islam
صفا و مروہ
یہ چھوٹی چھوٹی دو پہاڑیاں ہیں جو حرم کعبہ مکرمہ کے بالکل قریب ہی ہیں اور آج کل تو بلند عمارتوں اور اونچی سڑکوں اور یہ دونوں پہاڑیوں کے درمیان چھت بن جانے اور تعمیرات کے ردوبدل سے دونوں پہاڑیاں برائے نام ہی کچھ بلندی رکھتی ہیں۔ انہی دونوں پہاڑیوں پر چڑھ کر اور چکر لگا کر حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے اس وقت پانی کی جستجو اور تلاش کی تھی جب کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام شیر خوار بچے تھے اور پیاس کی شدت سے بے قرار ہو گئے تھے اسی لئے زمانہ قدیم سے یہ دونوں پہاڑیاں بہت مقدس مانی جاتی ہیں اور حجاج کرام ان دونوں پہاڑیوں پر چڑھ کر بڑے احترام اور جذبہ عقیدت کے ساتھ طواف کرتے اور دعائیں مانگا کرتے تھے۔
مگر زمانہ جاہلیت میں ایک مرد جس کا نام ”اساف” تھا اور ایک عورت جس کا نام ”نائلہ” تھا ان دونوں خبیثوں نے خانہ کعبہ کے اندر زنا کاری کرلی تو ان دونوں پر یہ قہر الٰہی نازل ہو گیا کہ یہ دونوں مسخ ہو کر پتھر کی مورت اور بت بن گئے پھر زمانہ جاہلیت کے بت پرستوں نے ان دونوں مجسموں کو کعبہ سے اٹھا کر صفا و مروہ کی دونوں پہاڑیوں پر رکھ دیا اور ان دونوں بتوں کی پوجا کرنے لگے۔
پھر جب عرب میں اسلام پھیل گیا تو مسلمان ”اساف و نائلہ” دونوں بتوں کی وجہ سے ان دونوں پہاڑیوں پر جانے کو گناہ سمجھنے لگے اس وقت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ حکم نازل فرمایا کہ صفا و مروہ کے طواف اور ان دونوں کی زیارت میں کوئی حرج و گناہ نہیں بلکہ حج و عمرہ دونوں عبادتوں میں صفا و مروہ کا طواف ضروری ہے۔
(تفسیر صاوی، ج۱،ص۱۳۲،پ۲، البقرۃ : ۱۵۸)
فتح مکہ کے دن حضور سید اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پہاڑیوں پر سے ”اساف و نائلہ” دونوں بتوں کو توڑ پھوڑ کر نیست و نابود کردیا اور ان دونوں پہاڑیوں کو حسب دستور سابق مقدس و معظم قرار دے کر ان دونوں کا طواف حج و عمرہ میں ضروری قرار دیا گیا۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہوا کہ:۔
اِنَّ الصَّفَا وَالْمَرْوَۃَ مِنۡ شَعَآئِرِ اللہِ ۚ فَمَنْ حَجَّ الْبَیۡتَ اَوِاعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَیۡہِ اَنۡ یَّطَّوَّفَ بِہِمَا ؕ وَمَنۡ تَطَوَّعَ خَیۡرًا ۙ فَاِنَّ اللہَ شَاکِرٌ عَلِیۡمٌ ﴿158﴾ (پ2،البقرۃ:158)
ترجمہ کنزالایمان:۔ بےشک صفا اور مروہ اللہ کے نشانوں سے ہیں تو جو اس گھر کا حج یا عمرہ کرے اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے اور جو کوئی بھلی بات اپنی طرف سے کرے تو اللہ نیکی کا صلہ دینے والا خبردار ہے۔
درسِ ہدایت:۔صفا اور مروہ دونوں پہاڑیوں پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے دوڑ کر پانی تلاش کیا تو ایک نبی یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی اور ایک نبی یعنی حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی ماں حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکے قدم ان پہاڑیوں پر پڑ جانے سے ان دونوں پہاڑیوں کو یہ عزت و عظمت مل گئی کہ حضرت بی بی ہاجرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکی ایک مقدس یادگار بن جانے کا ان دونوں پہاڑیوں کو اعزاز و شرف مل گیا اور یہ دونوں پہاڑیاں حج و عمرہ کرنے والوں کے لئے طواف و سعی کا ایک مقبول و محترم مقام بن گئیں۔ اس سے یہ ہدایت کا سبق ملتا ہے کہ اللہ والوں اور اللہ والیوں سے اگر کسی جگہ کو کوئی خاص تعلق حاصل ہوجائے تو وہ جگہ بہت معزز و معظم بن جاتی ہے اور ہر مسلمان کے لئے وہ جگہ قابل تعظیم و لائق احترام ہوجاتی ہے ورنہ مکہ معظمہ میں بہت سی پہاڑیاں اور چھوٹے بڑے بہت سے پہاڑ ہیں، مگر صفا و مروہ کی چھوٹی چھوٹی پہاڑیوں کو جو تقدس و عظمت حاصل ہے وہ کسی دوسرے پہاڑ کو حاصل نہیں۔ اس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتی ہے کہ یہ دونوں پہاڑیاں ایک اللہ والی کی ایک مبارک جدوجہد کی یادگار ہیں۔
اسی پر گنبد خضراء اور اولیاء اللہ کے روضوں اور ان حضرات کی عبادت گاہوں اور دوسرے مقدس مقامات کو قیاس کرلینا چاہے کہ یہ سب خاصانِ خدا کی نسبت وتعلق کی وجہ سے معزز و معظم اور قابل تقدس و لائق تعظیم و احترام ہیں اور ان سب جگہوں کی تعظیم و توقیرخداوند قدوس کی خوشنودی کا باعث اور ان سب مقامات کی بے ادبی و تحقیر قہر قہار و غضب جبار کا سبب ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کو جو گنبد خضراء اور مقابر اولیاء اللہ کی بے ادبی کرتے اور ان کو منہدم اور مسمار کرنے کا پلان بناتے رہتے ہیں، انہیں ان حقائق کے ستاروں سے ہدایت کی روشنی حاصل کرنی چاہے اور اپنی نحوستوں اور بدبختیوں سے تائب ہو کر صراطِ مستقیم کی راہ پر ثابت قدم ہوجانا چاہے۔ خداوند قدوس اپنے حبیب کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم کے طفیل میں سب کو ہدایت کا نور عطا فرمائے اور صراطِ مستقیم کی شاہراہ پر چلائے۔ (آمین)