islam
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی بحیثیت شاعر حق آگاہ
شیخ الاسلام امام محمد انوار اللہ فاروقی
بحیثیت شاعر حق آگاہ
ڈاکٹر عقیل ہاشمی، سابق صدر شعبہ اُردو، جامعہ عثمانیہ
دنیائے علم وادب میں عرفان یا ادراک کی اپنی اہمیت ہے اور یہ عرفانِ ذات ہی ہے جسکے توسط سے حق تعالیٰ کا عرفان ممکن نظر آتا ہے مگر محض منطق ورائے واستدلال سے کوئی شخص عارفِ خود شناس و حق شناس ہوتا تو بقول کسے شیخ بو علی سینا جیسے فلسفی کی ولایت میں کسی کو شک نہ ہوتا اور نہ فخرالدین رازیؔ کے رازدار دین ہونے میں کسی کو اختلاف ہوتا عقل شاید حق تعالی کے درتک تو پہنچادیتی ہے لیکن اسکے آگے کا قدم صرف اور صرف فضل وعنایت پر موقوف ہے ؎
عقل رہبر و لیک تادرِ او
داں عنایت رساندت براو
چنانچہ عرفان نفس کے لئے قرآن مجید کی رہنمائی کافی ہے لیکن یہاں یہ بات بھی درست ہوگی کہ کوئی بھی صلاحیت یا فن انسان کو ودیعت نہیں ہوا جسکا تعلق فطرت سے نہ ہو سارے الفاظ اس چیز کی ترجمانی کرتے ہیں جو فطرت ظاہر کرنا چاہتی ہے ہیئت داں، ریاضی داں اور فلسفی اپنی اپنی دانست میں انہی چیزوں کا اظہار کرتے ہیں جو ان کے فہم وفکر کے دائرہ میں آجاتی ہیں جیسے اخلاقیات کے فلسفی قدرتی نیکیوں، بدیوں اور جذبات انسانی کو بنیاد بناتے ہوئے اس بات کی تلقین وہدایت کرتے ہیں کہ قدرت کی پیروی کی جائے اس میں نفع زیادہ اور ضرر کی گنجائش کم ہوگی اسی طرح دنیامیں شاعر کی ذات ایک انوکھی دلچسپ کردار کی حامل ہوگی شاعر ایک طرف قدرت میں پھیلی ہوئی اشیاء سے اکتساب کرتا ہے دوسری سمت اپنے زور تخیل سے تخلیقات سے متحیر کردیتا ہے تب ہی تو قدیم زمانوں میں شاعر کو سرفہرست رکھا گیا اس تمہیدی گفتگو کا مقصد حضرت شیخ الاسلام مولانا انواراللہ فاروقیؒ کے علمی ادبی کارناموں خصوصا شاعری کے بارے میں تفصیلات مہیا کرنا ہے ؎
نیز نگیوں سے یار کے حیراں نہ ہو جیو
ہر رنگ میں اسی کو نمودار دیکھنا
حضرت شیخ الاسلامؒ کی ہستی نابغہ روزگار ،عالم دین، مجتہد العصر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک شاعر حق آگاہ اور واقف اسرار محبت ومودّت سے جدانہ تھی در اصل شاعری کو نقل کا فن سمجھا جاتا ہے لیکن اس میں لطف و مسرت کا بھی جزو شامل ہوگا اہل علم نے شاعری کے مختلف زایوں کی نشاندہی کی ہے اسکی پہلی قسم خدا کی ذات بے ہمتا، یا اسکی ناقابل بیان صفت کا نقل کرنا ہے ان کی مثال حضرت داؤدؑ کے گیتوں و حضرت سلیمانؑ کے ’’غزل الغزلات‘‘ اور اقوال وغیرہ بقول ڈاکٹرجمیل جالبیؔ ’’اس میں وہ سب چیزیں شامل ہیں جو آسمانی کتاب کا شاعرانہ حصہ ہیں ان کے خلاف کوئی شخص نہ ہوگا جو روح القدس کا احترام کرتا ہو‘‘(۱)۔
شاعری کی دوسری قسم وہ ہے جس میں فلسفیانہ یا اخلاقی امور کو موضوع بنایا جاتا ہے اور تیسری قسم اس شاعری کی ہے جو صحیح معنوں میں انسانوں کے عقل وشعور کو متاثر کرتی ہے گو اس میں فطرت میں پھیلی ہوئی تمام تررنگینیوں کی وضاحتیں ہونگی یونانی حکماء نے ایسے ہی شاعروں کو اولین رتبہ دیا اور انہیں واٹیز (Vates)سے مردِآگاہ مراد لیا جسے بعد میں ان کی فہم و بصیرت کی وجہ سے شاعر کہا جانے لگا کیونکہ یہی لوگ قدرت کی عطاکردہ نعمتوں سے استفادہ کرتے ہوئے نئی نئی باتیں (اجتہاد) تخلیق کرتے ہیں اور تعلیم دینے، لطف و مسرت بہم پہنچانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو روبعمل لاتے ہیں۔ انسانوں کو تعلیم دینے کا مقصد نیکی سے واقفیت دلانا ہے اس مرحلہ پران کا رتبہ مورخ اور فلسفی سے زیادہ ہے کہ مورخ ہدایت سے عاری ہوتا ہے کیونکہ اسکا تعلق ’’جو کچھ ہوناچاہئے‘‘ کے بجائے ’’جو کچھ ہوا‘‘ سے ہوتا ہے اور فلسفی محض ہدایت دینے ہی کو اہم سمجھتا ہے شاید اسلئے شاعر کو اثر انگیزی کے لئے اہم مانا گیا اسطرح شاعر کا راست تعلق تعلیم وتعلم سے ہوگا۔
حضرت شیخ الاسلامؒ کی شاعری کا مطالعہ یقیناً اس امر کا ثبوت مہیا کریگا کہ حضرت ممدوح کی شعر گوئی کا مقصود تعلیم وتلقین سے الگ نہیں چنانچہ اپنی اس شاعری کے بارے میں خود فرماتے ہیں ؎
’’جس زمانے میں کہ آقائے دارین نے بہ نظرِ کمالِ بندہ پروری اس ناچیز کی حضوری افضل البلاد مدینہ طیبہ زادہا شرفاً میں منظور فرمائی تھی چند روز ایسے گذرے کہ کوئی درس وتدریس وغیرہ کا تعلق نہ رہا چونکہ نفسِ ناطقہ بیکار نہیں رہتا یہ بات دل میں آگئی کہ چند مضامین میلاد شریف وفضائل و معجزات سرور عالمﷺ کے کتب احادیث وسیرسے منتخب کر کے منظوم کئے جائیں ہر چند فنِ شاعری میں کسی سے تلمذ ہے نہ مہارت نہ اہلِ ہند کے محاورات سے واقفیت مگر صرف اس لحاظ سے کہ یہ خدمت غالباً مناسب مقام ہے اور تعجب نہیں کہ اہلِ اسلام کو اس سے کچھ فائدہ بھی حاصل ہو چند اشعار لکھے‘‘ (۲)
چنانچہ آپ کی مشہور زمانہ تالیف منیف ’’انوار احمدی‘‘ کے آخر میں ایک طویل مسدس ملتی ہے جس میں رسول اکرمﷺ کے فضائل میلاد شریف و معجزات شامل ہیں اور انوار احمدی کا سبب تالیف بھی درج ہے ؎
شکرِ حق اس نظم میں ہیں وہ مضامین ِدل پذیر
جس سے ایمان تازہ ہو اور ہوں دلِ اعداپہ تیر
ہے حدیثوں کا جو یہ مضمون بلاریب ونکیر
جو محدث ہیں وہ اس کو مان لیں گے ناگزیر
گرچہ یہ اشعار ہیں پر شاعری اس میں نہیں
ترجمہ منقول کا ہے خود سری اس میں نہیں
لکھا اس کو نظم میں ہر چند میں شاعر نہیں
کیونکہ خوش ہوتے تھے اکثر نظم ہی سے شاہِ دیںؐ
تھا یہی لم جو ممد حسّاں کے تھے رُوحُ الاَمین
کعب اور ابن رواحہؓ کو اسی کا تھا یقیں
ذکر ختم المرسلیں اس نظم سے مقصود ہے
جو ازل سے تاابد ممدوح اور محمود ہے(۳)
اسطرح ’’انوار احمدی‘‘ جو اسم بامسمّی ہے مسلمانوں کے لئے خصوصاً عاشقانِ رسولؐ اکرم کے حق میں سوغاتِ دین وایمان ہے اس میں علاوہ متذکرہ مسدس کے ایک قصیدہ نعتیہ اور چند فارسی غزلیں بھی ملتی ہیں جو بعد میں آپ کے مجموعہ کلام ’’شمیم الانوارؔ‘‘ میں شامل کرلی گئیں، حضرت شیخ الاسلامؒ کا تعارف کرواتے ہوئے ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ اپنی کتاب ’’داستانِ ادب حیدرآباد‘‘ میں لکھتے ہیں ؎
’’یہ قندھار کے قاضی تھے اور علوم اسلامی کے ماہر نواب محبوب علی خاں غفران مکاں اور عثمان علیخاں سلطان العلوم دونوں کے استاد اور حیدرآباد کے علماء میں ممتاز تھے، وزیر امور مذہبی کی خدمت پر بھی فائز رہے تھے اور اس شہر میں مذہبی اصلاح اور علوم دینی کی ترویج میں بڑا حصہ لیا تھاپچاس سے زاید کتابیں مختلف موضوعات پر لکھیں اور چھپوائیں، اردو اور فارسی کے شاعر بھی تھے انورؔ تخلص کرتے تھے اور حیدر حسین حیدرؔ فرزند شیخ حفیظ دہلوی کے شاگرد تھے ان کے کلام کا ایک مجموعہ ’’مطلع الانوار‘‘ چھپ چکا ہے اور دوسرے مجموعہ کا قلمی نسخہ ادارہ ادبیات اردو میں محفوظ ہے ان کی تصنیفات میں ’’انوار احمدی‘‘ مقاصد الاسلام کئی جلد میں مشہور ہیں‘‘(۴)
اس بیان سے اندازہ ہوتا ہیکہ حضرت ممدوح کو نثر و نظم پر کامل دستگاہ حاصل تھی شاعری کی ذیل میں قابل لحاظ کلام اپنی یادگار چھوڑا ڈاکٹر زورؔ نے جسے ’’مطلع الانوار‘‘ کہا غالباً وہی ’’شمیم الانوار‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا جبکہ ادارہ میں محفوظ دوسرے قلمی نسخہ کا کوئی عنوان نہیں بتایا مزید حضرت شیخ الاسلامؒ کے تلمذ اختیار کرنے کی بابت ڈاکٹر زورؔ کے تسامح کو عرصہ بعد ڈاکٹر کے محمد عبدالحمید اکبر نے اپنے مضبوط استدلال اور داخلی شواہد سے دورکیاکہ حضرت ممدوح ایک فطری شاعرتھے آپ نے کسی سے تلمذ اختیار نہیں کیا (تفصیلات کے لئے کتاب ’’حضرت مولانامحمدانواراللہ فاروقی شخصیت علمی وادبی کارنامے‘‘ ملاحظہ کیجئے ) شاعر کی حیثیت سے حضرت فضیلت جنگؒ نے اس حقیقت کو واضح فرمایا جیسا ارشاد نبی ﷺ ہے انّ من الشعر لحکمۃ وانّ من البیان لسحرا(بخاری شریف) ویسے بھی علماء ربانی اور صوفیاء عظام کی شاعری شاعری نہیں بلکہ وہ سراپا راز و نیاز، پندو نصائح، محبتِ خدا اور محبتِ رسولﷺ کی شرح ہوتی ہے۔ شاعری کے مختلف اصناف سے واقف ہوتے ہوئے وہ حضرات اپنے عرفان ومکاشفات نیز عشق کی واردات، کیف وسرور، جذب وحال، سرشاری، سرمدی ومشاہدہ عینی کو اپنے کلام میں سمودیتے ہیں ویسے بھی اہل اللہ کا تصوف سے تعلق عشق کے مختلف مدارج کا اظہار ہے اور پھر جیسا کہ کہا جاتا ہیکہ ’’تصوف برائے شعر گفتن خوب است‘‘کی روشنی میں احوال و کیفیات کے تفصیلات کے لئے شعر سے موزوں طریقہ کوئی اور نہیں اس فن میں صوفیاء کرام نے شاعری کی بہت ساری اصطلاحات کو مرادی معنوں میں تغیر وتبدّل کے ساتھ اپنایا مثلا عشقیہ شاعری میں معشوق کے حسن ناز و انداز، عشوہ وغمزہ ،وفاو جفا،وصال و فراق کو صوفیہ نے یوں تبدیل کرلیا جیسے چند اصطلاحات دیکھئے، مئے عشق ومحبت،شراب خانہ یا میکدہ: عالم ملکوت، دلدادہ:عالم شہود ، خمخانہ:عالم تجلیّات، پیر خرابات: مردِ کامل، خمار: پیرومرشد، ابرو:الہام ، ہستی: مشاہدہ جمال، خط سیاہ:عالم غیب، چشم مست:سرِّالہی، زلف:عینیت کی شان، گیسو:طریق طالب شریعی، کثرت التفات، نالہ: مناجات، سخن: اشارات الہی وغیرہ(۵)۔
حضرت انواراللہ فاروقیؒ کی شاعری اپنے اعلیٰ اور ارفع تصورات واعتباراتِ عشق پر مبنی ہے جو حق تعالیٰ کی معرفت، رسولؐ اکرم کی محبت اسکی سر شاری، ذوق و وجدان سے عبارت ہے صوفیانہ رنگ شاعری خصوصاً فارسی ادب جس میں لذت ہجر، قرب کی آرزو، بے خودی، حال ووجد، استغراق ومحویت، تسلیم ورضا کے تصورات کو عاشقانہ والہانہ انداز میں پیش کیا جاتا رہا ہے۔ عہدقدیم سے ہی حضرات معروف کرخیؒ، جنید بغدادیؒ، ذو النون مصریؒ، بایزید بسطامی ، رابعہ بصریؒؔ اور دیگر بزرگان دین نے اس انداز وطریق سے اجاگر کیا کہ صوفیہ کرام میں کچھ اصحاب خوفِ خدا، مشیّت قہاریت پروردگار کے جلال پر زیادہ زور دینے لگے لیکن خدا کی محبت اسکے جمال قدرت، چاہت، عفو وکرم، فضل وعطا سے قریب ہونے والے حضرات نے اپنے ذوق و شوق کو عشق ومستی کو اپنے واردات قلبی کو شاعری کے ذریعے ظاہر کیا، اور اسی کو اپنی زندگی کا ترجمان بنادیا بعضوں نے تو توحید ومعرفت کے راز ہائے دروں کو آشکارا کرنے کی سعی بھی کی اکثر نے محض تشبیہات واستعارات پر اکتفا کیاحضرات ابوسعید ابوالخیرؔ، عراقیؔ، سنائیؔ عطارؔ و رومیؔ سعدیؔ و جامیؔ وغیرہ اسی عشق کی حرارت وسوز سے واقف اسکے نشہ سے سر شار تھے چنانچہ حضرت فضیلت جنگؒ کو بھی ہم اسی سلسلے کی ایک کڑی متصوّر کرتے ہیں حضرت علامہ نے اپنے اشعار میں اسی عشق کی گرمی کو اجاگر کرنے کی دانستہ سعی فرمائی اسکے لئے انہوں نے اپنے واردات ومعاملاتِ عشق کو شعرہی کے قالب میں ڈھالا حمد پروردگار کے یہ اشعار دیکھئے
مہر ونجوم پُر ضیاء عکسِ جمالِ یار من
درہمہ چیز برملا عکسِ جمال ِیارمن
در دلِ ودیدہ و نظر در ہمہ چیز جلوہ گر
درخور و ماہ تاسہا عکسِ جمال یارِ من
ہوش وحواس عالمے برد بیک کرشمہ
روح فزا و دل ربا عکسِ جمال یار من
حال چیگویم انورؔا تاچہ نمود لطفہا
بردز خویشتن مرا عکس جمال ِیارِ من(۶)
اسی طرح رسول اکرم ﷺ کی نعت پاک کے اظہار میں جس محبت اخلاص ،جذبہ فدویت‘ احترام وادب کو ملحوظ خاطر رکھا وہ دیدنی ہے ؎
مجسم پاکیزہ زجانی بجاں چہ گویم کہ جانِ جانی
مراچہ یارا کہ گویم آنی بردن زتخمین ہر گمانی
کلیمؑ مدہوش لن ترآنی حبیب مامور من رآنی
مرتبہ فرق درمیانی از انست ظاہر چنانکہ دانی
تو اولیں صُنعِ کبریائی محمدیؐ زانکہ دل ربائی
بہرچہ حمدت کنم سزائی کہ مبدا امر کن فکانی
زمین وافلاک فرش راہت مقام محمود جائیگاہت
ملائک وانس وجاں سپاہت تو در عوالم شہ شہانی
بہ کوئے تواو فتادہ انورؔ زکار ماندہ بہ جمال ابتر
بہ حقش اے شاہ بندہ پرور ہر آنچہ می خواہی می توانی(۷)
حضرت شیخ الاسلامؒ کی شاعری کا محور و مرکز آں رسالت مآب ﷺ کی ذات گرامی ہے آپ نے اپنے اشعار سے جس والہانہ وابستگی کا شعار بتلایا وہ دیدنی ہے سچ تو یہ ہیکہ عشق رسولؐ دیگر است والا معاملہ ہے اس غزل پر عشقِ رسولؐ کے صحیح معنوں پر غور کریں تو پتہ چلے گا کہ اصل عشق تو اتباع رسولؐ ہے حضرت مجدد الف ثانی قدس اللہ سرہ العزیز مکتوبات میں فرماتے ہیں:
’’در ہر جز کہ از اخلاق وشمائل محبوب یافتہ می شود آں چیز نیز بہ تعبیت محبوب، محبوب می گردد، وبیان ایں رمزاست در آیہء کریمہ فاتبعونی یحببکم اللہ پس در متابعت او علیہ الصلواۃ والسلام کو شیدن منبر بمقام محبوبیت آمد‘‘(۸)
ترجمہ:
’’ہر چیزجو محبوب کے اخلاق وعادات اطوار وگفتار سے علم میں آئے تقلید کی دھن میں محبوب سمجھاجائے یہی رمز اس آیت شریف میں ہے رب العزت فرماتا ہے فاتبعونی یحببکم اللہ (اگر تم خدا سے محبت کے دعویدار ہو تو تم میری اتباع کرو) ایسی صورت میں خود خدا تمکو اپنا محبوب بنالیگا‘‘
بالفاظِ دیگر تقلید واتباع ، عشق ہی کا دوسرا نام ہے چنانچہ حضرت بایزید بسطامی ؔ کی مثال یاد رہے کہ آپ اتباع رسولؐ میں اسقدر سرگرم عمل تھے اور تقلید نبوی پر ایسے کار بند کہ آپ نے ساری عمر خربوزہ اسلئے نہیں کھایا کہ آپ کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ نبی کریمﷺ نے یہ میوہ کس طرح کھایا تھا اسی کامل تقلیدکو عشق کہاجاتا ہے اور اگر تم اس عشق میں پختہ ہوجاؤ تو پھر تمہیں دنیا کی کوئی طاقت زیر نہیں کرسکتی علامہ اقبالؔ نے اپنے اشعار میں اسکی طرفداری کی ہے ؎
کیف ہا خیزد از صہبائے عشق
ہست ہم تقلید از اسمائے عشق
کامل بسطامؒ در تقلید فرد
اجتناب از خوردن خربوزہ کرد
عاشقی؟ محکم شواز تقلید یار
تاکمندِ تو شود یزداں شکار
اسی طرح حضرت شیخ الاسلامؒ کے شاعرانہ کلام کی خصوصیات کا مطالعہ کریں تو یہ وصف نمایاں اور غیر معمولی دکھائی دیگا فارسی کلام کے بعد ’’شمیم الانوار‘‘ کے اردو کلام پر نظر ڈالیں تو یہ بات واضح طور پر ہمارے سامنے آئے گی کہ حضرت شیخ الاسلامؒ نے زبان و بیان کا خیال رکھا تخیل میں پاکیزگی، لفظیات کا انتخاب، تشبیہات واستعاروں میں حسنِ سلیقہ، تلمیحات تصوف کی ندرت، شاعرانہ اصول وضوابط کی پابندی، کہیں کہیں صنائع بدائع کا وصف سلاست اور روانی کو لطف وانبساط کے ساتھ پیش کیا ہے دراصل یہی منزل شاعر کے لئے ’’الشعراء تلامیذ الرحمن‘‘ کے مصداق ہوگی کہ جس نے اپنے ضمیر کی آواز سنی، روح کی بیداری، عشق کی سر مستی والہانہ طرز اظہار، کلام کی برجستگی، تصوف کی چاشنی،علم وعرفان، پند و نصیحت، اخلاق و اخلاص کی دلآویزی مشاہدات ومکاشفات کا ذکر وغیرہ سبھی کچھ کلام کے توسط سے ایمانیات کو تروتازہ کردے، دل میں اتر جانے والی کیفیات سے ہم آہنگ ہو جس سے یقینا کہنے والے کی شخصیت اور اسکی عظمت کا اظہار ہو، دیکھا گیا ہے کہ اہل اللہ نے تہذیب انفس وآفاق کے لئے جن علمی موضوعات پر اپنا قلم اٹھا یا ہے تو پھر اس موضوع سے انصاف بھی کیا ان کی تحریروں میں ایمان وایقان کی لاتعداد شمعیں روشن وتابناک ہوجاتی تھیں جسکا مقصد عوام الناس کی اصلاح اور خواص نیز وابستگان طریقت کے راہ سلوک کی رہبری ہوتی چنانچہ حضرت شیخ الاسلام نے اسلامی تعلیمات کے مد نظر اپنے کلامِ بلاغت نظام میں اسکا خاص خیال رکھا کہ پیرایہ بیان صاف سیدھا سادہ لیکن اسلوب عالمانہ ہو آپ کے اسی رنگ وآہنگ پر گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر عبد الحمید اکبر لکھتے ہیں:
’’مولانا انواراللہ کی شاعری میں وہ تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ایک اچھے شاعر میں ہونی چاہئے انکی شاعری مجموعی طور پر صوفیانہ ہے جس میں زیادہ تر مظاہر قدرت کی عکاسی نظر آتی ہے اور یہ ہماری شاعری کا مزاج بھی رہا ہے۔ خواجہ میردردؔؔکے کلام میں صوفیانہ افکار کی جلوہ گری زیادہ ہے دردؔ کے انہی افکار کو مزید سہل بنا کر مولانا انواراللہ انورؔ نے اپنی شاعری میں پیش کیا ہے۔ علامہ انورؔ کی زبان دانی مسلم ہے انکا کلام اغلاط سے پاک ہے۔ زبان کی صفائی کے ساتھ ساتھ فصاحتِ رندانہ روز مرہ بے تکلفی انکے کلام میں دلکش پیرائے میں ملتے ہیں ان تمام مذکورہ شعری لوازمات کے پیش نظر حضرت انورؔ اپنے طرز خاص کے موجد ہیں جس میں حسن ادا کا پہلو بالکل فطری ہے‘‘(۹)
اس اقتباس کے بعد ذیل کے یہ چند اشعار دیکھئے جس سے یقینا اس امر کی توثیق ہوگی کہ حضرت ممدوحؒ کی شاعری کا دائرہ عمل خالصتاً عوامی ہے جس میں افہام وتفہیم کا وصف نمایاں اور کارگر ہوگا اور شاید یہی ان کی شاعری کا اختصاص ہے ؎
جہاں میں ہیں جلوے عیاں کیسے کیسے
ہیں اسرار دل میں نہاں کیسے کیسے
ہوئی خانہ دل کی تعمیر مٹ کر
بنے لامکاں میں مکاں کیسے کیسے
llllll
زردی رنگ وآہ و فغاں اشک و لاغری
ہے عشق و جاں گذار کی تاثیر ایک ایک
عارف کو فہم آیہء تخلیق کے لئے
اوراق گل ہیں نسحہء تفسیر ایک ایک
llllll
شرک ہر چند برملا تو نہیں
دیکھو دل میں وہ چھپ گیا تو نہیں
دل کو ہر چیز سے تعلق ہے
کہیں در پردہ دل ربا تو نہیں
llllll
کیا کرتے ہیں طے راہِ عدم آہستہ آہستہ
کھنچے جاتے ہیں اُس جانب کو ہم آہستہ آہستہ
کڑی ہیں منزلیں ہر چند راہِ عشق کی لیکن
بڑھ جاتا ہے رہرو کا قدم آہستہ ؤہستہ
llllll
رحم واظہار وفا خوئی دلارام سے دور
صبر و آسودہ دلی عاشق ناکام سے دور
جس کو دل جمعی میسر ہو جہاں میں انورؔ
مثل مرکز رہے وہ گردشِ ایام سے دور
llllll
کون جانے دے ہمیں انجمن یار کے پاس
مثل سایہ کے پڑے رہتے ہیں دیوار کے پاس
دل آشفتہ ہی رہبر ہو تو کچھ ہو ورنہ
کہیں ملتا ہے پتہ یار کا اغیار کے پاس
دل ربائی میں نیا ڈھنگ ہے انکا انورؔ
معذرت سنتے ہیںاور آکے گنہگار کے پاس(۱۰)
جب کہ ہم جانتے ہیںکہ ’’شمیم الانوار‘‘ میں شامل تمام کلام دورانِ قیام مدینہ منورہ تصنیف ہوا چنانچہ حضرت ممدوح کے ہاں مضامینِ الہیات کے ساتھ ساتھ عشق رسول اکرم ﷺ کا موضوع بھی نظر آتا ہے اس باب میں جس حزم واحتیاط سے محبت رسول سے آگاہی والہانہ ربط وتعلق واگذاشت ہوا وہ دیدنی ٹہرا، نعتِ رسول کا اہتمام عین ایمان اور خوشنودی پروردگار سے جدا نہیں اور پھر جیسا کہ مشہور ہے۔
ادب گاہیست زیرِ آسماں از عرش نازک تر
نفس گم کردہ می آید جنید وبایزید ایں جا
حضرت علامہؒ نے مکمل انہماک وابستگی کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی محبت اور آپ کے عشق کو اپنے ہی فضل و کرم لا نہایت کے تصور سے سرکار دو عالم ﷺ کے محامد و محاسن بیان کرنے کی سعی مشکور کی اس سلسلے میں حضرت علامہؒ عشق الٰہی کے ہمراہ عشقِ رسول کی دولت بے بہا و لا زوال سے اپنے قلب و روح کو مالامال کیا کیونکہ آپ جانتے تھے کہ قلب سے مراد وہ تمام فضائلِ قلبی ہیں جن میں اعلیٰ وارفع نعمت قرب و معیت آپ کا حصول شامل ہے نعت شریف کے مضامین میں قرآن واحادیث وسیرۃ مبارکہ، اخلاص نیت واسرار عارفانہ سے اظہار ہی وصف خاص ہے۔
ہر کسے رامی میکش بخوبی در جہاں
مابحمداللہ پیش شاہ خوباں آمدیم
رحمتے برحال زار ماکہ از دور و دراز
زیر بار معصیت افتاں و خیزاں آمدیم
llllll
والضحی را وجہ می یابی کہ قصد روئے کیست
معنیٔ واللیل میدانی کہ آں گیسوئے کیست
کیست آنکہ روضہ اش کروبیاں راشد مطاف
سجدہ گاہِ آسماںہا بر زمیں مشکوئے کیست
آنکہ خواندش رحمۃ اللعالمین ربّ العلی
سرّ معنی را ازاں دریاب تاہم خوئے کیست
llllll
تابعرش وفرش روداری تہ وبالاستی
ثم وجہ اللہ را یک روشو و ادراک کن
llllll
ازنگا ہم تا بطوف گنبد خضراستی
دل بصدجانست مصروفِ طواف دیدہ ام(۱۱)
فارسی کے ساتھ ساتھ حضرت شیخ الاسلامؒ نے اردو میں بھی اپنے عارفانہ کلام سے اہل عشق ومحبت، دانشوروں کو متاثر کیا ہے گو اردو اشعار (کلام) کی تعداد زیادہ نہیں لیکن اس میں سہلِ ممتنع کی سی کیفیت ملتی ہے دراصل شاعر اس حسن کے اسرار کا عارف ہے جو پیکر یا صورت میں ہوتا ہے اور جس کے بغیر حسنِ حقیقت یا حسنِ معنی تک رسائی محال ہے یہی وجہ ہیکہ علامہ کے اسلوب میں بیک وقت منطقی ترتیب اشارات، استدلال جمالیاتی تہذیب، عقیدت ومحبت کی چاشنی کا احساس نمایاں ہوگا اسکے علاوہ فکری اجتہاد واختراع کا وصف، زبان وبیان کی خوبیاں مترشح ہوتی ہیں۔ سیدھے سادے الفاظ تشبیہات و استعارات یا اور دوسری صنعتیں ان میں بڑی حکیمانہ انداز سے سموئی ہیں بالفاظ دیگر حضرت شیخ الاسلام کی شاعری دل ودماغ کو آسودہ ہی نہیں کرتی بلکہ ایمان وایقان کی منزلوں سے قریب کردیتی ہیں ان میں استفسار اور تامل کی تلقین کی تازگی اور عشق محمدی کا پاکیزہ احساس بھی ہے گو یا مومن کی فراست اسکی بصیرت، درد مندی، اخلاص، معاشرہ اسلامی کی تابناکی سبھی کچھ ہے ، چنانچہ سید الکونین سرورکائنات حضور اکرم ﷺ کے ظہور قدسی سے متعلق کس محبت ومودّت، ادب و احترام سے اشعار کہے ہیں وہ لائق تعریف وتحسین ہیں ؎
یعنی جب خالق نے چاہا غیب کا اظہار ہو
اور عبودیت کا ساری خلق میں اقرار ہو
فیض بخش کن فکاں گنجینہء اسرار ہو
کنجِ تاریکِ عدم جولاں گہِ انوار ہو
نور سے اپنے کیا اک نور پیدا بے مثال
اور محمدؐ اس کا رکھا نام حمداً لا یزال
پس وہ نورِ پاک رب العالمیں پیدا ہوئے
مبدأ کونین وختم المرسلیں پیدا ہوئے
جانِ عالم قبلۂ اہلِ یقیں پیدا ہوئے
شکرِ ایزد رحمۃ للعالمیں پیدا ہوئے
وھوم تھی عالم میں خورشیدِ کرم طالع ہوا
ہاں کریں تعظیم اب نورِ قدمِ طالع ہوا
سامعیں سے ہے توقع غور فرمائیں ذرا
تھا ذبیح اللہ کا فرحت فزا جو واقعہ
وہ معیّن روز، روزِ عید ٹہرایا گیا
تہنیت کے سب رسوم اس روز ہوتے ہیں ادا
روز میلاد نبیؐ جس میں تھا وہ کچھ اہتمام
ہو نہ کیونکر واجب تعظیم پیش حق مدام(۱۲)
حضرت شیخ الاسلام کی ہمہ جہت شخصیت، نور الہی کی روشنی ہے جو کبھی عالم، صوفی ،مصلح، عابد شب زندہ دار، فقیہ، محدث ومفسر کی حیثیت سے ابھرتی ہے تو کبھی ایک فلسفی دانشور و مفکر ادیب اور شاعر کے روپ میں اجاگر ہوتی ہے جسے ہم صاحبِ عصر رواں، نابغۂ روزگار، پیکر علم وعمل کہہ سکتے ہیں۔
عبارت مختصر! حضرت انوار اللہ فاروقیؒ کی ہستی کاشمار اردو و عربی زبان وادب کے عظیم معماروں میں ہوتا ہے مولوی اکبر الدین صدیقی اپنی کتاب ’’مشاہیر قندھار‘‘ میں شیخ الاسلام کے بارے میں لکھتے ہیں۔
’’مولانا کی زندگی کے واقعات کا مطالعہ کرنے کے بعد ان کی عدم الفرصتی کا اندازہ لگا یا جاسکتا ہے لیکن اس پر بھی مولانا اپنے وقت کے سب سے بڑے مصنف ہیں آپ نے جتنی کتابیں اس زمانے میں لکھیں ان سے حیدرآباد کی ادبیات میں انقلاب پیدا ہوگیا‘‘(۱۳)۔
مزید حضرت ممدوح کی طبیعت میں ادبیت اور شعریت کی ایک موزونیت ملتی ہے۔ اپنی علمی دینی اور مذہبی مصروفیات کے باوجود شاعری سے رغبت یقینا اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اگر وہ اس جانب سنجیدگی سے توجہ کرتے تو ایک غیر معمولی شاعر ہوتے پھر بھی جسقدر کلام دستیاب ہے اس کے مطالعہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ اپنی فکرِ صحیح، تخیل کی پاکیزگی کے ہمراہ کلام اللہ کی وضاحت کرتے ہیں۔ قرآنی آیات ، احادیث شریفہ کا بر محل استعمال انکے اسلوب کی پہچان بن گیا اپنی اس گفتگو کو حضرت علامہ کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں ؎
مراد ونامرادی عاشقوں کے پاس ہیں یکساں
وہ کب تعجیل کا شوق اور غمِ تاخیر رکھتے ہیں(۱۴)
حواشی و حوالہ جات
(۱)ڈاکٹر جمیل جالبی،تاریخ ادب اردو ص ۲۴۸۔
(۲) حضرت شیخ الاسلام،انوار احمدی،ص د ، مجلس اشاعۃ العلوم حیدرآباد۔
(۳) حضرت شیخ الاسلام، انوار احمدی،ص ۳۳۱، مجلس اشاعۃ العلوم، حیدرآباد۔
(۴)ڈاکٹر سید محی الدین قادری زورؔ، داستاں ادب حیدرآباد ، ص ۱۷۳
(۵)خیام شبلی بی کام، جون۱۹۴۲ء، لاہور، پاکستان۔
(۶): حضرت شیخ الاسلام، شمیم الانوار،ص۵، مطبوعہ۱۳۳۶ھ، مجلس اشاعۃ العلوم شبلی گنج حیدرآباد
(۷) حضرت شیخ الاسلام، شمیم الانوار،ص۹، مطبوعہ۱۳۳۶ھ، مجلس اشاعۃ العلوم شبلی گنج حیدرآباد
(۸)حضرت مجدد الف ثانی،مکتوبات دفتر اول مکتوب ۱۴، ص۵
(۹) ڈاکٹر عبدالحمید اکبر،حضرت مولانا انواراللہ فاروقی شخصیت علمی وادبی کارنامے ،ص ۳۰۱
(۱۰) حضرت شیخ الاسلام، شمیم الانوار، ص۳۲، مطبوعہ۱۳۳۶، مجلس اشاعۃالعلوم، حیدرآباد
(۱۱) حضرت شیخ الاسلام، شمیم الانوار،ص۱۶، مطبوعہ۱۳۳۶ھ مجلس اشاعۃ العلوم،حیدرآباد
(۱۲) حضرت شیخ الاسلام، انوار احمدی، ص۳۳۶ ،مطبوعہ ، مجلس اشاعۃ العلوم، حیدرآباد
(۱۳) اکبرالدین صدیقی، مشاہیر قندہار، ص،۱۰۰
(۱۴) حضرت شیخ الاسلام، شمیم الانوار،ص۳۱، مطبوعہ۱۳۳۶ھ، مجلس اشاعۃ العلوم،حیدرآباد
٭٭٭٭
اردو شعر وادب کے فروغ میں فرزندان جامعہ نظامیہ کا حصہ
جامعہ نظامیہ نے صرف دین کی ہی نہیں اردو ادب کی بھی خدمت کی ہے اس جامعہ سے فیض یاب ہونے والے کئی مشہور شاعر ہیں جن میں خاص طور پر امجدؔ حیدرآبادی صفیؔ اورنگ آبادی‘ علی افسرؔ (شاعر محمد نامہ) ابو زاہد یحی قدرؔ عریضی وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
زیر نظر کتاب حضرت شیخ الاسلام ؒکے ادبی وشعری تسلسل کی ایک زرین کڑی ہے جس میں آپ کے بناکردہ دبستان علم وادب جامعہ نظامیہ کے فرزندوں کی اردو شعر وادب کے میدان میں خدمات کا وسیع پس منظر میں جائزہ کی کوشش کی گئی ہے۔ جامعہ کی ادبی تاریخ میں بلا مبالغہ یہ ایک اولین کوشش ہے۔ جس کے نتیجہ میں عوام اور ارباب علم وفضل بالخصوص اردو دنیا کے سامنے جامعہ کی ادبی خدمات کے وہ گوشے آگئے جو اب تک اوجھل رہے ۔
اس کتاب کے ذریعہ علمی دنیا میں جہاں اردو زبان وادب کے نئے گوشوں‘ اسالیب اور شعری آہنگ کا انکشاف ہوگا وہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ حضرت صفیؔ‘ حضرت امجد‘ؔ حضرت روحیؔ قادری، ابن احمد تابؔ، حامد تنویرؔ، علی افسرؔ اسد انصاری، جیسے قد آور بلند پایہ شاعروں کا علمی وادبی تعلق مرکز علم وفن ’’جامعہ نظامیہ‘‘ سے رہا ہے اور وہ اس کے فیض یافتہ فرزند ہیں، جس کے ثبوت میں ’’دکن میں اردو‘‘ مؤلفہ جناب نصیر الدین ہاشمی ’’تلامذہ صفی‘‘ مؤلفہ جناب محبوب علی خاں اخگرؔ قادری ’’جنوبی ہند میں رباعی گوئی‘‘ جناب سید مظفر الدینؔ صاحب حیدرآبادی اور ’’سخنوران دکن‘‘ مؤلفہ تسکینؔ عابدی جیسی تاریخی اور مستند ومعتبر کتب کے حوالے دئے گئے ہیں۔
اس کتاب کی اشاعت مجلس اشاعۃ العلوم جامعہ نظامیہ حیدرآباد کے زیر اہتمام عمل میں آئی، اردو اکیڈمی آندھرا پردیش نے جزوی تعاون کے علاوہ مولف مولانا محمد فصیح الدین نظامی کو ادبی توصیفی ورقمی ایوارڈ عطا کیا۔٭