کفر کی اقسام میں سے چند یہ ہيں:
٭۔۔۔۔۔۔انسان مستقبل قریب یابعید میں کفر یا شرک کرنے کا عزم کرے۔
٭۔۔۔۔۔۔زبان یا دل سے کسی کفر کو اچھا جانے اگرچہ وہ چیز ظاہرًا محالِ عقلی ہی کیوں نہ ہو، اس صورت میں وہ فورًا ہی کافر ہوجائے گا ۔
٭۔۔۔۔۔۔ایسی چیز کا عقیدہ رکھے یاایسا کام کرے یا ایسی بات کہے جو کفر کو واجب کرتی ہو اگرچہ اس کا عقیدہ رکھتے ہوئے کہے یا عنادکے طور پریا پھر استہزاء کے طور پر کہے، مثلاً کوئی شخص عالَم(یعنی کائنات) کے قدیم ہونے کاعقیدہ رکھے، اگرچہ کائنات کو نوعی طور پر قدیم جانے۔
٭۔۔۔۔۔۔ایسی بات کی نفی کرے جس کا ثبوت اللہ عزوجل کے لئے اجماع سے ثابت ہو اور اس کا ضرویارتِ دین سے ہونا بھی معلوم ہو جیسے ذات باری تعالیٰ کی صفات اصلیہ مثلا ًاس کے علم اور قدرت کا انکار کرنا یا اللہ عزوجل کے جزئیات کے عالِم ہونے کا انکار کرنا۔
٭۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کے لئے ایسی چیز کو ثابت کرے جس کا اللہ عزوجل کے لئے منع ہونا ضروریات دین سے ہوجیسے رنگ، روپ وغیرہ ثابت کرنا یا یہ کہنا کہ وہ عالَم کے ساتھ متصل ہے یا ایک اختلافی مسئلہ کے مطابق عالَم سے خارج ہے۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اللہ عزوجل کی ذات کو نقص سے متصف کرنے کااعتقادیاتوصراحتاًرکھے یاایسی بات کااعتقادرکھے جس سے نقص لازم آتاہو، لہٰذا پہلی صورت بالاجماع کفر ہے اور دوسری کے کفر ہونے میں اختلاف ہے، جبکہ ہمارے نزدیک صحیح ترین قول کے مطابق یہ دوسری صورت کفر نہیں، لہٰذا معلوم ہوا کہ اللہ عزوجل کو مجسَّم یا جوہر کہنے والے کے قول سے اللہ عزوجل پر جو نقص لازم آتاہے اس بناء پر اس کی تکفیر نہیں کی جائے گی مگر جب وہ اس نقص کا اعتقاد رکھے یا اس کی صراحت کردے تواس صور ت میں اس کی تکفیر کی جائے گی،اور اسی طرح انسان کا کسی مخلوق مثلاً سورج کو سجدہ کرنا بشرطیکہ اس کے عذر پرکوئی ظاہری قرینہ دلالت نہ کررہا ہو تو اس کی بھی تکفیر نہیں کی جائے گی۔ ( ظاہری قرینے کے اس کے عذر پر دلالت نہ کرنے کی یہ قید آئندہ آنے والے بیشتر مسائل میں بھی آئے گی۔)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔نیز یہ اُصول ہے کہ ہروہ شخص جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے بارے میں مسلمانوں کا اجماع ہو کہ یہ کام کافر ہی سے صادر ہوسکتاہے تو ایساکام کرنا بھی کفرہے اگرچہ وہ اپنے مسلمان ہونے کی صراحت ہی کیوں نہ کرتاہو۔ جیسے کفار کے ساتھ ان کا مذہبی لباس مثلا ًزنار وغیرہ پہن کران کے عبادت خانے کی طرف جانا یاکسی ایسے کاغذ کو نجاست (یعنی گندگی) میں ڈال دینا جس میں قرآن پاک، علمِ شرعی یا اللہ عزوجل کانام بلکہ کسی نبی یا فرشتے کا نام بھی لکھا ہوا ہو۔
بعض علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :”ان اشیاء کو ایسی گندگی میں ڈالنا بھی کفر ہے جو پاک ہوجیسا کہ مَنِیْ(جوکہ شوافع کے نزدیک پاک ہے)، رینٹھ یا تھوک میں ڈال دینا یا ان ناموں یا مسجد کوگندگی سے آلودہ کرنا بھی اسی طرح ہے اگرچہ وہ نجاست اتنی قلیل ہی کیوں نہ ہوجس کی شریعت مطہرہ میں معافی ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ جس نبی کی نبوت پر اجماع ہے اس کی نبوت میں شک کرنا بھی کفر ہے، اس لئے چونکہ حضرت سیدنا خضر علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت سیدنا خالد بن سنان علیٰ نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کی نبوت میں اختلا ف ہے لہٰذا ان کی نبوت کا انکار کفر نہیں،
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔ جس کتاب کے منزل من اللہ تعالیٰ ہونے پر اجماع ہے جیسے تورات یا انجیل، حضرت سیدنا داؤد علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زبور یاحضرت سیدنا ابراہیم علی نبینا و علیہ الصلوٰۃ والسلام کے صحیفے یا جس آیت کے قرآن ہونے پراجماع ہے جیسے معو ّذتین(یعنی سورۃ فلق اور سورۃ ناس)، لہٰذا ان میں سے کسی کے کلامِ الٰہی عزوجل ہونے میں شک کرنا بھی کفر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ ہر اس شخص کی تکفیر میں شک کرنا بھی کفر ہے جس کی بات سے ساری اُمت کے گمراہ ہونے کا تأثرملتا ہو۔
٭۔۔۔۔۔۔نیز صحابہ کرام علیہم الرضوان کو کافر کہنے والے کے کفر میں شک کرنابھی کفر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ مکہ مکرمہ ، خانہ کعبہ یا مسجد حرام کے وجود میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ حج کے طریقہ یااس کی معروف صورت نیز نماز اور روزے کی کیفیت وہیئت میں شک کرنے والا بھی کافر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ایسے حکمِ شرعی میں شک کرنا بھی کفر ہے جس کے ضروریاتِ دین ميں سے ہونے پر اجماع ہو اوروہ مشہور ہو جیسے ٹیکس کی حرمت (اس کی تفصیل کبیرہ نمبر۱۳۱میں دیکھئے)یا سنتوں کی مشروعیت جيسے عید کی نماز وغیرہ میں شک کرنا۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔ کسی ایسی حرام چیز کو حلا ل سمجھنے والے کے کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے جس کی حرمت کا ضروریاتِ دین سے ہونا مجمع علیہ اور مشہور ہو، جیسے وضوکے بغیر نماز پڑھنا، البتہ اگر کوئی شخص نجاست و پلیدگی کے ساتھ نماز پڑھے تو اس کے کفر میں اختلاف ہے ۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی مسلمان یا ذمی کافر کو بلاعذر شرعی جائز سمجھتے ہوئے ایذاء دینا بھی کفر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ کسی حلا ل کو حرام سمجھنے والے کے کفر میں شک کرنابھی کفر ہے جیسے خرید وفروخت یا نکاح کو حرام کہنا۔
٭۔۔۔۔۔۔ اللہ کے محبوب، دانائے غیوب ،منزہ عن العیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بارے میں یہ کہنے والے کے کفر میں شک کرنا بھی کفر ہے کہ معا ذاللہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کارنگ مبارک سیاہ تھا یا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا وصال داڑھی نکلنے سے پہلے ہی ہو گیا تھا یا آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم معاذا للہ قرشی، عربی یا انسان نہیں تھے، کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو ایسے وصف سے موصوف کرنا جو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم میں نہ ہو آپ کی تکذیب کے مترادف ہے۔
اس سے یہ قاعدہ ثابت ہوتا ہے :”ہروہ وصف جس کے دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے ثبوت پرامت کا اجماع ہو اس کا انکار کفر ہے۔” جیسے
٭۔۔۔۔۔۔کوئی بدبخت خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے بعد کسی نبی کے مبعوث ہونے کو جائز مانے۔
یا اس طرح کے کلمات کہے :
٭۔۔۔۔۔۔” میں نہیں جانتا کہ یہ نبی وہی ہیں جو مکہ میں پیدا ہوئے اور مدینہ میں پردہ فرما گئے یا کوئی اور ہیں۔”
٭۔۔۔۔۔۔”نبوت کسبی ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔”دل کی صفائی سے نبوت کے مرتبہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”ولی نبی سے افضل ہوتا ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”میری طرف وحی آتی ہے۔” اگرچہ وہ نبوت کادعوی نہ بھی کرے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”میں مرنے سے پہلے جنت میں داخل ہوجاؤں گا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یاکوئی بدبخت شخص اللہکے محبوب، مُنَزَّہ عن العُیوب عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی ذاتِ ستودہ صفات میں یا کسی دوسرے نبی بلکہ فرشتوں میں بھی کوئی عیب تلاش کرے۔
مثال کے طور پر:
٭۔۔۔۔۔۔اُن پر لعنت بھیجے ۔۔۔۔۔۔یا گالی دے۔۔۔۔۔۔ یاا ن کو حقیر جانے ،
٭۔۔۔۔۔۔ ان کا یاان کے کسی فعل کا مذاق اڑائے جیسے انگلیاں چاٹنے کا مذاق اڑائے ،
٭۔۔۔۔۔۔ ان کی ذات ، نسب ، دین یا کسی فعل کو ناقص کہے ،
٭۔۔۔۔۔۔ نقص کی تعریض کرے ،
٭۔۔۔۔۔۔ انہیں عیب لگاتے ہوئے کسی چیز سے تشبیہ دے ،
٭۔۔۔۔۔۔ ان کی تصغیر کرے یعنی انہیں چھوٹاسمجھے یا( زبان سے )کہے ،
٭۔۔۔۔۔۔ ان کی قدر گھٹائے ،
٭۔۔۔۔۔۔ان کے نقصان کی تمناکرے ،
٭۔۔۔۔۔۔ان کی برائی کے طور پر ان کی جانب کوئی ایسی بات منسوب کرے جو ان کی شان کے لائق نہ ہو ،
٭۔۔۔۔۔۔ ان کی کسی بات کو ناقص، ہذیان اور جھوٹ کہہ کران کی توہین کرے ،
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔یاایسی بات کہے جس میں ان کی کسی آزمائش یا ان کے بعض جائز عوارضِ بشریہ کو حقیر جاننا پایا جائے تویہ سب صورتیں بالاجماع کفر ہیں اور ان کے قائل کوقتل کیا جائے گا اوراکثر علماء کرام رحمہم اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی۔
حضرت سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک ایسے شخص کو قتل کر دیا تھا جس نے تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے” تمہارا صاحب” کہا تھا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس شخص کے اس کلمہ کو مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی توہین قرار دیتے ہوئے اسے قتل کردیا۔
٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح کفر پر راضی ہونا اگرچہ ضمناً ہی کیوں نہ ہو جیسے کوئی کافر کسی مسلمان سے اپنے اسلام لانے کے بارے میں مشورہ چاہے یا نہ چاہے اور وہ مسلمان اسے یہ کہے :”مسلمان مت ہونا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا کا فرنے اس سے کہا کہ مجھے کلمہ پڑھا دو تو اس نے کلمہ پڑھانے میں تاخیر کی، مثلاً خطیب نے کہا :”صبر کرو میں خطبہ سے فارغ ہو جاؤں پھر کلمہ پڑھاؤں گا۔”
٭۔۔۔۔۔۔بددعا میں یہ معاملہ نہیں جیسے کسی کو بددعا دی کہ اللہ عزوجل اسے ایمان نصیب نہ فرمائے ،
٭۔۔۔۔۔۔یا اللہ عزوجل اسے کفر پر قائم رکھے ،
٭۔۔۔۔۔۔یا اللہ عزوجل فلاں مسلمان کا ایمان چھین لے جبکہ ان صورتو ں میں اس پر سختی کا ارادہ ہو۔
٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح کسی مسلمان کے لئے کفر کا سوال کرنا بھی کفر ہے کیونکہ یہ کفر پر راضی ہونا ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح کسی مسلمان کو بغیر تاویل کے کافر کہہ کر پکارنے سے قائل خود کافر ہو جائے گا کیونکہ اس نے اسلام کو کفر کہا۔ ٭۔۔۔۔۔۔یا اللہ عزوجل کے کسی اسم یا اس کے کسی نبی کے نام کا مذاق اُڑانا مثلا ًاس کی تصغیر کرنا ۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔یاان کے کسی امرو نہی، وعدہ یا وعید کا مذاق اڑانا جیسے کوئی کہے :”اگر اللہ عزوجل بھی مجھے فلا ں کام کرنے کا حکم دے تب بھی میں اسے نہیں کروں گا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا کہے ”اگر فلاں جگہ کو قبلہ بنا دیا جائے تو میں اس کی طرف رُخ کر کے نماز نہیں پڑھوں گا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا استخفاف وعناد کے طور پر کہے :”اگر مجھے جنت عطا فرمادی تب بھی میں اس میں داخل نہ ہوں گا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یایہ کہنا :”اگر اللہ عزوجل نے میرے مرض یا تنگدستی کے باوجود نماز نہ پڑھنے پر میری پکڑ فرمائی تو اس نے مجھ پرظلم کیا۔”
٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح اگر کسی مظلوم نے ظالم سے یہ کہا :”کیا یہ ظلم اللہ عزوجل کی تقدیر سے ہے۔” تو ظالم نے جواب دیا کہ ”میں اللہ عزوجل کی تقدیر کے بغیر یہ کام کرتا ہوں۔”تو ظالم کافر ہوجائے گا۔
٭۔۔۔۔۔۔یا یہ کہنا :”اگر کوئی فرشتہ یانبی بھی میرے پاس آ جائے تب بھی میں اس کی تصدیق نہ کروں گا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا یہ کہنا :”اگر فلاں شخص نبی بھی ہوتا تو میں اس پر ایمان نہ لاتا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا یہ کہنا :” نبی نے جو کہاہے اگر وہ سچ ہے تو ہم نجات پا جائیں گے۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا ان پرجھوٹ کا الزام لگایا تویہ بھی کفر ہے کیونکہ اس میں مرتبۂ نبوت کی تنقیص ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔یا اسے کہاگیا :”اپنے ناخن کاٹ لوکہ یہ سنت ہے۔” تو اس نے استہزاء کے طور پرکہا :”میں ایسا نہیں کروں گا اگرچہ یہ سنت ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا یہ کہے :”لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہِ پڑھنے سے بھوک نہیں مٹتی۔”
٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح دیگر اذکار کے بارے میں یہ جملہ کہنے کا بھی یہی حکم ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔یا( اذان کے کلمات کے بارے میں اس طرح )کہنا :”مؤذن جھوٹ بولتا ہے ۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا کہے :”مؤذن کی آواز گھنٹے کی آواز جیسی ہے۔” او راس قول کے ذریعے کفر کے ناقوس سے تشبیہ کا ارادہ کرے یا اذان کے استخفاف کی نیت کرے ۔
٭۔۔۔۔۔۔اسی طرح بطوراستہزاء کسی حرام چیزپر اللہ عزوجل کا نا م لے جیسے شراب پیتے وقت بسم اللہ پڑھے ۔
٭۔۔۔۔۔۔یا استہزاء کے طور پر کہے :”میں محشر یا قیامت سے نہیں ڈرتا۔”
٭۔۔۔۔۔۔یہ کہنا :”اللہ عزوجل بھی چور کو تلاش نہیں کر سکتا۔” تو چونکہ اس نے عجز کو اللہ عزوجل کی طرف منسوب کیالہٰذا یہ کفر ہے ۔
٭۔۔۔۔۔۔یا علماء، واعظین اورمعلِّمین کو حقیر جانتے ہوئے ان کا بھیس بدل کر کسی جماعت کے پاس آیا تا کہ وہ اس پر ہنسیں یا کھیل کود کریں ۔
٭۔۔۔۔۔۔یا علم کو ہلکا جانتے ہو ئے کہنا :”ثرید کا پیالہ علم سے بہتر ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔کسی شخص کا مرض شدت پکڑ گیا یا بیٹا مرگیا تو وہ کہے :”یا رب عزوجل! اگر تو چاہے تو مجھے کافر بناکرمار یا مسلمان بنا کر۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔یا کہے :”تو نے میرا بیٹا لے لیا تو اب باقی کیابچا تُو نے ایسا کیوں کیا؟”
٭۔۔۔۔۔۔کسی شخص سے کہا گیا: ”اے کافر!” اس نے اپنے کافر ہونے کی نیت سے ”جی” کہا تو کافر ہے اور اگر صرف جواب کی نیت سے کہا تو کافرنہیں۔
٭۔۔۔۔۔۔درہم ملنے کی امید پر پہلے کفر کی تمنا کی پھر اسلام کی۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی ایسی چیز کے حلال ہونے کی تمنا کرنا جو کسی زمانہ میں بھی حلال نہ تھی جیسے قتل ، زنا ، ظلم وغیرہ۔
٭۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کی طرف بعض اشیاء کو حرام فرمانے کی وجہ سے ظلم کی نسبت کرنا۔
٭۔۔۔۔۔۔اگر کسی شخص نے کُفَّار کے دین کی طرف مائل ہو کر ان کا لباس پہنا تو وہ کافر ہوگیا۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے کہا: ”یہودی مسلمانوں سے اچھے ہیں۔” تو وہ کافر ہے اور اگر نصاریٰ کو مجوسیوں سے اچھا کہا تو کافر نہیں لیکن اگر حقیقت کے اعتبار سے کہا تو کافر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے چھینکنے والے عمر رسیدہ شخص سے کہا ”یَرْحَمُکَ اللہُ” تو کسی نے اس سے کہا: ”ایسا مت کہو۔”ا گر ارادہ یہ تھا کہ یہ رحمت سے بے نیاز ہے تو یہ کفرہے۔
٭۔۔۔۔۔۔غلام نے کہا: ”میں نماز نہیں پڑھوں گا کیونکہ ثواب تو میرے آقا کو ملے گا۔” اس کے کفرہونے میں اختلاف ہے کیونکہ ایسی باتوں کی قباحت سے اکثر غلام جاہل ہوتے ہیں لہٰذا یہ کلام غلاموں کے بارے میں نہیں بلکہ حکم شرعی جاننے والے لوگو ں سے متعلق ہے، لہٰذامسئلہ جاننے کی صورت میں اس کے کفریہ جملہ ہونے میں کوئی اختلاف نہیں۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی سے پوچھا گیا: ”ایمان کیا ہے؟” اس نے استخفافاً کہا :”میں نہیں جانتا۔”
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے اپنی بیوی سے کہا: ”تو مجھے اللہ عزوجل او راس کے رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے زیادہ محبوب ہے۔” تو اگر محبتِ تعظیمی کا ارادہ تھا تو کافر ہے اور اگر میلانِ قلبی مراد تھا تو کفر نہیں ۔ جیسا کہ بخاری شریف کی شروحات میں مذکور ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صحابی ہونے کا منکر اور حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا پر تہمت لگانے والا بھی کافر ہے کیونکہ یہ قرآن کریم کو جھٹلانے والا ہے البتہ دیگر صحابہ کرام علیہم الرضوان کے صحابی ہونے کا انکار کرنا کفر نہیں۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے کہا :”میں ہی اپنے افعال کا خالق ہوں۔” اور وہ معنی مراد نہ لیا جو معتزلہ لیتے ہیں تو ایسا کہنے والا کافر ہے ۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے کہا: ”میں اللہ ہوں۔” اگرچہ مِزاح میں کہا کہنے والا کافر ہو گیا۔
٭۔۔۔۔۔۔اللہ عزوجل کے فرائض کا انکار کرتے ہوئے کہا:”میں اللہ عزوجل کے حق کو نہیں جانتا۔” تو ایسا کہنے والا کافر ہے۔
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے جھوٹ بول کر کہا،”اللہ جانتا ہے کہ میں نے یہ کام کیا ہے۔” تو وہ کافر ہے کیونکہ اس نے اللہ عزوجل کی طرف جہالت کو منسوب کیا۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے کہا: ”قرآن کریم، نماز یا ذکر یا ایسی ہی کسی عبادت سے میرا دل بھر گیاہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔یا کہا: ”محشر کیا ہے؟، جہنم کیا ہے؟”
٭۔۔۔۔۔۔یا گناہ کرکے کہا :”میں نے کیا کیا ہے؟”
٭۔۔۔۔۔۔کسی کو علم کی مجلس میں حاضر ہونے کی دعوت دی گئی تو اس نے کہا :”علم کی مجلس میں آ کر کیاکروں گا۔”ان سب صورتوں میں اگر استخفا ف کی نیت تھی تو کہنے والا کافر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی نے کہا :”اللہ عزوجل ہر عالِم پر لعنت فرمائے۔” تو اگر استغراق کی نیت نہ تھی تو کفر کے لئے استخفاف کی نیت شرط ہے اور اگر استغراق کی نیت تھی تو استخفاف کی نیت نہ بھی ہو تب بھی کافر ہے کیونکہ اس صورت میں انبیاء وملائکہ بھی اس کی زدمیں آجائیں گے۔
٭۔۔۔۔۔۔کسی عالِم کا فتویٰ پھینک دیا۔
نیز اس طرح کہنے سے بھی کافر ہوجائے گا:
٭۔۔۔۔۔۔”یہ شریعت کیا چیز ہے؟” تو اگر استخفاف کی نیت تھی تو کہنے والا کافر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔ کسی فقیہ کے بارے میں کہا :”یہ وہی چیز ہے۔” اگر علم کے استخفا ف کی نیت تھی تو کفر ہے۔
٭۔۔۔۔۔۔”روح قدیم ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”جب ربوبیت ظاہر ہوگئی تو بندگی مٹ گئی۔” اور اس سے مراد یہ لیاکہ شریعت کے احکام اٹھ گئے۔
٭۔۔۔۔۔۔”میں اپنی ناسوتی یعنی بشری صفات سے لاھوتی (یعنی الہی صفات) میں فنا ہو گیا ہوں۔
٭۔۔۔۔۔۔”میری صفات صفاتِ حق میں بدل گئی ہیں۔”
٭۔۔۔۔۔۔”میں اللہ عزوجل کو دنیا میں عیاں دیکھتا ہوں۔”
٭۔۔۔۔۔۔”میں اللہ عزوجل سے آمنے سامنے کلام کرتا ہوں۔”
٭۔۔۔۔۔۔”اللہ عزوجل ایک حسین صورت میں حلول کر گیا ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”اس نے مجھ سے شرع کی تکلیف ساقط کر دی ہے۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
٭۔۔۔۔۔۔ کسی سے کہا :”مخفی عمل کے حصول کے لئے ظاہری عبادات چھوڑ دے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”گانا سننا دین میں سے ہے ۔”
٭۔۔۔۔۔۔”گانا دلوں میں قرآن سے زیادہ اثر کرتا ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”بندہ اللہ عزوجل کا وصال عبادت کے بغیر بھی حاصل کر لیتا ہے۔”
٭۔۔۔۔۔۔”روح اللہ عزوجل کا نور ہے لہٰذا نور جب نور کے ساتھ ملتاہے تو ایک ہو جاتا ہے۔” یہ تمام صورتیں کفر ہیں۔
ان کے علا وہ بہت سی فروع رہ گئیں جنہیں میں نے تفصیلی کلام کے ساتھ گذشتہ بیان کردہ قیودات، اختلاف وبحث اور مذاہبِ اربعہ کے نزدیک تمام اقوال کو جمع کر دیا ہے بلکہ ہر اس بات کو جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کفر ہے اگرچہ وہ ضعیف قول کے مطا بق ہی کیوں نہ ہو اپنی کتاب ”اَلْاِعْلَامُ بِمَا یَقْطَعُ الْاِسْلَامَ” میں جمع کردیا ہے کوئی طالب علم اس کتاب سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔
گذشتہ صفحات میں بیان کیا جا چکا ہے کہ جس نے اپنے مسلمان بھائی کو ”اے کافر” کہہ کر پکارا تو شرط پائے جانے یعنی مخاطب کے کافر نہ ہونے کی صورت میں کہنے والا کافر ہو جائے گا اور اسی طرح جس نے کہاکہ ”فلاں ستارے کی وجہ سے ہمیں بارش حاصل ہوئی۔” تو اگر یہ ارادہ کیا کہ فلا ں ستا رے کوتاثیر کی قوت حاصل ہے تو یہ کہنے والا کافر ہے ۔چنانچہ،
(29)۔۔۔۔۔۔ دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”آدمی جب اپنے بھائی سے کہتاہے :”اے کافر!” تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے اگر جسے کافر کہا گیا وہ کافر تھا (تو ٹھیک) ورنہ کفراس کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گا۔”
(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال الاکمال،الحدیث:۸۲۷۵،ج۳،ص۲۵۴)
(30)۔۔۔۔۔۔ رسولِ بے مثال، بی بی آمنہ کے لال صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو آدمی کسی شخص کے کافر ہونے کی گواہی دیتاہے تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے اگر وہ شخص جسے کافر کہا گیا، واقعی اس کے کہنے کے مطابق کافر تھا تو صحیح ہے اور اگر وہ کافرنہ تھا تو اسے کافر کہنے کی وجہ سے کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔”
(المرجع السابق، الحدیث:۸۲۷۶)
(31)۔۔۔۔۔۔ خاتَمُ الْمُرْسَلین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”دومسلمانوں کے درمیان اللہ عزوجل کی جانب سے ایک پردہ ہے لہٰذا جب ان میں سے کوئی ایک اپنے دوست سے کہتا ہے کہ مجھ سے جدا ہو جا تو وہ اللہ عزوجل کے اس پردے کو پھاڑ دیتا ہے اور جب اسے ”اے کافر” کہتاہے تو ا ن دونوں میں سے ایک شخص کافر ہو جاتا ہے۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۰۵۴۴،ج۱۰،ص۲۲۴)
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(32)۔۔۔۔۔۔ سیِّدُ المُبلِّغین، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب آدمی اپنے بھائی کو ”اے کافر” کہہ کر پکارے تو گویا اس نے اسے قتل کر دیا اور مؤمن پر لعنت بھیجنا بھی اسے قتل کرنے کے مترادف ہے۔” (المعجم الکبیر،الحدیث:۴۶۳،ج۱۸،ص۱۹۴)
(33)۔۔۔۔۔۔شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جومسلمان کسی مسلمان کی تکفیر کرتا ہے تو اگر وہ واقعی کافر ہے (تب تو ٹھیک ہے)ورنہ کہنے والا خود کافر ہو جاتا ہے۔”
(سنن ابی داؤد، کتاب السنۃ ، باب الدلیل علی زیادۃ الایمان ونقصانہ،الحدیث:۴۶۸۷،ص۱۵۶۷)
(34)۔۔۔۔۔۔مَحبوبِ ربُّ العلمین، جنابِ صادق و امین عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جس نے کہا :”میں اسلام سے بیزار ہوں۔” تو اگر وہ جھوٹا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسا اس نے کہااور اگر سچا ہے تو بھی سلامتی کے ساتھ اسلام میں نہ لوٹ سکے گا۔’
(صحیح ابن ماجہ،کتاب الکفارات، باب من حلف بملۃ غیر الاسلام،الحدیث:۲۱۰۰،ص۲۶۰۳)
(35)۔۔۔۔۔۔حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب کسی نے اپنے بھائی کو ”اے کافر” کہہ کر پکارا توان دونوں میں سے ایک شخص کافر ہو جاتا ہے۔”
(صحیح البخاری، کتاب الادب،باب من اکفراخاہ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۶۱۰۳،ص۵۱۵)
(36)۔۔۔۔۔۔ مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والوں سے رک جاؤ، کسی گناہ کی وجہ سے انہیں کافر نہ کہو کیونکہ جو لَااِلٰہَ اِلَّا اللہُ پڑھنے والو ں کی تکفیر کریگا وہی کفر سے زیادہ قریب ہو گا۔”
(المعجم الکبیر،الحدیث:۱۳۰۸۹،ج۱۲،ص۲۱۱)
(37)۔۔۔۔۔۔ مَحبوبِ رَبُّ العزت، مُحسنِ انسانیت عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جو شخص اپنے بھائی کو کافر کہہ کر پکارتا ہے تو ان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے، اگر ایسا ہی تھا جیسا اس نے کہا (تو درست ہے) ورنہ کفر کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گا۔”
(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب حال ایمان من قال لاخیہ۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۱۶،ص۶۹۰)
(38)۔۔۔۔۔۔ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب بھی کوئی شخص کسی کو کافر کہتا ہے توان دونوں میں سے ایک کافر ہو جاتا ہے۔”
( صحیح ابن حبان،کتاب الایمان،فصل۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۴۸،ج۱،ص۲۳۴)
(39)۔۔۔۔۔۔صاحبِ معطَّر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”اللہ عزوجل جب بھی آسمان سے کوئی برکت نازل فرماتا ہے تو لوگوں کا ایک گروہ اس کے سبب کفر کر بیٹھتا ہے، اللہ عزوجل بارش نازل فرماتا ہے تو وہ لوگ کہتے ہیں کہ فلاں فلا ں ستارے کی وجہ سے ہم پر بارش ہوئی۔”
(adsbygoogle = window.adsbygoogle || []).push({});
(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان کفر من قال مطرنا۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۳۳،ص۶۹۲،بدون ”مطرنا”)
(40)۔۔۔۔۔۔نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ کیا تم نہیں جانتے کہ تمہارا رب عزوجل کیا فرماتا ہے ؟ وہ فرماتا ہے :”جب بھی میں اپنے بندوں پر کوئی انعام فرماتا ہوں تو اس کی وجہ سے ان میں سے ایک گروہ کافر ہو جاتا ہے۔” وہ گروہ کہتا ہے :”یہ فلاں ستارے نے کیاہے یا فلاں ستارے کی وجہ سے یہ نعمت ملی ہے۔”
(المسندلامام احمد بن حنبل،مسند ابی ہریرہ ، الحدیث:۸۷۴۷،ج۳،ص۲۸۶)
(41)۔۔۔۔۔۔ دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ کیا تم جانتے ہو کہ آج رات تمہارے رب عزوجل نے کیا ارشاد فرمایا ہے؟ اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا ہے :”میرے کچھ بندے مؤمن ہوئے اور کچھ کافر، جو یہ کہتے ہیں کہ ہمیں فلاں فلاں ستارے کی وجہ سے بارش دی گئی وہ میرا انکار کرنے والے اور ستاروں پر ایمان لانے والے ہیں ۔”
(صحیح البخاری ، کتاب الاذان ، باب یستقبل الامام الناس اذا سلم ، الحدیث:۸۴۶،ص۶۷)
(42)۔۔۔۔۔۔ سرکارِ والا تَبار، بے کسوں کے مددگارصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”جب تک میری اُمت کو ستارے گمراہ نہ کر دیں وہ ہمیشہ اپنے دین پرقائم رہے گی۔”
(کنزالعمال،کتاب الاخلاق،قسم الاقوال الاکمال،الحدیث:۸۲۸۵،ج۳،ص۲۵۵)
(43)۔۔۔۔۔۔ شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار باِذنِ پروردْگار عزوجل وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :”لوگوں میں سے بعض شکر کرنے والے ہیں اورانہیں میں سے بعض کفر کرنے والے بھی ہیں، وہ کہتے ہیں :”یہ رحمت ہے۔” اور بعض کہتے ہیں :”ہم پرفلاں فلا ں ستارے کی وجہ سے صدقہ کیا گیا ہے۔”
(صحیح مسلم،کتاب الایمان،باب بیان کفر من قال۔۔۔۔۔۔الخ،الحدیث:۲۳۴،ص۶۹۲)