islam
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا
یہ قبیلہ بنی مصطلق کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہیں ”غزوہ مریسیع” میں جو کفار مسلمانوں کے ہاتھوں میں گرفتار ہو کر قیدی بنائے گئے تھے ان ہی قیدیوں میں حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بھی تھیں۔ جب قیدیوں کو لونڈی غلام بنا کر مجاہدین پر تقسیم کر دیا گیا تو حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاحضرت ثابت بن قیس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے حصہ میں آئیں۔ انہوں نے ان سے مکاتبت کر لی یعنی یہ لکھ کر دے دیا کہ تم اتنی اتنی رقم مجھے دے دو تو میں تم کو آزاد کر دوں گا، حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ!( صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) میں اپنے قبیلے کے سردار اعظم حارث بن ابوضرار کی بیٹی ہوں اور مسلمان ہو چکی ہوں۔ ثابت بن قیس نے مجھے مکاتبہ بنا دیا ہے مگر میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ میں بدل کتابت ادا کرکے آزاد ہو جاؤں اس لئے آپ اس وقت میں میری مالی امداد فرمائیں کیونکہ میرا تمام خاندان اس جنگ میں گرفتار ہو چکا ہے اور ہمارے تمام مال و سامان مسلمانوں کے ہاتھوں میں مال غنیمت بن چکے ہیں اور میں اس وقت بالکل ہی مفلسی و بے کسی کے عالم میں ہوں۔ حضوررحمۃٌ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو ان کی فریاد سن کر ان پر رحم آگیا، آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اگر میں اس سے بہتر سلوک تمہارے ساتھ کروں تو کیا تم اس کو منظور کر لو گی؟ انہوں نے پوچھا کہ یارسول اﷲ!(صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) آپ میرے ساتھ اس سے بہتر سلوک کیا فرمائیں گے؟ آپ نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ تمہارے بدل کتابت کی تمام رقم میں خود تمہاری طرف سے ادا کر دوں اور پھر تم کو آزاد کرکے میں خود تم سے نکاح کر لوں تا کہ تمہارا خاندانی اعزاز و وقار برقرار رہ جائے۔ یہ سن کر حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی شادمانی و مسرت کی کوئی انتہا نہ رہی۔ انہوں نے اس اعزاز کو خوشی خوشی منظور کر لیا۔ چنانچہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے بدل کتابت کی ساری رقم ادا فرما کر اور ان کو آزاد کرکے اپنی ازواجِ مطہرات رضی اللہ تعالیٰ عنہن میں شامل فرما لیا اور یہ ام المؤمنین کے اعزاز سے سرفراز ہو گئیں۔
جب اسلامی لشکر میں یہ خبر پھیلی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرما لیا تو تمام مجاہدین ایک زبان ہو کر کہنے لگے کہ جس خاندان میں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے نکاح فرما لیا اس خاندان کا کوئی فرد لونڈی غلام نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس خاندان کے جتنے لونڈی غلام مجاہدین اسلام کے قبضہ میں تھے فوراً ہی سب کے سب آزاد کر دئیے گئے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا یہ فرمایا کرتی تھیں کہ دنیا میں کسی عورت کا نکاح حضرت جویریہ کے نکاح سے بڑھ کر مبارک نہیں ثابت ہواکیونکہ اس نکاح کی وجہ سے تمام خاندان بنی مصطلق کو غلامی سے نجات حاصل ہو گئی۔(1)
(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کا بیان ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے میرے قبیلے میں تشریف لانے سے تین رات پہلے میں نے یہ خواب دیکھا تھا کہ مدینہ کی جانب سے ایک چاند چلتا ہوا آیا اور میری گود میں گر پڑا میں نے کسی سے اس خواب کاتذکرہ نہیں کیا لیکن جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے مجھ سے نکاح فرما لیا تو میں نے سمجھ لیا کہ یہی اس خواب کی تعبیر ہے۔ (2)(زرقانی جلد۳ ص۲۵۴)
ان کا اصلی نام ”برہ” (نیکوکار) تھا لیکن چونکہ اس نام سے بزرگی اور بڑائی کا اظہار ہوتا تھا اس لئے آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان کا نام بدل کر ”جویریہ” (چھوٹی لڑکی) رکھ دیا یہ بہت ہی عبادت گزار عورت تھیں نماز فجر سے نماز چاشت تک ہمیشہ اپنے ورد و وظائف میں مشغول رہا کرتی تھیں۔(1)(مدارج جلد۲ ص۴۷۹)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کے دو بھائی عمرو بن الحارث اور عبداﷲ بن حارث اور ان کی ایک بہن عمرہ بنت حارث یہ تینوں بھی مسلمان ہوکرشرف صحابیت سے سربلندہوئے۔
ان کے بھائی عبداﷲ بن حارث کے اسلام لانے کا واقعہ بہت ہی تعجب خیز بھی ہے اور دلچسپ بھی،یہ اپنی قوم کے قیدیوں کو چھڑانے کے لئے دربار رسالت میں حاضر ہوئے ان کے ساتھ چند اونٹنیاں اور لونڈی تھی۔ انہوں نے ان سب کو ایک پہاڑ کی گھاٹی میں چھپا دیا اور تنہا بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسیرانِ جنگ کی رہائی کے لئے درخواست پیش کی۔ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم قیدیوں کے فدیہ کے لئے کیا لائے ہو؟ انہوں نے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری وہ اونٹنیاں کیا ہوئیں؟ اور تمہاری وہ لونڈی کدھر گئی؟ جسے تم فلاں گھاٹی میں چھپا کر آئے ہو۔ زبان رسالت سے یہ علم غیب کی خبر سن کر عبداﷲ بن حارث حیران رہ گئے کہ آخر حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کو میری لونڈی اور اونٹنیوں کی خبر کس طرح ہو گئی ایک دم ان کے اندھیرے دل میں حضورِ اکرم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کی صداقت اور آپ کی نبوت کا نور چمک اٹھا اور وہ فوراً ہی کلمہ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہو گئے۔ (1)(کتاب الاستیعاب)
حضرت جویریہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے سات حدیثیں بھی رسول اللہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کی ہیں جن میں سے دو حدیثیں بخاری شریف میں اور دو حدیثیں مسلم شریف میں ہیں باقی تین حدیثیں دوسری کتابوں میں مذکور ہیں۔ اور حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت عبید بن سباق اور ان کے بھتیجے حضرت طفیل رضی اﷲ تعالیٰ عنہم وغیرہ نے ان سے روایت کی ہے۔(2)( مدارج النبوۃ جلد۲ ص۴۸۱وزرقانی جلد۳ص۲۵۵ )
۵۰ھ میں پینسٹھ برس کی عمر پا کر انہوں نے مدینہ طیبہ میں وفات پائی اور حاکم مدینہ مروان نے ان کی نمازِ جنازہ پڑھائی اور یہ جنت البقیع کے قبرستان میں مدفون ہوئیں۔(3)(زرقانی جلد ۳ ص ۲۵۵ و مدارج النبوۃجلد ۲ ص ۴۸۱)