islam
بد ترین شخص کون ؟
(9)۔۔۔۔۔۔تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”کيا ميں تمہيں سب سے بُرے شخص کے بارے ميں نہ بتاؤں؟جو اکيلا کھائے اور اپنے مہمانوں کو کھانے سے روک دے اور تنہا سفر کرے اور اپنے غلام کو مارے۔ کيا ميں تمہيں اس سے بھی بدتر شخص کے بارے ميں نہ بتاؤں؟جو لوگوں سے بغض رکھے اور لوگ اس سے بغض رکھيں۔کيا ميں تمہيں اس سے بھی بدتر شخص کے بارے ميں نہ بتاؤں؟جس کے شر سے ڈرا جائے اوراس سے بھلائی کی اميد نہ ہو۔کيا ميں تمہيں اس سے بھی بدتر شخص کے بارے ميں نہ بتاؤں؟جو غير کی دنيا کے لئے اپنی آخرت بيچ دے۔ کيا ميں تمہيں اس سے بھی بدتر شخص کے بارے ميں نہ بتاؤں؟ جو دين کے ذريعے دنيا کھائے۔”
(کنزالعمال، کتاب المواعظ۔۔۔۔۔۔الخ، قسم الاقوال،الحدیث: ۴۴۰۳۸، ج۱۶، ص۴۰)
(10)۔۔۔۔۔۔اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ارشاد فرماتی ہيں کہ ميں نے مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا:”منصب چاہنے والوں کے لئے ہلاکت ہے، ذمہ داروں کے لئے ہلاکت ہے، قيامت کے دن کچھ قوميں ضرور تمنا کريں گی کہ ان کی پيشانيوں کے بال ثريا ستاروں سے لٹکے ہوتے اور وہ زمين و آسمان کے درميان لٹکے ہوتے اور کسی چيز کے ذمہ دار نہ بنتے۔” (المسندللامام احمد بن حنبل،مسند ابوہریرہ ، الحدیث: ۸۶۳۵،ج۳،ص۲۶۷)
(11)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اُمراء کے لئے ہلاکت ہے، منصب چاہنے والوں کے لئے ہلاکت ہے، قيامت کے دن کچھ قوميں ضرور يہ تمنا کريں گی کہ ان کی پيشانياں ثريا ستارے سے معلق ہوتيں اور وہ زمين و آسمان کے درميان لٹک رہے ہوتے اور انہيں کسی کام کا والی نہ بنايا جاتا۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(المستدرک،کتاب الاحکام،باب قاضیان فی الناروقاض۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث: ۷۰۹۹،ج۵،ص۱۲۳)
(12)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :”جہنم ميں ايک پتھر ہے جسے وَيل کہا جاتا ہے، منصب کے طلب گار لوگ اس پر چڑھيں گے اور نيچے اتريں گے۔”
(الترغیب والترہیب ، کتاب الصدقات،باب الترغیب فی العمل علی الصدقۃ ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۱۸۵،ج۱،ص۳۸۲)
(13)۔۔۔۔۔۔حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے قريب سے ايک جنازہ گزرا تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا:”اگر يہ رئيس نہيں تھا تو سعادت مند ہے۔” (مسند ابی یعلی الموصلی، الحدیث: ۳۹۲۶،ج۳،ص۳۵۸)
(14)۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا مِقدام بن معديکرب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ارشاد فرماتے ہيں کہ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ميرے کندھوں پر دستِ مبارک مار کر ارشاد فرمايا :”اے قُدَيم!اگر تم اَمير، کاتب اور نگران نہ بنو تو فلاح پا جاؤ گے۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب الخراج، باب فی العرافۃ ،الحدیث: ۲۹۳۳،ص۱۴۴۲)
(15)۔۔۔۔۔۔سیدناامام طبرانی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے راوی کا نام ذکر کئے بغير روايت کيا ہے کہ ميرے دادا جان نے سرکارِ والا تَبار، ہم اپنی قوم کا امير بنا ديا جائے؟” يا یہ ارشاد فرمايا :”کيا ميں تمہيں تمہاری قوم کا سردار نہ بنا دوں؟” ميں نے عرض کی،”نہيں۔” تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”سردار کو تو سختی سے جہنم ميں پھينکا جائے گا۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث: ۶۴۶،ج۲۲،ص۲۴۸)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(16)۔۔۔۔۔۔ابو داؤد شریف کی روا یت میں ہے کہ ”ايک قوم کسی گھاٹ پر رہتی تھی، جب انہيں اسلام کی دعوت پہنچی تو پانی کے مالک نے اپنی قوم کو اس شرط پر 100اونٹ دئيے کہ وہ اسلام لے آئيں، پس وہ قوم مسلمان ہو گئی اور انہوں نے وہ اونٹ آپس ميں تقسيم بھی کر لئے، پھر اسے وہ اونٹ واپس لينے کا خيال آيا تو اس نے اپنے بيٹے کورسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی خدمت ميں بھيجا، اور پھر یہی حديث ذکر کی جس کے آخرمیں يوں ہے کہ اس کے بیٹے نے عرض کی،”ميرے والد عمر رسيدہ اور ضعيف ہو چکے ہیں اور وہ پانی کے نگہبان ہيں اور وہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے مطالبہ کرتے ہيں کہ ان کے بعد يہ سرداری مجھے حاصل ہو جائے۔” تو سرکار ابدِ قرار، شافعِ روزِ شمار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا :”منصب داری حق ہے اور لوگوں کے لئے اس کے بغير چارہ بھی نہيں، ليکن( بہت سے )منصب دار جہنم ميں ہوں گے۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الخراج، باب فی العرافۃ ،الحدیث: ۲۹۳۴،ص۱۴۴۲)
(17)۔۔۔۔۔۔شاہِ ابرار، ہم غريبوں کے غمخوار صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”تم پر ايسے بدبخت اُمراء ضرور مسلَّط ہوں گے جو بدترين لوگوں کو اپنی قربت ديں گے اور نماز ان کے اوقات سے مؤخر کريں گے، لہٰذا تم ميں سے جو شخص ايسے زمانہ کو پائے وہ ہر گز نہ نگران بنے، نہ سپاہی ، نہ ٹيکس وصول کرے اور نہ ہی خزانچی بنے۔”
(الترغیب والترہیب،کتاب الصدقات،باب الترغیب فی العمل۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۱۹۰،ج۱،ص۳۸۳)
(18)۔۔۔۔۔۔رسولِ انور، صاحبِ کوثر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”جو گوشت حرام سے پلا بڑھا وہ جنت ميں داخل نہ ہو گا۔” جہنم اس کا زيادہ حق دار ہے اور ٹيکس وصول کرنا حرام کمائی کا بدترين ذريعہ ہے۔
(مجمع الزوائد،کتاب الخلافۃ ،باب فیمن یصدق الامراء بکذبھم ، الحدیث: ۹۲۶۳،ج۵،ص۴۴۵)
(19)۔۔۔۔۔۔سیدنا واحدی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ اپنی تفسير ميں اللہ عزوجل کے اس فرمانِ عالیشان:
لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیۡثُ وَالطَّیِّبُ
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
ترجمۂ کنز الايمان:کہ گند اور ستھرا برابر نہيں۔(پ7، المائدہ: 100 )
کے تحت لکھتے ہيں کہ حضرت سیدنا جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ايک شخص نے عرض کی”يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميری تجارت کا ذريعہ شراب کی خريد و فروخت تھااور ميں نے اس سے بہت سا مال جمع کر رکھا ہے اب اگر ميں اس مال کو اللہ عزوجل کی اطاعت ميں خرچ کروں تو کيا مجھے اس سے نفع ہو گا؟” نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا”اگر تم يہ مال حج، جہاديا صدقے ميں خرچ کرو تب بھی اللہ عزوجل کے نزديک اس کی حيثيت مچھر کے پر جتنی بھی نہ ہو گی، اللہ عزوجل صرف پاکيزہ صدقات ہی قبول فرماتا ہے۔” تو اللہ عزوجل نے اپنے حبيب، رسولِ اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے فرمان کی تصديق کے لئے يہ آيت مبارکہ نازل فرمائی:
قُلۡ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیۡثُ وَالطَّیِّبُ
ترجمۂ کنز الایمان:تم فرما دو کہ گندہ اور ستھرا برابر نہيں۔(پ7، المائدہ: 100 )
(تفسیر زادالمسیر،سورۃ المائدۃ،تحت الآیۃ(قل لایستوی الخبیث)الجزء۲،ص۲۷۰)
سیدنا حسن اور سیدنا عطاء رحمۃ اللہ تعالی علیہمافرماتے ہيں :”اس سے مراد حلال اور حرام ہيں۔”
(20)۔۔۔۔۔۔جس عورت نے رجم کے ذريعے پاکيزگی چاہی تھی اس کے بارے میں مروی حديث پاک ميں يہ الفاظ ہيں :”اس نے ايسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹيکس لينے والا بھی کرتا تو اس کی مغفرت کر دی جاتی۔” یا یہ :”اس کی توبہ قبول ہو جاتی۔”
(سنن ابی داؤد،کتاب الحدود،باب المرأۃ التی امر النبی ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۴۴۴۲،ص۱۵۴۸،بدون”لقلبت منہ”)
(21)۔۔۔۔۔۔نبی کريم، رء ُوف رحیم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”6چيزيں عمل کو برباد کر ديتی ہيں: (۱)لوگوں کے عيوب ميں مشغول ہونا (۲)دل کی سختی (۳)دنيا کی محبت (۴)حياء کی کمی (۵)لمبی اميد اور (۶)بہت زیادہ ظلم۔”
(کنزالعمال،کتاب المواعظ والرقائق ،قسم الاقوال، فصل سادس فی الترہیب السداسی ، الحدیث: ۴۴۰۱۶، ج۱۶، ص۶ ۳)
(22)۔۔۔۔۔۔رسول اکرم، شفيع معظم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ و سلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:”نيکی پرانی نہيں ہوتی اور گناہ بھلايا نہيں جا سکتا، دين دار کبھی نہ مرے گا، جو چاہو کرو تم جيسا کرو گے ويسا ہی بدلہ پاؤ گے۔”
(فردوس الاخبار،باب الیاء،الحدیث:۲۰۲۴، ج۱، ص۲۸۲)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
تنبیہ:
اسے کبيرہ گناہوں ميں شمار کرنا ظاہر ہے ايک جماعت نے اس کی تصريح کی ہے،ٹيکس لينے والے اور ان کے تمام معاونين اس وعيد ميں داخل ہيں اور ميں نے عنوان ميں ٹيکس لکھنے والے کا جوتذکرہ کيا يہ وہی قول ہے جس پر سیدناابن عبد السلام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ نے فتویٰ دياہے اور يہ بات بالکل ظاہرہے کيونکہ ظاہری طور پربالفرض اگر وہ ٹيکس لينے کے لئے حاضر نہ ہو بلکہ جو چیزلی اور دی جاتی ہے صرف اس پر قبضہ کر نے کی خاطرآئے تو(وعیدکے لئے یہی)کافی ہے اور اگر بادشاہ نے اس کے لئے بيت المال ميں سے کچھ حصہ حاضری کی شرط پر مقرر کيا پس وہ لينے کے ارادے سے حاضر ہو گيا تو جائز ہے، پھر ميں نے سیدنا ابن عبد السلام رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ کے کلام کو ديکھا اور اس ميں یہ تصريح پائی کہ لوٹانے کے ارادے سے اُجرت کا لينا جائز ہے، اس لئے جب آپ سے ٹيکس لينے کے لئے آنے والے کے بارے ميں اورظالموں کے مال لينے کے بارے ميں پوچھا گيا تو آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمايا کہ اگرٹیکس لينے حاضر ہونے والے کا ارادہ مالکوں کے مال کی حفاظت ہو تا کہ کسی عادل کے والی بننے يا بادشاہ کے عدل کی طرف لوٹنے کی صورت ميں وہ اپنے مال کی طرف رجوع کر سکيں تو جائز ہے اور اگر انہوں نے ظلم کا قصد کيا تو جائز نہيں، اور مالکوں کو لوٹانے کے ارادے سے اُجرت لينا جائزہے مگر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے لئے جائز نہيں کيونکہ وہ ان کی نيتوں پر مطلع نہيں۔
ياد رہے کہ بعض فاسق تاجر يہ گمان کرتے ہيں :”ان سے جو ٹيکس وصو ل کيا جاتا ہے اگر وہ زکوٰۃ کی نيت کر ليں گے تو ان کی زکوٰۃ ادا ہو جائے گی۔” ان کا يہ گمان سراسر غلط ہے اور شافعی مذہب ميں اس کی کوئی سند نہيں، کيونکہ ٹيکس لينے والوں کو حاکم نے ان لوگوں سے زکوٰۃ وصول کرنے پر مقرر نہيں کيا جن پر زکوٰۃ واجب ہے بلکہ اس نے تو ان پر ان کے مال ميں سے دسواں حصہ وصول کرنے پر مقرر کيا ہے خواہ وہ کیسا ہی کیوں نہ ہو کم ہویا زيادہ، اس پر زکوٰۃ واجب ہو يا نہ ہو اور اس کا گمان یہ ہو کہ اس نے يہ حکم اس لئے ديا ہے کہ وہ يہ مال لے کر مسلمانوں کی مصلحت کے لئے اپنے لشکرپر خرچ کریگا تو پھر بھی يہ مفيد نہيں کيونکہ اگر ہم يہ تسليم بھی کر ليں تو يہ اس شرط کے ساتھ جائز ہے کہ بيت المال ميں کچھ نہ ہو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
اگر حاکم اَغنياء کے مال سے ٹيکس وصول کرنے پر مجبور کرے تب بھی زکوٰۃ ساقط نہ ہو گی کيونکہ اس نے يہ مال زکوٰۃ کے نام پر وصول نہيں کيا، مجھے بعض تاجروں نے بتايا کہ جب وہ ٹيکس وصول کرنے والے کوٹیکس ديتے ہيں تو زکوٰۃ کی نيت کر ليتے ہيں اس طرح ٹيکس لينے والا زکوٰۃ کا مالک ہو جاتا ہے اور دوسروں کو يہ مال دے کر اپنا مال ضائع کر ليتا ہے، مگر ان کا يہ فعل کچھ نفع مند نہيں اس لئے کہ ٹيکس وصول کرنے والا اور اس کے معاونين زکوٰۃ کے مستحق نہيں ہوتے کيونکہ ان ميں سے ہر شخص کمانے پر قدرت رکھتا ہے، وہ ہٹے کٹے ہوتے ہيں، اگر وہ اپنی اس قوت کو کسبِ حلال ميں صرف کريں تو اس برے اور قبيح کام سے بے پرواہ ہو جائيں، پس جس کا حال ايسا ہو وہ زکوٰۃ کا مستحق کيسے ہو سکتا ہے؟ ليکن تاجروں کومال کی محبت نے حق کی پہچان سے اندھا کر ديا اور انہيں شيطان اور اس کے سبز باغات نے مفیددينی باتيں سننے سے بہرہ کر ديا ہے کہ ان سے يہ مال ظلم کے طور پر ليا جا رہا ہے، پھر ايسی صورت ميں وہ زکوٰۃ کيسے نکال سکتے ہيں ؟وہ يہ نہيں جانتے کہ اللہ عزوجل نے ان پر زکوٰۃ واجب کی ہے اور وہ اس سے اسی صورت ميں بریئ الذمہ ہو سکتے ہيں جب اسے جائز اور مروَّجہ طريقے سے ادا کريں اور ان پر جو ظلم ہوا تو ان کے لئے کیسے اس کے عوض نيکياں لکھی جائيں اوران کے درجات بلند ہوں (جبکہ انہوں نے زکوٰۃ ان کے حق داروں کو ادا ہی نہیں کی) ۔
علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ٹيکس لينے والوں کو چور اور ڈاکو بلکہ ان سے بھی بدتر قرار ديا ہے ،لہٰذا اگر تم سے کوئی ڈاکو مال چھين لے اور تم زکوٰۃ کی نيت کرلو تو کيا تمہيں کوئی نفع ہو گا؟تو جس طرح وہ نيت تمہيں نفع نہ دے گی اسی طرح يہ نيت بھی مفيد نہيں اور تمہيں اس سے کچھ حاصل نہ ہو گا، لہٰذا اس سے بچتے رہو۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ نے ان جاہلوں کا خوب تعاقب فرمايا ہے جو يہ گمان کرتے ہيں:”ٹيکس لينے والوں کو زکوٰۃ کی نيت سے مال دينے سے فائدہ ہوتا ہے۔” اور انہوں نے کہا ہے :”اس بات کا قائل جاہل ہے اس کی طرف رجوع نہ کيا جائے اور نہ ہی اس پر اعتماد کيا جائے۔” لہٰذا اس پر غور کرو اور عمل کرواگر اللہ عزوجل نے چاہا تو غنيمت پاؤ گے۔