لقب: جلال الدین ،کنیت:ابو الفضل ،نام ونسب:عبد الرحمن بن ابو بکر بن محمد بن ابو بکر بن عثمان بن محمد بن خضر بن ایوب بن محمد بن ہمام ،اورنسبت:الخضیری المصری السیوطی الشافعی رحمہم اللہ تعالیٰ
ولاد ت باسعادت:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ ۸۴۹ ہجری دریائے نیل کے کنارے قدیم قصبہ سیوط میں پیدا ہوئے ،اسی نسبت سے آپ کو سیوطی کہا جاتاہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ ابھی پانچ برس کے تھے کہ والدِگرامی قدس سرہ السامی انتقال فرماگئے ۔
تعلیم وتربيت:
امام جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ صرف نامور مصنف ، بلند پایہ مفسر ، محدث ، فَقیہ،ادیب، شاعر،مؤرّخ اورماہر لغت ہی نہ تھے بلکہ اپنے زمانے کے مجدِّدبھی تھے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا حافظہ نہایت قوی تھا، آٹھ برس کی عمرمیں قرآن مجیدحفظ کرلياپھردیگر علوم وفنون کے حصول میں مصروف ہوگئے، علمِ حدیث میں بدرالمحدثین علامہ بدرالدین عینی حنفی علیہ رحمۃ اللہ الغنی ، حافظ سخاوی علیہ رحمۃ اللہ الکافی اور دیگرجلیل القدر محدثین رحمہم اللہ تعالیٰ سے استفادہ کیا۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ نے تصوف اور سلوک کی منازل مشہور صوفی بزرگ شیخ کمال الدین محمد بن محمد مصری شافعی عليہ رحمۃاللہ الوافی کے زیر سایہ طے کیں اورانہی کے دستِ مبارک سے خرقہ ـ تصوف پہنا او ر خَلقِ خدا کو فیض یاب کیا۔
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کو۸۷۱ہ ـ میں جامعہ شیخونیہ میں شیخ الحدیث کا منصب ملا ،اسی جامعہ میں درس وتدریس کے دوران قاضی عیاض رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی کتاب ”الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی”آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے حلقہ درس میں مکمل ختم ہوئی۔
تقویٰ وپرہیزگاری:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ تقویٰ وتزکیہ کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے ، اکثر اوقات یا د الٰہی عزوجل میں مستغرق رہتے ، نمازِ تہجد با قاعدگی سے ادا فرمایا کرتے تھے، اگرکبھی رہ جاتی تو اتنے پر یشان ہوتے کہ بیمار پڑجاتے ۔
حضور نے لقب عطافرما یا:
علوم حدیث میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کی ذات سے مسلمانانِ عالم نے بڑا فیض حاصل کیا، علمِ حدیث میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کو بارگاہِ رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سے شیخ الحدیث کا لقب عطا ہوا ۔ چنانچہ،
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ خود فرماتے ہیں کہ ربیع الاول ۹۰۴ھ جمعرات کی شب میں نے خواب میں دیکھا کہ میں دربارِ رسالت علی صاحبھاالصلوۃ والسلام میں حاضر ہو ں ، میں نے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حدیث پاک کے بارے میں اپنی ایک تالیف کاتذکرہ کرتے ہوئے عرض کی:”اگراجازت مرحمت فرمائيں تواس میں سے کچھ پڑھ کرسناؤں؟”حضورِ اَکرم،رسولِ محتشَم،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے ارشادفرمایا:”سناؤشیخ الحدیث!مجھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا شیخ الحدیث کے الفاظ سے یادفرمانادنیاومافیہاسے اچھا معلوم ہوا۔” (جامع الاحادیث،ج۱،ص۱۲)
75مرتبہ دیدارِمصطفے:
آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ بہت بڑے عاشق رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تھے،اوراس کااندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کو پچھتر 75مرتبہ حالتِ بیداری میں حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی۔
تصانيف:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کو اپنی ذہانت کی بنا پر دولاکھ احادیث یادتھیں۔علمِ حدیث میں دو سوسے زائد کتابیں تصنیف کیں ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ جلیل القدر مفسِّر بھی تھے ۔ تفسیربالماثور میں”الدرالمنثور” اور لغت میں ”جلالین” آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کی قرآن فہمی کا واضح ثبوت ہے ۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ تصنیف وتالیف کے میدان میں اپنی مثال آپ تھے ،کثرتِ تالیفات میں آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کو نہایت بلند مقام حاصل ہے۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کی تصانیف وتالیفات پانچ سو سے زائد ہیں۔آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کی چند مشہور کتابوں کے نام یہ ہیں: (۱)الدر المنثور فی التفسیر بالماثور(۲)الاتقان فی علوم القران (۳)جمع الجوامع اوالجامع الکبير(۴)الجامع الصغیر(۵)تدريب الراوی فی تقريب النووی (۶)طبقات الحفّاظ(۷)اللائی المصنوعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ(۸)قوت المغتذی علی جامع الترمذی(۹)تفسیر جلالین (نصف اول) (۱۰)لباب المنقول فی اسباب النزول(۱۱)الدررالکامنہ فی اعیان المئۃ الثامنۃ (۱۲)الحاوی للفتاوی
وفات :
۹۰۶ ہجری میں آپ رحمۃاللہ تعالیٰ عليہ اپنے گھر” روضۃ المقیاس” میں خلوت نشین ہوگئے، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ عليہ کا دل دُنیا اور اہل دنیا سے اُکتاگیا ،ہمہ تن یادِ الٰہی عزوجل میں مشغول رہنے لگے ۔آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کاوصال۱۹جمادی الاولیٰ ۹۱۱ ہ ـ میں ہوا۔اس طرح آپ رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے۶۲سال کی عمرپائی۔
(اللہ کی اُن پر رحمت ہو..ا ور.. اُن کے صدقے ہماری مغفرت ہو۔آمین بجاہ النبی الامین ا)
Post Views: 398