islam
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی اور جامعہ نظامیہسے آصفجاہ سابع کا تعلق خاطر
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
اور جامعہ نظامیہسے آصفجاہ سابع کا تعلق خاطر
از : پیر زادہ سید جاوید قادری، چیف ایڈیٹر ماہنامہ’’ ارشاد‘‘ حیدرآباد
فرمایا:یہ موسم سرما تھا اور طاعون کی وجہ سے میں ہر سال بمبیٔ جاکر نبیس سی روڈ کے مکان میں مہینہ دو ہفتہ قیام کرتا تھا (یہ مکان سابق گورنمٹ حیدرآباد کا تھا)۔ وہاں مجھے ڈاکٹر ارسطو یا رجنگ کا ٹیلی گرام ملا کہ مولوی صاحب کوراج پھوڑا پشت میں نکل آیا ہے اور بر وقت آپریشن نہ ہونے سے اسکی نوعیت خراب ہوگئی ہے۔ جسکی وجہ سے مولوی صاحب بوجہ تکلیف اور پیرانہ سالی شبہ ہے کہ آپریشن کو برداشت کرسکیں گے یا نہیں مگر دوسرے طرف بغیر آپریشن کوئی دوسرا علاج ممکن نہیں۔ یہ سُن کر میں نے ڈاکٹر ارسطو یا رجنگ کو جواب دیا کہ جب تک سانس ہے آس ہے۔ لہٰذا اس حالت میں مولوی صاحب کے لئے جو کچھ ممکن ہو کرنا ضروری ہے تاکہ تکلیف سے ان کو نجات ملے اور یہ بھی ہدایت کی کہ ارسطو یارجنگ ایک دو قابل سرجن اور ڈاکٹر سے بھی مولوی صاحب کا معائنہ کراکے انکی رائے لیں۔ اس پر سے مجھے جواب میں ڈاکٹر صاحب نے اطلاع دی کہ سب کی رائے یہ ہے کہ جو کچھ کرنا ہے خطرہ کو لیتے ہوئے کرنا ضروری ہے۔ آئندہ حیات و ممات خدا کے ہاتھ ہے اور یہ بھی اطلاع دی کہ تکلیفِ مرض اور ضعف ایسا ہے کہ مولوی صاحب کو عثمانیہ ہاسپٹل نہیں لیجایا جاسکتا ہے۔ لہذا سامان آپریشن کا مدرسۂ نظامیہ میں جہاں مولوی صاحب مقیم تھے وہیں کیا جائیگا۔ اس متفقہ رائے سے میں نے اتفاق کیا۔ چنانچہ دوسرے دن مجھے ٹیلی گرام ملا کہ آپریشن ہو چکا ہے۔ جسکو مشہور سرجن ڈاکٹر ارسطو یار جنگ نے دوسرے ڈاکٹروں کی موجودگی میں کیامگر نبض کی حالت اطمینان بخش نہیں ہے اور ایک طرح سے بے ہوشی ہے۔ مگر اسکے تیسرے دن مجھے معلوم ہوا کہ مولوی صاحب راہی ملکِ بقا ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
۲؎ موت کی خبر مجھے بمبیٔ میں ملی اور مجھ سے دریافت کیا گیا کہ مولوی صاحب کا دفن کہاںکیا جائے۔ میں نے جواب میں کہا کہ مولوی صاحب نے حین حیات کوئی وصیت کی تھی کہ ان کو کہاں دفن کیا جائے تو مجھے جواب میں معلوم ہوا کہ کسی قسم کی خواہش مولوی صاحب نے نہیں کی تھی۔ اسکے بعد میں نے جواب دیا کہ جس مدرسہ سے مولوی صاحب کو لگاؤ یا محبت یا شغف تھا یا جس مقام پر ان کا قیام از جوانی تا پیرانہ سالی رہا تھا وہیں رکھنا مناسب ہے (یعنی مدرسہ ء نظامیہ کے صحن میں) تا کہ روح مطہر کو سکون ہو۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مجھے بمبیٔ میں معلوم ہوا کہ بڑے اہتمام اور شان سے مولوی صاحب کی تجہیز وتکفین ہوئی۔ مگر مجھے افسوس اسکا رہا کہ اُوسوقت میں حیدرآباد میں نہیں تھا بلکہ بمبیٔ میں تھا۔ ورنہ تجہیز وتکفین میں شریک ہونا میں نہ صرف اپنا فرض منصبی بلکہ باعث سعادت سمجھتا اور آج قبر مطہر مدرسہ نظامیہ کی شان کو دوبالا کررہی ہے اور ساتھ ہی تا قیامِ مدرسۂ نظامیہ مولوی صاحب کی یاد کو اور نام کو زندہ رکھے گی کہ ایسی بُزرگ ہستیاں دنیا میں کم نظر آتی ہیں جو جامع صفات ہوں۔
۳؎ نکتہ ۔ فرمایا سنا ہے چند اُون اصحاب کی زبانی جو معزز طبقہ سے تعلق رکھتے تھے اور حضرت مرحوم سرکار کے تعلیمی زمانہ کے حالات سے واقف تھے کہ گو مرحوم سرکار کی تعلیم کے لئے سالار جنگ اولیٰ نے چند اساتذہ کو مقرر کیا تھا کیونکہ یہ نواب افضل الدولہ مرحوم و مغفور کے انتقال کے وقت ڈھائی سال کی عمر کے تھے۔ دوسرے طرف برٹش گورنمنٹ نے سرسالار جنگ اولیٰ کو نہ صرف دیوان مقرر کیا تھا نظم ونسق ریاست حیدرآباد کو چلانے کے لئے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ نگرانکار تعلیم وتربیت مرحوم سرکار بھی مقرر کیا تھا۔ جبکہ ان اساتذہ میں مولوی صاحب مرحوم بھی شریک تھے تو مرحوم سرکار کا لگاؤ مولوی صاحب مرحوم کے ساتھ خاص قسم کا تھا بوجہ مشفقانہ برتاؤ اُستاد کے۔ چنانچہ میری تعلیم کے زمانہ میں بھی اسی قسم کا انتظام مرحوم سرکار نے کیا تھا جبکہ میری عمر (۷) سال کی تھی۔ اور جبکہ میں اپنی والدہ مرحومہ کے ساتھ حویلی قدیم میں مقیم تھا اور تعلیم راحت محل میں ہوئی تھی۔ چنانچہ جو قصہ زمانہء گزشتہ کا سنا تھا اُوسکی تصدیق میرے تعلیم کے زمانہ میں مجھے مل گئی تھی۔
۴؎ بہر حال مثل ہے تالی دو ہاتھ سے بجتی ہے مجھے بھی مثل میرے والد مرحوم اس کا ذاتی مشاہدہ ہوگیا تھا اور ہم دو شاگرد اپنے مرحوم شفیق اُوستاد کے گرویدہ تھے۔
۵؎ خدا مولوی صاحب کو جنات النعیم میں جگہ عطا کرے کہ آج ایک طویل زمانہ گزرنے کے بعد رفت وگزشت واقعات یاد آکر رکارڈ پرشیراز کے آرہے ہیں تاکہ امتداد زمانہ سے حافظہ سے محو نہ ہوں بلکہ تاز ہ رہیں۔الحاصل یہ چند سطور لکھ کر میں فاتحہ پڑھتے ہوئے اپنے مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
……………مرقوم : ۹؍سپٹمبر ۱۹۶۱ء
طریقہ وصولیٔ چندہ برائے مدرسہ نظامیہ
کس قسم کا ہے اور نظم ونسق کیسا ہے
فرمایا:بعد تقرر جدید پرزیڈنٹ کمیٹی انتظامی مدرسہء مذکورہ ان سب امور کی چھان بین ہوگی کہ ماہانہ یا سالانہ چندہ کی کیا مقدار ہے اور کون کون لوگ چندہ دیتے ہیں گو اُس افلاس کے زمانہ میں چندہ دینے کے قابل اصحاب کا کیسہ خالی ہے۔ تاہم وصولی چندہ کا باضابطہ طریقہ حساب وکتاب کیسا ہے اور نظم ونسق کس طریقہ پر چل رہا ہے۔ ان سب چیزوں پر غور و خوص ہو کر اس پروگرام میں ضروری کم وبیشی ہوگی اور جدید پر زیڈنٹ کمیٹی انتظامی مدرسہ پر لازم ہوگا کہ سالانہ موازنہ کمیٹی انتظامی پرائیوٹ اسٹیٹ نظام میں پیش کراکے اسکی منظوری لیں۔ تاکہ دفتر ٹرسٹ بھی اس سے باخبر رہے۔ اس کے سوا زمانہ قریب میں صرفخاص سے بھی چندہ دیا جانا ہے۔
بہر حال میری دلچسپی اپنے اُوستاد مرحوم کے قائم کردہ مدرسہء دینی جو کہ علوم مشرقی کا مرکز ہے اس سے پیدا ہونا ایک ضروری اور لازی امر ہے جس سے میں غافل نہیں رہ سکتا۔ خصوص جبکہ بانیٔ مدرسہ نے اسکا نام میرے بزرگوں کے نام سے رکھا تھا جو زمانہ ماضی میں حُکمران ریاست حیدرآباد دکن تھے۔ لہذا مزید بر آن یہ خصوصیت بھی اس مدرسہ کو حاصل ہے۔
الحاصل تقرر جدید پر زیڈنٹ کے بعد ان اُمور مذکورہ پر نظر ڈال کر جدید پروگرام کے مطابق کا روبار شروع ہوگا۔
مکرر ہر سال مولوی صاحب مرحوم کے عرس کے موقع پر (بشرط میری صحت) دو گھڑی کیلئے مدرسہ آکر قبر مطہر پر فاتحہ پڑہوں گا اور عرس کا انتظام صیغہء اعراس صرف خاص کے طرف سے انجام پائے گا تاکہ شاگرد بھی جو کچھ ممکن ہو اپنے اُوستاد مرحوم کی خدمت کرے۔
مکرر۔ بعد تقرر عبدالستار صاحب بر خدمت پرزیڈنٹ کمیٹی انتظامی مدرسہء نظامیہ انکی جو کچھ خدمت دفتر پیشی نذری باغ میں ہے اسمیں سے بڑاحصہ ان کو مدرسہء مذکورہ کی دیکھ بھال میں صرف کرنے کی اجازت دونگا۔ کیونکہ ایسا کرنے سے عبدالکریم صاحب جو کہ زائد معتمد پیشی کی خدمت پر کار گزار ہیں وہ دفتر پیشی کے کام کو سنبھالیں گے جسکا ان کو دیرینہ تجربہ ہے اور جن کے خدمات کو میں اچھی نظر سے دیکھتا ہوں۔
خلاصہ یہ کہ اس ردو بدل سے اسمیں شک نہیں کہ اس مدرسہ کی نشاۃ الثانیہ ہوگی جو انقلاب زمانہ کی وجہ سے قابل امداد تھا جسکو دینے کے لئے ایک شاگرد آمادہ ہوگیا اپنا فرض منصبی سمجھکر۔ جس نے زمانہ گزشتہ میں بہ شمول شاگرد کلاں (یعنے مرحوم سرکار) ہر دو نے علم دین حاصل کر کے اپنے اوستاد کا نام دنیا میں روشن کیا تھا جس کے مولوی صاحب مرحوم مستحق تھے۔ لاشک فیہ۔
نوٹ: مولوی صاحب کی تاریخ رحلت یکم جمادی الثانی ۱۳۳۶ھ م ۱۵؍مارچ ۱۹۱۸ء م ۱۱؍اردی بہشت۱۳۲۷ف یوم جمعہ تھی۔ (مطابق ریکارڈ دفتر پیشی)
……………مرقوم: ۱۱؍سپمٹبر ۱۹۶۱ء
(منقول از نظام گزٹ)
شکر ہے مسئلہ تقرر جدید پرزیڈنٹ کمیٹی
انتظامی اُمور مدرسہ نظامیہ طئے ہوگیا
فرمایا:موجود پرزیڈنٹ کمیٹی جو صاحب تھے اُونہوں نے دفتر پیشیکو اطلاع دی ہے بتوسط تحریر کہ یہ مسئلہ طئے ہوگیا اور میری تجویز سے اتفاق کیا گیا ہے۔ نظرؔ بر آن اب عبدالستار معتمد دفتر پیشی میری ہدایات کے تحت کام شروع کریں گے جو کہ آج کے مضمون میں صراحت سے لکھا ہے جو کہ نظام گزٹ میں طبع ہوا ہے اور ہفتہ عشرہ میں منظورہ امداد یکمشت ن(۵۰۰۰) سالانہ از چیارٹی ٹرسٹ جدید مقرر کردہ پر زیڈنٹ کمیٹی کو ایصال کر کے ان سے رسید لیجائیگی۔
دیگر، صرف خاص سے جو کچھ امداد جاری ہوگی اسکا اعلان بروقت نظام گزٹ میں ہوگا زمانہ قریب میں جسکا مجھے خو دانتظار ہے جو کچھ وقوع میں آنے والا ہے۔ بعونہ وکرمہ۔
آخر میں چند سطر لکھ کر اس مسئلہ کو صاف کردینا ضروری خیال کرتا ہوں کہ دو مقام سے معتدبہ چندہ دے کر اب میں اس مدرسہ ء مذکورہ کا مربی وسرپرست بناہوں۔ لہذا اگر دیکھوں گا کہ مقررہ پروگرام کے مطابق مدرسہ کا کام اطمینان بخش طریقہ پر نہیں چلے گا اور اگر کسی طرف سے اسمیں رکاوٹ یا کہنڈت ڈالی جائیگی تو میں اسکو برداشت نہ کروں گا۔ یعنی اس کا سدّ باب جسطرح سے ممکن ہوگا کرنے پر مجبور ہوجاؤنگا کہ مدرسہ کی خوشحالی میرے پیش نظر رہے گی نہ کہ این و آن۔ لہذا مناسب سمجھا کہ قبل از قبل میرے ارادہ سے متعلقہ اشخاص کو آگاہ کردوں کہ وہ کس قسم کا ہے۔ دوسرے طرف کسی کو یہ ضابطہ یا انتظام منظور نہ ہو تو وہ خود کو کاروبار مدرسہ سے علحدہ کرلے سکتے ہیں جو کہ ان کا اختیاری فعل ہے جو کسی طرح سے ایسا فعل ان کا مدرسہ پر اثر انداز نہیں ہوسکتا وبس۔
مکرر تاریخ جائزہ خدمت سے عبدالستار معتمد پیشی کو ہدایت کروں گا کہ وہ روزآنہ (بجز جمعہ جو کہ مدرسہ کو تعطیل رہے گی بہ عوض یکشنبہ کہ یہ دینی مدرسہ ہے علوم مشرقی کا صبح (۹)بجے سے ایک بجے تک گھر سے سیدھا مدرسہ جاکر اپنا مفوضہ کام انجام دیں۔ بعدہ دفتر پیشی آنکر یہاں کام انجام دے کر (۵) بجے برخاست کیاکریں اور حسب سابق دوپہر کا کھانا نذری باغ میں کھائیں۔ اور اگر کسی دن خاص کام انجام دینا ہے جسکے واسطے وقت درکار ہے تو ایک بجے نذری باغ آنکر دو یا تین بجے مدرسہ جاکر وہاں سے پانچ بجے برخاست کریں جیسا کہ موقع درپیش ہو۔
نوٹ: اس موقع پر ایک چیز کو صاف کردینا ضروری خیال کرتا ہوں تاکہ کسی قسم کی غلط فہمی یا ابہام نہ رہے وہ یہ ہے کہ زمانہ گُزشتہ سے لے کر تا این وقت یہ مدرسہء نظامیہ دینی درس گاہ اور مرکز علوم مشرقی رہا ہے جسکو اُمور سیاسی یا کسی پولیٹکل پارٹی سے کبھی تعلق نہیں رہا ہے۔ لہذا آیندہ بھی اس کا مسلک یہی رہے گا تا کہ آفات جہاں سے یہ محفوظ رہے۔ خصوص اس حالت میں کہ اس کا مربی وسرپرست نظام سابع ہے ایسی حالت میںوہ اُمور مذکورہ کی نگرانی کرتا رہے گا تا کہ اس کے اعدایا بدخواہ کسی وقت اس مدرسہ کو پیچیدگیوں میں لاکر بدنام نہ کرے۔ کیونکہ حالات دنیا دگرگوں ہیں۔ لہذا حزم واحتیاط کی سخت ضرورت ہے۔ بقول
ہیچ آفت نہ رسد گوشہء تنہائی را
قطعہ متعلق مدرسہ ء نظامیہ
چو مستی از شراب ناب گشتہ
ہمہ تشنہ دھن سیراب گشتہ
زفیض بانیئے اوستادِ سلطان
ریاضِ علمِ دین شاداب گشتہ
تمت بالخیر
مکرر۔ غالبا جائزہ جدید خدمت کا آیندہ یوم دوشنبہ ہوگا اوسوقت دین یار جنگ موجود رہیں گے۔
…………مرقوم: ۱۲؍سپٹمبر ۱۹۶۱ء
جدید انتظام مدرسۂ نظامیہ زیر سرپرستی نذری باغ
فرمایا: حکم دینے والاہوں چیرمن کمیٹی انتظامی پرائیوٹ اسٹیٹ نظام کو کہ ایک دن دین یار جنگ اپنے اراکین کے ساتھ مدرسہ جاکر سب اُمور کی چھان بین کریں کہ کن کن چیزوں کی یہاں ضرورت ہے اور اس کانوٹ مرتب کر کے ایک ماہ میں میرے ملاحظہ میں پیش کریں تاکہ ان اُمور کا تکملہ ہو مگر اسکو صرفخاص اپنے پیسہ سے مہیا کرے گا۔ اسکے سوا دین یا رجنگ کو بھی ہدایت دینے والا ہوں کہ ہر مہینہ میں ایکبار عبدالستار جدید پریزیڈنٹ مجلس انتظامی مدرسہء نظامیہ سے ملکر وہاں کے حالات دریافت کرتے رہیں اور کوئی بات ایسی جو میرے علم میں لانے کی ہو تو اس سے مجھ کو آگاہ کرتے رہیں۔ اسلئے کہ جدید انتظام کے تحت انتظام مدرسہء مذکور چلنا ہے اور اگر کچھ خامیاں ہیں تو ان کو رفع کرنا ہے۔
دیگر۔ قدیم زمانہ کے تقاریب میں (میرے تخت نشینی کے بعد) بعض وقت مولوی صاحب مرحوم بھی ان میں شریک ہوتے تھے۔ اسلئے دین دیال مصوّر سے کہدیا ہے کہ پہلے مجھے کاپی تصویر کی بتاکر اسکو لائف سائز میں تیار کرنا ہے تاکہ مدرسہ کی عمارت کے بیچ میں جہاں جگہ موزوں سمجھی جائے وہاں یہ نصب کردیجائے تاکہ بانیٔ مدرسہء نظامیہ کی یاد ہمیشہ تازہ ہوتی رہے اور ان کا چہرہ پیش نظر رہے۔ اس کے سوا ایک بڑی گھڑیال مدرسہ میں متعاقب نصب کرنا چاہتا ہوں۔ مگر مشکل یہ ہے کہ ایسی گھڑیالیں اب ہمدست ہونا آسان نہیں ہے بلکہ مشکل ہے۔ بہر حال امید قوی ہے کہ بعد مرور کچھ زمانہ مدرسہ کی شکل وصورت کہاں سے کہاں پہونچکر اپنے بانیٔ مدرسہؒ کا جلوہ پیش نظر رکھے گی۔ خصوص ان طالبعلموں کی آنکھوں میں جہاں سے وہ علوم دینی حاصل کر کے مدرسہ کے نام کو ہمیشہ اپنے قلوب میں جگہ دینگے اور مولوی صاحب کی روح مطہر پر فاتحہ خوان رہیں گے۔
نوٹ ۔ فرمایا: مجھے یقین ہے کہ مدرسہء نظامیہ کی نشاۃ الثانیہ سے سب مسلم طبقہ کو خصوصا طبقہء احناف و زیادہ مسرّت ہوگی کہ مولوی صاحب بھی اسی طبقہ سے تھے اور اُن کے دو شاگرد جوازمنۂ ماضی میں اپنے اپنے وقت میں حکمران تھے وہ بھی اسی مذہب کے پیرو تھے جو کہ ان کا خاندانی مذہب تھا جسکو وہ کسی حالت میں چھوڑ نہیں سکتے تھے ورنہ اسکی توہین ہوتی یعنے ریاست حیدرآباد دکن کا سر کاری مذہب یہی تھا۔ لا شک فیہ۔
……………مرقوم: ۱۳؍سپٹمبر۱۹۶۱ء
(منقول از نظام گزٹ)
مسئلہ شرکت در چندہ برائے مدرسۂ نظامیہ
جو کہ مرکز دین مبین وعلوم مشرقی ہے
فرمایا: مجھے معلوم ہوا کہ برادرانِ والاشان برابر روزآنہ نظام گزٹ کو پڑھ رہے ہیں جسمیں مدرسہء مذکورہ سے متعلق نذری باغ کے مضامین طبع ہو رہے ہیں اور میرا خیال ہے کہ یہ بھی اپنی حد تک اپنے اپنے ٹرسٹ سے سالانہ یکمشت امداد دے کر سعادت دارین حاصل کریں گے کیونکہ یہ بھی کم عُمر شاگرد مولوی صاحب مذکور کے تھے جسکا ذکر میں نے حال میں اپنے ایک مضمون میں کردیا تھا جو کہ نظام گزٹ میں شائع ہوا تھا۔
خلاصہ یہ کہ اسی منبع کل کے یہ جزو ہیں جو کسی طرح سے جدا نہیں ہوسکتے بلکہ ہمیشہ پیوست رہیں گے۔ زیادہ عمر طبعی ان کو نصیب باد بین ستین(۶۰) سبعین(۷۰) بحق ختم المرسلین وآلہ وطہ ویسین۔
نوٹ: فرمایا: مدرسہ جعفریہ جو کہ قلّت والے طبقہ کا مدرسہ ہے اور جسکے نظم ونسق کی خوبی سے متعلق صمصام شیرازی نے اپنے حالیہ شائع شُدہ شیرازؔ میں مدح خوانی کی تھی تو اُسکے بالمقابل مدرسہء نظامیہ کی نشاۃ الثانیہ سے جو حالت بہتر بن کر زمانہء آیندہ میں جس ترقی کے بام پر قدم رکھے گا تو پبلک دیکھے گی کہ کون میدان میں گوئے سبقت لے جاتا ہے۔ یعنے اول الذکر مدرسہ یا موخر الذکر مدرسہمگر یاد رہے کہ دنیوی اُمور غلبہ آراء سے ہی چلتے ہیں نہ کہ قلّت آراء سے اور دنیا کا یہ ایسا مسلمہ کلیہ ہے جس سے انکار ناممکن کیونکہ حقائق پر مبنی ہے۔
اس کے قطع نظر جو موخر الذکر مدرسہ کو خصوصیات حاصل ہیں یہ کسی دوسرے مدرسہ کو کبھی نصیب نہیں ہوسکتے کہ اسکا بانی ایسا جیّد عالم وفاضل تھا جسکے سامنے زمانہء گزشتہ میں دو حکمران نے اپنے اپنے زانوئے ادب وقت تدریس تہ کیا تھا جن کا احترام دونوں نے ہمیشہ پیش نظر رکھا تھا اور مدرسہ کا نام خاندان نظام کے نام سے بانیٔ مدرسہ نے نامزد کیا تھا جسکی وجہ سے اسکو دوسرے مدارس پر فوقیت یا برتری حاصل ہونا ایک لازمی امر تھا جسکی دھوم آج حیدرآباد میں مچی ہوئی ہے۔ اللھم زد فزد۔
……………مرقوم: ۱۴؍سپٹمبر ۱۹۶۱ء
(منقول از نظام گزٹ)
مژدہ برائے مدرسہء نظامیہ
فرمایا: برادران والا شان نے مجھے اطلاع دی ہے کہ اونہوں نے بھی اپنے اپنے ٹرسٹ سے سالانہ یکمشت دو ہزار روپیہ منظور کیا ہے ماہ سپٹمبر ۱۹۶۱ء سے اور اسکی تحریری اجازت فینا نشیل اڈوائزر خان بہادر تارا پور والا کو دی ہے۔کس لئے کہ مولوی صاحب مرحوم خاندان نظام کے مسلّمہ اُوستاد تھے۔
یہہ سنکر میں نے جواب میں کہلا بھجوایا کہ اس توجہ سے جو کہ مدرسہ پر مبذول کی گئی ہے مجھے یقین کامل ہے کہ مولوی صاحب مرحوم کی روح مطہر دوسری دنیا میں اپنے کم سن شاگردوں کے حق میں دعائے خیر کرتی ہوئے مسرور رہے گی۔
زیادہ۔ جزاک اللہ فی الدارین خیرا۔
قطعہ
بانیٔ مکتب کی عثماںؔ یاد بھی آتی رہے
نغمے بھی اوس ذات کے صبح ومسا گاتی رہے
برسرِ قبر مطہر کہتا ہے سارا جہاں
آمدِ فصلِ بہاری پھول برساتی رہے
……………مرقوم: ۱۵؍سپٹمبر۱۹۶۱ء
(منقول از نظام گزٹ)
تعمیر مسجد انوار دراحاطہء مدرسہء نظامیہ
فرمایا: میرا ارادہ ہے کہ زمانۂ قریب میں صرف خاص کے پیسہ سے کم و بیش(۱۲۰۰۰) کی بنوادوں جسمیں برقی پنکھے و روشنی شریک رہے گی علاوہ جانمازان برائے عبادت پنجگانہ طلباء مدرسہء مذکور اور موذن و پیش امام کا تقرر منجانب صیغہء اعراس سے ہوگا۔ جس کا بار مدرسہ کی آمدنی پر نہ ہوگا۔ اسکے سوا ایک مختصر سا کتب خانہ بھی قائم ہوجائے گا اور میرے زمانہء تعلیم کے جو کچھ کُتب ہوں گے مدرسہ کو عطا کردوں گا تاکہ یہ ضروری ساز وسامان سے مکمل ہوجائے۔
دیگر۔ میں نے غور کیا تو معلوم ہوا (جبکہ اسکو مرورِ زمانہ سے فراموش کردیا تھا) کہ برادرانِ والا شان کی حقیقی ہمیشیرہ جسکا منّتی نام احمد النساء بیگم ہے ( یہ شبِ معراج ۲۶؍رجب کو پیدا ہوئی تھی) اور عُرف شہزادی پاشاہ ہے اسکو بھی مولوی صاحب مرحوم نے نذری باغ میں بسم اللہ پڑھائی تھی جبکہ بچی کی عمر اُوسوقت کم وبیش پانچ سال کی تھی۔
الحاصل جبکہ اسکے بھائی چندہ میں شریک ہوئے ہیںتو اس میں اسکو بھی اپنی حد تک شریک ہونا ضروری ہے جو اسکے لئے باعث خیر وبرکت ہوگا۔ نظر برآن بچی بھی سپٹمبر۱۹۶۱ء سے اپنے ذاتی ٹرسٹ سے یکمشت (۱۰۰۰) امداد دے گی تاکہ سب ذیشان افراد خاندانِ نظام اس کار خیر میں حسب حیثیت شریک رہیں جو باعث انبساط روحِ مطہر اوستاد خاندان نظام ہوگا۔
قطعہ متعلق مدرسہء نظامیہ
جائے ایں مکتبِ عجب پر نور شد
در تجلی مثل کوہِ طور شُد
دیدہ شان وہم حشم عثمانؔ بگفت
روحِ بانی درجنان مسرور شُد
………مرقوم: ۱۸؍سپٹمبر ۱۹۶۱ء
(منقول از نظام گزٹ)
٭٭٭