے علم تجوید کی تعلیم کا سلسلہ 1334ھ سے شروع کیا اور آخری سانس تک تعلیم کا سلسلہ جاری رہا۔ ابتدائی زمانہ میں تو اس علم کا اشاعت اس قدر غلبہ تھا کہ جب کوئی شاگرد آتے آتے رک جاتا تو آپ خود ان کے پاس جاکر علم تجوید حاصل کرنے کے لیے مجبور کرتے۔ اکثر شاگردوں کا بیان ہے کہ ہم بعض پریشانیوں کی وجہ سے کئی روز تک نہ جاسکے تو استاذ محترم نے کئی مرتبہ مکانات پر جاکر طرح طرح سے ترغیب دے کر تکمیل قرأت پر مجبور کیا۔
آپ کے علمی و ادبی مضامین نوائے ادب و دیگرمجلات و رسالہ جات میں شائع ہوئے۔ آپ کی تصنیف ’’تعلیمات قرآنی‘‘ طالبان علم و تشنگان علوم قرآنی کے لیے مفید معلومات فراہم کرتی ہے۔ آپ نے تجوید پر کئی ایک رسالہ جات شائع کئے جس میں ایک رسالہ’’ اقتباس التجوید‘‘ کے نام سے 1359ھ میں شائع کیا۔ اورینٹل کانفرنس کے ممبر کی حیثیت سے آپ کے مقالہ جات لکھنو کی سیشن میں پڑھے گئے تھے مقالہ آپ نے جو پڑھا تھا اس کا عنوان تھا ’’حیدرآباد دکن نے فن تجوید کی کیا خدمت کی‘‘۔ یہ مقالہ فن تجوید سے متعلق عمدہ معلومات فراہم کرتا تھا۔ 1334ھ میں حضرت موصوف نے مجلس حمایت القرأت کی بنیاد ڈالی۔ تاریخ تاسیس سے قرأت حضرت سیدنا امام عاصمؓ، قرأت سبعہ اور قرأت عشرہ سے فیضاب ہوئے ہر سال ہزاروں طالب علم قاری بن کر نکلتے رہے اور بحمداللہ اس کا سلسلہ جاری ہے۔ چنانچہ مجلس حمایت القرأت کی چہل (40) سالہ خدمات کی جو روئداد 20؍ شوال المکرم 1374ھ کے 2 روزہ جلسہ عام میں مکرم الدولہ پیالس پتھر گٹی میں سنائی گئی۔ اس چالیس سالہ مدت میں جس قدر لوگ مستفید ہوئے ان کی فہرست گنوانا مشکل ہے۔ موصوف کے پاس کئی ایک نایاب قلمی، عربی اور فارسی نسخہ موجود تھے۔ موصوف کا عرصہ دراز سے مسجد محی الدولہ کونچہ نسیم من بعد مسجد حسینی ایرانی گلی میں قرأت کا درس جاری رہا۔ ایرانی گلی کے گھر پر ہی دن رات اور بعض اوقات فجر تک تجوید کا درس جاری رہتا تھا۔ 1958ء میں جلسہ افتتاحیہ بمقام جامع مسجد چارمینار حیدرآباد دکن مجلس عام میں اپنے تلامذہ راشدہ سے فارغین قرأت واحدہ، قرأت سبعہ اور قرأت عشرہ عطائے اسناد و خطابات سپردگی نیابت و خلافت فرمایا۔ حضرت موصوف کے بے حساب شاگر دنیا کے ہر حصہ میں پھیلے ہوئے ہیں۔ 20 محرم الحرام 1376مطابق 1959 ء حضرت کا وصال ہوا۔ اعلیٰ حضرت میر عثمان علی خاں بہادر کو حضرت کی وصال کی اطلاع ملی تب اعلیٰ حضرت نے بہت ہی افسوس اور غم زدہ لہجہ میں کہا ’’آہ میر روشن علی اب دنیا میں نہیں رہے‘‘ اور ایک جید عالم ہم سے دور ہوگیا۔ اعلیٰ حضرت پرسہ کے لیے حضرت قبلہ کے گھر تشریف لانا چاہتے تھے مگر کچھ ناگزیر حالات سے آ نہیں سکے۔ اپنے متعلقین کو حضرت کے گھر روانہ کئے اور پرسہ دیا۔ اعلیٰ حضرت نے اپنے ذاتی خرچہ سے خطہ صالحین نامپلی میں تدفین کا انتظام فرمایا۔ 
(بشکریہ : روزنامہ ’’ہمارا عوام‘‘ مورخہ 12 مارچ 2004ء حیدرآباد)
فخر ملت مولانا محمد عبدالواحد اویسیؒ
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے حبیب پاک علیہ الصلوٰۃ والسلام کی امت کو سابقہ تمام امتوں پر ہر اعتبار سے فضیلت و عظمت عطا فرمائی۔ اس امت میں جہاں بے شمار اولیاء، علماء، صلحاء، شہداء، مفسرین، محدثین فقہاء، ادباء پیدا ہوئے وہیں سیاسی قائدین، سماجی مصلحین، رفاہی کام انجام دینے والے مخلصین بھی پیدا ہوئے اور سب کے سب اپنے اپنے دائرہ کار میں ملت کی خدمت انجام دیتے رہے۔ یہ امت ہمیشہ ایسے افراد سے معمور رہی اور قیامت تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ 
دین اور ملت کی خدمت کو کسی ایک پیمانہ میں محدود نہیں کیا جاسکتا یہ اور بات ہے کہ کوئی منصب دوسرے منصب سے اعلیٰ و ارفع ہو لیکن کسی کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ تاریخ نے مختلف دور دیکھے ہیں۔ انقلابات کا طویل سلسلہ تاریخ کے گوشہ میں محفوظ ہے۔ حکومتوں کا عروج و زوال، حدود ممالک کا تغیر و تبدل کسی سے پوشیدہ نہیں لیکن تاریخ کو موجودہ دور نئے اصول و ضوابط کے ساتھ نمودار ہوا ہے جس میں حاکم و محکوم، بادشاہ و رعایا کا تصور سابقہ تصورات سے بالکلیہ طور پر مختلف ہوگیا ہے۔
یہ دور جو جدوجہد کا دور ہے، مسابقت اور اپنے کاز کے لیے لڑنا، حقوق کی حفاظت کے لیے ہمیشہ مستعد رہنا، قوم کی شیرازہ بندی کو سازشوں سے بچانا اور اپنے آپ کو ایک زندہ قوم کی حیثیت سے دوسری اقوام کے مقابل لے چلناکامیاب قائد کا کام ہے۔ خصوصاً ایسی قومیں جو اقلیت سے تعلق رکھتی ہیں ان کے لیے کام کرنا اور زیادہ محنت طلب اور مشقت خیز ہے کیونکہ دستوری تحفظات خود بخود نہیں مل جاتے بلکہ ان کو جستجو کے ذریعہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ انفرادی کوشش بے معنی شئے ہے، اس کے لیے اجتماعیت کی ضرورت ہوتی ہے اور اجتماعیت میں قیادت و امارت کا سوال پیدا ہوتا ہے۔ حکم دیا گیا کہ اگر دو آدمی بھی سفر کررہے ہوں تو کسی ایک کو اپنا امیر بنالو تاکہ سفر صحیح طور پر اور پرامن طے ہوسکے۔ اقوام کی زندگی کا سفر تو ایک طویل سفر ہے، اس میں کوئی قوم بغیر امیر و قائد کے اپنے مقصد کو پا نہیں سکتی۔ قیادت و امارت کی ضرورت پر کافی لکھا جاچکا ہے۔ نیز اس کی اہمیت کتاب و سنت سے ثابت ہے۔ اس میں کسی کو کوئی کلام کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔
اس مختصر تمہید کے بعد میں یہ بات بالکل عیاں ہے کہ ملت کو مذہبی، علمی، سیاسی اور صحافتی قیادت کی ضرورت ہمیشہ سے رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی۔ اگر یہ قیادتیں آپسی میل ملاپ سے کام کریں تو قوم کی صحیح خدمت ہوسکتی ہے۔ سابقہ زمانہ میں ایک ہی قیادت یعنی بادشاہت ان تمام کے لیے کافی سمجھی جاتی تھی۔ اب وہ دور نہیں رہا، شعبہ ہائے حیات نوع بنوع ہوگئے، حالات تبدیل ہوگئے، ایسے میں اگر مسلمان ان امور کو نظر رکھے بغیر کام کریں تو ان کا کام روبہ زوال نہ کہ روبہ ارتقاء۔
اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ وہ ضرورت کے مطابق اشیاء کو بھی پیدا کرتا ہے اور افراد کو بھی۔ مولانا محمد عبدالواحد اویسی مرحوم کا شمار بھی باکردار مخلص، دور بیں اور درد مند قائدین میں ہوتا ہے۔ آپ نے جامعہ نظامیہ میں تعلیم حاصل کی، جامعہ میں آپ کا داخلہ اس دور میں ہوا جب کہ جامعہ اپنے بانی حضرت شیخ الاسلام مولانا محمد انوار اللہ فاروقیؒ کی زیر سرپرستی بام عروج کو پہنچ چکی تھی۔ قابل اساتذہ، جید علماء اور ہر فن کے ماہرین یکجا جمع ہوگئے تھے، ان کی محفلیں طلبہ کے لیے تربیت گاہ تھیں ان کے علوم و فنون کا چرچہ نہ صرف ہندوستان میں تھا بلکہ بخاریٰ، سمر قند، ترک، ایران و افغانستان کے طلبہ کی کثرت تھی۔ مختلف زبانوں اور مختلف تہذیبوں سے وابستہ افراد سے میل جول آدمی کو نت نئے تجربے عطا کرتا ہے اور حوصلہ مندانہ جوش و خروش پیدا کرتا ہے۔ مولانا محمد عبدالواحد اویسی نے اپنے اساتذہ، رفقاء و معاصرین سے خوب خوب استفادہ کیا، ان کے ذریعہ مختلف ممالک کے احوال و انقلاب کو سننے، سمجھنے اور پھر کہیں کہیں دیکھنے کا بھی موقع ملا۔ چنانچہ آپ تاریخ سے گہری دلچسپی رکھتے تھے اور اپنی تقاریر و خطبات میں اس کا اظہار کیا کرتے۔
ہم نے اپنے اساتذہ مولانا مفتی محمد رحیم الدینؒ، مولانا ابوالوفاء الافغانیؒ اور مولانا حکیم محمد حسینؒ کو مولانا عبدالواحد اویسی کی تعریف و توصیف کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ کے برادر بزرگ بھی جامعہ نظامیہ کے طالبعلم رہے ہیں۔ مولانا مرحوم زمانہ طالب علمی سے ذہین، محنتی اور بااخلاق و باکردار رہے ہیں۔ آپ فرزند جامعہ ہونے کے ناطہ جامعہ نظامیہ کا ہمیشہ خیال رکھتے، فراہمی سرمایہ کے لیے فرمایا کرتے میں اپنی مادر علمیہ جامعہ کے لیے جھولی لگاکر نکلنے کے لیے تیار ہوں۔ ایسے مخلص بہت کم ہوتے ہیں۔ آپ کی رفتار سے متانت و وقار اور گفتار سے شفقت اور محبت اور ملاقات میں اپنائیت جھلکتی تھی۔ آپ سے گفتگو کرنے سے یہ محسوس ہوتا کہ حالات سے مقابلہ کرنا اور مصائب زمانہ سے مایوس نہ ہونا ہی شان مسلم ہے۔ آپ کی تقاریر سے قوم کو جوش و حوصلہ ملتا۔ ڈھارس و ہمت بن آتی اور خود اعتمادی کی تلقین ملتی۔ حالات سے مایوس، مصائب و آلام سے دوچار قوم کے پاس امید و بیم کے سوا کیا تھا۔ سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ ایسے پریشان کن حالات میں آپ نے قوم کی باگ ڈور سنبھالی اور بے خوف خطر قوم کو متحد و متفق ہونے کی دعوت دی۔ قیادت کے ابتدائی زمانہ میں آپ کی تقاریر سننا اور اتحاد المسلمین کا نام لینا گویا مصائب کو دعوت دینا تھا بڑے بڑے لوگوں کومسلم قیادت کے تشخص اور ساکھ کو برقرار رکھنے کے لیے اتحادالمسلمین کے نام پر لوگوں کو جمع کرنا شروع کیا۔ ظاہر ہے اس سلسلہ میں مخالفتوں، سازشوں اور مختلف مشکلات و مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ بلکہ بعض اوقات ساتھیوں نے تک رفاقت وملاقات چھوڑ دی لیکن آپ نے کبھی حوصلہ نہیں ہارا، بلکہ اپنے عزم مصمم کے ساتھ اپنی شبانہ روز محنتیں جاری رکھیں۔ کبھی اپنے کام میں کمزوری و کوتاہی آنے نہیں دی جس کا نتیجہ آج آپ کے سامنے ہے۔ آپ نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ لیکن آپ کے پائے استقلال میں کبھی فرق نہیں آیا۔ آپ نے قوم کو عزم و حوصلہ اور ہمت و شجاعت اور جرأت و بے باکی کا درس دیا۔ آپ اپنی تقریر میں اکثر یہ آیت کریمہ تلاوت فرماتے ’’لِلّٰہ ملک السمٰوات والارض‘‘یعنی زمین و آسمانوں کی ملکیت اللہ ہی کے لیے ثابت ہے۔ مابقی یہ دنیاوی اختیارات و اعتبارات عارضی و فانی ہیں۔ مسلمانوں کو آپ یہ سمجھاتے تھے کہ مالک حقیقی اللہ تعالیٰ ہے۔ تم اس سے اپنا رابطہ رکھو اور اس عارضی وفانی اقتدار سے نہ گھبراؤ۔ اس طرح آپ یہ آیت کریمہ کی تلاوت فرماتے ’’والذین جاہدوا فینا لنھد ینھم سبلنا‘‘یعنی جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کرتے ہیں ہم ان کے لیے اپنے راستوں کی رہنمائی کرتے ہیں پس ائے مسلمانو! تم اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو، اللہ تعالیٰ تمہارے راستے کھول دے گا۔ حالات سنگیں ہیں، گولیاں کھانے ہمارے سینے تیار ہیں لیکن اس سے مقصد حاصل نہیں ہوگا بلکہ مقصد تو آپ حضرات کے شوق و ولولہ سے حاصل ہوگا۔ آپ کی قیادت سے مسلمانوں کو بہت فائدے ہوئے۔ اسی لیے قوم نے آپ کی خدمات کے اعتراف کے بطور آپ کو ’’فخر ملت‘‘ کے خطاب سے یاد کیا۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی قبر کو رحمتوں سے معمور کردے۔ آمین   (بشکریہ : روزنامہ اعتماد ، 20 دسمبر 2005ء مضمون : مولانا مفتی خلیل احمد صاحب، شیخ الجامعہ، جامعہ نظامیہ)
امیر ملت حضرت مفتی محمد عبدالحمید صاحب رحمہ اللہ 
حضرت علامہ مفتی عبدالحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ بر صغیر کی دینی وعلمی عظیم المرتبت شخصیت اور اپنے دور کے علماء میں یکتائے روزگار اور علم و فضل کے اعلی مرتبہ پر فائز صاحب ورع، گہری بصیرت اور فراست ایمانی کے حامل ومالک تھے۔ آپ کا نسب مبارک حضرت سیدنا صدیق اکبر ص سے جاملتا ہے۔ آپ کے جد امجد افغانستان سے تشریف لائے اور سری رنگا پٹنم و شاہنور سے ہوتے ہوئے ضلع بیدر میں قیام فرمایا اور آپ کے جدِ بزرگوار حضرت محمود حسین رحمہ اللہ، نظام سادس کے دور میںدکن رونق افروز ہوئے۔ آپ کے والد محترم محمد حسین صاحب علیہ الرحمہ اپنے وقت کے بڑے عالم اور قناعت پسند سادہ زندگی بسر کرنے والے زاہد بزرگ تھے۔ جامعہ نظامیہ میں تدریس کے لئے ان کو متعین کیا گیا ۔ زندگی کے لمحہء آخر تک یہ خدمت انجام دیتے رہے۔
حضرت مولانا مفتی عبدالحمید صاحب رحمۃ اللہ علیہ محدثِ جلیل حضرت مولانا یعقوب صاحب کے داماد اور حضرت مفتی رحیم الدین صاحبؒ کے ہم زلف تھے۔ علامہ ڈاکٹر عبدالحق صاحب صدر شعبہ عربی جامعہ عثمانیہ آپ کے چچا ہوتے ہیں جو عربی ادب میں ممتاز شخصیت کے حامل اور کئی عالمی عربی اداروں سے وابستہ اور عربی مجلات کے ایڈیٹر رہے ہیں۔ آپ کی ولادت حیدرآباد کے مشہور محلّہ مغل پورہ  1906؁ء مطابق 1323؁ھ میں ہوئی۔ ابتداء تا انتہاء تمام تر تعلیم جامعہ نظامیہ میں ہوئی عربی ادب اور علومِ دینیہ اسلامیہ، تفسیر، حدیث، فقہ، علم عروض و منطق وفلسفہ میں علمائِ نابغین میں سے تھے۔ تمام علوم میں اللہ تعالی نے آپ کو کمال بلندی عطاء فرمایا تھا۔ آپ کی شخصیت پروقار اور بارونق تھی۔ آپ کی رنگت سیاہی مائل تھی۔ چہرہ انور اور جبین بلند پر عظمت کا ستارہ چمکتا تھا۔ آپ ستودہ صفات کے مالک آپ کی مجلس ہمیشہ علمی افادہ کی تھی۔ اتباعِ سنت کے پیکر اور ہمیشہ شملہ باندھے رہتے تھے۔ طبیعت میں نظافت اور ستھرائی غالب تھی۔ ریا، تفاخر اور شہرت سے بہت دور تھے۔ پاکباز و راست گو اور وعدہ کے نہایت سچے تھے۔ آپ کی زندگی کتاب وسنت اور اسلامی شریعت کا نمونہ تھی۔ سلیم الطبع اور اعتدال پسند تھے۔ حقوق اور واجبات کی ادائی کے اہتمام کے ساتھ ساتھ آداب اور مستحبات کی رعایت فرماتے تھے۔ آپ نہایت صائب الرائے تھے۔ لوگ اپنے پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لئے آپ سے رجوع ہوتے اور آپ ہر ایک کے ساتھ محبت اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔
تحصیل علم کے دوران اور اس کے بعد بھی آپ باہر زیادہ سفر نہیں کئے۔ لیکن تابناک سورج کے مثل ایک دنیاکو منور کئے۔ آپ کو اللہ تعالی نے علم لدنی سے سرفراز کیا تھا۔ تمام علمائِ عصر آپ کے علم وفضل کے معترف تھے۔ آپ کا اسلوب تدریس مختصر اور نہایت دل نشین تھا۔ تمام مراجع ومصادر پر ایسا استحضار تھا کہ کبھی مراجعت کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔ ہر طالبِ علم کی دلی خواہش ہوتی کہ آپ سے علمی استفادہ کرے۔ آپ کی تقریر درس کے تمام اطراف و جوانب پر حاوی اور تمام مباحث و معانی کا احاطہ کئے ہوئے ہوتی۔ آپ کے درس میں شریک ہونے کے بعدطالبِ علم کو مزید کسی شرح کے مطالعہ کی حاجت نہیں رہتی تھی۔ احادیث شریفہ میں تطبیق، مذاہبِ اربعہ کے دلائل اور مذہبِ حنفی کے وجوہِ ترجیح کی معرفت میں آپ کا کوئی ہمسر نہیں تھا۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے اعلیٰ درجہ کا حافظہ عطاء فرمایاتھا۔ ہدایہ اور اس جیسی بڑی بڑی امہات الکتب بغیر دیکھے پڑھایا کرتے تھے۔ اور فن کے دقیق سے دقیق مسائل دورانِ درس مختصر جملوں میں حل فرمادیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ پر علوم و معارف اور اسرر وحکم کے دروازے کھولے تھے۔ تعبیر خواب کے فن سے حظ وافر عطاء کیا تھا۔ پیچیدہ گتھیوں کو چٹکیوں میں حل فرماتے۔ عربی زبان کے آپ شاعر تھے۔ آپ کے شاگردانِ رشید جامعہ نظامیہ، دائرۃ المعارف العثمانیہ، گلبرگہ شریف، رائچور، بنگلور اور اورنگ آباد وغیرہ میں مدارسِ دینیہ اور جامعات وکلیات کے اساتذہ و مؤسسین کے علاوہ ہند و پاک اور عالمِ اسلام میں پھیلے ہوئے دین کی خدمت اور نشر و اشاعت میں سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کی ملّی خدمات بھی ناقابلِ فراموش ہیں۔ آپ مجلس علمائے دکن اور مسلم پرسنل لابورڈ اور مجلس احیاء المعارف النعمانیہ کے رکن معزز تھے۔ مجلس انوار علمیہ کے سرپرست و مجلس اشاعۃ العلوم کے صدر تھے۔ بحیثیت امیر ملت ملک وقوم اور دین ومذہب کی گراں قدر خدمت انجام دیں اور مسلمانان دکن کے لئے ہر میدان میں دینی شعور بیدار کئے۔خصوصا آپسی اتحاد کے لئے آپ کی عظیم خدمات ہیں۔
آپ کی تحریر و تقریر پر مغز اور پر اثر تھی۔ مختلف موضوعات پر آپ کے بہت سے علمی مضامین ومقالات مطبوعہ و غیرمطبوعہ ہیں۔ خطبات جمعہ کے نام سے دینی اور اخلاقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ جو مساجد میں پڑھ کر سنائے جاتے تھے۔ آپ کے مطبوعہ رسائل میں :
(1مسلم پرسنل لاء
(2ختم نبوت
(3حقیقتِ فاتحہ
(4استعانت بالاولیاء
(5امارت ملتِ اسلامیہ قرآن و سنت کی روشنی میں
(6اسلام میں زکوۃ کا نظام
(7’’معارف انوار‘‘،سیرت بانی جامعہ نظامیہ
(8رسالۃ الصیام علی المذاہب الاربعہ کا اردو ترجمہ
(9کتاب نظم الدرر پر تعلیق وتصحیح
10) فنِ حیاتیات میں ’’اصطرلاب‘‘ پر تعلیق وتصحیح 
11)امام اعظم ابو حنیفہؒ کی حیات مبارکہ پر ایک سے زائد مقالات
12) تصوف واحسان پر ایک نہایت جامع مقالہ
13) اور ایک مقالہ ’’قلبِ سلیم‘‘ کے موضوع پر شامل ہیں۔ 
آپ تقریبا چالیس سال تدریسی خدمات انجام دئے اور 71 سال کی عمر میں 3؍شوال المکرّم 1379؁ھ مطابق 6؍اکٹوبر 1977؁ء کو بعد مغرب آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا اور جوارِ رحمت خداوندی میں منتقل ہوئے۔(۶)
شیخ المعقولات مولانا غلام احمد علیہ الرحمہ
حضرت مولانا غلام احمد رحمۃ اللہ علیہ، جامعہ نظامیہ کے شیخ المعقولات، ایک ممتاز عالم دین اور بلند پایہ استاد تھے۔ راقم الحروف کے وہ استاد محترم تھے۔ ۱۱؍اکٹوبر ۱۹۲۴ء موضع ہنسگل ضلع نظام آباد میں زمیندار اور اہل خدمات شرعیہ گھرانے میں پیدا ہوئے۔ والد ماجد کا نام غلام محی الدین اور دادا کا نام شیخ میراں تھا۔ جامعہ نظامیہ میں ابتدائی تعلیم ہوئی، مولوی، عالم اور فاضل میں زیر درس و تعلیم پاتے ہوئے امتحانات کو کامیاب کیا اس کے بعد انہوں نے تفسیر، حدیث سے مولوی کامل کا امتحان کامیاب کیا۔ از ابتداء تا انتہاء وہ ایک اقامتی طالب علم تھے۔ زمانہ طالب علمی میں وہ طلباء و اقران میں ایک ممتاز طالب علم شمار کئے جاتے تھے۔ ایسے علماء و اساتذہ سے اکتساب علم و ادب کیا اور فیض ہوئے جو علوم و فنون متداولہ میں یدطولی رکھتے اور یکتائے روزگار تھے۔ اساتذہ آپ کو عزت و رفیع نگاہ سے دیکھتے تھے۔
محکمہ تعلیمات میں تقرر کے مواقع و امکانات سامنے ہی تھے کہ خود جامعہ نظامیہ میں خدمت کا بہ حیثیت استاذ یکم جون ۱۹۴۵ء تقرر ہوا۔ درس و تدریس میں مشغول ہوگئے۔ نائب شیخ المعقولات ہوئے۔ ایک طویل عرصہ کے بعد بہ زمانہ امیر جامعہ نظامیہ حضرت مولانا حکیم محمد حسین صاحبؒ، ۱۹۷۰ء میں شیخ المعقولات بنائے گئے۔ آخیرعمر تک وہ اس منصب پر فائز رہے۔ حضرت مولانانے اپنی پوری زندگی درس و تدریس میں گذار دی۔ چالیس سال سے زائد جامعہ نظامیہ میں تدریسی خدمات بحسن و خوبی انجام دیں۔ 
مولاناکے اساتذہ اجلہ میں مولانا مفتی سید محمد مخدوم حسینیؒ، مولانا مفتی سید محمود کان اللہ لہؒ، مولانا ابوالوفاء افغانیؒ، مولانا محمد قاسمؒ، مولانا سید شاہ محمد شطاریؒ، مولانا محمد مخدوم بیگؒ، مولانا مفتی رحیم الدینؒ، مولانا حکیم محمد حسینؒ، مولانا حاجی محمد منیرالدینؒ، مولانا مفتی محمد عبدالحمیدؒ اور فارسی کے اساتذہ مولانا شبیر علیؒ اور مولانا سید ظہور الدینؒ تھے۔
استاذ محترم کو علوم و فنون کی تدریس میں مہارت تھی وہ ذوق تدریس بھی رکھتے تھے۔ اسلوب درس اور طرز تفہیم بڑا عمدہ اور ماہرانہ ہوتا۔ موثر و جاذب بھی۔ مضمون درس کے تمام متعلقہ چیزوں کو بڑی وضاحت و صراحت کے ساتھ بیان کرتے۔ معانی و مطالب کو ذہن نشین کراتے۔ وہ کافی مطالعہ اور تیاری سے لیس درس دیا کرتے تھے۔ غبی طالب علم بھی آپ کے درس کو سمجھ جاتا۔ اثناء درس طلباء سے کبھی سوالات بھی کرتے صحیح جواب دینے پر وہ خوش ہوجاتے اور انعام دیتے راقم الحروف نے حضرت سے کئی بار صحیح جواب پر انعام حاصل کیا۔ جامعہ نظامیہ جب اقبال الدولہ کی دیوڑھی میں تھا اس کے بڑے ہال کے ایک حصہ میں مولانا درس دے رہے تھے شرح مأۃ عامل سے سوال کیا صحیح جواب دینے پر حضرت خوش ہوکر جیب سے ایک چمکتا پیسہ انعام میں دیا اور فرمایا کہ میاں انعام ایک پیسہ کیوں ہو انعام ہے۔ بس اتنا ہی مجھے یاد ہے۔ حضرت اپنے تلامذہ کو کافی چاہتے تھے۔ 
مولانا کے ہم زمانہ معاصر اساتذہ میں مولانا شیخ صالح باحطاب، مولانا فیض الدین، مولانا مفتی محمد سعید، مولانا حافظ و قاری عبدالرحمن بن محفوظ حمومی، مولانا سید طاہر رضوی، مولانا حافظ ولی اللہ اور مولانا محمد عثمان رحمہم اللہ تھے۔ حضرت سے ہم نے بلاغت میں تلخیص المفتاح اور منطق میں قطبی پڑھا ہے۔ دوران درس وہ پرمغز و معنی خیز فارسی اشعار بھی سناتے تھے۔ ان میں سے ایک دو شعر ابھی تک یاد ہیں۔
ہمت بلند دار کہ پیش خدا و خلق
باشد بقدر ہمت تو اعتبار تو
بہر کارے کہ ہمت بستہ گردد
اگر خارے شوی گلدستہ گردد
مولانا معقول و منقول میں وسیع نظر رکھتے تھے۔ وہ منکسر المزاج اور متواضع عالم و استاذ تھے۔ مکہ مسجد میں نماز جمعہ ادا کرتے۔ بیرون ملک سفر اور حج و زیارت نہ کرسکے۔ صبح دس بجے سے شام چار بجے تک وہ مصروف درس رہتے تھے۔ اس کے بعد وہ اقامت خانہ کے اپنے حجرہ میں تشریف لاتے، قدرے استراحت کے بعد وہ مسجد چوک جاتے جہاں صحن مسجد کے سامنے کے حجرہ میں جس میں اور علماء مولانا مفتی رحیم الدین، مولانا حاجی محمد منیرالدین، مولانا مفتی محمد عبدالحمید اور مولانا حبیب عبداللہ مدیحج تشریف فرما ہوتے حضرت مولانا بھی اس مجلس میں بیٹھ جاتے۔ نماز عصر، مغرب اور عشاء پڑھنے کے بعد وہ جامعہ نظامیہ واپس ہوجاتے۔ درسی کتب کا مطالعہ فرماتے نماز فجر و ظہر جامعہ کی مسجد میں ادا کرتے تھے۔
تقرر کے بعد سے وہ جامعہ کے اقامت خانہ میں ایک حجرہ میں رہتے تھے اس میں تقریباً ۳۷ سال سکونت پذیر رہے ہوں گے۔ مطبخ کے طعام پر وہ اکتفا اور قناعت فرماتے۔ اپنی تنخواہ سے ہر ماہ وہ جامعہ کو فیس خوراک ادا کردیتے تھے۔ وفات سے صرف دو سال قبل اپنے لائق صاحبزادے مفتی خلیل احمد کے گھر منتقل ہوئے۔ مولانا کی ایک خاموش زندگی تھی۔ خوبیوں، بلند اخلاق و اوصاف سے متصف خاص شخصیت تھے۔ حضرت کو کسی کے ساتھ کبھی بحث و تکرار کرتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا حتی کہ وہ اپنے ساتھی علماء و اساتذہ کے ساتھ بھی بحث و مباحثہ نہیں کرتے تھے کسی پر گرم ہوتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا۔ تلخ کلامی تو دور کی بات ہے حضرت کا ایک خاص وصف و امتیاز یہ تھا کہ کبھی وہ اپنے علم و فضل پر غرہ اور لیاقت کا مظاہرہ کیا ہو اور وعظ و تقریر نہیں کرتے تھے مگر پکے سنی حنفی تھے۔ دینی و مذہبی اختلافات اور مسلکی جھگڑوں میں نہیں الجھتے تھے۔ شہرت، جاہ طلبی اور سیاست کو پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ ان چیزوں سے بہت دور رہتے۔ اگرچہ وہ دارالاقامہ میں سکونت پذیر تھے مگر طلبا سے کسی بھی قسم کا ربط و ضبط ان کے سرگرمیوں سے بالکل بے تعلق رہتے گویا ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ اقامت خانہ میں موجود ہی نہیں ہیں۔
احقر جب رکن مجلس انتظامی اور معتمد بنایا گیا تو فرمانے لگے کہ ’’میاں تم مجھ سے ملنے نہیں آتے‘‘۔ کبھی کبار وہ اپنے مخصوص انداز میں فرماتے کہ ’’طالب علم کو غیر تعلیمی سرگرمیوں اور سیاست سے اجتناب کرنا چاہئے۔ اقتدار سے ٹکر لینا دانشمندی نہیں ہے‘‘۔ حضرت مولانا کی بہت سی قیمتی نصیحتیں ابھی تک ذہن نشین ہیں۔ مخفی مباد کہ راقم الحروف ایک شوخ اور انقلابی طالب علم سمجھا جاتا تھا۔ ایام تعلیمی کے حالات و واقعات یہاں ذکر کرنا مضمون سے متعلق نہیں ہے اس کے لیے ایک الگ مستقل کتاب لکھنے کی ضرورت ہے۔
حضرت مولانا کے تلامذہ کی تعداد بے حساب و کتاب ہے۔ ان میں سے یہاں صرف چند کا ذکر کیا جاتا ہے مولانا حافظ سید خورشید علی، مولانا سید عبدالوکیل جعفری، مولانا قاضی عبدالشکور، مولانا مفتی محمد عظیم الدین، مولانا سید جعفر محی الدین قادری، مولانا سید عطاء اللہ حسینی ملتانی، مولانا قاضی محمد عطاء اللہ نقشبندی، مولانا سید محمد صدیق حسینی عارف قادری، مولانا عبداللہ قرموشی، مولانا حافظ الطاف حسین فاروقی، مولاناقاضی سید علی، مولانامیراں جی خوندمیری، مولانا قاضی عبدالرشید، مولانا غوث محی الدین صدیقی، مولانا عمر ہاشمی، مولانا حافظ عزیز بیگ، مولانا شیخ سعید عمودی، مولانا مفتی خلیل احمد، مولانا حافظ عبداللہ قریشی ازہری، مولانا ابراہیم خلیل ہاشمی، مولانا حافظ سید محبوب حسین، مولانا خواجہ شریف، مولانا حافظ سید صادق محی الدین، مولانا محمد عبدالمجید، مولانا محبوب شریف، مولانا خلیل احمد نظامی، مولانا محمد سمیع اللہ خاں، مولانا حافظ سید بدیع الدین صابری، مولانا عبدالمعز اور مولانا فصیح الدین، مولانا سیف اللہ، مولانا عبدالقدوس، مولانا حافظ محمد عبیداللہ فہیم، مولانا عبدالغفور، مولانا قاضی نسیم احمد، مولانا عبدالقوی اور مولانا سید جہانگیر وغیرہم۔ 
غرض کہ بے شمار تلامذہ ہیں جو ملک و بیرون ملک ساری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ حضرت طویل القامت، کسی قدر سمین الجثہ تھے، سمر اللون تھے۔ لباس سادہ ہوتا سر پر کپڑے کی سلی سفید ٹوپی ہوتی۔ خاص موقع پر عمامہ بھی باندھتے تھے۔ درس و تدریس کے لیے جب وہ حجرۃ الدرس میں تشریف لاتے اور باہر نکلتے تو عموماً شیروانی میں رہتے تھے۔ چپل استعمال کرتے اور شوز نہیں پہنتے تھے۔ طہارت، نظافت اور نفاست پسند تھے۔ حضرت مولانا کے چار صاحبزادے ہیں پہلے بڑے فرزند مولانا مفتی خلیل احمد، دوسرے شبیر احمد، تیسرے مشتاق احمد غلام محی الدین اور چوتھے شفیق احمد ہیں۔ صاحبزادیاں نہیں ہیں۔
حضرت سے سنا ایک شعر بھی یاد ہے کہ انسان جس ماحول میں گذر بسر کرتا ہے وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردئی
بازمی گوئی کہ دامن ترمکن ہوشیار باش
امتحانات سے قریب یہ شاگرد کتابیں اور شروحات درسی کتب لیتا تھا وہ بلا تامل صندوق سے نکال کر دیتے۔ استفادہ کے بعد واپس کئے جاتے مگر کبھی کتابیں واپس کرو نہ فرماتے۔ تلخیص المفتاح ایک عرصہ تک رکھی رہی۔ جب خیال آیا تو اس کو مولانا کے صاحبزادے مولانا مفتی خلیل احمد کے حوالہ کردیا۔
حضرت کسی بزرگ سے بیعت نہیں تھے البتہ حضرت مولانا ابوالحسنات اور حضرت سید شاہ قدرت اللہ قادری رحمہم اللہ تعالیٰ کے وہ بڑے عقیدت مند تھے۔ مولانا میٹھے کے بڑے شیدائی تھے۔ وہ میٹھا بہت کھایا کرتے تھے صبح کا ناشتہ اکثر نہاری کلچے کا ہوتا تھا شاید اسی سے حضرت کی صحت متاثر ہوئی تھی۔ وہ یونانی علاج کراتے تھے ڈاکٹری علاج کے وہ قائل نہیں تھے۔ نبولی اڈہ کے حکیم ابو سلیمان کے زیر علاج رہتے تھے۔ حضرت مولانا جامعہ نظامیہ کے سالانہ تعطیلات میں وطن تشریف لے جاتے شعبان کے آخیر دہے میں سال بھر کے لیے کپڑے و چپل وغیرہ خریدتے اور وطن جانے کی تیاری فرماتے۔ شوال کے پہلے دہے میں جامعہ واپس ہوتے۔
۷؍جنوری ۱۹۸۶ء حیدرآباد میں حضرت کی وفات ہوئی۔ جامعہ نظامیہ کے احاطہ میں نماز جنازہ ہوئی۔ حضرت کے لائق و قابل فخر صاحبزادے مولانا مفتی خلیل احمد نے نماز جنازہ پڑھائی۔ علماء و مشائخ کرام، اساتذہ و طلباء اور شاگردوں کی کثیر تعداد نماز جنازہ میں شریک رہی۔ دعاء مغفرت کی گئی۔ حضرت شاہ راجو قتال رحمہ اللہ کے مقبرہ میں دفن کئے گئے۔ اللہ تبارک تعالی مولانا کو اپنی رحمت میں ڈھانک لے آمین۔
ففزبعلم تعش حیابہ ابدا 
الناس موتی و اہل العلم احیاء
مولانا قاری محمد عبدالباری رحمۃ اللہ علیہ
مولانا قاری محمد عبدالباریؒ ۱۹۱۳ء کو شہر اورنگ آباد(ریاست مہاراشٹرا) میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ماجد حضرت قاری محمد عبدالرشید صاحب قبلہؒ اورنگ آباد کے مشہور قاری تھے آپ کے دادا حضرت مولانا لال محمد صاحب قبلہؒ  مشہور بزرگ تھے فوج سے استعفیٰ دیکر اللہ تعالیٰ کے ذکر اور لوگوں کی خدمت کرتے ہوئے دنیا ئے فانی سے کوچ کرگئے۔ بچپن ہی میں مولانا قاری محمد عبدالباری ؒ کے سرسے ان کے والد کا سایہ اٹھ گیا۔ دادی صاحبہ نے آپ کی پرورش کی۔ آپ کے دو بھائی ڈاکٹر محمد عبدالعزیز ،حافظ محمد عبدالمجید جید حافظ اور دواخانہ عثمانیہ میں ملازم تھے قاری محمد عبدالباری صاحبؒ اور حافظ عبدالمجید صاحب کو ڈاکٹر محمد عبدالعزیز صاحب نے جامعہ نظامیہ میں داخلہ دلوایا۔ یہ احسان ڈاکٹر صاحب کااپنے دونوں بھائیوں پر تھا۔ محمد عبدالمجید صاحبؒ جامعہ نظامیہ سے حفظ و اعلیٰ تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد گورنمنٹ پرنٹنگ پریس میں ملازمت کرتے ہوئے ہر رمضان میں قرآن سنایا کرتے تھے۔
قاری محمد عبدالباری صاحبؒ نے جامعہ نظامیہ سے مولوی کامل کی تکمیل کے بعد بوحنیفۂ زماںحضرت مولانا سید ابوالوفاء افغانی صاحب قبلہؒ کی خدمت میں تین سال رہ کر فیض حاصل کیا۔ اس کے بعد حج کیلئے روانہ ہوئے اورحج کے بعد مدینہ منورہ میں قرات کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی جومدینہ یونیورسٹی کا پہلا سال تھا۔ مسجد نبوی میںقرات کا مرکز تھا۔ اساتذہ میں ایک مصری قاری اور ایک بخاری قاری تھے ۔ مدینہ منورہ سے واپسی کے بعد حیدرآباد لوٹے تو حضرت میرعثمان علی خان بادشاہ وقت نے آپ کی آواز کو پسند فرماکرنشرگاہ حیدرآباد سے قرات کلام پاک معہ ترجمہ و تفسیر بیان کرنے کا اعزاز بخشا۔ اس کے علاوہ آپ نے آصفیہ اسکول و اعزا اسکول میں بحیثیت عربی و دینیات مدرس کی خدمت انجام دی۔ نیز جامعہ نظامیہ میں شیخ الجامعہ کی خواہش پر قرات و عربی زبان کی تدریس کی خدمت بھی انجام دی۔ آپ ایک عاشق قرآن و عاشق رسول ا اور اعلیٰ خوش الحان قاری تھے جو ایک زمانہ تک ترجمہ و تفسیر قرآن مجید ریڈیو پر بیان فرماتے رہے۔ اس نایاب ترجمہ و تفسیرکو کتابی شکل میں شائع کرنا چاہتے تھے۔ آپ کو حضور اکرم ﷺ کی رویاء میں بشارت ہوئی، جس کے فوری بعد آپ نے قرآن مجید معہ ترجمہ و تفسیر کی اشاعت کا کام شروع فرمایا جو عوام میں بے حدمقبول ہوا۔ جس کی وجہ یہ تھی انتہائی آسان زبان (اردو) جو بچے خواتین اور عمر رسیدہ لوگ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں۔ تقریباً 1500 مساجد میں اس کادرس ہوتا ہے۔ مولانا نے 1966ء اور 1968ء میں ہندوستان کی نمائندگی بین الاقوامی قرات کے مقابلہ میںکی اور دنیا میں چوتھے مقام کے علاوہ کئی انعامات اور گولڈ میڈل حاصل کئے۔ قرآن کی اشاعت سے والہانہ شغف تھا، دن میں چار مدرسوں میں قرات اور تجوید و تفسیر کا درس دیتے تھے۔ آپ نے مختلف مساجد میں دس سال اور جامع مسجد سکندرآباد میں 22 سال امام و خطیب کی حیثیت سے خدمت انجام دی۔ 35سال ریڈیو پر قرآن مجید معہ ترجمہ و تفسیر بیان کیا۔ آخر کار 1978ء رمضان المبارک کے تیسرے جمعہ کودنیائے فانی سے کوچ کرگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ مولانا قاری صاحبؒ کے اساتذہ میں قاری روشن علی صاحبؓ ودیگر اساتذہ شامل ہیں ۔ شہنشاہ رباعیات حضرت امجدؔ حیدرآبادی نے مولانا کی قرات مکہ مسجد میں سن کر اسی جلسہ میں فی البدیہہ یہ شعر پڑھا  ؎
ہر قرآن خواں قاری نہیں
ہر قاری عبدالباری نہیں
مولانا نے ہزاروں شاگردوں کو تیار فرمایا جن میں مولانا قاری حافظ عبداللہ قریشی صاحب خطیب مکہ مسجد، قاری محمد عبدالقادر، قاری محمد اقبال، قاری سمیع الدین صاحب، امام و خطیب جامع مسجد مشیرآباد، قاری تقی الدین صاحب قاری محمد عبدالوالی (فرزند) قاری محمد عبدالباسط صاحب، قاری محمد عبدالہادی صاحب (فرزندان) قاری محمد عمر الکاف شامل ہیں۔ قاری محمد عبدالقادر (فرزند) نے مولانا قاری عبدالباریؒ کی حیات میں ملائشیا کے بین الاقوامی مقابلہ میں شرکت اور کامیابی حاصل کی۔
مختصر ترجمہ وتفسیر قرآن کے بارے میں مولانا فرماتے ہیں:
’’ریاست حیدرآباد دکن کے ریڈیو اسٹیشن سے ہر جمعہ کو صبح میں تلاوت قرآن مجید میں ترجمہ و مختصر تفسیر نشر کرنے کی مبارک خدمت خاکسار کے سپرد ہوئی یہ مبارک کام آٹھ سال تک چلتا رہا پھر خاص حالات میں سورہ یٰسین کے ختم پر یہ کام بند کردیا گیا۔ سارے ہندوستان سے تعریف و توصیف اور اظہارِ پسندیدگی کے خطوط حیدرآباد ریڈیو اسٹیشن کے دفتر میںوصول ہوتے رہتے تھے نہ صرف عربی لہجہ اور خوش الحانی کو سراہا جاتا تھا بلکہ ترجمہ و تفسیر کے سادہ اور عام فہم ہونے پر بھی اظہار خوشنودی کیا جاتا تھا۔ مسلسل چھ سال کی محنت شاقہ کے بعد بفضلہ تعالیٰ پورا قرآن مجید مع عام فہم ترجمہ و مختصر تفسیر ۱۳۷۲ھ میںطبع وشائع کرنے کی سعادت حاصل کی۔ شائقین کے شدید اصرارکے پیش نظراللہ کا نام لیکر دوسرے ایڈیشن کی تیاری کا کام کردیا۔چنانچہ مسلسل تین سال کی انتہائی مشقت و جانفشانی کے بعد دوسرا ایڈیشن اعلیٰ پیمانہ پرشائع ہوا۔
نظرِثانی اور صحت کے کام میںمیرے کرم فرما مولانا احمدحسین خان صاحب (مولوی فاضل و ایم اے استاذ عربی نظام کالج حیدرآباد دکن)نے اپنا بہت سا وقت صرف کرکے اورمحنت اٹھاکرمیرا ہاتھ بٹایااور میرے کام کو ہلکاکردیا میں تہہ دل سے صاحب موصوف کا ممنون ہوں۔
  وما توفیقی الاباﷲ علیہ توکلت والیہ أنیب‘‘
مولانا قاری عبدالباریؒ کے ترجمہ و تفسیر قرآن پر مشاہیر علماء کرام نے اپنے زرین تاثرات تحریر کئے ہیں جن میں سے چند یہاں پیش کئے جاتے ہیں۔
حضرت مولانا مفتی رحیم الدین صاحبؒ سابق شیخ التفسیر جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن کی رائے:
مولوی قاری محمد عبدالباری زید فضلہ ومجدہ استاذ عربی جامعہ نظامیہ وقاری نشرگاہِ حیدرآباد دکن کی گونا گوں خدا داد صلاحیتوں کا آئینہ ترجمہ و تفسیرکی ممکن الحصول صوری و معنوی خوبیوںکا خزینہ اور سالہا سال کی عمیق مساعی جمیلہ اور کامیاب کوششوں کا نگینہ ہے۔ یہ انمول جواہر جیسے جیسے منصۂ شہود پر جلوہ گر ہوتے گئے مؤلفِ عزیز کی مہربانی سے راقم کے حق میںبھی وقتاً فوقتاً نور افزائے بصارت و بصیرت ہوتے رہے تاآنکہ بفضل الٰہی اکمال و اتمام کی بشارت نصیب ہوئی۔ حضرت الشیخ، شیخ الکل علامہ فہامہ مولانا فضیلت جنگ نوراللہ مرقدہ کا  ارشاد گرامی حسب حال ہے۔
حبذا اے چشم کز تودیدنیہا دیدہ ام
مرحبا اے گوش کز تو مژدہا بشیندہ ام
حضرت مولانا محمد عبدالحمید صاحبؒ سابق ناظم جامعہ نظامیہ، استاذ العقائدوالکلام کی رائے:
اس ترجمہ و تفسیر قرآن مجید کی خصوصیت یہ ہے کہ عربی محاورات کو سلیس آسان اور روز مرہ محاورات میں اس طرح ادا کیا گیا ہے کہ ہر اردو داں آسانی سے قرآن کے مضمون کو بیک نظر سمجھ لیتا ہے پھر جہاں جہاں ضرورت تھی حاشیہ میں اس کا سادہ عام فہم خلاصہ دیدیا گیا ہے۔
مولانا حاجی محمد منیرالدین صاحبؒ سابق شیخ الادب جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن کی رائے:
مولوی صاحب (کثراﷲ فینا امثالہ)نے اپنی کمال استعداد اور غیرمعمولی کاوش سے اردو داں طبقہ پر بلا امتیاز رنگ و نسل ایک احسانِ عظیم فرمایا اور اس کے ذریعہ ایک ایسی عظیم البرکۃ علمی خدمت انجام دی ہے کہ اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
جناب ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب سابق صدرشعبۂ فلسفہ جامعہ عثمانیہ حیدرآباددکن کی رائے:
مغربی تعلیم یافتہ نوجوان قرآنِ کریم کی ایک مختصر اورمستند تشریح کی ضرورت ایک عرصہ سے محسوس کررہے تھے جس سے وہ تھوڑے وقت میں اس کی بنیادی انقلاب انگیز دعوت کو سمجھ سکیں اوراس پر تدبرکرسکیں میری رائے میں مولانا نے یہ کام خوبی کے ساتھ کیا ہے۔
جناب مولوی محمد یوسف الدین صاحب ایم اے، پی ایچ ڈی، ریڈر شعبہ مذہب و ثقافت جامعہ عثمانیہ حیدرآباد دکن کی رائے:
قاری محمد عبدالباری صاحب کی خوش الحان قرات سے حیدرآباد کا بچہ بچہ واقف ہے۔ 
قاری صاحب کی خوش الحانی کی وہ شہرت ہوئی کہ ان کی قرات کو ہندوستان اور پاکستان ہی نہیں بلکہ بیرون ہند انڈونیشیا، سنگاپور اور ملایا میں بھی لوگ حیدرآباد ریڈیو سے قاری صاحب کی قرات سن کر سردھنتے تھے۔
حیدرآباد پر فوجی کاروائی کے بعد حیدرآباد ریڈیو سے ان کی قرات، ترجمہ و تفسیر کا پروگرام بھی منقطع ہوگیا لیکن شائقین کا شوق برابر جاری رہا کہ کم از کم ان کا ترجمہ و تفسیر آوازکے بجائے کتاب کی شکل میں منتقل ہوجائے۔
حضرت مولانا فضل اللہ صاحب سابق صدر شعبہ دینیات جامعہ عثمانیہ حیدرآباددکن کی رائے:
ہندوستان میں چونکہ کثرت حنفیوں کی ہے اورجناب قاری صاحب بھی اسی مسلک کے پابند ہیں اسلئے دوسرے مسلک کے بیان کرنے سے احتیاط برتی ہے رائج مسلک ہی آسان لفظوں میں بیان کردیا ہے۔
حضرت مولانا محمدعلی صاحب سابق استاذ دینیات جامعہ عثمانیہ و خطیب جامع مسجد سکندرآباد کی رائے:
جناب قاری صاحب نے قابل اعتماد ماخذوں کو سامنے رکھا ہے اوراس سلسلہ میں کافی مشقت برداشت کی ہے۔ زبان کی حدتک میرا یہ تصور ہے کہ الفاظ شستہ، اسلوب بیان دلپذیر، اردو معیاری ہے۔ اس پر کاغذ اور کتابت اور طباعت کا حسن، نورٌعلٰی نور ہے۔
عالی جناب نواب لیاقت جنگ بہادر صدر المہام فینانس وامور مذہبی حیدرآباد دکن کی رائے:
قرآن مجید میںعام فہم ترجمہ و تفسیر کئی خصوصیات کا حامل ہے۔
حضرت مولانا سید عبدالوہاب صاحب بخاری سابق پرنسپل جمالیہ عربی کالج (مدراس) کی رائے: 
فن قرات آپ نے بڑی محنت اور مستعدی سے مدینہ منورہ میں سیکھا اور عربی لہجہ میں قرآن مجید اس والہانہ انداز سے پڑھتے ہیںکہ گویا اللہ پاک نے اپنے کلام کی عظمت اور اس کے جلال کوآپ کے حلقوم میں بھردیا ہے۔
حضرت مولانا حکیم محمد حسین صاحب سابق شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ حیدرآباد دکن کی رائے: 
موصوف نے اس ترجمہ و تفسیر میں بڑی محنت کی اور اس امر کو پیش نظر رکھا ہے کہ شائقین آسانی سے قرآن کو سمجھ لیں ۔(۷)
حضرت مولانا قاضی محمد عطاء اللہ نقشبندی قادری ؒ
دنیا کی لذتوں سے رہیں دوریاں بہت
رستے میں قرب حق کے مقدم عطا رہے
  دکن کی سرزمین علماء ذی احترام ‘ مشائخ عظام‘ صالحین  واولیائے کرام کو جنم دیتی رہی ہے۔ جن کے علمی و روحانی سے عوام الناس آج بھی فیض یاب ہورہے ہیں۔ان چنندہ علماء و مشائخ میں حضرت قبلہؒ کا نام ایک خاص امتیاز کا حامل ہے۔
 ولادت : 
ایک مجذوب صفت بزرگ نے آپؒ کے والد محترم مولانا محمد عزیز اللہ شریف قبلہؒ سابقہ گرداور مال و سابقہ خطیب مسجدجوبلی سدا سیو پیٹ کو ایک عالم با عمل اور صوفی باصفانے فرزند ارجمند کی نوید دی تھی۔ حضرت قبلہؒ کی ولادت یکم صفر المظفر ۱۳۴۹ھ م: ۲۸ ؍ جون ۱۹۳۰ ء  بروز شنبہ وقت ساڑھے بارہ بجے شب بمقام اپو گوڑہ حیدرآباد ہوئی ۔ 
تعلیم : آپؒ کی تربیت احکام شرعیہ کے مطابق ہوئی۔ آپؒ بچپن ہی سے فیاضانہ اور صوفیانہ مزاج کے حامل تھے۔ آپؒ اپنے ماموں و خسر مفتی اعظم رئیس المفسرین حضرت العلامہ مولانا الحاج مفتی محمد رحیم الدین قبلہؒ سابق شیخ الجامعہ النظامیہ کی سرپرستی میں رہے مفتی صاحبؒ سے جامعہ نظامیہ میں حصول علم دین کے معاملہ میں تعاون حاصل رہا۔ علوم شرعیہ کی اعلیٰ تعلیم ازہر ہند قدیم و عظیم اسلامی درسگاہ جامعہ نظامیہ سے کامل الفقہ (جو ایم ۔اے کے مماثل ہے ) اعلیٰ درجہ سے کامیاب کئے۔ بحیثیت مصحح (ایڈیٹر) دائرۃ المعارف العثمانیہ میں تادم زیست خدمات انجام دیں ۔ علاوہ ازیںآپؒ نے آر۔ایم۔پی کا کورس بھی کیا اور اس فن میں کافی مہارت رکھتے تھے۔
اساتذہ: آپؒ کے اساتذہ میںقابل ذکر حضرت علامہ سید ابراہیم ادیب رضوی ؒ ‘ مفتی اعظم رئیس المفسرین حضرت علامہ مفتی محمد رحیم الدینؒ ‘ حضرت مولانا حاجی منیر الدینؒ(سابقہ خطیب مکہ مسجد) ‘ حضرت علامہ مفتی مخدوم بیگ ‘ؒ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد عبدالحمیدؒ‘ حضرت مولانا شیخ صالح باحطاب ؒ‘ؒ حضرت علامہ مولانا غلام احمد ؒ اور حضرت مولانا سید شاہ طاہر رضوی القادریؒ وغیرہ ہیں ۔
بیعت وخلافت: آپؒ حضرت العلامہ محدث دکن ابوالحسنات سیدعبد اللہ شاہ قبلہ نقشبندی قادریؒ کے مرید خاص تھے۔ حضرت قبلہؒ کوحضرت محدث دکنؒ بہت عزیز رکھتے تھے۔ محدث دکن ؒ نے آپؒ کو خاص ذکر و اذکار اور مخصوص دعائوں سے نوازاتھا۔حضرت قبلہؒ حضرت پیر سیدقدرت اللہ شاہ قادری ؒ کے بھی مرید خاص تھے۔ آپ ؒ کو حضرت پیر سید قدرت اللہ شاہ ؒ نے روحانی فیض اور خرقۂ خلافت سے سرفراز فرمایا تھا۔ آپؒ کو محدث دکن ؒ و حضرت پیر سید قدرت اللہ شاہ ؒ سے بے انتہاء انس تھا اور آپؒ ان دونوں کے لئے جذبۂ فدائیت رکھتے تھے ۔ یہ دونوں حضرات بخوشی حضرت قبلہؒ کے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ یہی کیفیت حضرت قبلہؒکے فرزندان کے ساتھ ان حضرات کے جانشینوں میں پائی جاتی ہے۔  
دینی خدمات: آپ ؒ کی علمی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مفتی اعظم رئیس المفسرین حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین ؒ نے اپنے دولت خانہ ’’رحیم منزل‘‘ شاہ گنج پرحضرت قبلہؒ کو(جس میں حضرت قبلہؒ کی بھی سکونت تھی) ہفتہ واری درس تفسیر پر مامور کیا تھا۔ آپ ؒ مسلسل ۲۲ سال ’’رحیم منزل‘‘ پر درس تفسیر دیتے رہے۔ بعدازاں آپؒ نے ’ریاض الحسنات ‘قدیم ملک پیٹ میں سکونت اختیار فرمائی اور وہاں بھی درس تفسیر دیتے رہے جس میں دور دراز مقامات سے عوام الناس جوق در جوق آتے تھے۔ یہ سلسلہ تا حیات جاری رہا۔ اس کے علاوہ مسجد کوثر وارث گوڑہ ‘ جامع مسجد لالہ گوڑہ‘  اور مسجد الہٰی چادر گھاٹ وغیرہ میں بھی ہر جمعہ مختلف موضوعات پر قرآن و حدیث کی روشنی میں مدلل و مفصل خطابات فرماتے کہ لوگوں کے دلوں میں جذبہ ٔ ایمانی اجاگر ہوجاتا۔ حضرت قبلہؒ اپنی علمی خدمات خاموشی اور سادگی کے ساتھ انجام دیتے رہے۔ آپؒ شہرت پسندی سے ہمیشہ گریزاں رہے۔ جس کا اعتراف علمائے دکن اور مشائخ عظام نے کیا۔حضرت قبلہؒ کے دست اقدس پر کئی ایک غیر مسلم حضرات مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ جو بھی آپؒ سے شرعی مسائل دریافت کرتا جب تک وہ مطمئن نہ ہوجاتا آپؒ برابر سمجھاتے۔ آپؒ کی مصروفیات میں قضاء ت بھی شامل تھی یعنی آپؒ گذر کٹل گوڑہ کے نائب قاضی بھی تھے۔
خصوصیات : یہاں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ آپؒ میں دو خصوصیات بہت ہی ممتاز و نمایاں تھیں۔
.1کسی نومولود کا نام رکھنے میںکافی درک حاصل تھا کہ سننے والا مسرت سے جھوم اٹھتا۔
.2 تعبیر خواب بتانے میں بہت زیادہ ملکہ حاصل تھا۔ آپؒ جب کبھی کسی خواب کی تعبیر بیان کرتے تو وہ صد فیصد درست نکلتی کہ خواب بیان کرنے والا حیران و ششدر رہ جاتا ۔
تلامذہ : فی زمانہ کئی ممتاز علماء آپؒ کے شاگرد ہیں جنہوں نے آپؒ سے اکتساب علم کرکے شہر حیدرآباد کے علاوہ بیرونی و خلیج ممالک میں آج بھی اشاعت اسلام میں شب و روز مصروف ہیں۔ 
ملی خدمات و کرامات : آپؒجامع مسجد چوک میںعرصۂ دراز تک عوام الناس کی رہنمائی و رہبری کے لئے بعد نماز عشاء تا تقریباً ۱۲ بجے شب تک تشریف فرما رہتے ۔آپ ؒ حکمت بھی کیا کرتے تھے‘ حکمت کے ساتھ ساتھ روحانی علاج بھی کیا کرتے تھے ۔ جس سے بے شمار افراد فیض یاب ہوئے۔آپؒ بلا لحاظ مذہب و ملت‘ بے لوث عوام کی خدمت کیا کرتے تھے۔اور خدمت خلق کے لئے خود کو وقف کرچکے تھے۔ مسجد غالب جنگ پٹیل مارکٹ ‘ مسجد الٰہی چادر گھاٹ اور آپؒ کے سکونتی مکان ’ریاض الحسنات‘ قدیم ملک پیٹ پر بھی عوام کے مسائل حل فرماتے۔
حضرت قبلہؒ کے فرزند اکبر مولوی ابوطالب قاضی محمد انوار اللہ ربانی صاحب آپؒ کی ایک کرامت کا ذکر اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ایک روز ’ریاض الحسنات ‘قدیم ملک پیٹ پر کریم بھائی امپائر فٹ ویر کے ہمراہ ایک مریض جوکہ بڑے میاں پٹرول پمپ والے سے مشہور ہیں (شاید اب بھی بقید حیات ہیں) وہیل چیر پر بیٹھے تھے اور ان میں اتنی قوت نہیں تھی کہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر چل پھر سکیں۔ حضرت قبلہؒ نے مریض کے ساتھ آنے والوں سے کہا کہ انہیںدونوں بازئووں سے پکڑکر اٹھائو اور چلائو۔ آپؒ کے حکم کی تعمیل کی گئی ۔ مریض نے کہا کہ مجھے اٹھنے اور چلنے میں ناقابل برداشت تکلیف ہورہی ہے یہ سن کر حضرت قبلہؒ نے کچھ پڑھ کر ان پر دم کیااور تیسرے روز آنے کے لئے کہا۔تیسرے روز موصوف بغیر کسی سہارے کے تن تنہا حضرت قبلہؒ کے دولت خانے پر ملاقات کے لئے حاضر ہوئے ۔ موصوف کے چہرہ سے بے پناہ مسرت عیاں تھی‘ وہ مکمل شفا یاب ہوچکے تھے۔ آپ کے پاس ایک غیرمسلم مع اہل و عیال بہت ہی عقیدت و احترام کے ساتھ بہ پابندی حاضری دیتے تھے اور اپنی پریشانیوں اور کاروباری الجھنوں کا ذکر حضرت قبلہؒ سے کرتے تھے ۔ جس پر آپ روحانی حل عطا فرماتے تھے۔ حضرت کی زندگی میں وہ آپ سے بہت فیضیاب ہوئے اور آپ کے وصال کے بعد سے آج تک بھی برابر وقتاً فوقتاً حضرت کی مزار پر حاضری دیا کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ وہاں جانے سے مجھے دلی سکون میسر آتا ہے اورمیرے مسائل حل ہوتے ہیں ۔اس قسم کے کئی ایک کرامات و واقعات ہیں جس میں عوام الناس کے مستفید و مستفیض ہونے کی بابت تذکرہ ملتا ہے ۔
عشق رسول و پیران پیرؒ: حضرت قبلہؒ کو حضور اکرم ا سے والہانہ عشق تھا اور جب کبھی حضور ا  کی شان میں کلام  پیش کیا جاتا تو آپؒ بہت مضطرب ہوجاتے اور آپؒ کی آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ۔ حضرت قبلہ ؒ کے عشق رسول کی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ آپؒ کے ایک دوست جو کہ حج کے لئے تشریف لیجا رہے تھے آپؒ نے ان سے کہا کہ نبی کریم ا کے دربار اقدس میں میرا سلام عرض کرنا ۔ وہ صاحب جب مدینہ منورہ پہونچے تو روضۂ اطہر کے روبرو حضرت قبلہؒ کا سلام عرض کئے۔ سلام عرض کرنے کے کچھ ہی روز بعد‘ ایک دن حضرت قبلہؒ ذکرمیں مشغول تھے کہ اچانک آپؒ کو آواز آئی کہ’ وعلیکم السلام یاعطاء اللہ‘۔ اور آپؒ کو کچھ ایسا بشارہ ہوا کہ یہ اسی سلام کا جواب آپؒ کو سرفراز کیا گیا ۔ اس وقت حضرت قبلہؒ کی عمر شریف ۲۲ اور ۲۵ سال کے درمیان رہی ہوگی۔ حضرت قبلہؒ  پیران پیر ؒ سے بھی بے انتہاء عشق رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپؒ نے اپنے تمام فرزندان کے نام اسی مناسبت سے رکھے۔ حضرت قبلہؒہر سال میلاد النبی ا اور گیارہویں شریف بہت جوش و خروش سے منایا کرتے تھے۔ عوام الناس کو بھی حضور ا اور اولیاء اللہ کی زیادہ سے زیادہ تعظیم کرنے کی تلقین فرماتے تھے۔اور جو بھی معترض ہوتا اس کو قرآن کریم واحادیث شریفہ کی روشنی میں مدلل طور پر سمجھاتے یہاں تک وہ قائل ہوجاتا اور خود اس قسم کی محافل منعقد کرکے حضرت قبلہؒ کو مدعو کرتا۔
حج بیت اللہ: دو مرتبہ آپؒ حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ پہلی مرتبہ والدہ محترمہ مرحومہ کے ہمراہ اور دوسری مرتبہ اہلیہ و فرزند اکبر کے ہمراہ۔ 
مہمان نوازی و سخاوت: آپؒ بے انتہاء سخی ‘ رحمدل اور فیاضانہ صفت کے حامل تھے۔ آپؒ کی مہمان نوازی کا یہ عالم تھا کہ جب کوئی آپؒ سے ملاقات کے لئے دولت خانہ پر حاضر ہوتا تو اسے ضرور کچھ نہ کچھ کھلاتے اور زیادہ سے زیادہ اس کی خاطر تواضع کرتے یہاں تک کہ وہ شکم سیر ہوجاتا ۔ آپؒ کھاکر اتنا خوش نہیں ہوتے جتنا کسی کو کھلا کر خوش ہوتے۔کسی بھی محتاج کو اتنا عطا فرماتے کہ وہ بے انتہاء خوش ہوجاتا اور یہی کیفیت آپؒ کے بڑے فرزند میں بدرجہ اتم موجود ہے۔  
وصال و تدفین : آپؒ کا وصال ۱۱؍ ربیع الثانی ۱۴۱۳  ؁ھ م : ۹؍ اکٹوبر ۱۹۹۲  ؁ء بروز جمعہ بعد مغرب سی ڈی آر ہاسپٹل حیدر گوڑہ میںبعمر ۶۳سال ہوا۔ اِنَّا لِلّٰہَ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُونَ ۔اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لَہ‘ وَارْحَمْہ‘ وَاعْفُ عَنْہ‘ وَاَسْکِنْہُ الْجَنَّۃَ ۔آمین۔ حضرت قبلہؒ کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر مسجد چوک( جہاں آپؒ عرصۂ دراز آدھی آدھی رات تک وعظ و ارشادات اور خدمت کرتے رہے) میں ادا کی گئی حضرت مولانا مفتی محمد عظیم الدین صاحب قبلہ نے نمازجنازہ پڑھائی اور آپؒ کے تیسرے فرزند و جانشین مولوی قاضی محمد لطف اللہ صمدانی صاحب نے رقت انگیز دعا فرمائی ۔ آپؒ کو آپؒ کے پیر و مرشد حضرت محدث دکنؒ کی قربت میںیعنی نقشبندی چمن میں سپرد لحدکیا گیا۔ بوقت تدفین ہزاروں مریدین و معتقدین کا مجمع تھا۔سطور بالا میںیہ تحریر کیا جا چکا ہے کہ آپؒ کو حضورا اور پیران پیرؓ سے بے انتہاء عشق تھا یہی و جہ ہے کہ اللہ تعالی نے نبی ا کی آخری سنت یعنی۶۳ برس اور پیران پیرؓ کی بھی آخری سنت یعنی تاریخ وصال غوث پاکؓ ۱۱؍ ربیع الثانی کی صورت میںآپ کی تقدیر میں رکھ دی ۔ 
آپؒ کا حلیہ مبارک: میانہ قد ‘ بھرا بدن ‘ سر بڑا ‘ اور اس پر گھنے سفید اور شرعی گیسو تیل سے سنورے ہوئے ‘ چہرہ گول ‘ رخسار ابھرے ہوئے اور اس پر گھنی داڑھی ہلکی گھنگریالی ‘ آنکھیں قدرے چھوٹی اور چمکدار شب بیداری کی غماز اور ان پر عینک ‘ ناک اونچی ‘ رفتار تیز ‘ گفتار واجبی ‘ سنجیدہ صورت‘ ناس کے عادی‘ آواز گرجدار ‘ ہتھیلی نرم و گداز اور ہمیشہ شیروانی و شملہ میں ملبوس رہتے جس سے آپؒ بڑے جامہ زیب معلوم ہوتے ۔
اولاد :آپؒ کے سات فرزندان اور ایک دختر ہیں۔ بڑے فرزند ابوطالب قاضی محمدانواراللہ ربانی صاحب (آرکٹیکٹ وناظم مدرسہ دینیہ عطائیہ) دوسرے فرزند محمد ثناء اللہ حقانی صاحب (امام مسجد دادے میاں کالی کمان ) تیسرے فرزند مولوی قاضی محمد لطف اللہ صمدانی صاحب(جانشین حضرت قبلہؒ، صدر قاضی کٹل گوڑہ زون ونائب ناظم مدرسۂ دینیہ عطائیہ) چوتھے فرزند محمد فضل اللہ نورانی صاحب( مینیجر لیک ویوبنجارہ فنکشن ہال ‘بنجارہ ہلز) ‘پانچویں فرزند محمدضیاء اللہ عرفانی صاحب (جی ایم سی بلڈرس‘بنجارہ ہلز ) چھٹے فرزند محمد رضوان اللہ یزدانی ( بی۔ کام ) ساتویں فرزند حافظ محمد وجیہہ اللہ سبحانی صاحب (کامل الفقہ جامعہ نظامیہ‘وائس پرنسپل ایم ایس جونیر کالج ‘ امام مسجد یکخانہ نور الاسلام و خطیب مسجد رضیہ) ہیں۔ آپؒ کے داماد حافظ مولانا محمد حمید اللہ خاں صاحب (مدرس جامعہ نظامیہ ‘ امام و خطیب مسجد نور) ہیں۔
آپؒ کے جانشین: آپؒکے تیسرے فرزند مولوی قاضی محمد لطف اللہ صمدانی صاحب آپؒ کے جانشین ہیں اور موصوف کی دستار بندی بدست مبارک حضرت ابو الخیرات سید انوار اللہ شاہ نقشبندی قادری مجددی صاحب قبلہؒ (جانشین محدث دکنؒ و ابوالبرکاتؒ) نقشبندی چمن مصری گنج عمل میں آئی۔ جانشینِ حضرت قبلہؒ نے (۱)مدرسہ دینیہ عطائیہ ملک پیٹ قدیم ‘ (۲)مدرسہ دینیہ عطائیہ بن ترف کالونی ‘ شاستری پورم (۳) مدرسہ دینیہ عطائیہ قطب اللہ پور نزد وقار آباد جیسے دینی مدارس کا قیام عمل میں لایا ہے جہاں تقریباً ۲۰۰ تا ۳۰۰ طلباء و طالبات علم دین و عصری علوم حاصل کررہے ہیں ۔ (۸)
عالمی محقق ڈاکٹر محمد حمیداللہ رحمۃ اللہ علیہ
ہندوستان میں دوخانوادے ایسے ہیں جن کا علمی و روحانی فیض صدیوں سے بلاانقطاع جاری و ساری ہے۔ ان میں سے ایک حضرت شاہ ولی اللہ محدثِ دہلویؒ (متوفی 1176؁ھ) کا خانوادہ ہے اور دوسرے حضرت محمد شریف الملک بہادرؒ (متوفی 1238؁ھ)کا۔ اوّل الذکر نے شمالی ہند کو اپنا ماویٰ و مسکن بنایا، جب کہ مؤخر الذکر نے جنوبی ہند کو اپنا مقر و مستقر بنایا۔ یہ دونوں خانوادے اپنی دینی، علمی، ادبی و اصلاحی خدمات کے لیے تادورِ شمس و قمر یاد رکھے جائیں گے۔
خانوادہ شرف الملک بہادر کا تعلق اہل نائط سے ہے، جو خالصتاً عربی النسل ہے۔ اہل نائط کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ وہ آٹھویں صدی ہجری میں بصرہ سے ہجرت کرکے ہندوستان کا رخ کیے تھے۔ یہاں اولاً ان کو حکمران کی سرد مہری کا سامنا رہا، لیکن رفتہ رفتہ ان لوگوں نے غیر معمولی ذہانت و فطانت کی بدولت حکومت کے اعلیٰ و ارفع مناصب حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
شرف الملک بہادر کے جدِ اعلیٰ حضرت فقیہ عطا احمد شافعی ہیں، جو غالباً ملافقیہ مخدوم علی المھائمی (متوفی 853؁ھ) کے معاصر ہیں۔ فقیہ عطا احمد شافعی اور ان کے صاحبزادے فقیہ احمد مخدوم اسحاق کے مستند حالات نہیں ملتے، البتہ فقیہ مخدوم اسحاق کے فرزند فقیہ مخدوم اسماعیل کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہوسکا کہ وہ ایک بلند پایہ فقیہ تھے، جن کا 879؁ھ میں وصال ہوا۔ فقیہ محمد اسماعیل کے فرزند کا نام فقیہ ابو محمد تھا اور ان کے لڑکے کا نام قاضی احمد تھا۔ ان دونوں کے حالات بھی دستیاب نہیں ہیں، البتہ نام کے ساتھ ’’قاضی‘‘ کا لفظ ظاہر کرتا ہے کہ اس خانوادہ میں قضاء ت کا عہدہ سب سے پہلے قاضی احمد کو ملا ہوگا۔ قاضی احمد کی اولادِ نرینہ سے دو نام ملتے ہیں: ایک ملا خلیل اللہ (متوفی 968ھ)اور دوسرے قاضی محمود کبیر (متوفی 995ھ) شرف الملک بہادر مؤخر الذکر قاضی محمود کبیر کی اولاد میں سے ہیں اور یہاں سے اس خاندان کے تفصیلی حالات ملتے ہیں۔ 
شرف الملک بہادر جو ڈاکٹر حمیداللہ کے پردادا تھے، ایک کثیر التصانیف بزرگ گزرے ہیں۔ ان کی معرکۃ الآراء عربی تصنیف ’’نثر المرجان فی رسم القرآن‘‘ہے۔ یہ سات جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس ضمن میں یہ بات عرض کروں تو بہتر ہوگا کہ یہ اعزاز جامعہ نظامیہ کو حاصل ہے، جس کو پہلی مرتبہ اشاعت العلوم جامعہ نظامیہ نے شائع کیا۔ شرف الملک بہادر علم کے دلدادہ تھے، جہاں جاتے وہاں سے اہم کتابوں کی نقل کرلیتے اور پھر اپنے کتب خانے میں محفوظ کردیتے۔ ان کی علم دوستی کے ثبوت میں اس بات کا تذکرہ بے محل نہ ہوگا کہ وہ نواب والا جاہ کے ایک روپئے کے انعام کے بدلے میں فیروز آبادی کی القاموس کو پسند فرمایا۔
اہل نائط کا ایک امتیازی وصف یہ ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اور ہر دور میں اشرف العلوم یعنی علوم قرآنیہ کو ہمیشہ اپنے سے لگارکھا، علم قرأت ہو کہ علم کتاب، ترجمہ ہو کہ تفسیر، غرض ہر وہ علم جس کا تعلق قرآن مجید سے ہو، انہوں نے نہ صرف سیکھا اور سکھلایا، بلکہ آنے والی اجیال کے لیے ان کو ضبطِ تحریر بھی کردیا۔ شرف الملک کی ’’نثر المرجان‘‘، عبدالوہاب امراء کی ’’البدور الغررۃ فی اسماء القراء العشرۃ‘‘ اور ڈاکٹر حمیداللہ کے دادا قاضی بدر الدولہ (متوفی 1280ھ) اور ان کے صاحبزادوں کی تفسیر ’’فیض الکریم‘‘ ان کے اعتناء بالقرآن کا بین ثبوت ہے۔
علوم القرآن کے علاوہ فن حدیث میں بھی اس خانوادے کی خدمات قابل داد و تحسین ہیں۔ فن رجال پر تحقیق، صحاحِ ستہ کی شروحات اور تراجم کے ذریعہ انہوں نے اس علم کی خوب خدمت کی۔
فقہ و قضاء ت تو ان کو ورثہ میں ملی۔ ان کے آباء و اجداد کے نام سے پہلے فقہ میں براعت کی وجہ سے فقیہ لکھا جاتا ہے۔ اس خاندان کے فتاوے عرب و عجم میں یکساں مقبول ہوئے۔ المختصر اس خانوادے میں ایسے نابغہ ٔروزگار علماء و فضلاء پیدا ہوئے کہ ؎
ایں سلسلہ از طلائے ناب است
ایں خانہ ہمہ آفتاب است
اسی سلسلۃ الذہب کی ایک کڑی ڈاکٹر محمد حمید اللہ حیدرآبادی مولداً، فرانسیسی متوطناً، شافعی مذہباً، نقشبندی مشرباً، صوفی مسلکاً اور امریکی مدفناً ہے۔ آپ نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی جہاں لیلاً و نہاراً قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں گونجتیں تھیں۔ ایسے پرنور علمی ماحول میں حمیداللہ صاحب نے اپنی ابتدائی تعلیم مکمل کی۔ والدین کی ہمہ تن نگرانی نے بچپن ہی سے ان کو ذہین و فطین مثقف و مؤدب بنادیا تھا۔ دارالعلوم میں ششم جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد دکن کے جامعہ ازہر جامعہ نظامیہ کا رخ کیا، جہاں سے انہوں نے مولوی کامل کی تکمیل کی۔ 
محمد حمیداللہ
Muhammed Hamidullah
M.A., LL.B.(OSM). Moulvi Kamil (NIZ)
Dr. (BONN)
Dr.ES-LETT. (PARIS)
یہ اس کارڈ کی نقل ہے جس کو ڈاکٹر حمیداللہ دنیا کے بڑے بڑے سلاطین سفراء اور امراء کو بطورِ تعارف پیش کرتے تھے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کا یہ کارڈ ان کی جامعہ نظامیہ سے فراغت پر شاہد و عادل ہے۔ راقم السطور ڈاکٹر حمیداللہ کے لائق و فائق بھتیجے پروفیسر محمد خلیل اللہ (جواہر لال نہرو ٹکنالوجی حیدرآباد) کا شکر گذار ہے کہ انہوں نے ڈاکٹر حمیداللہ کا نہ صرف کارڈ بتلایا، بلکہ اس مضمون کے لیے بطور ثبوت زیراکس بھی فراہم کرکے اپنی علم دوستی کا ثبوت دیا۔ فجزاہ اللہ خیر الجزاء۔اور الحمدللہ جامعہ نظامیہ کے دفتر امتحانات میں ڈاکٹر حمیداللہ کا تعلیمی ریکارڈ موجود ہے۔
یہ بات یقین بالجزم کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر محمد حمیداللہ کی شخصیت سازی اور فکری تکوین میں جامعہ نظامیہ کا بڑا دخل رہا ہے۔ موصوف نے نظامیہ کے اجلہ علماء جن میں قابل ذکر حضرت مخدوم بیگؒ، حضرت مولانا ابوالوفاء افغانیؒ ہیں، سے خوب استفادہ کیا اور پیرس کو ہجرت کے بعد بھی اپنی نیاز مندی کو جاری و ساری رکھا۔ ڈاکٹر محمد حمیداللہ بکثرت مولانا ابوالوفاء صاحبؒ کو خطوط لکھا کرتے تھے، جس کا اندازہ مولانا ابوبکر ہاشمی صاحب (صدر مصحح دائرۃ المعارف حیدرآباد) کے اس بیان سے ہوتا ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ کے کم از کم 150 خطوط مولانا ابوالوفاء رحمۃ اللہ علیہ کے مکتبہ میں محفوظ ہیں، جن میں کہیں نہ کہیں علم یا تحقیق کی بات پڑھنے کو ملتی ہے۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی مولانا ابوالوفاءؒ سے نیاز مندی کا یہ عالم تھا کہ وہ اپنے خطوط میں مولانا کو مخدومنا، استاذنا جیسے معزز القاب سے مخاطب کیا کرتے تھے۔
اسی طرح دکن کی ایک اور بزرگ شخصیت حضرت عبدالقدیر صدیقی حسرتؒ سے بھی ڈاکٹر حمیداللہ کو خوب نیاز حاصل رہا۔ حضرت صدیقی ڈاکٹر حمیداللہ کے اساتذۂ کبار میں شمار کیے جاتے ہیں۔ حضرت صدیقی حسرتؒ کی نگاہِ فیض نے ان کو کندن بنادیا تھا۔ پروفیسر مناظر احسن گیلانیؒ نے ان کو اور چمکایا۔ ان تینوں کی کرشماتی زندگیوں نے ڈاکٹر حمیداللہ کو ایک عالمگیر شخصیت بنانے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
ڈاکٹر حمیداللہ نے جامعہ نظامیہ کی اعلیٰ ترین ڈگری کامل کے علاوہ عثمانیہ یونیورسٹی سے (ایم اے، یل یل بی) کی ڈگریاں حاصل کی اور پھر فرانس کی سوربون یونیورسٹی سے ڈی لیٹ اور جرمنی کی بون یونیورسٹی سے ڈی فیل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ جامعہ نظامیہ و جامعہ عثمانیہ کی ان اعلیٰ ترین ڈگریوں کے حصول نے ڈاکٹر حمیداللہ کو بلاشبہ مجمع البحرین کے مقام پر فائز کردیا۔ ڈاکٹر حمیداللہ دینی و دنیوی دونوں علوم میںیکساں عبوررکھتے تھے۔ ان کے استاذِ محترم بحرالعلوم حضرت عبدالقدیر صدیقی فرمایا کرتے تھے کہ حمیداللہ کا روحانی علم اس کے مادّی علم سے کہیں آگے ہے۔ ڈاکٹر اکمل الدین احسان اوغلو (ڈائریکٹر اسلامک سنٹر استنبول) جن کا شمار ڈاکٹر صاحب کے تلامذہ میں ہوتا ہے، فرماتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب اس زمانے کے اولیاء اللہ میں سے ہیں۔ کیوں نہ ہو کہ وہ دن میں قلم کے غازی اور رات میں قیام اللیل کا اہتمام کرنے والے تھے۔ ان کا ظاہر مزکی اور باطن مصفی تھا۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ نے اپنے آباء و اجداد کی اتباع میں خدمتِ دین کو اپنا نصب العین بنالیا تھا۔ عہدوں اور مناصب سے دور رہ کر ایسے تاریخی کارنامے انجام دیے جن کو نہ ایک جامعہ کرسکتا تھا اور نہ ایک انجمن۔ وہ یکا و تنہا ہوکر، قیل و قال سے بچ کر، زہد و تقویٰ اختیار کرکے ساری زندگی تعلیم و تعلم کے نام معنون کردی۔ ڈاکٹر حمیداللہ کی زاہدانہ و عارفانہ زندگی ہم کو صحابہؓ و تابعین کے مبارک دور کی یاد دلاتی ہے، ان کو دیکھ کر صحابہؓ و تابعینؒ کی مجاہدانہ زندگی اور ان کی روشن راتوں سے متعلق یقین اور مستحکم ہوجاتا ہے۔
ڈاکٹر محمد حمیداللہ غالباً پوری تاریخ اسلامی کا اور بالیقین بیسویں صدی کا وہ واحد عالمِ دین اور محقق بے نظیر ہے جس کو ایشیاء یورپ کے تقریباً 15 زبانوں میں مہارت حاصل تھی۔ آپ کی لسانی عبقریت ایک کرشمہ سے کم نہیں۔ وہ نہ صرف ان زبانوں میں بلا تکلف بات کرسکتے تھے، بلکہ ان زبانوں میں بے تکان لکھتے اور پڑھتے تھے۔ یہ تو مشہور ہے کہ ڈاکٹر حمیداللہ کو عربی، فارسی، ترکی، اردو، انگریزی، جرمنی اورفرانسیسی زبانوں میں مہارت حاصل تھی، لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ ڈاکٹر صاحب چینی زبان بھی اچھی طرح جانتے تھے، جیسا کہ ان کے خطوط سے ظاہر ہے۔ اسی طرح پروفیسر خلیل اللہ کے مطابق ان کے چچا ڈاکٹر حمیداللہ سورین زبان بھی جانتے تھے۔ ان زبانوں میں مہارت کی وجہ سے ڈاکٹر حمیداللہ نہ صرف عالمِ اسلامی کی ایک بے مثال شخصیت بن گئی، بلکہ انہوں نے ان زبانوں میں لکھی ہوئی کتابوں میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جو شبہات پیدا کیے گئے تھے، ان کو بڑے محققانہ اور عالمانہ انداز میں رد کیا اور اسلام اور مسلمانوں کی صحیح تصویر پیش کی۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے ہاتھ پر ہزاروں یورپین مشرف بہ اسلام ہوئے۔ آپ کے ہاتھ پر مسلمانوں ہونے والوں میں بڑے بڑے سائنسداں ، چرچ کے ذمہ دار اصحاب، فوج کے سربراہ، یونیورسٹی کے دانشور شامل ہیں۔ ڈاکٹر حمیداللہ صاحب کے ذہن میں شاید یہ حدیث مبارک ہمیشہ مستحضر رہتی تھی کہ ’’الناس علیٰ دین ملوکھم‘‘رعایا اپنے بادشاہوں کے دین پر رہتی ہے۔
ڈاکٹر حمیداللہ بیک وقت ایک مبلغ، مصنف، مترجم، محقق، محاضر و مرتب کی حیثیت سے اپنے آپ کو پیش کیا اور ہر میدان میں ان کا ایک منفرد وصف تھا، تبلیغ میں ’’ادع الیٰ سبیل ربک بالحکمۃ و الموعظۃ  الحسنۃ وجادلھم بالتی ہی احسن‘‘ پر عمل پیرا، تصنیف میں اختراعی عناوین کے ساتھ سادہ لوح اسلوب کے موجد، ترجمہ میں ایک ایک لفظ کا بامحاورہ ترجمہ، جو حشو و غلو سے بالکل مبرا و منزہ ہوتا، تحقیق ایسی کہ بڑے بڑے مستشرقین بھی آپ کے سامنے سر جھکا دیتے، محاضر یا لکچرر ایسے کہ فی البدیہ کئی دن مختلف موضوعات پر لکچر دیتے، جن کی جیتی جاگتی تصویر خطباتِ بہاولپور ہیں۔ الغرض علم و دانش کا یہ روشن چراغ اپنے پیچھے 170 سے زائد کتابیں اور دو ہزار کے لگ بھگ علمی مقالات و مضامین چھوڑ کر اس دارِ فانی سے ابدی زندگی 17 دسمبر 2002ء کو رحلت فرما گئے اور امریکہ میں آپ کی تدفین عمل میں آئی۔ آپ کی تصانیف و تالیف، آثار و مآثر، خطبات و تقاریر، مواعظ و مجالس زبانِ حال سے کہہ رہی ہیں کہ 
تلک آثار نا تدل علینا 
فانظروا بعدنا الی الآثار
یہ ہمارے آثار ہیں جو ہم پر دلالت کرتے ہیں۔ 
ہمارے بعد ان آثار کو دیکھو۔ (۹)
مولانا قاری محمد انصار علی قریشی جاویدؒؔ
اس ہنگامہ خیز دنیا میں کسی چیز کو قرار و ثبات نہیں ۔ نہ جانے کتنے اور کیسے کیسے صاحبانِ تخت و تاج اس دھرتی پر آئے اور اپنی حیات کے دن پورے کرکے اس دنیائے فانی سے ہمیشہ کے لئے رخت سفر باندھا ، گردش لیل و نہار نے ان کا نام و نشان بھی صفحۂ ہستی پر باقی نہ چھوڑا ۔ دوسری طرف اسی عالم رنگ و بو میں ایسی شخصیتیں بھی وجود میں آتی رہیں جواب بظاہر موجود نہیں لیکن ان کی علمی قومی ادبی و مذہبی خدمات اور ان کے حسن و عمل و اعلیٰ کردار و اطوار نے انہیں زندۂ جاوید بنادیا ۔ استاذ محترم مولانا الحاج محمد انصار علی قریشی جاویدؔ کی ذات گرامی ایسے ہی مردانِ خدا و اصحاب خلیق و وفا میں سے تھی جس کو قدرت نے ہمہ جہت ، ہمہ نوع و ہمہ گیر محاسن و خوبیوں سے مالا مال کیا تھا ۔ راقم الحروف کی ذہنی و فکری تعمیر و تشکیل ، تعلیم و تدریس کی تلقین اور تقریر و تحریر کی تشویق میں جن اساتذہ کرام کا بنیادی کردار و اساسی حصہ رہا ہے ان میں استاذ محترم کا نام نمایاں ہے ۔ 
استاذ محترم نگہ بلند کے حامل ، سخن دلنواز کے مالک اور جان پرسوز کے مجسم تھے ۔ آپ کا عزم صمیم اور لطف عمیم تھا دست بکار اور دل بیار تھا ۔ انا خوددار تو فطرت طرحدار ، مزاج شگفتہ تو ارادہ پختہ تھا:
ہو حلقۂ یاراں میں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
وہ ادیب بھی تھے اور خطیب بھی ، وہ استاذ بھی تھے اور نباض بھی زانوئے علم و ادب طئے کرنے جو طلبہ ان کے پاس آتے سب سے پہلا کام یہ ہوتاکہ ان کی فکری و دماغی تطہیر کرکے ان کے قلوب کی سرزمین کو کسبِ علم کے لئے ہموار و زرخیز بنانے اپنی شفقت و محبت کی کدال چلاکر اس قابل بناتے کہ اس میں شجر علم کے بیج بوئے جاسکیں پھر اپنی عنایت و نوازشات کی بارش برساتے جس سے ایسی فضل پر بہار اُگ آتی کہ طالب علم کا دل لہلہاتے ہوئے سبزہ زار و گل و گلزار میں تبدیل ہوجاتا جس میں علمی و ادبی معلومات کے عنادل چہچہانے لگتے ۔ 
حرص ایک مذموم صفت تسلیم کی گئی ہے لیکن میرے نزدیک استاذ محترم اس معنیٰ میں حریص تھے کہ آپ اپنے تلامذہ کو جادۂ حق پر دیکھنے کے حریص تھے ۔ آپ کی انتہائے آرزو یہ تھی کہ طلبہ اپنے حال کی تعمیر کرکے مستقبل کی نوید کے نقیب بن جائیں ۔ اپنے تلامذہ کو یاس و قنوطیت نامرادی و ناکامی سے دور رکھنے کی سعیٔ بلیغ کے ساتھ شاعر مشرق ڈاکٹر اقبالؔ کے بقول کشت و یراں سے ناامید نہ ہونے اور ’’ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ کا پیغام دیا کرتے تھے ۔ 
ایک ماہر و نباض ، حساس و فرض شناس استاذ ہونے کے ناطے طلبہ کے جذبات و احساسات سے خوب واقف تھے ۔ ان کی فطرت کو سلیم اور عادت کو کریم بنانے کے لئے کبھی ترغیب و ترہیب اور کبھی تحریص و تشویق دلاتے اور کبھی ترکیب و ترتیب سے بھی آشنا کرواتے اورزمین کی پستیوں میں آسماں بن کر رہنے کی تلقین کیا کرتے ۔ استاـذ محترم جب تک بھی اس کائنات میں رہے حرکت و عمل کی تصویر ‘ جہد مسلسل کا پیام اور فکر و شعور صحیح کی علامت بن کر رہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ جہاں بھی گئے میرکارواں کی طرح رہے ۔ اپنا زمانہ صبح و شام خود پیدا کرلی ، وہ اپنی خودی میں ڈوب کر عصائے عمل سے ضرب لگاتے تھے جس سے علم و فن کے سوتے پھوٹتے اور شعور و آگہی کے چشمے ابل پڑتے ۔ جہاں قدم رکھا وہاں موثر ثابت ہوئے ۔ ان کی ایک نظر پراثر نے نہ جانے کتنے طلبہ کے دلوں کی دنیا کو زیر و زبر کردیا اور سینکڑوں تلامذہ کی تقدیر سنوار دی یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ :
نگاہ استاد میں وہ تاثیر دیکھی
بدلتے ہزاروں کی تقدیر دیکھی
ان کی ذات گونا گوں خوبیوں کی مالک تھی ۔ وہ ذی علم بھی اور ذی حلم بھی ، پروقار بھی پربہار بھی، صابر بھی تھے اور شاکر بھی ، وہ ذاکر و شاغل بھی اور کامل و واصل بھی ، بایں اسباب و وجوہ ان کا شمار سماج کے ایسے طالع و صالح افراد میں ہوتا تھا جن کی لمحہ بھر کی صحبت کو داناؤں نے ’’ بہتر از صدسالہ طاعت بے ریا ‘‘ قرار دیا ہے ۔ وہ اس سنسار میں جہاں بھی رہے دکھی و مصیبت زدہ انسانیت کے لئے سراپا ’’انصار‘‘ بن کر رہے ۔ 
استاذ محترم نے اپنی حیات مستعار کے سفر کو ایک مقام پر ختم کرکے اس کو منزل قرار نہیں دیا بلکہ مسلسل چلتے رہے اپنے اس طرز عمل سے گویا وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ ’’ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں ‘‘ چنانچہ’’اہلِ تامل‘‘ نے جب ان کو ندا دی تو وہ بلاتامّل وہاں تشریف لے گئے اور اپنے علم و فن کی جوت جگائی ۔ 
استاذ محترم نے اپنے کو لذت کام و دہن کی خواہش اور مال و زر کی طلب میں کسی بام و در کا تابع نہیں بنایا ۔ متوکلانہ زندگی کے اس خو گرنے اس طرف پلٹ کر دیکھنا بھی گوارا نہ کیا وہ اس معاملہ میں حاملِ اسرارِ خفی حضرت صفیؔ کے ہمزبان و ترجمان تھے کہ :
کسی کا رزق رک نہیں سکتا خلاق اکبر سے
صفیؔ پتھر کے کیڑے کو غذا ملتی ہے پتھر سے
لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہ کیا جائے کہ وہ اس باب میں اَسباب کے قائل نہ تھے بلکہ وہ اس بات کے اثبات میں تھے ۔ توحید ان کا سرمایہ حیات تھا ‘ وہ اس رسول کے مداح تھے جو ممدوح یزداں ہیں۔ ماہ ربیع الاول کی مجالس دوازدہ اس کا بین ثبوت تھیں ۔ وہ اس عشق و مستی کے خوگر تھے جو پست کو بالا اور ادنیٰ کو اعلیٰ کردے ۔ وہ عقلِ عیار کے دام فریب میں قید ہونا نہیں چاہتے تھے وہ تو اہلِ جنوں کے ہمدم و ہمساز تھے ۔ اپنے مالک کے حضور بڑے ادب و احترام سے یہ درد بھری التجا کرتے :
عطا اسلاف کا جذبِ دروں کر
شریک زمرۂ لایحزنوا کر
خرد کی گتھیاں سلجھا چکا میں
مرے مولا مجھے صاحبْ جنوں کر
  (ڈاکٹر اقبالؔ)
حسنِ صوت اور خوش گلوئی قدرت کا ایک بہترین ، انمول و لاقیمت عطیہ ہے استاذ محترم اس دولت سے مالا تھے ۔ فن کی نزاکتوں اور روح کی لطافتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے کوہ حراء میں نازل کردہ نسخۂ کیمیاء کی تلاوت کرتے توسماع کا ایک سماں بندھ جاتا۔ حمد، نعت و منقبت ، غزل اور رباعی کبھی کبھی اپنے خاص طرز وترنم میں پڑھتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے آپ ان اشعار میں پوشیدہ اسرار و معانی و مفاہیم کی تجسیم کررہے ہیں ۔ 
حضرت علامہ ابوالبرکات محمد انوار اللہ فاروقی ؒ کا قائم کردہ سواسوسالہ قدیم دبستان علم و فن جامعہ نظایہ حیدرآباد ہوکہ جنوبی ہند کی معروف دانش گاہ باقیات الصالحات ویلور ‘ مجلس انوار علمیہ یا دارالعلوم شفیع المدارس ہرجگہ استاذ مکرم نے علم و فن کے نقوش ثبت کئے اور تعلیمی بیداری کی لہردوڑادی اور علمی خدمات بایں طور انجام دیں کہ علمی حیثیت سے پسماندہ علاقے بھی شعور و آگہی کے نور سے جگمگا اُٹھے ۔ 
استاذ محترم کی بات دل کے نہاں خانوں میں اتر جاتی تھی اس لئے کہ ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ‘‘ آپ کی بات حکمت و موعظمت کا نمونہ ہوتی ۔ 
قلم کی اہمیت ہردور میں مسلم رہی ہے استاذ محترم اس اہمیت و افادیت سے اچھی طرح واقف تھے اور جب اپنے ہاتھ میں قلم اُٹھاتے تو باطل خیالات و فاسد نظریات کا سرقلم کردیتے ۔ اس قلم کے ذریعہ وہ فرد و سماج کی خوبیوں و خامیوں کو بلا جھجھک بیان کرتے ۔ آپ کے قلم کا خاص وصف یہ تھا کہ آپ اصلاح طلب مسائل کو نہ صرف واضح کرتے بلکہ اس کا اسلامی حل بھی پیش کرتے۔ آپ کے طرز تحریر اور ادبی اسلوب کی خوشہ چینی کرکے نہ جانے کتنے افراد صاحبان فضل و کمال میں شمار ہوگئے اور آپ نے نہ جانے کتنے اصحاب کی اَنامِل کو گرفتِ قلم سے آشنا کرکے ادبی و شعری میدان کا راہی بنادیا ۔ 
لامذہبیت جس کو آج ترقی کا زینہ و ذریعہ سمجھا جارہا ہے سماج کی خرابیوںمیں شمار کرتے ، روحانی اقدار و اخلاقی کردار کو لازمی جانتے تھے ۔ وہ خود ایک فرد صالح تھے اور سماج میں ایک مصلح کا رول ادا کرتے رہے ۔ قوم و ملت کے تغافل و تساہل پر ان کا دل کڑھتا تھا ۔ آج سے کم و بیش ۴۰ سال قبل کیا گیا استاذ محترم کا تجزیہ کتنا صحیح معلوم ہوتا ہے کہ :
’’اسلامی تعلیمات سے تغافل ہی نہیں برتا گیا بلکہ اس سے ہم میں تنفر بھی پیدا ہوگیا ، اسی وجہ سے ہم سیاسی و معاشی غلامی کے ساتھ ساتھ اب ذہنی غلامی کا شکار ہوگئے ہیں جس کے نتیجے میں عقل و ادراک کے لحاظ سے ہم مغربی دنیا سے نہ صرف متاثر ہوگئے بلکہ ہماری روح صحیح القوام خودداری کے عنصر سے بھی خالی ہوگئی۔ ‘‘ (مجلہ سالنامہ انوار نظامیہ ۱۹۶۸ء)
استاذ محترم افکار عالیہ اور اقدار حسنہ کے دلدادہ تھے لیکن تعلیم کے بدل جانے سے افکار بھی بدل گئے اور اقدار بھی ناقدری کا شکوہ کررہے ہیں ۔ افراد انسانی کو حسن عمل کی تعلیم و تلقین کرتے ہوئے اپنے ایک مضمون ’’ ترقی کیا ہے ؟ ‘‘ میں استاذ مکرم رقمطراز ہیں :
’’ انسان کی موت حیات کا مقصد دراصل انسان کے حسن عمل کا امتحان کرنا ہے ۔ انسان کو ابدی زندگی میں کام آنے والی اور اس کو اونچا اٹھانے والی چیز تو انسان کا نیک عمل ہی ہوتا ہے ‘‘(حوالہ سابق)
جدت پسندی کو جائز اور تجدد و تنوع کی طرف رغبت و میلان کو استاذ محترم جبلی خاصہ قرار دیتے اور اس حیرت خانہ ٔ امروز و فردا میں نئے آفاق کی تلاش و جستجو کے عمل میں بھی انسانیت و روحانیت کو فوقیت دیتے تھے چنانچہ ایک مقام پر ان کا یہ کہنا بالکل بجا نظر آتا ہے کہ :
’’کسی قوم یا ملک کی ترقی میں مذہب و اخلاق ، تہذیب و تمدن اور انسانیت و روحانیت کو بنیادی اہمیت حاصل رہتی ہے اور مادی ترقی کا درجہ ثانوی حیثیت کا حامل رہتا ہے ۔‘‘(حوالہ سابق)
استاذ محترم کی نظر وسیع اور خیالات رفیع ہونے کی وجہ آفاق  میں ہونے والی نئی ایجادات و سائنسی انکشافات پر گہری نگاہ تھی ۔ زمانہ قدیم اور دور حاضر کی دسیسہ کاریوں و ہلاکت خیزیوں کا تقابل و تجزیہ کرتے ہوئے آپ نے اپنا نکتۂ نظر بڑی خوش اسلوبی و فنی چابکدستی سے پیش کیا ہے ۔ 
استاذ محترم ایک بہترین شاعر بھی تھے تقریباً ہر صنف سخن میں آپ نے طبع آزمائی کی ۔ رخ و کاکل، گُل وبلبل، عارض و گیسو، ہجر و وصال ، جام و مینا یا حسنِ فانی کی کذ ب بیانی سے منزہ و مبرا آپ کا کلام معنی خیز فکر انگیز و اثر انگیز ہوا کرتا ۔ زندگی کی حقیقتوں کو اُجاگر کرکے سسکتی ہوئی انسانیت کو جینے کا فن سکھانے والا یہ کلام آنکھوں کے راستے دل میں اتار لینے کے قابل ہے ۔ 
اپنے وقت کا یہ بہترین استاد، ماہر تعلیم، قاری، ادیب و شاعر ۲۰؍ جولائی ۱۹۹۶ء یہ کہتے ہوئے سفر آخرت کو روانہ ہوگیا۔ 
چڑھیں گے پھول تربت پر غمِ جاویدؔ کے صدقے
رہے گا آخرش ہربار بار جاوداں ہوکر
ادارہ ’’الانصار‘‘ کے زیر اہتمام ہرسال یوم وفات پر آپ کے قابل قدر صاحبزادہ محترم اسدؔ ثنائی جو خود بھی اچھے شاعر اور استاذ مکرم کی خوبیوں کا پرتو ہیں ایک ادبی اجلاس اور مشاعرہ کا اہتمام کرتے ہیں جس میں ہندوستان کے مقتدر ادباء و شعراء کرام دانشور شریک ہوکر استاذ محترم کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں ۔ (۱۰)
حضرت علامہ سید رشید پادشاہ قادریؒ
  جامعہ نظامیہ حیدرآباد کو اپنے جن نامور فرزندوں پر ناز ہے، ان میںایک علامہ رشید پاشاہ قادریؒ بھی ہیں۔فرزندان جامعہ نظامیہ میں علامہ رشید پاشاہ کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ انھوں نے ہزاروں طالب علموں کے دلوں میں علم و ادب کی شمع روشن کردی۔
علامہ رشید پاشاہؒ نے 26؍جون 1914ء ایک علمی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ مشہور صوفی بزرگ حضرت ابوالحسن بیجا پوریؒ سے ہوتے ہو ئے سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ تک پہنچتا ہے۔
فارسی، اردو اور عربی کی ابتدائی تعلیم والد گرامی حضرت پیر پاشاہ قادریؒ سے حاصل فرمائی، انھیں کے ہاتھ پر بیعت کی اور اجازت و خلافت سے سرفراز کئے گئے۔
علامہ رشید پاشاہ صاحبؒ ایک مدرس، واعظ، عالم اور خانقاہی نظام کے علم بردار مشائخ ہی نہیں تھے، بلکہ آپ ایک ممتاز محقق ، ماہر لسانیات ، مخطوطہ شناس ، ژرف نگاہ مصحح اور نقادو ادیب بھی تھے۔ 1957ء میں پولیس ایکشن کے بعد تقریباً 20 سالہ تحقیقی خدمات کو آپ کی علمی، تحقیقی و ادبی زندگی کا ماحصل قرار دیا جاسکتا ہے، جو بحیثیت ایڈیٹر آپ نے عالمی شہرت یافتہ تحقیقی ادارہ ’’دائرۃ المعارف العثمانیہ‘‘ میں انجام دیں۔ علم و ادب اور تحقیق و تدقیق میں جامعہ نظامیہ کے جن سپوتوں نے زندہ و جاوید کارنامے چھوڑے ہیں، ان میں علامہ رشید پاشاہ امتیازی شان کے مالک ہیں۔ علامہ نے تاریخی ژرف نگاہی، فنی لوازم سے واقفیت اور تدوین کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے جن مخطوطات کو ایڈٹ کیا ہے، ان سے علامہ کی نکتہ رسی، رمز شناسی اور سلیقہ مندی روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ تحقیق و تدقیق کا یہ ذوق مادر علمی کی دین اور اسی کی علمی وادبی فضاء کا رہینِ منت ہے۔ مشہور اسلامی مفکر و سائنٹسٹ ابو ریحان البیرونی (متوفی 440ھ) کی معروف تصنیف ’’کتاب العلم‘‘ علامہ رشید پاشاہ کا پہلا ایڈٹ کردہ مخطوطہ ہے ، جو دائرۃ المعارف سے شائع ہوا۔ اس کے علاوہ ہندوستان کے جلیل القدر محدث حضرت علی متقی برہان پوری (متوفی 975ھ) کے مخطوطہ ’’کنز العمال‘‘ جلد 12اور 13، مسند ابوعوانہ (متوفی 306ھ) جلد چہارم و پنجم شامل ہیں۔
’’مجمع بحار الانوار‘‘ (محدث علامہ شیخ محمد طاہر پٹنی) کے بارے میں علامہ رشید پاشاہ اپنی تصنیف ’’عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ کے صفحہ 23 پر رقم طراز ہیں 
’’ دائرۃ المعارف میں اس کتاب کی تصحیح کی سعادت حسب فرمائش مولانا المحترم ابوالحسن علی ندوی اس فقیر کو حاصل ہوئی ہے‘‘۔
1976ء میں دائرۃ المعارف سے سبکدوش ہونے کے بعد 1978ء سے 1981ء تک شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ اور 1981ء سے 1993ء تک امیر جامعہ رہے۔
آپ کی فکری تعمیر و تشکیل میں’’ فیضان نظر ‘‘اور ’’مکتب کی کرامت ‘‘ہر دو کا حصہ تھا۔ شخص واحد کی ذات میں علم، تحقیق و تنقید، تصنیف و تدوین کا حیرت انگیز امتزاج بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ بیک وقت کئی اداروں اور تنظیموں سے آپ تعلق تھا۔ امیر جامعہ نظامیہ ، صدر مجلس علمائے دین و رویت ہلال کمیٹی اور معتمد، صدر مجلس علمائے دکن رہے اور ملک و قوم کی رہنمائی کی۔ 1972ء اور 1979ء میں بالترتیب دو مرتبہ حج و زیارت نبویؐ سے مشرف ہوئے۔ 1976ء اور 1987ء میں عمرہ کے علاوہ عراق، نجف اشرف اور کاظمین شریفین کاسفر کیا۔ علم و عمل اور رشد وہدایت کا یہ چراغ 10؍اکتوبر 1998ء بروز ہفتہ صبح دس بجے دن بجھ گیا۔ احاطہ موسیٰ قادری (پرانا پل) میں آپ کی آخری آرام گاہ ہے۔(۱۱)
صدر الشیوخ حضرت علامہ سید شاہ طاہر رضویؒ
حضرت علامہ سید طاہر بن سید ابراہیم بن سید عباس بن سید علی الرضوی فرخندہ بنیاد شہر حیدرآباد کے ایک سادات دینی و علمی گھرانے میں 17؍مارچ 1930ء کو تولد ہوئے۔ 
والد مکرم حضرت علامہ ابراہیم رضوی ادیبؒ کے زیر تربیت و زیر پرورش آپ کی نشوونما ہوئی از ابتداء تا انتہاء جامعہ نظامیہ میں ہی تعلیم کے مراحل طے کئے۔ سند فضیلت حاصل کرنے کے بعد جماعت مولوی کامل تفسیرالقرآن میں تخصص حاصل کیا۔
فارغ التحصیل ہونے کے بعد جامعہ ہی میں مدرس مقرر کئے گئے۔ آپ نے عثمانیہ یونیورسٹی سے اورینٹل لینگویجس میں (M.O.L) کی ڈگری بھی حاصل کی۔ جامعہ نظامیہ میں مختلف عہدوں پر فائز رہے وصال کے وقت جامعہ کے انتہائی اہم و باوقار اعلیٰ علمی عہدہ ’’صدر الشیوخ‘‘ پر متمکن تھے ۔ لطیفیہ عربک کالج مغل پورہ میں جو حضرت سید عبدالرزاقؔ شاہ قادریؒ کا قائم کردہ ہے آپ برسو ں علم وادب کی تعلیم دیتے رہے۔ 1988ء میں وظیفہ حسن خدمت پر سبکدوش ہوگئے۔ آپ کے سینکڑوں شاگرد ہندوستان اور دنیا کے مختلف مقامات پر موجود ہیں۔ آپ طبقہ علماء مشائخ میں ویسے ہی مقبول و محترم رہے جس طرح آپ عوام الناس میں بلالحاظ مذہب وملت مقبول محترم و مشہورو معروف رہے۔
دو مرتبہ حج و زیارت سے مشرف ہوئے، پہلا حج 1981ء میں ہوا۔ دوسرا حج 1992ء میں حکومت سعودی عرب کی دعوت پر سرکاری مہمان کی حیثیت سے کیا۔ عرب علماء و ادباء اور عوام نے آپ کے تبحر علمی کا اعتراف اور بے پناہ مسرت کا اظہار کیا اور وہاں کے کثیر الاشاعت عربی مجلہ ’’التضامن الاسلامی‘‘ نے آپ کے کلام کو 1992ء میں اہتمام سے شائع کیا۔
آپ عربی کے بہت بڑے ادیب مانے جاتے ہیں۔ آپ کے عربی اشعار کا ایک مجموعہ ’’قصیدہ ھمزیہ‘‘ عثمانیہ یونیورسٹی اور جامعہ نظامیہ میں داخل نصاب ہے۔ عربی کے علاوہ عمدہ بلند پایہ اردو مضامین بھی آپ نے تحریر فرمائے۔ جو ماہنامہ ذوق نظر (ایڈیٹر بشیر وارثی)،  روزنامہ رہنمائے دکن ، منصف، سیاست ، ہمارا عوام کے علاوہ جامعہ کے سالانہ علمی و ادبی ترجمان انوار نظامیہ، المعہد الدینی العربی کے عربی سالنامہ ’’الاضواء ‘‘ کے علاوہ دیگر رسائل و مجلات میں شائع ہوتے رہے۔ کئی اساتذہ و طلباء و شعراء کرام آپ سے رہنمائی و صلاح لیتے تھے۔
زبان وادب میں آپ کی چالیس سالہ طویل خدمات کے پیش نظر خصوصی ایوارڈ صدرجمہوریہ ہند عزت مآب ڈاکٹر شنکردیال شرما کے ہاتھوں دیا گیا۔2002ء میں آپ کا وصال ہوگیا۔
آپ کے حالات کلام اور اردو مضامین وعربی کلام کو شاہ محمدفصیح الدین نظامی نے ’’مقالات طاہر‘‘ کے نام سے مرتب کیا ہے ۔ (۱۲)
حضرت محمد الطاف حسین فاروقی الطافؔؒ
مولانا الطاف حسین فاروقی ؒکی پیدائش 1940ء بمقام فرخ نگر ( شاد نگر) ہوئی، کمسنی میں اپنے والد کے ساتھ حیدرآباد منتقل ہوگئے اور یہیں تعلیم و تربیت کا سلسلہ شروع ہوا۔ مدرسہ احیاء دین (شاہ علی بنڈہ) میں قرآن مجید حفظ کرنے کے بعد حضرت مولانا جمیل الدین قادری رحمہ اللہ سے ابتدائی علوم دینیہ کی تحصیل کی، اعلی تعلیم کے حصول کی خاطر با ضابطہ طورپر جامعہ نظامیہ میں داخلہ لیا درجہ بدرجہ جماعت مولوی سے تعلیم کے مراحل طے کئے اور سند فضیلت حاصل کی اس کے بعد علم حدیث میں تخصص کی سند حاصل کی اور کامل الحدیث ہوئے۔ ادارہ کلیمیہ سے عملی خدمات کا آغاز کیا بحیثیت صدرالمدرسین برسہا برس تشنگان علم کو مستفیض کیا۔ علوم قرآنیہ، حدیث و فقہ میں گہری نگاہ کے حامل تھے۔ عالمی شہرت یافتہ تحقیقی و اشاعتی ادارہ ، دائرۃ المعارف العثمانیہ جو حضرت شیخ الاسلام بانی جامعہ نظامیہ کی تحریک پر قائم کیاگیا تھا بحیثیت مصحح تادمِ زیست وابستہ رہے۔ دائرۃ المعارف کی علمی ادبی تحقیقی فضاء میں آپ کو تحقیقی مزاج، دقیق نظری اور فطری صلاحیتوں کے اظہار کا بھر پور موقع ملا، قدیم و عظیم علمی ذخائر، نایاب مخطوطات ، فنونِ اسلامی کی نہایت اہم، معتبر نادر و نایاب کتابوں کی ایڈیٹنگ ، تدوین و ترتیب و اشاعت کے ساتھ آپ کی زندگی کا ہر دن علم و عمل سے عبارت تھا۔
مولانا الطافؔ جید حافظ قرآن اور ایک بہترین قاری تھے، کئی دہوں تک قرآن مجید سناتے رہے اس ضمن میں پانچ مرتبہ امریکہ بھی مدعو کئے گئے۔
درسِ قرآن و درسِ حدیث میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا جو تادم حیات جاری رہا۔ علاوہ ازیں مسجد مردھے منور مدینہ مارکٹ میں تقریباً 45 سال امامت و خطابت کے فرائض انجام د یئے یہ آپ کی مستقل مزاجی اوروضعداری کی بہترین مثال ہے۔ مولانا الطافؔ کو زبان وبیان کے خدا داد سلیقہ نے ایک گونا امتیاز بخشا تھا۔ چالیس سال تک مختلف دینی علمی اصلاحی موضوعات انفرادی انداز سے گفتگو کرتے رہے۔ 
توحیدو رسالت خاص موضوعات تھے عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈوبا ہوا کلام قلوب میں محبت حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وسلم کی لوکو تیز کرتا تھا۔ اعمال صالحہ کی ترغیب اور اصلاحِ معاشرہ کے ضمن میں آپ کی مخلصانہ کاوشیں یادگار ہیں۔
مولانا الطافؔ خوش اخلاق، جامہ زیب، حلیم الطبع، خندہ جبین، بامروت اور علم و عمل کا پیکر تھے، قرآن و حدیث سے عشق و وابستگی کا بین ثبوت ان کے تمام چھ فرزندان کا حافظ قرآن ہونا ہے۔ تین مرتبہ حج و زیارت کا شرف حاصل ہوا اور تین مرتبہ عمرہ کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔ مولانا جہاں عالم تھے وہیں ایک اچھے قلم کار و شاعر بھی تھے۔ امارت ملت اسلامیہ حیدرآباد کے زیر اہتمام شائع ہونے والے ہفتہ وار رسالہ ’’خطبات جمعہ‘‘ میں آپ کے مضامین شائع ہوا کرتے تھے جو آپ کی نثر کے بہترین نمونے شمار کئے جاتے ہیں۔ فن تجوید میں ایک منظوم رسالہ ’’شمع تجوید‘‘ 1378ھ میں تصنیف فرمایا۔جامعہ نظامیہ کے بانی علامہ محمد انوار اللہ فاروقی ؒ کی شخصیت سے آپ کو والہانہ لگاؤ تھا۔کئی تعلیمی اداروں کی سرپرستی فرماتے تھے جن میں دارالعلوم سیف الاسلام، الجامعۃ الفاروقیہ، دارالعلوم النعمانیہ قابل ذکر ہیں، آپ کے تلامذہ کا حلقہ بہت وسیع ہے۔4؍اپریل 1998ء کو آپ کا انتقال ہوا۔ پہاڑی شریف کے قریب تدفین عمل میں آئی۔ہرسال بہت ہی تزک واحتشام سے آپ کا عرس منعقد ہوتا ہے آپ کے مزار پر شاندار گنبد تعمیر کیا گیا ہے ۔ دارالعلوم الفاروفیہ بھی یہیں کارکرد ہے۔ مسجد کے صحن میں وسیع حوض ہے ۔ یہ سارا علاقہ ’’وادی رحمت ‘‘سے موسوم ہے جو حضرت سیدنا باباشرف الدین سہروردی رحمۃاللہ علیہ کی پہاڑی کے دامن میں واقع ہے۔(۱۳)
حضرت مولانا قاری عبدالحفیظ جنیدیؒ فداؔ
گذری ہوئی صدی کے ربع اول کے آس پاس آپ کی ولادت ہوئی، کرناٹک کا قدیم تاریخی و روحانی شہر گلبرگہ شریف جو کبھی بہمنیوں کا دارالسلطنت و پایۂ تخت تھا آپ کا وطن مالوف ہے جو صدیوں سے بندگی مخدوم صدر الدین حضرت خواجہ سید محمد حسینی گیسودراز بندہ نواز بلند پرواز کے قدوم میمنت لزوم سے آباد و شاد اور مرکز صوفیہ و علماء، ادباء شعراء، فضلاء کے باکمال قافلوں کا میر کارواں رہا ہے۔گلبرگہ ہی کے قدیم بافیض مدرسہ دینیہ موسوم بہ ’’روضتین‘‘ میں حضرت حافظ عبدالسلام صاحب نابینا مرحوم سے مولانا جنیدی نے حفظ قرآن حکیم کی تکمیل کی۔ علوم دینیہ و فنون اسلامیہ کی تحصیل کے لیے قدرت نے آپ کی طبیعت کو موافق اور سینہ کو الم نشرح کردیا۔ تعلیم و تعلم کے ابتدائی نقوش بھی اسی اولین سرچشمہ علم و حکمت میں ڈھالے گئے اور مروجہ و متدوالہ نظام درس و مقررہ نصاب کی تحصیل مدرسۂ دینیہ روضتین کے در وبام محرابِ و باب میں کی، اس تاریخی مدرسہ کے بانی مبانی ممتاز ماہر تعلیم و صوفی باصفا حضرت مولانا نذر محمد خانصاحب نقشبندی رحمہ اللہ تھے جنہوں نے اس مدرسہ کی بنیادوں کی توقیر و حب رسالت عظمت اہلبیت و تکریم صحابہ و فیضان پیران عظام پر خالصاً لوجہہ اللہ استوار و ہموار کیا تھا جہاں علوم ظاہری کے ساتھ ساتھ علوم باطنی سے بھی بہرہ ور کیا جاتا تھا۔ مولانا جنیدیؒ کو حضرت نذر محمد خانصاحبؒ سے شرف تلمذ حاصل رہا اور بقول مولانا جنیدیؒ کے اس وقت تعلیمی و تدریسی خدمات انجام دینے والے باعظمت اساتذہ کرام میں حضرت مولانا احمد شفیع خانصاحبؒ اور حضرت مولانااسماعیل شریف صاحب المتخلص بہ ازلؔؒ تھے جو حضرت شیخ الاسلام مولانامحمدانواراللہ فاروقی چشتی قادریؒ بانی جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے ارشد تلامذہ اور اپنے وقت و تاریخ کے قادر الکلام شعراء میں شمار کیے جاتے تھے۔ 1950 ء میں جبکہ ہندوستان عجیب و غریب حالات سے گذر رہا تھا ۔ فضاؤں میں انقلاب کے نعرے گونج رہے تھے اور انگریز سامراج کے خلاف سارے ہندوستانی عوام نے سر سے کفن باندھ لیا تھا۔ مولانا جنیدی کی زندگی میں ایک موڑ آیا اور ایسے نازک حالات میں بھی آپ نے تحصیلِ علم کی شمع کو بجھنے نہ دیا بلکہ اس کی لو کو اور تیز کردیا اور روضتین سے مولوی میں بدرجہ دوم کامیابی کے بعد شہر علم و حکمت حیدرآباد فرخندہ بنیاد کا رخ کیا جہاں رودِ موسی کے ساتھ علم و عرفان کا دریا بھی جاری و ساری تھا اور ہنمام مدرسہ بغداد مدرسہ نظامیہ اپنے وسیع و عریض دامن میں سمر قند، بخارا ،بدخشاں، یمن اور برصغیر کے شہروں کے طلبۃ العلوم کی علمی تشنگی کو سیرابی میں بدل رہا تھا اور سلطنت آصفیہ کے آخری تاجدار نواب میر عثمان علی خاں آصف سابع نے اپنی سخاوت و فیاضی سے حیدرآباد کو بغداد ثانی میں تبدیل کردیا تھا۔ مولانا جنیدیؒ نے جامعہ کی علمی و ادبی فضاؤں میں پروان چڑھتے ہوئے جن اساطین علم و فضل سے اپنے دامن علم و عمل کو مالا مال کیا ان میں شیخ الحدیث حضرت حکیم محمد حسین صاحب رحمہ اللہ، مفتی بے بدل حضرت مولانا مفتی مخدوم بیگ الہاشمی رحمہ اللہ، خطیب الملۃ والدین حضرت مولانا حاجی محمد منیرالدین رحمہ اللہ (مترجم خطبہ حرمین المعظمین و زجاجۃ المصابیح)، مفتی شوافع فرزند یمنی حضرت مولانا شیخ صالح باحطاب رحمہ اللہ اور صدر الشیوخ جامعہ نظامیہ حضرت مولانا سید شاہ طاہری رضوی قادری رحمہ اللہ(جن کا وصال مولانا جنیدیؒ کے صرف ایک دن بعد ہوا) کے نام نمایاں ہیں، مولانا جنیدی کے تحریری بیان کے مطابق 1952ء تک مولانا جنیدیؒ نے جامعہ کے اقامت خانہ میں زیر تعلیم رہ کر مولوی فاضل (گریجویشن) کی تکمیل کی آپ کے دیرینہ رفقاء میں مولانا محمد خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث، مولانا پروفیسر سلطان محی الدین صاحب صدر شعبہ عربی( پریسڈنٹ ایوارڈ یافتہ) مولانا سید عطاء اللہ حسینی ملتانی صاحب، مولانا حافظ میر وحیدالدین حسین سلیم صاحب، مولانا حافظ سید محبوب حسین صاحب( امام مکہ مسجد حیدرآباد) و دیگر سربرآوردہ اصحاب شامل ہیں جن سے آپ کے بہت ہی علمی، ادبی، مخلصانہ اور برادرانہ تعلقات ’’ماو مجنوں ہم سبق بودیم در دیوانِ عشق‘‘ کی تصویر تھے۔ 
مادرِ علمی جامعہ نظامیہ ہی میں آپ نے اپنی مستقبل کی صورت گری کا خاکہ مرتب کیا اور اپنے مخلص اساتذہ کی سرپرستی میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ خطابت میں خداد صلاحیتوں کا قابلِ رشک ملکہ حاصل کرلیا۔ اہلِ بنگلور نے جامعہ نظامیہ کے اس قابل فخر فرزند، پختہ ذہن کے مالک، مستقل مزاج اور عمیق غور و فکر اور امتِ وسط کے شرفِ خاص خیر الامور اوسطہاکی تنویر سے منور شخصیت کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور مولانا جنیدیؒ نے ان کے حسنِ ظن کو اپنی آخری سانس تک باقی رکھا سچ ہے مزاجِ برق سے آشنائی ایسے اولوالعزم انسانوں سے سیکھی جاسکتی ہے، جامع مسجد معسکر بنگلور آپ کی شخصیت کے ساتھ لازم و ملزوم ہوگئی تھی۔ یہیں سے آپ نے سارے ہندوستان میں مذہبی، دینی، دعوتی، اصلاحی،قرآنی ،آئینی ،امن و شانتی کی بانگ درادی اور اہلِ بنگلور میں خصوصاً ایک نئی روح پھونکی جس کے اثرات آج بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ فن قرأت میں بھی آپ ہندوستان گیر شہرت کے مالک تھے کئی اعزازات اور قومی جلسہائے قرأت میں شرکت و مظاہرہ و جج کے فرائض بھی انجام دیئے۔ جامعہ نظامیہ کے 125 سالہ جشن تاسیس میں بطور مہمان خصوصی مدعو کئے گئے۔ اس طرح آپ کی علمی و سماجی اصلاحی خدمات کا سفر جب عروج کی سمت رواں دواں ہوا اس وقت کے کشادہ دل ارباب مسلم پرسنل لابورڈ نے آپ کی بے لوث قابلیت ، صلاحیت وخدمات سے بھرپور شخصیت کو رکن معزز منتخب کیا۔ مولانا جنیدیؒ نے اس اعزاز کو بخوبی نبھایا اور بورڈ کی سرگرمیوں میں برابر شریک و پیش پیش رہے۔ مولانا جنیدیؒ جہاں ایک اچھے انسان، عالم، خطیب، مصلح اور معلم تھے وہیں پر آپ ایک بہترین شاعر بھی تھے۔ فداؔ تخلص کرتے تھے۔ مولانا ہی کے بقول شاعری کا شوق فطری ہے اور بچپن ہی سے ہے بقول جناب نعیمؔ صدیقی دل اگر سرچشمۂ احساس ہو اور آدمی کو زبانِ شعر حاصل ہو تو شاید یہ ممکن نہیں کہ اپنے شعور ایمانی اور مرکز دینی کی زیارت سے بہرہ مند ہوکر اور اپنے مقدس نقوش ماضی کو دیکھ کر اس کے باطن سے کچھ نہ کچھ واردات و کیفیات ظہور کے لیے راستہ نہ نکالیں۔ ابتداء میں حضرت ازلؔؒ سے اصلاح سخن لیتے رہے بعد کو حضرت تابؔ جو اس وقت اردو کے ممتاز شعراء میں سے تھے اصلاح لیا کرتے تھے۔ مولانا جنیدیؒ نے نعت و غزل و دیگر اصناف سخن میں کلام موزوں کیا ہے۔ (۱۴)
حضرت مولانا مفتی حافظ محمد ولی اللہ قادری ‘ علیہ الرحمہ 
اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا ارشاد ہے ( خلق الموت والحیاۃ لیبلوکم أیکم احسن عملاً ) اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ وہ تمہیں آزمالے کہ تم میں کون حسن عمل کا حامل ہے ۔ حضرت مولانا ولی اللہ قادری رحمۃ اللہ علیہ حسن عمل کا نمونہ تھے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ  ‘‘ : تم میں بہترین وہ شخص ہے جس نے قرآن حکیم کو سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ۔ حضرت کی ساری زندگی اسی میں گذری ۔ اور اس کی جیتی جاگتی تصویر تھی۔ جامعہ نظامیہ کے کے وہ ممتاز عالم اور قابل فخر فرزند تھے ۔
آپ کی ولادت 7؍ ربیع الثانی کو بلدۂ حیدرآباد میں ہوئی ۔ آپ کے والد ماجد کے پیر و مرشد حضرت سید عمر حسینی قادریؒ صاحب تفسیر قادری کے ارشاد پر آپ کا نام ’’ محمد ولی اللہ قادری‘‘ ہے ۔ مدرسہ حفاظ مکہ مسجد سے حفظ قرآن و قراء ت کی تکمیل کی تھی ۔ آصفجاہ سابع نواب میر عثمان علی خاں نے اپنے ہاتھوں سے مکہ مسجد کے جلسہ معراج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے موقعہ پر تکمیل حفظ قرآن کے صلہ میں حضرت کو خلعت عطاء کی تھی ۔ مسرت کا اظہار کرتے ہوئے مبارکبادی کے بعد کہا کہ اس بچہ کو عالم بننا چاہئے اور حکم دیا کہ انہیں ماہانہ دس روپئے وظیفہ دیا جائے ۔ مولانا ممدوح کو یہ وظیفہ سات سال تک جاری رہا ۔ مولانا جامعہ نظامیہ میں شریک تعلیم ہوکرفارغ التحصیل ہوئے ‘ حضرت مولاناقاری عبدالرحمن بن محفوظ سے قراء ت سبعہ کی تکمیل کی اور بعد میں انہی کی صاحبزادی سے آپ کا نکاح ہوا ۔ علماء میں منفرد اور حفظہ و قراء میں ممتاز مقام رکھتے تھے‘ خوبیوں اور اوصاف حمیدہ سے متصف تھے ‘ وہ ایک دانشور اور دیدہ ور شخصیت تھے ۔ بقول شاعر : 
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پر روتی ہے 
بڑی مشکل سے ہوتا چمن میں دیدہ ور پیدا 
تحفیظ قرآن اور تدریس علوم کو مقصد حیات بنایا ‘ دن و رات صبح و شام اسی میں مصروف و مشغول رہتے تھے ‘ آپ کے ارشادات و ملفوظات سے ذہن و فکر کو جلاء ملتی تھی ۔ ثقافت ذہنی میں اضافہ ہوتا ۔ حضرت مولانا اسم با مسمیّٰ ’’ ولی اللہ ‘‘ تھے ‘ وہ اپنے اساتذہ اور بزرگوں کا بڑا ادب و احترام کرتے تھے ۔ حضرت مولانا مفتی سید مخدوم حسینی قادری کے رطب اللسان تھے ‘ تقریر و تحریر ‘ وعظ و تذکیر اور سیاست میں حصہ نہیں لیا کرتے تھے ‘ شعر و شاعری میں دلچسپی نہیں رکھتے تھے ۔ حضرت امام شافعیؒ کا قول ہے : 
ولو لا الشعر العلماء یزری
لکنت أشعر من لبید
البتہ کتب کی جمع ‘ خرید و فروخت سے آپ کو دلچسپی تھی 
جب آصفی حکومت نے مدرسہ نظامیہ کے لئے جدید عمارت کی تعمیر کا آغازکیاتویہ مدرسہ اقبال الدولہ کی دیوڑھی میں منتقل ہوا ۔سقوط حیدرآباد کا زمانہ ہے‘ اس وقت میں جماعت چہارم کا طالب علم تھا‘ اپنی بڑی بہن کے گھر ہمت پورہ سے مدرسہ آیا جایا کرتا تھا دیوڑھی کی دوسری اندرونی گیٹ کے پاس بازو کے روم میں مولانا حافظ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ ابتدائی درس دیا کرتے تھے ‘غا لبًا مولانا کا نیا نیا تقرر تھا ‘اس وقت کے تحتانوی اساتذہ میں حضرت مولانا غلام احمد صاحب علیہ الرحمۃ اور مولانا شبیر علی صاحب علیہ الرحمۃ وغیرہ تھے ۔ پہلی بار حضرت کو وہاں دیکھنا ہوا‘ مسلمان اس وقت نہایت نامساعد حالات سے گذر رہے تھے‘ جب جدید عمارت کی تعمیر پوری ہو گئی تو مدرسہ اس میں منتقل ہو گیا۔ حضرت مولانا مفتی محمد رحیم الدین رحمۃاللہ علیہ شیخ الجامعہ ومعتمد‘مولانا مفتی محمد عبد الحمید نائب شیخ الجامعہ تھے ۔مولانا محمد فیض الدینؒ ابن مفتی محمد رکن الدینؒ صدر مؤدب تھے‘ جو بعد کو پاکستان چلے گئے ۔امیر جامعہ نواب محمودیار جنگ کے بعد نواب مقصود جنگ کو امیر جامعہ بنا یا گیا۔ محترم جناب سید زین العابدین جامعہ نظامیہ کے معتمد مقرر کئے گئے ‘ اب جامعہ مالی دشواریں سے گذر رہا تھا حکومت کی کسی قسم کی کوئی امداد نہ تھی ۔علماء اور بالخصوص انجمن طلباء قدیم امیر جامعہ کے خلاف زبر دست مہم چلا رہے تھے کہ وہ جامعہ نظا میہ کے بہی خواہ نہیں ہیں ‘انہیں جامعہ کی ترقی اور استحکام میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔غرض کہ نواب مقصود جنگ جامعہ نظامیہ کے مخلص نہیں ہیں‘ وہ جامعہ نظامیہ کو ایک اور نیٹل کالج میں بدل دے کر اسلامیات کی اعلیٰ تعلیم کیلئے طلبہ کو دارالعلوم دیوبندبھیجنا چاہتے ہیں ۔چونکہ نواب مقصودجنگ دارالعلوم دیوبند کے فارغ التحصیل تھے اس لئے وہ جامعہ نظامیہ کو دیوبند کا ایک ذیلی ادارہ یا ملحقہ کالج بنادینا چاہتے تھے ۔مولانا حافظ ولی اللہ بھی امیر جامعہ کے خلاف اس مہم کے ایک مؤید رہنما تھے‘ ان کی د کان میں طلباء قدیم جمع ہوتے اور رائے مشورے ہوتے ۔بنا بریں امیر جامعہ نے انہیں جامعہ اور تدریسی خدمت سے سبکدوش کر دیا ۔مولانا نے غالب جنگ مسجد‘ رکاب گنج میں (نزد پٹیل مارکیٹ )دار العلوم نعمانیہ قائم کیا جو آج بھی حضرت کے شاگردوں کے ہاتھوں فروغ پا رہا ہے ۔ 
قرآن کریم کو مولانانے مقصد حیات اور حرز جان بنایا ۔دن اور رات صبح وشام قرآن کے سننے اور سنانے میں مشغول رہے اور درس وتدریس میں رہے‘ یہی شغف وظیفہ تھا آپ کے شاگردوں میںبے شمار حفاظ وعلماء دنیا میں مصروف دین ہیں ۔ بے حساب خصوصیات کے حامل تھے ۔
دامان نگاہ تنگ و گل حسن تو بسیار
گل چین بہار توز دامان گلہ دارد
ام المومنین حضرت عائشہؓ سے روایت ہیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ ان لکل شئی شرفا و بھائً یتبا ھون بہ و ان بھاء امتی و شرفھا القرآن ‘‘ ترجمہ : ہر قوم کیلئے کوئی نہ کوئی چیز ہوتی ہے جس پر وہ فخر و مباہات کرتی ہے ۔ اور جو چیز میری امت کیلئے شرف اور لائق افتخار ہے ‘ وہ قرآن ہے ۔ حضرت کی قرآن و علوم قرآن سے وابستگی رہی ‘ ہم سب مولانا کے علم و ادب ‘فکر و درس کے خوشہ چیںہیں ۔ حضرت کا حلقہ بڑا وسیع ہے ۔ 
مسجد گنڈے مرزا میں کئی سال مولانا کے پیچھے تراویح میں شریک رہا‘ کئی معززین بالخصوص مولاناسید عبدالوکیل جعفری مرحوم سابق معتمد جامعہ نظامیہ ‘ ڈاکٹر میر ولی الدین صاحب مرحوم ‘ (صدر شعبہ فلسفہ عثمانیہ)‘ مولوی خیرالدین صاحب وکیل مرحوم ‘ مولوی سید عبداللہ صاحب شطاری مرحوم ‘ حضرت علیم پاشاہ صاحب شرفی مرحوم ‘ مولانا حافظ محبوب علی صاحب مصحح دائرۃ المعارف وغیرہ ایسی کئی شخصیتیں بڑے اہتمام سے نماز تراویح میں آتی تھیں ۔ حضرت مؤثر اور دل نشین انداز میں قرآن سناتے تھے ۔ آخر سورتوں کی تلاوت میں رقت طاری رہتی ۔ وہ ایک کامیاب و ممتاز استاذ ‘ مفتی اور شیخ المعقولات جامعہ نظامیہ تھے ۔ بیش بہا خدمات انجام دیں ۔
جب میں عازم حج و زیارت ہو رہا تھا کہ حضرت سے ملاقات کی ‘ دعاء کیلئے گیا تو فرمایا : حج فریضۃ العمر ہے ‘گھر میں ان بیاہی لڑکیاں بیٹھی رہتی ہیں مگر بعض لوگ کثرت سے بار بار جاتے ہیں ‘ عرض کیا کہ یہ میرا پہلا حج ہے ‘ پہلے مدینہ منورہ روانگی ہے اس کے بعد مکہ مکرمہ ۔ فرمانے لگے : میرا حج بھی ایسا ہی ہوا ‘پہلے مدینہ منورہ اور بعد مکہ مکرمہ حج کیلئے روانہ ہوا ۔ حضرت ایک کیفیت اور بھرائی ہوئی آواز میں یہ شعر پڑھنے لگے : 
یا رسول اللہ خذ بیدی
مالی سواک فی الدارین معتمد
زمانہ ٔ طالبعلمی سے مجھے حضرت سے گہرا لگاؤ اور قلبی تعلق رہا ہے ۔ چنانچہ میں ایک شب محو خواب تھا‘صبح صادق کے وقت مجھے خواب پڑا کہ میرے گھر کی گیٹ کادایاں ستون گر گیا ہے ۔ جب میں گھر اندر سے گیٹ کے پاس آیا تو بے ساختہ میری زبان سے نکلا: ’’ ارے یہ کون کرے ‘‘ ۔ بس ۔ فون کی گھنٹی بجی ‘آنکھ کھل گئی ‘ میں فون اٹھایا تو فون پر حضرت کے بڑے فرزند مرشد میاں صاحب نے اطلاع دی کہ آج رات تین بجے والد صاحب کا وصال ہوگیا ۔ انا للہ و انا الیہ راجعون ۔ واقعی مولانا میرے لئے ایک سہارا اورستون تھے ۔
اللہ تعالیٰ حضرت کی مغفرت فرمائے ۔ اعلیٰ علّیّن میں جگہ عطاء فرمائے ۔ اپنی رحمتوں میں ڈھانک لے ۔ پسماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ ہم سب کو حضرت کے نقش قدم پرچلنے کی توفیق عطاء فرمائے ۔
اللھم نسألک ان تجعل القرآن ربیع قلوبنا و نور صدورنا و جلاء احزاننا و ذھاب ھمومنا و غمومنا آمین ۔ 
آھن علی الأعلام کیف تغیبوا
 بقی الذین حیاتھم لا تنفع(۱۵)
مولانا مفتی محمد عبدالقدوسؒ
گذشتہ صدی کے نصف میں31 جنوری 1956ء میں مولانا مفتی محمد عبدالقدوس صاحبؒ کی ولادت ہوئی۔ وطناً دکنی، نسباً شیخ، مسلکاً حنفی، مشرباً صوفی، مکتباً نظامی، منصباً استاد و مفتی تھے۔ مولانا علیہ الرحمہ نے اپنی حیات کے سفر میں جتنے سنگ میل پار کئے ان میں والدین کریمین کی شفقت و محبت، وراثت، ماحول، اساتذہ کی تربیت، الفاظ کے شناور اور معانی کے پیکر شیوخ کی نظرِ کیمیا اثر کا فیض سبھی کا اس میں حصہ رہا اُسی طرح جس طرح قطرہ کے گہر بننے تک قدرتی عوامل کار فرما ہوتے ہیں لیکن مولانا المکرم کے گہر بننے کا جہاں تک سوال ہے بلا خوف تردید اس میں اُن کی مادر علمی جامعہ نظامیہ کابھی مرکزی رول رہا ہے جو ان کی شناخت و پہچان اور سروقد ٹہرنے، باحوصلہ بنانے، علم کے موتی رولنے، شعور و آگہی کے اقفال کھولنے، بات کو تولنے اور بولنے اور اس کو فکر و روح میں اتارنے کا جوہر انہوں نے یہیں سے سیکھا تھا۔ ان کا طائر روح یہیں پر آکر لاہوتی نغموں سے آگاہ ہوا۔ علم و عرفان کے راز اُن کے سینہ پر اسی کے سبب آشکار ہوئے، تحقیق و تدقیق کا دروازہ یہیں پر کھلا، تشکیک کے کانٹے یہیں دور ہوئے، یقین کا جام یہیں ملا، علم کی تشنگی کی سیرابی یہیں ہوئی اس لیے اپنے والد گرامی قدر جناب محمد محمود علی صاحبؒ کے ساتھ کم عمری ہی میں دین کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے انہوں نے اس دانشگاہ کا رخ کیا جہاں علما و فضلاء کا علمی و تحقیقی سکہ ہند مہاساگر سے لے کر عرب ساگر تک حیدرآباد کی رود موسی سے لے کر بغداد کی رود دجلہ تک عام و تام اور نیک نام تھا۔ مولانا نے یہاں ابتداء سے لے کر تخصص کے درجہ تک بڑی محنت، کدوکاوش، بڑے سرد و گرم، نشیب و فراز سے گذار کر تعلیم حاصل کی تھی۔ جامعہ نظامیہ کا امتیازی پہلو یہ ہے کہ یہاں کسی بھی قسم کی عصبیت سے پاک علمی و تحقیقی ماحول بنا رہتا ہے۔ درس نظامی کے تسلسل کو جاری رکھنے والی اس ادب گاہ میں حنفی طلبہ کی اکثریت میں شافعی حنبلی و مالکی طلبہ بھی تحصیل علم میں مشغول رہتے ہیں۔ اس طرح علم کے دروازے سب کے لیے کھلے ہیںکیونکہ چراغ سے چراغ جلتا ہے دیے سے دیا روشن ہوتا ہے جہالت و پسماندگی عداوت و دشمنی کے زہر کا علاج علم صحیح کے تریاق کے ذریعہ ہی ہوسکتا ہے۔ مولانا ؒ کارگاہِ حیات میں مادر علمی کے اسی نکتہ کی تشریح کے نقیب و ترجمان بنے رہے اور مختلف عنوانات کے ذریعہ عوام بالخصوص مسلم معاشرہ میں پائی جانے والی چھوٹی بڑی، انفرادی اجتماعی، مذہبی و معاشرتی برائیوں کے سدباب، مسائل کے حل، شکوک کے ازالہ، شبہات کے خاتمہ، اعمال خیر کے فروغ، روحانی اقدار، علمی تہذیبی روایات کے پھیلانے میں ہمیشہ سرگرم عمل رہے۔
مولانا المکرم فطری طور پر مرنجان مرنج، نجیب و مجیب ،مومن سادہ اور علم سعادہ کے جیتے جاگتے پیکر تھے۔ جھوٹ سے نفرت، وعدہ خلافی سے گریز، خیانت سے دور، غرور و تکبر سے اعراض، خودستائی سے کنارہ کش، دورخی پالیسی سے خالی، حسد سے پاک، بخل سے بعد، فضول خرچی سے محترز، دوسروں کی تحقیر سے مجتنب، دلآزاری سے منزہ، عیب جوئی سے مبرا ہونا یہ ایسی صفات ہیں جس کا انسان کی تعمیر و تشکیل میں زبردست رول ہوتاہے۔ مولانا المکرم سے حسنِ ملاقات رکھنے والے سبھی افراد اس بات کی گواہی دیں گے کہ مذکورہ صفات ان کی شخصیت کا ایسا حصہ تھیں جس کے بغیر ان کا وجود ادھورا اور نامکمل کہلائے گا۔ 
مولانا مفتی مغفور کے کارنامہ حیات کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ نکتہ سامنے آئے گا کہ جس مادر علمی میں مولانا نے زانوئے ادب تہہ کیا جس کے درودیوار کے سایہ میں جسماً و علماً بالغ ہوئے اور پھر قسمت کی یاوری ان کو علمی خدمات کا زرین موقع نصیب ہوا جس کا مولانا کو بہت خیال تھا چنانچہ اپنی ملازمت کے دوران ان تین اصولوں پر وہ بہت سختی سے پابندی کرتے تھے۔ بحیثیت ایک استاد بغیر مطالعہ وہ درس نہیں دیتے تھے، دوسرے پابندی کیا کرتے تھے، تیسرے انتظامیہ کے معاملات میں انہوں نے کبھی مداخلت نہیں کی۔ چاہے گفتنی ہو کہ ناگفتنی، انہوں نے خدمت کو ترجیح دی صلاحیت، قابلیت، استعداد، محنت، اساتذہ و شیوخ و ارباب جامعہ کی سرپرستی میں استاد سے نائب شیخ، نائب شیخ سے شیخ بنے اس کے علاوہ نائب مفتی کی حیثیت سے بھی جامعہ نظامیہ کے عظیم دارالافتاء میں یادگار خدمات انجام دیں۔خصوصاً علم الفرائض یعنی میراث ترکہ میں ان کو بڑی مہارت تھی۔ ویسے مولانا کا اصل میدان درس و تدریس تھا وہ طلبہ میں بے حد مقبول تھے ہمیشہ تلامذہ میں گھرے رہتے تھے، طالبات کی ایک کثیر تعداد نے بھی اُن سے بہت کچھ سیکھا ، پڑھا، حاصل کیا۔
مولانا کو جامعہ نظامیہ کے علمی سرمایہ سے مالا مال عظیم کتب خانہ کی میزوں پر مصروف مطالعہ دیکھا گیا جہاں وہ اپنے علم و فضل میں اضافہ اور پیشرو اہلِ علم کے خزانوں کے موتیوں سے ذہن و دماغ کو آراستہ کررہے ہوتے تاکہ اپنے تلامذہ کو علمی رموز سے آگاہی بخشیں۔
مولانا کو علوم حدیث و فقہ سے والہانہ دلچسپی اور روحانی و فطری وابستگی تھی جسے انہوں نے اپنے اساتذہ و شیوخ کرام سے بہت ہی محنت سے حاصل کیا تھا۔ ان کے شیوخ اختصاص و اخلاص کاپیکر تھے جنہوں نے اپنا علم انہوں نے اپنے تلامذہ کے سینوں میں انڈیلنے کی کی سعی فرمائی۔ مولانا نے یہ راز اپنے انہی شیوخ سے حاصل کیا تھا کہ علم کتابوں، مدرسوں، یا زروجواہر کے خزینوں سے پیدانہیں ہوتا بلکہ دین، دینی فہمی، دین داروں ،کامل اساتذہ کی نظر سے علم پیدا ہوتا ہے اور تبحر و تفکر بھی یہیں سے جنم لیتا ہے۔ 
مولانا کو دیکھا گیا کہ کسی بھی جگہ اپنے فرائض منصبی سے غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ اپنی علالت کے دوران بھی انہوں نے اس کو نبھانے کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود بھی ان کا تاثر یہ تھا کہ
کیا فائدہ فکر و بیش و کم سے ہوگا
ہم کیا ہیں کہ کوئی کام ہم سے ہوگا
جو کچھ ہوا ترے کرم سے ہوا
جو کچھ ہوگا ترے کرم سے ہوگا
مولانا المکرم کو ذوق عبادت ولذت سجدہ بھی حاصل تھا۔ معمول کی زندگی میں تو یہ عروج پر تھا لیکن دوران علالت بھی یہ رنگ عبادت ان پر چڑھا رہا چنانچہ اپنی علالت کے دوران جب وہ عدمِ توازن کی بناء پلنگ سے نیچے آرہے دیکھنے والوں نے دیکھا اور سنا کہ مولانا نے اپنے سر کو مولا کی بارگاہ میں جھکا دیا ہے اور مسلسل استغفار ان کی زبان پر جاری ہے۔ استغفراللہ ، استغفراللہ وہ برابر پڑھتے جارہے ہیں اپنے اس عمل سے گویا باہر کی دنیا کو جلیلؔ نظامی کے بقول یہ بتانا چاہتے تھے کہ 
لائقِ مدحت و ثناء تو ہے
بادشاہ روزِ حشر کا تو ہے
جس سے سجدہ لیا گیا میں ہوں
جس کو سجدہ کیا گیا تو ہے
مولانا مفتی عبدالقدوس نے شریعت مطہرہ پر چلتے ہوئے اپنی دیڑھ سالہ علالت کے بعد 26 اگست 2005؁ء داعی اجل کو لبیک کہا اس طرح بزم ملت اسلامیہ کا ایک چراغ گل ہوگیا۔ (۱۶)
حواشی و حوالہ جات
(۱) مضمون بقلم : حضرت سید شاہ حبیب پادشاہ قادری مخدومی ‘ سجادہ نشین بارگاہ 
حضرت مفتی مخدوم حسینیؒ
(۲)تلخیص از معجزات القرآن مطبوعہ 1956ء خانقاہ جیلانیہ مستعد پورہ حیدرآباد دکن
(۳) مضمون بشکریہ: مولانا سید غوث محی الدین نصر الحق قادری ، مرتب اربعین عندلیب
(۴) تلخیص: بشکریہ روزنامہ سیاست مورخہ ۲۰۰۱؍۶؍۵‘ مضمون نگار محمد عبدالرزاق
سلیم بی کام عثمانیہ یونیورسٹی
(۵) نصاب اہل خدمات شرعیہ ، صفحہ نمبر 557, 558، شائع کردہ مجلس اشاعۃ 
العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد، مارچ 2004ء 
(۶) اقتباس مضمون مولانا خواجہ شریف صاحب شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ
(۷) مضمون بشکریہ جناب قاری عبدالقادر صاحب فرزند حضرت مولانا قاری 
عبدالباری صاحبؒ خطیب جامع مسجد سکندرآباد۔
(۸) بشکریہ: جناب محمد رضوان اللہ یزدانی ، اولیاء اللہ کے آستانے قومی یکجہتی کے 
مظہر، ص147تا 155مطبوعہ 2006ء
(۹) روزنامہ منصف ، حیدرآباد ۔ ڈاکٹر حمید اللہ خصوصی اشاعت 
مورخہ 6 ؍جنوری 2005ء 
(۱۰) مضمون :محمد فصیح الدین نظامی ،لائبریرین جامعہ نظامیہ حیدرآباد
(۱۱)اردو شعر و ادب کے فروغ میں فرزندان نظامیہ کا حصہ ص ۱۴۵ تا ۱۴۷
(۱۲)اردو شعر و ادب کے فروغ میں فرزندان نظامیہ کا حصہ ص ۱۵۴ تا ۱۵۶
(۱۳)اردو شعر و ادب کے فروغ میں فرزندان نظامیہ کا حصہ ص ۱۳۹ تا ۱۴۱
(۱۴)بشکریہ : روزنامہ سالار، بنگلور، 12 جنوری 2003ء
(۱۵)سالنامہ انوار نظامیہ 2007ء مضمون پروفیسر محمد سلطان محی الدین صاحب
(۱۶) یہ مقالہ بیاد مولانا مفتی محمد عبدالقدوس صاحب بمقام انوارالعلوم لطیفیہ
تالاب کٹہ، حیدرآباد۔۲۰۰۶ء میں شاہ محمد فصیح الدین نظامی نے پڑھا۔
٭٭٭
ارض دکن پہ مرکز انوار کی طرح
حضرت رحمت بخاری نظامیؔؒ
ارضِ دکن پہ مرکزِ انوار کی طرح
ظلمت کدہ میں نور کے مینار کی طرح
آتشکدہ میں دہر کے رحمت نظامیہ
کہدو کہ ہے خلیل کے گلزار کی طرح
آج ہے مسرور ہر خورد و کلاں
ذرہ ذرہ سے مسرت ہے عیاں
گلستان جامعہ پر ہے بہار
یوں اتر آئی زمین پر کہکشاں
سب فضیلت جنگ کا احسان ہے
آج ورنہ ہم کہاں اور تم کہاں
آؤ سب ملکر منائیں دھوم سے
جشن ہے یہ ایک سوپچیسواں
٭٭٭

Related Articles

Check Also
Close
Back to top button
error: Content is protected !!