islam
حضرت سيدناموسیٰ وسیدناخضرعلیہما السلام کی ملاقات
حضرت سيدنااِبن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہماحضرت سيدنا اُبی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت فرماتے ہيں کہ رسولِ اَکرَم،نورِمجسَّم،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت سيدنا موسیٰ کلیم اللہ علیٰ نبينا وعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی حضرت سيدناخضر علی نبيناوعلیہ لصلوٰۃ و السلام کے ساتھ ملاقات کا واقعہ ذکر فرمایا، ساتھ ہی حضرت سيدنا خضر علی نبيناوعلیہ لصلوٰۃ و السلام کے لڑکے کو قتل کرنے اور حضرت سيدنا موسیٰ علیٰ نبينا وعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے اس پر اعتراض کرنے کو بیان فرمایا ، حضرت سيدنا خضر علیہ السلام نے ان سے فرمایا: ”اے موسیٰ (علیہ السلام) !مَیں اللہ عزوجل کی طرف سے ایسے علم پر مامور ہوں جو مجھے اللہ عزوجل نے سکھایا ہے ۔ آپ کے لئے یہ مناسب نہیں کہ آپ اسے جانیں اورآپ ایسے علم پر مامور ہیں جو اللہ عزوجل نے آپ کوسکھایا ہے میرے لئے یہ مناسب نہیں کہ میں اسے جانوں ۔”
(صحیح البخاری ،کتاب التفسیر ، باب فلما جاوزاقال۔۔۔۔۔۔ الخ ،الحدیث ۴۷۲۷، ج۳ ، ص ۲۶۹)
شیخ سراج الدین بلقینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ۱؎ (805-724ھ)فرماتے ہیں کہ یہاں اشکال یہ ہے کہ مذکورہ دونوں صورتوں کے علم کا حاصل کرنا کیونکر مناسب نہیں ۔
پھراس کاجواب ارشادفرماتے ہیں کہ” یہاں علم کو اس کے نافذ کرنے پر محمول کیا گیا ہے اور ” لاَ یَنْبَغِیْ لَکَ أنْ تَعْلَمَہ،” کا معنی یہ ہے کہ آپ اس علم پرعمل کرنے کے لئے اسے حاصل نہ کریں کیونکہ اس (باطنی)علم کے مطابق عمل کرنا اقتضائے شرع کے منافی ہے اور میرے لئے یہ مناسب نہیں کہ میں اس (ظاہری) علم کو حاصل کرو ں اور اس کے مطا بق عمل کرنے لگو ں اس لئے کہ وہ اقتضائے حقیقت کے منافی ہے اسی لئے اگر نبئ کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی کرنے والے کسی ولی پر حقیقتِ حال آشکار ہو جائے تو اس کے لئے یہ جائز نہیں کہ اسے حقیقت کے مطابق نافذ کرے بلکہ اس پر لازم ہے کہ ظاہری حکم ہی نافذ کرے ۔
( شیخ سراج الدین بلقینی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کا کلام ختم ہوا ۔)
علامہ کمال الدین زملکانی شافعی علیہ رحمۃ اللہ الکافی ۱؎ (727-667ھ)جو کہ مجتہدین میں سے ہیں، ”تَحْقِیْقُ الْاُوْلیٰ مِنْ اَھْلِ الرَّفِیْقِ الْاَعْلٰی۲؎”کے نام سے موسوم اپنی کتاب میں فرماتے ہیں:” معقول بات یہ ہے کہ نبئ کریم،رء وف رحیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذاتِ بابرکات ، دعوتِ دین اور محشر کے اعتبار سے سب سے کامل ہیں اور یہ تمام باتیں مقام ومرتبہ کی خوبیوں سے ہیں۔”
سرکارِدوعالم،نورِمجسَّم،شاہِ بنی آدم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اپنی ذاتِ والا صفات میں سب سے کامل اس لئے ہیں کہ ہر وہ مرتبہ اور صفت جس کے ساتھ کوئی نبی خاص ہوئے وہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم میں سب سے بڑھ کر پورے کمال کے ساتھ بدرجہ ـ اَتَم پائی جاتی ہے پس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت ورسالت سب سے اَتم اوراکمل ہے اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم اللہ عزوجل کے خليل ہونے کے ساتھ ساتھ محبوب بھی ہیں۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو دیدارِ الٰہی عزوجل کے ساتھ ساتھ ہم کلام ہونے کا شرف بھی بخشا گیا۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو قُربِ خاص کے لئے منتخب فرمایا گیا۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم سب سے زیادہ حسین اوراَخلاق میں سب سے اعلیٰ ہیں۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کومغفرت کے ساتھ عصمت کاکمال بھی حاصل ہے اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذات ہی سب سے قریب اور لائق اِتباع ہے۔
اگر عرب کی فصاحت وبلاغت میں دیکھاجائے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہر مقام میں اعلیٰ او ر اکمل ہیں اور اگر اخلاق کی پاکیزگی اور حسب ونسب کی بزرگی کو دیکھا جائے تو آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہر لحاظ سے سب سے کامل ہیں۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اخلاقِ کر یمہ کی تکمیل کے لئے بھیجاگیااورسب سے بہترزمانے اورپاکبازگھرانوں میں مبعوث فرمایا گیا۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ایسی برگزیدہ ہستی ہیں جنہيں حضرت سيدنااسماعیل علیٰ نبينا و علیہ الصلوٰۃ و السلام کی اولاد سے اختیار کیا گیا،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہدایات اور عبادات کے امام ہیں ، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے سبب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اگلوں اور پچھلوں کے گناہ معاف کر دیئے گئے ۔
اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: أوْلٰئِکَ الَّذِیْنَ ھَدَی اللہُ فَبِھُدٰھُمُ اقْتَدِہْ(پ۷،الانعام:۹۰) ترجمہ ـ کنزالایمان:یہ ہیں جن کو اللہ
نے ہدایت کی تو تم انہیں کی راہ چلو۔
اللہ عزوجل نے ہدایت کے معاملے ميں حضورِ اَکرم،نورِ مجسَّم، شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو اَنبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام کی راہ چلنے کاحکم فرمایاپس ہر وہ چیزجواُن کے لئے با عث ہدایت تھی اس کی اقتدأ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم پر بھی واجب ہے اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم واجب ترک کرنے سے معصوم ہیں ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام سابقہ انبیاء کرام عليہم الصلوٰۃو السلام کی ہدایت لے کرآئے پس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابر کات میں ہر وہ چیزجمع ہوگئی جو متفر ق طور پر اُن میں پائی جاتی تھی ۔
اللہ عزوجل نے سابقہ انبیاء کرام عليہم الصلوٰۃو السلام سے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت پر ایمان لانے کا پختہ عہد لیا،اسی لئے (شبِ معراج)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان سے آگے بڑھے اور نماز پڑھائی ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے شرف وفضیلت کے لئے اِتناہی کافی ہے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام انبیاء کرام عليہم الصلوٰۃو السلام کے امام ہیں۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم دعوتِ دین میں بھی سب سے کامل ہیں اس لئے کہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت تمام انبیاء کرام عليہم الصلوٰۃ والسلام کی شریعتوں کے لئے ناسخ ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی دعوت ان کے لئے اور ان کے امتیوں کے لئے عام ہے۔پس آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم امام اور وہ سارے مقتدِی ہیں۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم متبوع (يعنی جس کی اتباع کی جائے)اور وہ تمام تابع(يعنی اِتباع کرنے والے)ہیں ۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات سب سے کامل ہیں اس لئے ہرنبی عليہ السلام کے معجزہ کی مثل یااس سے اکمل معجزہ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کوعطافرمایا گيا۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ بابر کات ایسے معجزات کے ساتھ مختص ہے جو کسی اورنبی عليہ السلام کوحاصل نہیں۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی کتاب (يعنی قرآنِ کریم) تمام کتابوں سے اَشرف واکمل اور وہ ایسی محفوظ کتاب ہے کہ اس کی طر ف اس کے سامنے اور پیچھے سے باطل نہیں آسکتا اور نہ ہی کوئی چیزاسے منسوخ کرسکتی ہے ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات ہمیشہ کے لئے باقی ہیں،انہی میں سے ایک قرآنِ مجید ہے اوروہ معجزات جو ایک ایک کرکے قيامت تک ظاہرہوتے رہیں گے۔
اور حضورِ اکرم، نورِ مجسَّم،شاہِ بنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم محشر میں بھی سب سے کامل ہوں گے کہ اس دن لوائے حمد(يعنی حمدکا جھنڈا)آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں ہوگا اور انبیاء کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام اس کے نیچے ہوں گے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ان کے قائد اور شفیع ہوں گے اور قیامت کے دن سب سے پہلے شفاعت فرمانے والے بھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہی ہوں گے۔
سرکارِ اَبد قرار،شفیعِ روزِشمار، محبوبِ پرورد گارعزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی شفاعت سب سے پہلے قبول کی جائے گی ۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مقامِ محمودپر جلوہ افروز ہوں گے ، اس دن سب سے زیادہ امتی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ہوں گے ۔ جنت جسے دارِجزأ بھی کہتے ہیں،اس میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا درجہ سب درجات سے اعلیٰ ہوگا ۔ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم مقامِ وسیلہ کے مالک ہیں جو کہ جنت کا سب سے اعلیٰ درجہ ہے ،جسے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی نہ پاسکے گا۔
اورآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اُمّت تمام اُمتوں سے افضل ہے۔آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اُمتی شفاعت کریں گے اور ان کی شفاعت مقبول ہوگی ،ان اُمتیوں میں صدیق ، شہداء اور صالحین ہوں گے۔
آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا ذکرخالقِ ارض وسماء(يعنی زمین وآسمان کو پیداکرنے والے )کے ذکرکے ساتھ بلند ہوگا، آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم حوضِ کوثر کو زینت بخشیں گے،قیامت کے دن آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت تمام اُمتوں پرگواہ ہوگی،آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل و مناقب ختم نہیں ہوسکتے اور نہ ہی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے ان فضائل ومناقب کو اولین وآخرین میں سے کوئی پہنچ سکتاہے۔
پھر علامہ زملکانی عليہ رحمۃ اللہ الوالی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”ہم نے یہ بات اجمالاً ذکر کی ہے کہ ہمارے پیارے آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات دیگر انبیاء کرام عليہم الصلوٰۃ والسلام کے معجزات کی مثل یا ان سے بھی بڑھ کر ہیں ۔ ان تمام کی تفصیل تقاضاکرتی ہے کہ ان سارے معجزات کو بیان کر دیا جائے جو انبیاء کرام عليہم الصلوٰۃو السلام سے ظاہرہوئے اور رسول ِ کریم ،رء وف رحیم صلي اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات کی تخصیص اور ہرفرد کے مقابل اسی کی مثل آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا معجزہ بیان کردیاجائے۔
اور یہ بات ایک ”مستقل کتاب ”کا تقاضا کرتی ہے لیکن ہمارے ذکرکردہ بيان کی وضاحت کے لئے تفصیلِ اِجمالی کاہوناضروری ہے۔اس کابیان دومقدموں پرمشتمل ہے۔”